Skip to content
فلسطین،9جولائی (رائٹرز/ایجنسیز)طولکرم پناہ گزین کیمپ میں جب اسرائیلی فوجیوں نے گھروں کو مسمار کرنا شروع کیا تو ملک لطفی نے غور کیا کہ انہیں دیئے گئے چند لمحوں میں خاندان کا کون سا سامان بچانا تھا۔ انہوں نے اسی اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے میں پرورش پائی ہے۔
اب 51 سالہ اور چھے بچوں کے والد نے قریبی شہر طولکرم میں ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لیا ہے لیکن ان کے پاس کرایہ پورا کرنے کے لیے کوئی آمدنی نہیں ہے۔ فوج کے محاصرہ شدہ کیمپ میں اپنی مرمت کی دکان تک انہیں رسائی حاصل نہیں ہے۔ اس سے اپنے خاندان کے مستقبل کے بارے میں ان میں بے چینی پھیل رہی ہے۔
باہر بلڈوزر کی گرجدار آواز کے ساتھ انہوں نے کہا: "انہوں نے ہمیں چھے مہینے پہلے باہر نکال دیا تھا اور ہم ابھی تک بے گھر ہیں۔ جب آپ واپس جاتے ہیں تو جو بھی ممکن ہو، ساتھ لانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دو گھنٹے میں صرف دو ہاتھوں سے آپ بہت زیادہ چیزیں نہیں لا سکتے۔”
انہوں نے کہا، وہ بہت سے ایسے خاندانوں کو جانتے ہیں جو ان سے بھی بدتر حالت میں ہیں جو پرہجوم سکولوں میں یا کھیتوں کی زمین پر رہنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا، "ہم مدد کے منتظر ہیں۔”
مقبوضہ علاقوں کے لیے انسانی حقوق کے آزاد اسرائیلی معلوماتی مرکز بتسلیم نے کہا ہے کہ اسرائیلی کارروائیاں مغربی کنارے میں لطفی جیسے ہزاروں فلسطینیوں کو گھروں سے باہر دھکیل رہی ہیں۔ اس سال فوجی آپریشن کے باعث طولکرم، نور شمس اور جنین پناہ گزین کیمپوں سے تقریباً 40,000 رہائشی بے گھر ہو چکے ہیں۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ شمالی شہر طولکرم اور جینین سمیت اشتعال انگیز مزاحمتی مراکز کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے منگل کو ایک بیان میں کہا، "اس کے لیے عمارات کو مسمار کرنے کی ضرورت ہے جس سے فوج کا آزادانہ طور پر کام کرنا اور علاقے میں بغیر کسی رکاوٹ کے نقل و حرکت کرنا ممکن ہو گا۔”
بیان میں کہا گیا، "ان ڈھانچوں کی مسماری کا فیصلہ آپریشنل ضرورت پر مبنی ہے اور متبادل ممکنات پر غور کرنے کے بعد ہی کیا گیا ہے۔”
اسرائیل کی مسماری مہم وسیع پیمانے پر بین الاقوامی تنقید کی وجہ بنی ہے اور ساتھ ہی اس سے فلسطینیوں میں اسرائیل کے مغربی کنارے کے باضابطہ الحاق کی منظم کوششوں کا خوف پیدا ہوا ہے۔
رائٹرز کے گواہان نے اس ہفتے دیکھا کہ بلڈوزر نے عمارات مسمار کر دیں اور چوڑی، نئی سڑکوں کے کنارے کنکریٹ کے گھروں کا ملبہ بکھرا پڑا تھا۔ رہائشیوں نے کرسیاں، کمبل اور کھانا پکانے کا سامان ٹرکوں پر لاد لیا۔
طولکرم کے گورنر عبداللہ کامل نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں تباہی میں شدت آئی اور قریبی طولکرم اور نور شمس کیمپوں میں 106 گھر اور 104 دیگر عمارات تباہ ہو گئیں۔
انہوں نے کہا، "طولکرم میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسرائیل کا سیاسی فیصلہ ہے، اس مسئلے کا سکیورٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیمپ میں کچھ نہیں بچا، یہ بھوتوں کا کیمپ بن گیا ہے۔”
بیس سال سے زیادہ عرصہ قبل فلسطینیوں کی طرف سے دوسری انتفاضہ بغاوت کے بعد سے یہ شمالی مغربی کنارے میں اسرائیل کی سب سے بڑی کارروائی ہے جس میں اس سال کے شروع میں فوجیوں کے کئی بریگیڈ شامل ہو گئے۔ انہیں ڈرون، ہیلی کاپٹروں اور کئی عشروں میں پہلی بار بھاری جنگی ٹینکوں کی مدد حاصل ہے۔
مسلسل خراب ہوتی ہوئی صورتِ حال
غزہ جنگ بندی معاہدہ طے کرنے کے لیے واشنگٹن اور قطر میں کوششیں تیز ہونے کے ساتھ ہی بعض بین الاقوامی حکام اور حقوق کے گروپوں نے کہا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے لیے مسلسل خراب ہوتی ہوئی صورتِ حال سے بھی پریشان ہیں۔
بتسلیم کے پبلک آؤٹ ریچ ڈائریکٹر شائی پارنس نے کہا، "اسرائیل نے غزہ پر اپنی موجودہ جارحیت میں نمایاں حکمتِ عملی اور جنگی اصولوں کو شمالی مغربی کنارے میں نقل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس میں گھروں اور سویلین انفراسٹرکچر کی وسیع پیمانے پر اور دانستہ تباہی اور فوج کے نامزد کردہ جنگی علاقوں سے شہریوں کی زبردستی نقلِ مکانی شامل ہے۔”
حکومت کے اندر اور باہر سخت گیر اسرائیلی افراد نے بار بار اسرائیل سے مغربی کنارے کا الحاق کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو گردے کی شکل کا 100 کلومیٹر (62 میل) طویل علاقہ ہے۔ اسے فلسطینی مستقبل کی آزاد ریاست کے طور پر دیکھتے ہیں جس میں غزہ کے ساتھ مشرقی یروشلم بطور دارالحکومت شامل ہو۔
اسرائیلی حکومت کے وزراء اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ مغربی کنارے کی کارروائی کا مزاحمت کاروں سے لڑنے کے علاوہ کوئی وسیع مقصد ہے۔ اسرائیلی فوج نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتی ہے اور مزاحمت کاروں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
فلسطینی گورنر کامل نے کہا، نقلِ مکانی ایک ایسی برادری پر دباؤ ہے جو پہلے ہی معاشی طور پر پس رہی ہے۔ ہزاروں افراد مساجد، سکولوں اور رشتے داروں کے ساتھ پرہجوم گھروں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
چھے ماہ میں پہلی بار واپس آنے پر لطفی نے کہا کہ وہ نقصان کی سطح دیکھ کر حیران رہ گئے۔
انہوں نے کہا، "زیادہ تر لوگ جب اپنے گھروں کو دیکھنے کے لیے واپس آتے ہیں تو وہ انہیں تباہ شدہ ملتے ہیں۔ یہ تباہی بہت بڑی ہے: چوڑی سڑکیں، تباہ شدہ انفراسٹرکچر اور بجلی۔ اگر ہم تعمیرِ نو کرنا چاہیں تو اس میں بہت طویل وقت لگے گا۔”
Like this:
Like Loading...