اس وقت پوری دنیا میں تاریخ اور سن معلوم کرنے کے لئے مختلف کیلنڈر تیار کئے گئے ہیں اور اسی کیلنڈر کی روشنی میں لوگ تاریخ اور سن معلوم کرتے ہیں اور مختلف امور میں اس کا استعمال بھی کرتے ہیں مگر ان کیلنڈروں میں دوکیلنڈر سب سے زیادہ معروف اور مشہور ہیں ،ایک عیسوی کیلنڈر اور دوسرا ہجری کیلنڈر ،عیسوی کیلنڈر کو شمسی اور ہجری کیلنڈر کو قمری کیلنڈر بھی کہاجاتا ہے کیونکہ ان میں سے ایک کا تعلق سورج کی گردش سے ہے اور دوسرے کا چاند کے چکر لگانے سے ہے،عیسوی یا شمسی کیلنڈر کو سرکاری کیلنڈر بھی کہاجاتا ہے کہ کیونکہ اکثر ممالک اس کے ذریعہ ماہ وسال مناتے ہیں اور حکومت کا نظام انہیں کی تواریخ سے چلتا ہے ، اس کے برخلاف ہجری اور قمری کیلنڈر کو اسلامی کیلنڈر کہاجاتا ہے کیونکہ اسلامی احکامات وعبادات کی ادائیگی کا تعلق اسی کیلنڈر سے ہے اور اسی کیلنڈر کی تواریخ اور مہینوں کو سامنے رکھتے ہوئے اہل ایمان پر شرعی احکامات نافذ کئے جاتے ہیں ،اسلامی تقویم و کیلنڈر کے لئے رسول اللہؐ کے ہجرت مدینہ منورہ کو بنیاد بنایا گیا ہے اور خلیفہ ثانی سید عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں صحابہؓ کے مشورہ ہی سے اس کا انتخاب کیا گیا ہے،اسلامی کیلنڈر ماہ محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے اور ماہ ذوالحجہ پر جاکر ختم ہوتا ہے ، اہل اسلام کے نزدیک اسلامی کیلنڈر کی بڑی اہمیت ہے ، اسلامی مؤرخین نے تاریخی واقعات کا ذکر بھی اسی کی روشنی میں ہے ، اسلامی تاریخی واقعات اور صحابہؓ وتابعینؒ کے عظیم الشان کارنامے اور جنگی فتوحات اسی کیلنڈر کے ساتھ محفوظ ہیں ،اہل علم نے اسلامی کیلنڈر کی حفاظت اور اس کی تواریخ کو یاد رکھنے کے لئے خاص طور سے مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے بلکہ اہل علم نے اس کے یاد رکھنے کو فرض کفایہ قرار دیا ہے یعنی مسلمانوں میں ایک طبقہ کم ازکم ایسا ہو نا چاہئے جو اس کیلنڈر کی تواریخ اور اس کے ماہ وسال کی حفاظت کا فریضہ انجام دے سکے ، یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہاں پر باضاطہ ہلال کمیٹیاں قائم ہیں ، مقامی کمیٹیاں باضابطہ چاند دیکھنے کا اہتمام کرتی ہیں اور لوگوں میں اس کی تاریخ کا اعلان کرتی ہیں۔
دن ورات اور تواریخ بدلنے سے جہاں اوقات کا علم ہوتا ہے وہیں انسان کو اس کی زندگی کے گزرنے کا بھی علم ہوتا ہے ،ہر سال ،ہر مہینہ بلکہ ہر دن وگھنٹہ وساعت اسے اختتام زندگی کی طرف ڈھکیلتا جارہا ہے اور انسان موت کے قریب ہوتا جارہا ہے ، دنیا میں جس وقت انسان کا دانہ پانی ختم ہوتا ہے تو پھر اسے ایک منٹ کیا ایک لمحہ کی بھی مہلت اور چھوٹ نہیں دی جاتی بلکہ موت کا فرشتہ اور موت کا بے رحم پنجہ اسے دبوج لیتا ہے اس طرح اس کی زندگی کا سورج غروب ہوکر اس کی کہانی کو ختم کر دیتا ہے ،موت کے ساتھ ہی اس کی زندگی کا سفر ختم ہوجاتا ہے اور آخرت اور وہاں کی زندگی کا سفر شروع ہوجاتا ہے، دنیا عارضی ہے اور یہاں کا قیام بھی عارضی ہے اس کے برخلاف آخرت دائمی ہے اور وہاں کا قیام بھی دائمی اور کبھی ختم نہ ہونے والا ہے ،جو لوگ آخرت کی زندگی پر ایمان نہیں رکھتے وہ بھی کم ازکم اس بات کو مانتے ہیں کہ دنیا کی زندگی عارضی ،مختصر اور غیر یقینی ہے ،اس میں کون کب تک رہے گا کوئی نہیں جانتا بلکہ ہر ایک اچھی طرح جانتا ہے کہ یہاں اس کے ساتھ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے ، انسانی جسم میں روح غیر یقینی سایہ کی طرح ہے کب اور کس وقت اس سے جدا ہوجائے کوئی نہیں جانتا ،کبھی وہ بچوں سے تو کبھی جوانوں سے تو کبھی بوڑھوں سے جدا ہوجاتی ہے اور انسان بے حس وحرکت پڑا کا پڑا رہ جاتا ہے اور اس کے رشتہ دار آنسؤں کے چند قطرے بہا کر اسے ایسے مقام پر دفن کر دیتے ہیں جہاں صرف اور صرف وہ ہوتا ہے اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوتا اور پھر دن کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مردہ جسم میں تغیر پیدا ہوتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ اس کا پورا وجود ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر مٹی میں مل جاتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماہ وسال اور دن ورات کا جو انتظام بنایا گیا ہے در حقیقت اس میں انسانوں کے لئے عبرت وموعظت کا پیغام ہے ، ماہ وسال کے ذریعہ انسانوں کو ان کے قیام عارضی کی طرف متوجہ کرنا ہے اور انہیں اس بات کا احساس دلانا ہے کہ جس طرح ماہ وسال گزر رہے ہیں ایک دن تمہیں بھی اس دنیا سے گزرکے دوسری دنیا میں منتقل ہوجانا ہے،اسی طرح ماہ وسال کے گزرنے کے ذریعہ اس چیز کی طرف بھی توجہ دلانا ہے کہ گزرے ہوئے اوقات میں ہم نے کیا کیا ہے اور کیا نہیں کیا ہے اور کیا ہم نے وہ نہیں کیا جو ہمیں کرنا تھا؟ ،اسی طرح گزرے ہوئے اوقات کا ہمیں حساب کرنا ہے اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنا ہے ،نیز غور وفکر کرتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دینا ہے کہ جو وقت گزرگیا وہ لوٹ کر آنے والا نہیں ہے بلکہ اگر انسان اسے واپس لانے کے لئے بدلے میں پوری دنیا بھی دے دیتا ہے تب بھی گزرے ہوئے اوقات تو کیا اس کا لمحہ بھی واپس مل نہیں سکتا ،جب ماہ وسال اور اس کے اوقات ولمحات اس قدر قیمتی ہیں تو پھر انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی قدردانی کرے اور اسے اس طرح استعمال کرے جس طرح صحرائی مسافر کم مقدار میں موجود اپنے پاس رکھے ہوئے پانی کا استعمال کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایک ایک بوند اس کے لئے کتنا قیمتی ہے اور اس کی جان بچانے کے لئے کس قدر اہم ہے ، اس کے نزدیک ایک ایک بوند جواہرات سے بھی زیادہ قیمتی ہوتا ہے اس لئے کے یہ جان بچانے کا ذریعہ ہے اور جان ہے تو سب کچھ ہے ، اسی لئے تو میرؔ نے کیا خوب کہا ہے
میرؔ عمداً بھی کوئی مرتا ہے
جان ہے تو جہان ہے پیارے
اللہ تعالیٰ ماہ وسال کے ذریعہ انسانوں کو ان کی زندگی کی اہمیت کی طرف توجہ دلارہے ہیں اور انہیں بتارہے ہیں کہ یہ دنیا اور اس کا وقت مخلوق ہے اور اس کو فنا ہے اسی طرح اس میں جو کچھ ہے وہ سب کے سب بھی مخلوق ہیں اور انہیں بھی فنا ہونا ہے ،انسان بھی ایک مخلوق ہے اور اسے بھی فنا ہونا ہے مگر دیگر مخلوقات اور انسان میں فرق ہے وہ یہ کہ یہاں انسانوں کو بطور امتحان کے بھجا گیا ہے ،ان کے ہر پل اور کل کا انہیں آئندہ کل (آخرت میں ) جواب دینا ہے اور جو اپنے کل یعنی آخرت کو کامیاب بنانا چاہتا ہے تو اسے اپنے پل اور آج کی حفاظت کرنا ہے ،آنے والے پل اور کل کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے گزرے ہوئے پل اور کل کا محاسبہ ضروری ہے ،اس کے بغیر آئندہ کی قدر وقیمت اور اس کی اہمیت کو سمجھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ،اسی لئے اہل علم فرماتے ہیں کہ جو شخص رات ودن اور ماہ وسال کے گزرنے پر احتساب سے کام لیتا ہے وہ اپنے آئندہ کل کا صحیح استعمال کرتا ہے اور جو گزرے ہوئے کل سے بے خبر رہتا ہے یقینا آنے والے کل کو بھی وہ ضائع کردیتا ہے ۔
اس لئے اسلام نے گزرے ہوئے سال پر غم اور نئے سال پر جشن منانے کا حکم نہیں دیا بلکہ اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مومن دنیا میں اپنے اوقات کو اور اپنے کل کو آخرت کی تیاری کے لئے صرف کرے اور لمحہ لمحہ سوچ سمجھ کر خرچ کرے اور جب کوئی دن یا رات یا پھر مہینہ وسال گزرجائے تو اس میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرے ،اگر اس کے ایام اور ماہ وسال آخرت کی تیاری اور خالق کی فرماں برداری میں گزرے ہیں تو اس پر شکر بجالائے اور آنے والے دنوں کو مزید بہتر سے بہتر بنانےکا عزم کرے ،اس طرح وہ اپنی زندگی کو میاب بناکر دنیا میں کامیاب ہوگا اور آخرت کی کامیابی بھی حاصل کرے گا ،لہذا ہر نیا دن ،ہر نیا مہینہ اور نیا سال انسان کو دعوت فکر دیتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ اگر کامیابی چاہتے ہو تو پھر اپنے گزرے ہوئے اوقات کا محاسبہ کریں اور آنے والے اوقات کا صحیح استعمال کریں ،یقینا گزرے ہوئے دنوں کا جو صحیح استعمال کرتا ہے اس کا کل سابقہ کل سے بہتر ہوتا ہے ، وقت ہے کہ ہم اپنے گزرے ہوئے اوقات کا محاسبہ کرتے ہوئے آئندہ کل کی فکر کریں ، سال حال جاتے جاتے یہی فکر دلاکر ہم سے رخصت ہورہا ہے اور سال آئندہ کو ہم سے ملا کر جارہا ہے اور اپنے انداز میں ہم کو ہوش دلا رہا ہے کہ ہوش میں آجاؤ ابھی وقت باقی ہے نہیں وہ دن دور نہیں جب دیوانے بھی ہمیں دیوانہ کہیں ؔ
اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو
پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو
�����