Skip to content
امریکہ،30جون(ایجنسیز) اسرائیلی فوج نے وائٹ ہاؤس میں جنگ بندی کے سلسلے میں ہونے والی بات چیت سے پہلے غزہ میں بمباری کو ایک بار پھر شدید تر کر دیا ہے۔اتوار اور پیر کی درمیانی رات پچھلے کئی ہفتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ شدید بمباری کی وجہ سے ہولناک ترین رات تھی۔اسرائیل کی یہ عام طور پر حکمت عملی رہی ہے کہ جنگ بندی کے سلسلے میں جب کہیں بات یا مذاکرات شروع ہونے والے ہوتے ہیں تو وہ اس سے پہلے غزہ میں غیر معمولی بمباری کر کے فلسطینیوں کے قتل عام کو تیز کر دیتا ہے۔
اسی طرح جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات کے دوران بھی بار ہا ایسا ہوا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی اہم قیادت کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا۔ حتیٰ کہ یہ بھی کیا گیا کہ مذاکراتی عمل کا حصہ بننے والے فلسطینی قائدین کو ہی مذاکرات کی میز پر پہنچنے سے پہلے قتل کر دیا گیا۔اسی حکمت عملی کو اسرائیل نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب سے ایک بار پھر اختیار کیا ہے کہ ایک روز بعد وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو جنگ بندی کے سلسلے میں مشاورت کرنے کے لیے جا رہے ہیں۔ تاکہ صدر ٹرمپ کے بقول خطے میں کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔
ایسی بھی کئی خبریں آرہی ہیں جن میں اگلے ایک دو ہفتوں کے دوران غزہ کی جنگ بندی کی خوش نما خبر بھی شامل کی جاتی ہے۔ یہ بات امریکی صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے علاوہ اسرائیل کی طرف سے بھی گاہے گاہے کہی جا رہی ہے۔ جبکہ جنگ بندی کے لیے کوشاں ثالث ملک بھی ایسے اشارے دے رہے ہیں۔
تاہم غزہ کی سرزمین پر ایسی کوئی علامت موجود نہیں ہے جس سے یہ اندازہ ہو کہ اسرائیل یا اس کی فوج جنگ بندی کی طرف مائل ہو اور جنگ بندی کرانے کی دعویدار قوتیں جلد جنگ بندی کرانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ہر روز درجنوں فلسطینی قتل کیے جا رہے ہیں۔ خوراک لینے کے لیے آنے والے فلسطینیوں میں موت بانٹ دی جاتی ہے۔ جبکہ قحط سے مر جانے والے فلسطینی بچوں کی تعداد بھی 70 کے قریب ہو چکی ہے۔
اس کے باوجود اسرائیلی فوج نے غزہ کی نہ صرف سخت ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ بلکہ جگہ جگہ سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو دوبارہ اور سہ بارہ نقل مکانی پر مجبور کرنے کے اعلانات بھی کر رہی ہے۔غزہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ بارود اور بمباری نہیں روکی جارہی۔ ‘یہ ہمارے گھروں اور سکولوں کوتباہ کر چکے ہیں اور غزہ کا منظر ایسا ہے کہ جیسے ایک خوفناک زلزلے نے سب کچھ ملیا میٹ کر دیا ہو۔’ یہ بات غزہ کے رہائشی 60 سالہ صلاح نے غزہ کی تازہ ترین صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہی۔
60 سالہ صلاح 5 بچوں کے باپ ہیں اور غزہ شہر کے رہنے والے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم خبروں سے تو یہ بات سنتے ہیں کہ جنگ بندی ہو رہی ہے۔ لیکن زمین پر ہمیں بمباری اور بارود کی بارش سے موت اور تباہی ہی ملتی ہے۔اسرائیلی ٹینکوں نے مشرقی حصوں سے لوگوں کو غزہ شہر کے مضافاتی علاقوں زیتون میں دھکیل دیا ہے۔ جبکہ شمالی غزہ کے مختلف علاقوں پر شدید تر بمباری کی جا رہی ہے۔
