Skip to content
ظریفانہ: چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئی؟
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
للن نے کلن کہا یار غضب ہوگیا ؟
کلن بولا کیوں ایسا ہوگیا کہ تمہیں اس قدر حیرت ہے؟
ارے بھائی ہمارے پردھان جی وشو گرو ہیں۔ ساری دنیا ان سے ملنے آتی ہے وہ کہیں کسی سے ملنے تھوڑی نہ جاتے ہیں؟
اچھا تو وہ جو دنیا بھر کے دورے کرتے پھرتے ہیں ان کا کیا؟
ارے بھائی کوئی محبت سے اپنے ملک کا سب سے اعلیٰ اعزاز دینے کے لیے بلائے تو اس کو کیسے ٹھکرایا جائے۔ سمجھتے کیوں نہیں ؟
بھیا سائپرس جیسے ممالک جن کی کل آبادی اپنے کسی میونسپل حلقہٴ انتخاب سے بھی کم ہو اس کے اعلیٰ ترین اعزاز کو لے کر کوئی کیا کرے؟
دیکھو بھائی اعزاز کے معاملے میں چھوٹا بڑا نہیں دیکھا جاتا۔ دینے والے کا اخلاص اور لینے والے محبت دیکھی جاتی ہے ۔یہ بتاؤ کہ تم حیرت زدہ کیوں تھے؟
ارے اپنے وزیر اعظم نے اچانک صدارتی محل میں جاکر صدر مملکت دروپدی مرمو سے ملاقات کی ۔ اس کی کیا ضرورت ہے ۔ وہ خود انہیں بلا لیتے؟
ارے بھیا عہدے کے لحاظ سے مرمو اونچے اور مودی نچلی پائیدان پر ہیں ۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ نائب صدر دھنکر بھی تو اوپر ہی تھے اب کہاں ہیں کوئی نہیں جانتا ۔ دودھ سے مکھی کی طرح ۰۰۰۰۰۰
اپنی زبان پر لگام دو ورنہ توہینِ حکومت کا معاملہ ہوجائے گا کیا سمجھے ۔ تم کو بھی جگدیپ دھنکر کی طرح غائب کردیا جائے گا ۔ کیا سمجھے ؟
سمجھ گیا بھیا لیکن یہ بتاؤ کہ پردھان جی نے آخر اس موقع پر صدر مملکت سے ملاقات کیوں کی؟
بھائی اس بابت تو طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کیونکہ صدارتی محل سے تصاویر کے علاوہ کچھ بھی منظر عام پر نہیں آیا۔
اچھا تو میڈیا میں کیا چل رہا ہے ذرا بتاؤ کیونکہ میرے پاس تو فالتو وقت نہیں ہے جو اس پر ضائع کروں ؟
بھائی ایک سب سے بڑا قیاس ہے کہ مودی سرکار اس ۵؍ اگست کو یونیفارم سیول کوڈ کا قانون لے کر آئے گی؟
اچھا لیکن ۵؍ اگست ہی کو کیوں؟
وہ ایسا ہے کہ دفع ۳۷۰ کی منسوخی اور رام مندر کا سنگ بنیاد اسی دن رکھا گیا تھا ۔ یہ ہمارے لیے شبھ مہورت ہے ۔
کیا خاک شبھ مہورت ہے ۳۷۰ کے بعد بھی ہم وادی میں ایک نشست بھی نہیں جیت سکے جن کی حمایت کی وہ ضمانتیں گنوا بیٹھے ۔ کیا اسی کو شبھ مہورت کہتے ہیں؟
چلو مان لیا مگر رام مندر کے سنگ بنیاد کی بابت کیا کہتے ہو؟
اس کو تو سارے دھرم گروؤں نے اشبھ بتایا تھا اور مندر کی چھت سے پانی کے ٹپکنے اور ایودھیا میں ایک شودر کے ہاتھوں انتخابی شکست نے یہ ثابت کردیا ۔
یار تم بہت قنوطیت کا شکار ہو۔ دیکھو یونیفارم سیول کوڈ سے مسلمان بھڑک جائیں گے اور ہم اس کی مدد سے ہندووں کو خوب بیوقوف بنائیں گے ۔
تم نے مسلمانوں کو اتنا بیوقوف سمجھ رکھا ہے جو وہ ہمارے آلہٴ کار بن جائیں گے۔ ارے بھیا وہ بڑی تیز قوم ہے اس کو جھانسا دینا بہت مشکل ہے۔
