Skip to content
کیا یہی دعوت دین محمد مصطفیﷺ ہے؟
ازقلم: نقاش نائطی
+966562677707
جس مسلم معاشرے والے ہم مسلمانوں میں، صوم و صلاة، وقت پر ادا کرنے کے باوجود،حقوق العباد والی بے شمار کوتاہیوں میں ہم،جکڑے پائے جائیں، تب ہمیں دوسروں کو دعوت دین اسلام دینے، اپنا بوریا بستر اٹھائے،شہر شہر، ملک ملک گھومنے جانے کے بجائے، خود کے معاشرے میں موجود حقوق العباد والی کوتاہیوں کو دور کرنے کی فکر و محنت کرنی چاہئیے۔ یہ اس لئے کہ اللہ کے رسول محمد مصطفی ﷺ نے، نبی کے مقام متبرک پر فائز کئے جانے سے پہلے، پورے 40 سال تک سچائی ایمانداری، امانت داری وعدہ وفائی، بڑوں کی عزت تو چھوٹوں سے شفقت، ڈنڈی مار دھوکہ دہی والی تجارت سے اجتناب، خود عمل پیرائی سے، پورے عرب معاشرے والے مکہ شہر میں، اپنا ایک امین و صادق والا مقام متمئز بنالیا تھا کہ اپنی نؤزائدہ بیٹیوں کو صحراؤں کے درمیاں لئے جا، انہیں ریگستان میں گڑھا کھود، خود اپنے ہاتھوں سے زندہ دفن کرنے والے، بات بات پر ہوئی تکرار کو غصے میں آپے سےباہرجا، سامنے والے کو قتل تک کرنے والے اور اپنی اس دشمنی کو پیڑھیوں لئے جاتے، ایک دوسرے کا قتل کئے صدیوں تک، اپنی دشمنی نبھانے والے،اجڈ عرب بھی اپنے درمیان پروان چڑھنے والے آل ہاشم خاندان کے چشم و چراغ یتیم محمد ابن عبداللہﷺ کی راست گوئی، اسکی صداقت ایمان داری امانت داری کے اتنے قائل ہوگئے تھے کہ اللہ کے گھر کعبہ اللہ کی تعمیر نؤ بعد، حجر اسود کو اسکے مقام پر رکھنے کے لئے، لڑپڑے سرداران قریش تک، آپﷺ کو اپنے درمیان فیصل بنائے، اسکا کہا ماننے تیار پائے جاتے تھے۔ کیا آج کے ہم مسلمان حسن معاشرت و تجارت میں کوتاہ تر پائے نہیں جاتے ہیں؟ ہمارے گھروں کو تو چھوڑئیے،ہماری مساجد کے ساز و سامان بیت الخلاء کے لوٹے، پانی کے مٹکےپرپانی پینے رکھے جانے والے اسٹیل کے گلاس تک زنجیروں میں جکڑے رکھے جانے پر ہم مجبور ہیں۔پانی پائب لائن کی ٹونٹیاں چوری کئے جانے کے ڈر و خوف سے، سستےپلاسٹک کی ٹونٹیاں اپنی کروڑوں کی رقم سے تعمیر مساجد میں لگانے پر ہم مجبور و بےبس ہیں۔ ہم مصلیوں کو، اپنی نماز دوران بھی، اپنے جوتے چوری کئے جانے کا ڈر و خوف ستاتا رہتا ہے، اپنی معشیتی زندگی میں خود دوسروں کو ٹوپی پہنائے ڈھیر سارے پیسے کمانے والے ہم نام نہاد دین دار مقلد مسلمان بھی، پہلی صف میں خود کو پائے، خود کو انتہائی دیندار سمجھے، نہ سنت نہ مستحب، پلاسٹک کی گندی میلی کچیلی متعفن ٹوپی سر پر نہ ڈالے، ننگے سر نماز پڑھنے والوں کو گھور کر دیکھنے میں ہمیں مزہ آتا ہے۔ ایسے ماحول میں رہنے والے ہم مسلمانوں کو، خود کی اصلاح کے بہانے دوسروں کی اصلاح کی خاطر، در در خاک چھاننے والی محنت سے اچھا ہے اپنے اخلاق حمیدہ اپنی معاشرتی و تجارتی زندگیوں کو اسوئے رسول ﷺ پر ڈھالنے کی کوشش کریں، سابقہ سو سالوں سے مسلم منافرت درشانے والے سنگھئوں نے، اپنی منافرتی منفی چال باوجود، نوے سالوں کی منافرتی محنت سے، عالم کی سب سےبڑی جمہورہت پر سابقہ دس گیارہ سالوں سے حکومتی قبضہ جمانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے اور اپنا بوریا بستر لئے دردر گھومنے والی محنت پر سو سال بیت جانے کے باوجود، اپنے ماتحت پلنے والی اپنی اولاد تک کو، ہم اسوئے رسول ﷺ پر عمل پیرا رکھنےناکام پائے جاتے ہیں۔پیٹرو ڈالر سے مالامال عرب ممالک تو چھوڑئیے اسلام کے نام معرض وجود میں آنے والی عالم۔انسانیت کی اولین مملکت جمہوریہ اسلامیہ پاکستان کی معاشرتی معشیتی کوتاہیاں ہم تینوں اطراف سے گھرے ھند کے مسلمانوں سے بدتر ہیں جس رسول اللہ ﷺ نے پورے عالم کی انسانیت تک دین اسلام پہنچانے کی ذمہ داری حجہ الوداع کے موقع پر ہم مسلمانوں کےکمزور کندھوں پر ڈالی تھی ہمارے کندھے اپنا ہی بوریا بستر کندھوں پر آٹھائے، سابقہ سو سال سے خود کی اصلاح میں مگن، اپنے اچھے اخلاق حسنہ و عمدہ معشیتی و معاشرتی کردار سے، ہم مسلمانوں سے تین گنا زاید کفار و مشرکین تک دین اسلام دعوت پہنچانے کی فکر و محنت سے پلا جھاڑے، خود کی اصلاح کے نام پر دعوت دین اسلام محمد رسول اللہﷺ کو، دوسرے معنوں نامکمل ثابت کرتے، اپنے چھ باتوں والی دعوت عام کرنے، گاؤں گاؤں، شہر شہر،ملک ملک گھومنے میں ہی ہم مست و مگن مصروف ہیں۔ کیا یہی دعوت دین اسلام ہے جس کی نظیر سلف و صالحیں میں ڈھونڈنے تک سے نہیں مل پاتی ہے۔ فی زمانہ دعوت و تبلیغ نام پر بوریا بستر لئے گاؤں گاؤں گھومنے والوں کی کثرت تعداد اور تبلیغی اجتماعوں میں جمع ہونے والے لاکھوں کروڑوں کے جم غفیر سے، اس دعوتی تبلیغی محنت کو اسوئے رسول اللہﷺ پرسمجھنے والوں کو، اس بات کا ادراک بخوبی ہونا چاہئیے کہ تبلیغ دعوت اتنی آسان ہوتی تو رسول اللہﷺ کو، اپنے مکی زندگی کے تیرہ سالہ اور مدنی زندگی کی دو سالہ محنت بعد، اللہ کے دین اسلام ترویج کے لئے، تلوار اٹھائے میدان غزوہ بدر میں، بچوں بوڑھوں کے بشمول 313 ہی کا آکڑہ پار کرنے اتنی محنت و جانفشانی نہ کرنی پڑتی! پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کو، اپنی نو سو پچاس سالہ دعوتی مشن بعد بھی، کچھ نفری امت ہر اکتفا نہ کرنا پڑتا وما علینا الا البلاغ
https://www.facebook.com/share/r/1CJzRL2sf8/
Best Regards,
محمد فاروق شاہ بندری
Mohammed Farooque Shahbandri
+966 50 496 0485
Like this:
Like Loading...