Skip to content
واٹس ایپ میسج پر جیل؟ نوجوان احتیاط نہیں برت رہے۔
ازقلم: شیخ سلیم ،ممبئی
آج کے ڈیجیٹل دور میں جب کے ہر آدمی سوشل میڈیا استمعال کرتا ہے عام آدمی بیدھڑک کوئی پیغام یا ویڈیو آگے شیئر کرتا رہتا ہے ۔ بہت سارے ویڈیو فیک ہوتے ہیں بہت سے پیغامات میں حقیقت سے زیادہ جھوٹ ہوتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے بنا سوچے سمجھے آدمی جھوٹ اور فضول چیزوں میں پڑا رہتا ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے ۔
یہ سن کر حیرت ہوتی ہے کہ بھارت میں صرف ایک واٹس ایپ میسج یا سوشل میڈیا پوسٹ کی بنیاد پر لوگوں کو بغاوت جیسے سنگین مقدمے میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔
اعداد و شمار: 2015 سے 2020 کے درمیان، نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 356 بغاوت کے مقدمات درج ہوئے اور 548 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے صرف 12 افراد کو سزا ہوئی، وہ بھی صرف 7 مقدمات میں۔ یعنی سزا کی شرح بمشکل 2 فیصد ہے۔
اور بھی تشویشناک بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر مقدمات کا تعلق کسی تشدد یا خطرناک سرگرمی سے نہیں تھا، بلکہ صرف واٹس ایپ پر بھیجے گئے پیغامات یا سوشل میڈیا کی سرگرمیوں سے تھا۔ کسی نے فارورڈ کیا کسی نے کچھ کیا ،تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ کرناٹک اور اتر پردیش جیسی ریاستوں میں کم از کم 36 بغاوت کے ایف آئی آرز صرف واٹس ایپ چیٹس کی بنیاد پر درج کیے گئے، کبھی صرف اس لیے کہ کوئی واٹس ایپ گروپ کا ایڈمن تھا یا اس نے کوئی پیغام فارورڈ کیا تھا۔
اگر ہم 2014 سے 2021 تک کے عرصے کو دیکھیں تو کل 428 بغاوت کے کیس درج ہوئے اور 634 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ہمارے پاس اعداد و شمار نہیں ہیں جس سے پتہ چلتا گرفتار ہونے والوں میں مسلمان کتنے ہیں پولیس اور اے ٹی ایس نے ایسے کوئی اعداد و شمار نہیں بتائے ۔ ان معاملات میں سزا نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ مقدمہ ختم ہونے سے پہلے ہی مہینوں تک جیل میں رہے، صرف اپنی آن لائن رائے رکھنے کی پاداش میں۔
بغاوت کا قانون، جو برطانوی دور کی یادگار ہے، آج بھی اختلاف رائے کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور اس پر وسیع پیمانے پر تنقید ہو رہی ہے۔ مئی 2022 میں سپریم کورٹ نے آئی پی سی کی دفعہ 124A یعنی بغاوت کے قانون پر عبوری پابندی لگا دی تھی۔ اس کے بعد اسے بھارتیہ نیائے سنہتا کے تحت نئے قانون سے بدل دیا گیا، مگر جن لوگوں پر پرانے قانون کے تحت مقدمے چل رہے تھے، وہ آج بھی اسی میں پھنسے ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا صرف ایک واٹس ایپ میسج جیل جانے کی وجہ بن سکتا ہے؟ بدقسمتی سے، بھارت میں ایسا ہو رہا ہے۔ سینکڑوں لوگ گرفتار کیے گئے، کئی مہینے جیل میں رہے، اور آخرکار اکثر کو ضمانت ملی، جبکہ سزا دینے کے کیس انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ آزادی اظہار رائے ایک حق ضرور ہے مگر آج کے حالات میں ایسی کئی مثالیں ہیں لوگوں کو فیس بک پوسٹ اور انسٹا گرام پر لکھنے کے باعث گرفتار کیا گیا ہے۔
حال ہی میں( 4 اگست ) بدلا پور گاؤں تھانے ضلع کے رہنے والے 24 سالہ نوجوان اسامہ شیخ کو اُتر پردیش اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ نے لکھنؤ سے آ کر گرفتار کرلیا ہے Under section 148 and 152 وجہ سوشل میڈیا پر ایک گروپ جس پر کچھ مذہبی بحث و مباحثے چلتے تھے اور پولیس کے مطابق اس گروپ پر بیرونی ممالک کے لوگ بھی شامل ہیں۔ میری ہمارے نوجوانوں سے اپیل ہے سوشل میڈیا کا استعمال دھیان سے کریں خصوصاً وہاٹس ایپ گروپ ایسے گروپ میں بیرونی ممالک سے مشتبہ افراد ہو سکتے ہیں جو نوجوانوں کو پھنسا سکتے ہیں بلکہ پھنسا چکے ھیں اور کئی نوجوان قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا ہیں۔ فیس بک پر بھی اعتدال سے کام لیں ہر اشتعال انگیزی کا جواب دینا ضروری نہیں دوستی سوچ سمجھ کر کریں سوشل میڈیا پر آپ جس سے بات کر رہے ہیں پتہ نہیں وہ کون ہے آپ نے دیکھا تو ہے نہیں۔ اشتعال انگیزی کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔
Like this:
Like Loading...