بھائی میں ان کو نہیں اپنے ہندو بھائیوں کو بیوقوف بنانے کی بات کررہا تھا ۔ وہ بڑے سیدھے سادھے لوگ ہیں تبھی نا ہم ان پر راج کررہے ہیں ؟
اچھا یہ بتاؤ کہ اپنے بھائیوں کو احمق بنانے کے لیے کیا بیانیہ گھڑا جائے گا؟
یہی کہ ہم نے مسلمانوں کی چار شادی پر پابندی لگا دی ۔ بس ہندو خوش ہوجائے گا ۔
ارے بھیا اس سے بچنے کا چور دروازہ تو ہم نے پہلے ہی کھول رکھا ہے۔ وہ دوسرا نکاح کرکے سرکاری رجسٹر میں اس کو لیون ریلیشن لکھوا دے گا، ہم کیا بگاڑ لیں گے؟
لیکن مسلمان عورت لیو ان ریلیشن میں رہنے کے لیے راضی تھوڑی نا ہوگی ۔ وہ چاہے گی کہ اسے بیوی کا درجہ دیا جائے۔
ہاں بھائی لیو ان تو صرف رجسٹر میں ہوگا عملاً تو وہ بیوی ہی ہوگی ۔ اس کو اضافی حقوق دینے سے کوئی تھوڑی نا روک سکتا ہے؟
نہیں بھیا ایسا نہیں ہوتا۔ جب قانون بن جاتا ہے تو سب ٹھیک ہوجاتا ہے۔
اچھا یہ بتاؤ کہ تین طلاق پر پابندی کیوں ٹائیں ٹائیں فش ہو گئی۔ کوئی عورت نہ تو اس کے خلاف شکایت درج کراتی ہے اور انتظامیہ نہ اس کے خلاف کوئی اقدام کر پاتا ہے۔
ہاں یار وہ تو ہے لیکن اپنی عورتوں کا کیا ہوگا؟ وہ تو نہ دوسری بیوی بن پائیں گی اور برسوں تک عدالت کا چکر لگانے کے باوجود انہیں طلاق نہیں مل سکے گی ۔
دیکھو بھیا اپنی عورتوں نے کل یگ میں نئے راستے تلاش کرلیے ہیں ۔ انہیں ان جھمیلوں میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں ۔
اچھا وہ کون سئ ترکیب ہے ہمیں بھی تو پتہ چلے۔
بھیا کوئی اپنے شوہر کو مار کر ڈرم میں ڈال دیتی ہے تو کوئی پہاڑ یا ندی کے پل سے ڈھکیل دیتی ہے بلکہ ایک نے تو کلہاڑی سے ٹکڑے کردئیے اور ایک نے سانپ چھوڑ دیا ۔ ہماری خواتین بڑی تیز ہیں قسم سے۔
کلن اور للن کی بحث سن کر جمن کے بھی کان کھڑے ہوگئے وہ بولا بھیا یہ بتاؤ کہ یونیفارم سیول کوڈ کے آجانے سے کیا مکٹ منی یادو کو کتھا سنانے کی اجازت مل جائے گی؟
کلن بولا تو اسے کون روک رہا ہے؟ جتنی مرضی ہے سنائے ؟
جمن بولا جی نہیں میں یہ پوچھ رہا تھا کہ کیا ایک دن کوئی برہمن شہ نشین پر بیٹھ کر سنائے گااور شودر نیچے بیٹھ کر سنیں گے اور دوسرے دن ۰۰۰۰
للن بھڑک گیا اور بولا تم ہمارے ہندو سماج میں لڑائی لگانا چاہتے ہو۔ جب شودر کو نیچے بیٹھ کر کتھا سننے میں مزہ آتا ہے تو تم اس کے لیے کیوں پر یشان ہو؟
جمن بولا نہیں بھیا مکٹ منی جیسے لوگ جب کتھا سناتے ہیں تو برہمنوں کو بھی نیچے بیٹھ کر سننے میں اس وقت تک مزہ آتا ہے جب تک اس کی ذات کا علم نہ ہو جائے۔
للن نے سوال کیا اچھا اور ذات کا علم ہوجائے تو کیا ہوتاہے؟
اس کو رسوا کرنے کے لیے سرمنڈوایا جاتا ہے اور پوتر کرنے کی خاطر میزبان خاتون کے پیشاب سے نہلایا جاتا ہے اوپر سے روپیہ اینٹھ کر ویڈیو بھی بنائی جاتی ہے۔
کلن بولا دیکھو بھیا یہ ورن آشرم تو ہمارے دھرم میں ریڑھ کی ہڈی ہے ۔ اس اونچ نیچ کو کوئی یونیفارم سیول کوڈ کچھ نہیں کرسکتا ۔