بمباری کے ان تازہ واقعات میں کم از کم 4 سکولوں کی عمارات بھی بمباری کی زد پر رہیں۔ اگرچہ ان میں سینکڑوں بے گھر فلسطینی خاندان پناہ لیے ہوئے تھے۔ اس بمباری سے بچ نکلنے والے مقامی شہری یہ صورتحال بتاتے ہوئے سخت رنجیدہ اور ایک بار پھر نئی پناہ کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔پیر کے روز ہونے والی بمباری میں کم از کم 38 فلسطینی قتل کیے گئے۔ ان تازہ ہلاکتوں کی تصدیق وزارت صحت نے بھی کی ہے۔ ہلاک ہونے والے 10 فلسطینیوں کا تعلق زیتون سے تھا جبکہ 13 فلسطینی غزہ کے جنوب مغربی حصے اور غزہ شہر سے تھے۔
غزہ کی وزارت صحت کے عملے کا کہنا ہے کہ ان 13 میں سے زیادہ تر افراد کو فائرنگ سے قتل کیا گیا۔ تاہم مقامی لوگوں نے بتایا کہ فائرنگ کے علاوہ بمباری بھی جاری رکھی گئی۔دوسری جانب اسرائیلی فوج کا یہی کہنا ہے کہ وہ مزاحمت کاروں کو روکنے کے لیے ایسا کر رہی ہے۔ تاکہ شمالی غزہ میں حماس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول کے مراکز کو تباہ کر سکے۔
تاہم اسرائیل نے ابھی تک غزہ شہر کے جنوب مغرب میں ہونے والی ہلاکتوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ایک طرف بمباری کی جا رہی ہے اور دوسری طرف ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کو ایک بار پھر پناہ گزین کیمپ چھوڑنے کا جبری حکم دیا جا رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کے اس مطالبے کے ایک دن بعد کہ غزہ میں جنگ بندی کی جائے اور اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے اسرائیل کے تذویراتی امور کے وزیر رون ڈیمر بہت پر اعتماد ہیں کہ پیر کے روز نیتن یاہو وائٹ ہاؤس میں ایران و غزہ کے بارے میں مشاورت کے لیے موجود ہوں گے۔
اس دوران یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ کا ایک اجلاس بھی غزہ کے لیے آئندہ کے اقدامات پر غور کرے گا۔جمعہ کے روز اسرائیلی آرمی چیف نے کہا ‘اس وقت جاری جنگی آپریشن غزہ میں ہمارے اہداف کے حصول کے بہت قریب ہے۔’
نیتن یاہو نے اس آپریشن کے بارے میں کہا ہم اس کے نتیجے میں اپنے قیدیوں کو چھڑوا سکیں گے۔ جن قیدیوں کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ 20 ابھی زندہ ہیں۔
فلسطینی و مصری ذرائع جو جنگ بندی کی کوششوں کو قریب سے دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قطر اور مصر نے اس سلسلے میں فریقین سے رابطے کرلیے ہیں۔ تاہم ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ جنگ بندی کے لیے باضابطہ مذاکرات کب ہوں گے۔
حماس کے ایک ذمہ دار نے کہا کہ جنگ بندی کے سلسلے میں پیش رفت کا اسی صورت امکان ہے کہ جب اسرائیل ہٹ دھرمی پر مبنی اپنے مؤقف میں تبدیلی پر اتفاق کرے اور غزہ سے اپنی فوج کا انخلاء قبول کرے۔
جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ جنگ کو اسی صورت ختم کرے گا جب حماس غیر مسلح ہوگی اور اسے تباہ کر لیا جائے گا۔ حماس اسلحہ چھوڑنے سے انکاری ہے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سائر نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل امریکہ کے تجویز کردہ 60 روزہ جنگ بندی کے لیے تیار ہے۔ جس میں ہمارے قیدیوں کو چھوڑنے کی ذمہ داری حماس پر ہوگی۔
وہ کہہ رہے تھے کہ اسرائیل سنجیدہ ہے تاکہ قیدی رہا ہوں اور جنگ بندی ہو۔ انہوں نے یہ بات یروشلم میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئی کہی۔
Like this:
Like Loading...