Skip to content
ٹمل ناڈو اسمبلی انتخابات 2026
یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا
ازقلم:اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
ریاست ٹمل ناڈو میں اسمبلی کیلئے انتخابات یوں تو اپریل یا مئی 2026 میں ہونے کے امکانات ہیں لیکن ریاست کے سیاسی حلقوں میں اس کی دھمک ابھی سے سنائی دینے لگی ہے۔ ڈی ایم کے، وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالین کی سربراہی میں ایک مضبوط اور منظم لائحہ عمل کے ساتھ ریاست میں اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لئے مسلسل سرگرم ہے۔ وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالین خود ناسازیء صحت کے باوجود عوام سے رابطہ بنائے رکھنے والے نئے نئے اسکیم کے ساتھ میدان عمل میں اترے ہوئے ہیں اور ریاست کے تمام اضلاع کا بذریعہ ریل اور کار لگاتار دورہ کررہے ہیں۔ دوسری جانب حزب اختلاف کے قائد اے آئی اے ڈی ایم کے کے سربراہ ای کے پلنی سوامی بھی ریاست بھر میں روڈ شو کرتے پھر رہے ہیں۔
ریاست ٹمل ناڈو میں آزادی کے فوراً بعد سے ہی نئی سیاسی صف بندی شروع ہوگئی تھی جس میں ریاستی انفرادیت کو مرکز یت پر ترجیح دی جانے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے آزادی کے دو دہائی بعد 1967میں ریاستی حکومت کانگریس کے ہاتھ سے نکل کر ریاستی پارٹی ڈی ایم کے کے ہاتھ میں چلی گئی اور وہ دن ہے اور آج کا دن ، ریاست میں کبھی بھی کسی بھی مرکزی پارٹی کو سر اٹھانے کا موقع نہیں ملا۔ 1977 میں ڈی ایم کے، اندرونی تنازعہ کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر دو حصوں یعنی ڈی ایم کے اور اے آئی اے ڈی ایم کے میں بٹ گئی، اس کے باوجود ریاست کی سیاست میں آج بھی انہیں دو پارٹیوں کا غلبہ ہے۔ مرکزی پارٹیاں چاہے کوئی بھی ہو جب تک ان ریاستی ڈراوڑ پارٹیوں سے اتحاد نہیں کرتی نہ وہ اپنے دم پر یہاں اسمبلی انتخابات جیت سکتی ہیں نہ پارلیمانی انتخابات۔
ریاستی اسمبلی کے اب تک 16 انتخابات ہوچکے ہیں جن میں شروعات کے تین انتخابات کانگریس کے حق میں رہے، باقی کے انتخابات میں 7 اے آئی اے ڈی ایم کے اور 6 ڈی ایم کے کے حق میں گئے۔ گزشتہ (سولہویں) اسمبلی انتخابات 6 اپریل 2021 کو ہوئے تھے جس میں اس وقت حکومت کررہی اے آئی اے ڈی ایم کے اور بی جے پی پر مشتمل نیشنل ڈیموکریٹک اتحاد کو شکست دے کر ڈی ایم کے کانگریس اور دیگر پارٹیوں کی سیکولر پراگریسیو اتحاد نے حکومت پر قبضہ جمایا۔ کل 234 نشستوں میں ایس پی اے کو 159 جس میں ڈی ایم کے کو 133 نشستیں حاصل ہوئیں۔ این ڈے ایے کو 75 جس میں اے آئی اے ڈی ایم کے کو 66 نشستیں ملیں۔ ڈی ایم کے نے اپنی اس شاندار جیت کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست کے عوام پر اپنی گرفت مضبوط کرنی شروع کی اور ریاست بھر کے سٹی اور ٹاؤن سرکاری بسوں میں عورتوں کے لئے مفت سفر اور ان کے بینک اکاؤنٹ میں راست ایک ہزار روپیہ پہنچانے کی اسکیم شروع کی جو بغیر رکاوٹ کے آج تک جاری ہے۔ ان اسکیموں کا بھر پور فائدہ ڈی ایم کے اور اس کے اتحادیوں کو 2024 کے عام انتخابات میں ہوا اور ریاست کے تمام 39 لوک سبھا سیٹوں پر ایس پی اے نے جیت حاصل کرکے این ڈی اے کو مکمل شکست سے دوچار کیا۔