اچھا تو اس کا مطلب ہے یونیفارم سیول کوڈ کے بعد بھی ہمارے کنوے اور شمشان گھاٹ الگ الگ ہی ہوں گے۔ نہ تو سب ایک ساتھ پانی پی کر جئیں گے اور نہ ہی موت کے بعد ایک جگہ جلائے جائیں گے ۔
ارے بھائی جب ہمارا دھرم اس کی اجازت نہیں دیتا تو یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ شنکراچاریہ اوی مکتیشور آنند یہی تو کہتے ہیں کہ ملک کا آئین تو صرف ہندوستان کی سرحد کے اندر نافذ ہوتا ہے مگر مذہبی تعلیمات پر دنیا بھر میں جاکر بھی ہندو عمل کرتے ہیں۔ اس کا دائرہ کار وسیع ہے۔
جمن نے کہا اچھا اگر اپنے دھرم کے لیے یونیفارم سیول کوڈ سے چھوٹ لے لی تب پھر دوسروں کے دھرم میں مداخلت کیوں؟جب اصلی بیماری موجود رہے گی تو ثانوی درجے کی جھاڑ جھنکاڑ صاف کرنے سے کیا فائدہ؟
للن بولا دیکھو بھیا یہ مذہبی نہیں سیاسی معاملہ ہے۔ سمجھتے کیوں نہیں؟
جمن نے سوال کیا اچھا تو کیا یو سی سی آجانے کے بعد جس طرح راہل اور پرینکا گاندھی ایوان پارلیمان میں مودی اور شاہ کی تقریر سنتے ہیں اسی طرح ۰۰۰۰۰
کلن بات کاٹ کر بولا نہیں یہ نہیں ہوسکتا مودی اور شاہ کے پاس راہل اور پرینکا کی بکواس سننے کے لیے وقت نہیں ہے۔
جمن نے کہا تو سنے بغیر ان کے سوالات کا جواب کیسے دیں گے؟ یہ کیسا یونیفارم سیول کوڈ ہے جو اپنی سناتا ہے مگر کسی اور کی نہیں سنتا ۔ بہرا ہے کیا؟
للن بولا یار چلو اس چائے خانے سے اپنے گھر چلتے ہیں ورنہ جمن جیسے لوگ ہمیں پریشان کرتے رہیں گے ۔
گھر آکر کلن نے کہا یار ہمیں وہاں پر وہ بحث کرنی ہی نہیں چاہیے تھی تم نے اچھا کیا جو یہاں لے آئے خیر یہ بتاؤ کہ پردھان جی کے بعد شاہ جی کیوں گئے؟
للن بولا یار آج کل تہوار کا زمانہ ہے۔ بازار میں ایک قمیض خریدو تو اس کے ساتھ دوسری مفت مل جاتی ہے۔ یہ سمجھ لو۔
دیکھو للن یہ سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ اس سے قبل میں نے کبھی شاہ کو صدر سے ملتے نہیں دیکھا۔
بھیا وقت بدل گیا ہے۔ پہلے مودی راجیہ سبھا میں کہتے تھے ایک اکیلا سب پر بھاری ۔ اب وہاں جانے ہمت نہیں کرتے بلکہ شاہ جی کو بھیجنا پڑتا ہے ۔
یار سچ بتاؤں مجھے تو لگتا ہے کہ وہ دونوں راہل کی دہاڑ سے ڈر گئے ہیں اور ایمرجنسی لگانے کی سوچ رہے ہیں ۔
یار یہی غلطی راہل کی دادی اندرا گاندھی نے کی تھی اگر پردھان جی نے اسے دوہرایا تو اسی انجام سے دوچار ہوں گے ۔
کلن بولا لیکن اندرا گاندھی کو تو پھر سے اقتدار میں آنے کا موقع ملا تھا مگر اپنے پردھان جی کو اس عمر کون واپس لائے گا؟
بھیا انہوں نے بہت موج کرلی میں تو کہتا ہوں کہ اگلے ماہ ۷۵ سال کا بہانہ بناکر انہیں اپنا راستہ ناپ لینا چاہیے ۔ اسی میں ان کی بھلائی ہے۔
کلن بولا جی ہاں بھیا لیکن اقتدار پر بھی یہ مصرع صادق آتا ہے کہ ’چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔
Like this:
Like Loading...