ریاست بھر میں دونوں ڈراوڑ پارٹیوں کا شروعات سے ہی ایک مضبوط ووٹ بینک موجود ہے جو ہر حال میں ان ہی پارٹیوں کو ان کے نشان پر بغیر یہ دیکھے کہ امیدوار کون ہے ووٹ دیتا آرہا ہے۔ اس میں ڈی ایم کے کا ووٹ بینک سب سے مضبوط مانا جاتا ہے، اس ووٹ بینک میں ایک دو فیصد سے زیادہ کبھی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ جیت کے لئے اصل فارمولا مضبطوط اتحاد اور نئے ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کا عمل ہے۔ ریاست میں اگر گزشتہ چار انتخابات کے نتائج کو دیکھیں تو اس کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے۔
اس کے باوجود آنے والےریاستی اسمبلی انتخابات کے متعلق مختلف قیاس آرائیاں گردش میں ہیں۔ مرکزی حکومت میں براجمان بی جے پی پوری کوشش کررہی ہے کہ کسی بھی طرح وہ ٹمل ناڈو پر اپنی پکڑ مضبوط کرے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے بڑی کوششوں کے باوجود وہ ریاست میں اپنا ایک مضبوط ووٹ بینک بنانے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ 2021 کے انتخابات میں این ڈی اے اتحاد میں اے آئی اے ڈی ایم کے ساتھ رہنے کے باوجود اسے صرف ٪62۔2 ووٹ ملے اور وہ چار سیٹوں پر اپنی جیت درج کراسکی۔ اے آئی اے ڈی ایم کے نے 2023 میں بی جے پی سے اتحاد کے خاتمے کا اعلان کیا اور اس کے فوری بعد ریاست میں عام انتخابات کاسامنا دونوں پارٹیوں نے خود کے بل پر کیا مگراس میں بھی دونوں کو کراری شکست جھیلنی پڑی۔ اس دوران بی جے پی اپنے ریاستی صدر اناملائی کی قیادت میں ہندو توا ایجنڈے کےذریعے پوری کوشش کرتی رہی ہے کہ ریاست میں اپنی ایک الگ پہچان بنائے۔ اس کی خاطر اس نے اپنے اتحادی رہ چکی اے آئی اے ڈی ایم کے کو بھی نہیں بخشا اور ریاستی ڈی ایم کے حکومت کے ساتھ ساتھ اس کی کھنچائی بھی برابر کرتی رہی۔ مگر نجانے اچانک کیا ہوا کہ بی جے پی کی مرکزی قیادت نے پارٹی کی ریاستی سطح پر بڑی تبدیلی کرتے ہوئے اناملائی کو ریاستی صدر کی حیثت سے ہٹادیا اور نینار ناگیندرن کو ان کی جگہ لے آئی۔ نینار ناگیندرن بی جے پی میں شامل ہونے سے پہلے اے آئی آئی اے ڈی ایم کے کی 2006-2001 حکومت میں وزیر رہ چکے تھے، اور اس کے فورا بعد اپریل 2025 کو بی جے پی کے نیتا اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اے آئی اے ڈی ایم کے، کے جنرل سکریٹری ای کے پلنی سوامی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر کے 2026 اسمبلی چناؤ کے لئے دونوں پارٹیوں کے اتحاد کا اعلان کیا۔ اس اتحاد کے حوالے سے یہ بات پہلے دن سے موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ کیا یہ اتحاد جیت تک کیلئے محدود ہے یا حکومت بھی متحدہ بنائے گی۔ کیونکہ امت شاہ کا حوالہ دے کر بی جی پے کے تمام ریاستی نیتا یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ بی جے پی جیت کے بعد حکومت میں بھی شامل ہوگی مگر اے آئی اے ڈی ایم کے نیتا اور خود ای کے پلنی سوامی اس بات سے مسلسل انکار کرتے آرہے ہیں۔ یہ بات یہاں غور طلب ہے کہ ریاست ٹمل ناڈو میں آج تک اقلیتی سرکار تو بنی ہے مگر ساجھے کی سرکار کسی بھی ڈراوڑ پارٹی نے نہیں بنائی ہے۔
ریاست میں جہاں این ڈی اے کے جھنڈے تلے متحدہ حزب اختلاف ریاستی حکومت کے خلاف خم ٹھوک کر میدان میں ہے وہیں ٹمل سنیما کے مقبول اداکار جوسف وجے چندر شیکھر بھی اپنی نئی پارٹی ٹملاگا وٹری کژگم کے ساتھ آنے والے ریاستی انتخابات کے دنگل میں اُترنے کے لئے پوری طرح تیار ہوچکے ہیں۔ وجے کو یوں تو سیاسی دانشوروں کے ایک بڑے حلقے میں بی جے پی کی پراکسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے مگر وہ عملی سیاست میں ریاست کے تمام پارٹیوں سے فاصلہ رکھ کر چل رہے ہیں۔ نئی پارٹی کا اعلان کرنے کے کچھ ہی دنوں میں پارٹی کے ممبروں کی تعداد لاکھوں پار کرچکی ہے۔ خصوصاً نوجوانوں اور پہلی بار ووٹ کرنے والوں میں وجے کی کافی مقبولیت ہے۔ ٹی وی کے، کی پہلی سیاسی کانفرنس میں لاکھوں کے مجموعے اور اس کے ستر ہزار بوتھ ایجنٹ بنانے کے اعلان نے ریاست کے سیاسی پنڈتوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے۔ اپنے آپ کو سیاست کے میدان میں امبیڈکر، پریار اور کارل مارکس کا مقلد بتا کر، سیکولرازم اور سوشیل جسٹس کا ہر حال میں علم برادار ہونے کا دعویٰ کرکے وجے نے سنجیدہ ووٹروں کے ایک بڑےحلقے کو بھی متاثر کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مداحوں کا یہ ہجوم کیا ووٹ میں بھی تبدیل ہو کر وجے کو ریاستی سیاست کے میدان میں ایک نئی سیاسی پہچان عطا کرے گا؟
اب تک ریاستی انتخابات کو لے کر جتنے بھی سروے اور اوپینین پول سامنے آئے ہیں اس میں سے اکثر میں ڈی ایم کے، کی ایس پی اے، کو جیتتا ہوا دکھایا جارہا ہے، بی جے پی کی این ڈی اے، کو دوسرے نمبر پر اور وجے کی پارٹی ٹی وی کے، کو بھی ایک بڑی سیاسی طاقت کے طور پر تیسرے نمبر پر دکھا یا جارہا ہے۔ چونکہ ابھی انتخابات کے آنے میں کافی مہینے باقی ہیں اس لئے یقینی طور پر یہ کہا نہیں جاسکتا کہ آگے چل کر کیا یہ ٹرینڈ یوں ہی رہ پائے گا۔
ریاستی حکومت کو لے کر عوام کے ایک بڑے حلقے میں جہاں اطمینان پایا جاتا ہے وہیں مہنگائی، بجلی کی بڑھی ہوئی شرح، نیٹ امتحانات کی وجہ سے طلباء میں خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان اور اس پر قابو پانے میں حکومت کی ناکامی، پولیس حراست میں مرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، وزراء پر ای ڈی کی جانب سے کرپشن کےالزامات اور تحقیق وغیرہ ایسی باتیں ہیں جن پر عدم اطمینان کے رجحانات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ چیزیں انتخابات پر اثر انداز بھی ہوں گی ایسا ابھی تک نہیں لگ رہا ہے۔ ڈی ایم کے حکومت عوامی اعتماد حاصل کرنے لئے اپنی پوری کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ خاص کر سہ لسانی اور حد بندی کو لے کر ڈی ایم کا سخت موقف، ٹمل اور ڈراوڑ انفرادیت پر اس کا زور، سیکولر اصولوں پر کسی بھی قسم کی مفاہمت سے انکار نے ڈی ایم کے، کی عوامی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ ساتھ ہی عورتوں کے لئے شروع کی گئی فلاحی اسکیموں سے پارٹی کو بڑی تقویت ملی ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ اسٹالین کا مرکزی حکومت کے خلاف بےخوف نڈر اور بے باکانہ انداز نے عوام میں ان کے تئیں بڑی عزت اور قدر و منزلت پیدا کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈی ایم کے، کے اتحادیوں کے درمیان پایا جانے والا نظریاتی اتحاد بھی اس کی ایک بڑی طاقت سمجھا جارہا ہے۔
جہاں تک اے آئی اے ڈی ایم کے اور اس کی اتحادی بی جے پی کا تعلق ہے، اس اتحاد کو ریاست کے عوام کا ایک بڑا طبقہ اور خود اے آئی اے ڈی ایم کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد قبول نہیں کر پا رہی ہے۔ اتحاد کے اعلان کے بعد بی جے پی نے اپنے ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے ریاست کے ہندوؤں میں مقبول دیوتا مرگا کے نام پر ایک بڑی کانفرنس منعقد کی اور اس کانفرنس کے اسٹیج سے جہاں ریاستی حکومت پر سخت تنقید کی گئی وہیں پرانے ڈراوڑ نیتاؤں پر بھی جملے کسے گئے جس کو لے کر اے آئی اے ڈی ایم کے، کے اندرونی حلقوں میں بھی بہت لے دے ہوئی۔ بی جے پی اپنے اس ایجنڈے پر ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے مدورائی کے تروپرنکنڈرم ملئی(پہاڑ) جسے ہندو وہاں موجود موجود ایک مرگن مندر، جسے ریاست بھر میں مرگا کے چھ ٹھکانوں میں ایک سمجھا جاتا ہے، کی وجہ سے مرگن ملئی بھی کہتے ہیں اور مقامی مسلمان اس پہاڑ کی چوٹی میں موجود ایک درگاہ کی وجہ سے اس کو سکندر ملئی بھی کہتے ہیں اور ایسا کئی زمانوں سے چلا آرہا ہے، مگر یہ تنازعہ پھیلانا شروع کردیا کہ مسلمان اس درگاہ کے آڑ میں اس پہاڑ کا نام تبدیل کرنا چاہتے ہیں اس لئے اس کو وہاں سے ہٹایا جائے۔ اس حوالے سے بھی عوام کے ایک بڑے طبقے میں یہ سوال شدت سے اٹھایا جارہا ہے کہ بی جے پی ٹمل ناڈو میں بھی شمالی ہندوستان کی طرح نفرت کو ہوا دے کر حکومت پر قابض ہونا چاہتی ہے جو ریاست کی ترقی لے لئے اچھا شگون نہیں ہے۔ در حقیقت ایسا سمجھا جارہا ہے کہ بی جے پی اس قسم کے پروپگنڈے کے ذریعہ اپنی ہندوتوا آئڈیولاجی پر ایک مضبوط ووٹ بینک بنانا چاہتی ہے اور ساتھ ہی وجے اور سیمان جیسے نیتاؤں کو آگے لا کر سیکولر ووٹوں کو تقسیم کراکے اپنی جیت درج کرانا چاہتی ہے،اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اس کی یہ دور کی کوڑی کتنی کامیاب ہوتی ہے۔ اس درمیان اے آئی اے ڈی ایم کے، کے جنرل سکریٹری اور سابق وزیر اعلیٰ ای کے پلنی سوامی نے ایک روڈ شو میں یہ بیان دے کر کہ ریاستی حکومت مندروں کو دئے گئی دان کے پیسے سے تعلیمی ادارے قائم کر رہی ہے اور یہ بہت غلط ہے، ریاست کے سیاسی ماحول کو گرما دیا۔ ریاست بھر کے سیاسی حلقوں کے ساتھ کئی تعلیمی حلقوں سے بھی اس پر میڈیا اور سوشل میڈیا میں ان کی بہت کھنچائی ہوئی اور ان پر ریاست کی سیاست میں بی جے پی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا الزام لگایا گیا۔ ان سب سے بڑھ کر اس اتحاد میں شامل پارٹیوں کے درمیان موجود نظریاتی اختلافات کو اس اتحاد کی بڑی کمزوری مانا جارہا ہے۔ بی جے پی کو ریاستی عوام کی اکثریت ریاست پر ہندی کو تھوپنے کے لئے اُتاؤلا ہونے والی اور تمل مخالف کی طور پر دیکھتی ہے۔ حد بندی کو لے کر بھی بی جے پی کی گول گول باتیں بہت سوں کو کھٹکنے لگی ہیں۔ اے آئی اے ڈی ایم کے کے ایک پرانے وفادار رکن انور راجا جو ایم جی آر کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک ہیں اور پارٹی کے شروعات سے پارٹی میں ہیں، 2006-2001 کی اے آئی اے ڈی ایم کے حکومت میں وزیر اور سولہویں لوک سبھا میں ایم پی رہ چکے ہیں، نے پارٹی کی بی جے پی کے ساتھ اتحاد کو لے کر استغفی دے دیا اور ڈی ایم کے میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس بات کو لے کر ایک اور اے آئی اے ڈی ایم کے، نیتا کا یہ بیان کہ ان کی پارٹی کو مسلم ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے پارٹی کی شبیہ کو اقلیتوں کے درمیان بری طرح نقصان پہنچا چکی ہے۔ اس پس منظر میں اس اتحاد کے پاس بحیثیت حزب اختلاف حکومت مخالف بیانیہ کے سوا ایسا کوئی اہم مدعا نہیں جس کو لے کر یہ عوام کے درمیان حکومت کو گھیر سکے۔ اس کے علاوہ ایک اور قیاس آرائی یہ بھی ہے کہ اگر وجے کی ٹی وی کے، بھی این ڈی اے اتحاد میں شامل ہوگئی تو یہ اتحاد ڈی ایم کے کو ٹکر دے سکتا ہے۔ مگر سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ وجے ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ چونکہ یہ ان کا، ان کی سیاسی پارٹی کا پہلا اسمبلی الیکشن ہے تو وہ ضرور اس میں اپنے دم پر حصہ لے کر اپنے قد کا اندازہ کرنا اور کرانا چاہیں گے۔
نظریاتی اتحاد کی وجہ سے بڑی حد تک ممکن ہے ڈی ایم کے اپنا ووٹ بینک اپنے ساتھ رکھنے اور اس کے اتحادی اپنا ووٹ بینک اس کی جانب منتقل کرنے میں کامیاب ہوجائیں مگر اے آئی اے ڈی ایم کے اور اس کے اتحادیوں میں ایسا ممکن ہوتا یوا نظر نہیں آرہا ہے۔ جہاں تک حکومت مخالف رجحان والے ووٹوں کا سوال ہے وہ یا تو وجے کی ٹی وی کے، کی جانب مڑ جائیں گے یا سیمان کی نام ٹملر کٹچی میں تقسیم ہوجائیں گے۔ اگر ایسا ہوگیا اور ابھی تک جو منظر نامہ بن رہا ہےاس سے لگ بھی رہا ہے کہ ایسا ہی ہوگا تو ایسے میں ڈی ایم کے2026 کی اسمبلی انتخابات بھی آسانی سے جیت سکتی ہے۔ مگر سیاست میں کچھ بھی یقینی نہیں ہے،انتخابات میں ووٹ ڈالے جانے کے آخری لمحے تک کچھ بھی ہوسکتا ہے، اس لئے ریاست ٹمل ناڈو کے اسمبلی انتخابات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ابھی یہ کہنا بہت ہی محال ہے۔
۔۔۔۔۔۔
Like this:
Like Loading...