Skip to content
علمائے ہند اور جمعیت علمائے ہند کی تحریکات آزادی ہندکا ایک اشاریہ
مولانا محمد یاسین جہازی قاسمی،
شعبہ تصنیف: مرکز دعوت اسلام جمعیت علمائے ہند
9891737350
نحمدہٗ و نصلّی علٰی رسولہِ الکریم
ہندستان:دارالاسلام سے دارالحرب کی طرف
ملک ہندستان کا دارالحرب بن جانا مسلم ہندستان کی سیاسی تاریخ کا بہت اہم واقعہ تھا؛ لیکن ملک کی سیاسی نوعیت بدل جانے اور دار الاسلام سے دارالحرب ہو جانے کا عمل اتنی آہستگی سے ظہور میں آیا تھا کہ ایک صاحب نظر ہستی کو مستثنیٰ کر دینے کے بعد وقت کا کوئی مدبر اس کی آہٹ بھی نہ سن سکا۔ اتنا ہی نہیں؛ بلکہ متعدد اہل علم نے تو حالات کے انقلاب اور ملک کی سیاسی اور قانونی حیثیت یکسر بدل جانے کی نوعیت کو تسلیم کرنے ہی سے انکار کر دیا اور نہ صرف جنگ آزادی 1857ء کی ناکامی کے بعد بھی اس حقیقت کو نہ سمجھا؛ بلکہ بعض حضرات تو جہاد آزادی کی حرمت کا اعلان کرتے رہے۔
جہاد آزادی کا پہلا اور دوسرافتویٰ
1806ء میں دہلی پر قبضہ کرنے کے بعد اگر چہ انگریزوں نے بساط سیاست پر ”شاہ عالم“ کو ایک تاج دار کی حیثیت سے نمایاں کیا اور مملکت اور حکومت میں ایک عجیب و غریب تقسیم کر کے یہ اعلان کیا کہ ”ملک بادشاہ کا اور حکم انگریز بہادر کا“۔ اس بنا پر کچھ علما کو یہ خیال بھی ہوا کہ ہندستان بدستور ”دار الاسلام“ ہے؛ مگر وہ مستثنیٰ شخصیت -جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور جس نے ملک کی سیاسی اور قانونی حیثیت بدل جانے کا سب سے پہلے ادراک اور انقلابی اعلان کیا تھا- حکیم الہند حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی قدس سرہ کی تھی۔ انھوں نے انیسویں صدی کی پہلی دہائی میں -جب کہ ہندستان کے تخت پر شاہ عالم ثانی رونق افروز تھے- فتوی دیا کہ ہندستان کی سیاسی حیثیت بدل گئی ہے۔
(شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد اول، ص/ 82-83)
در اصل ملکی حالات کے تناظر میں رہ نماؤں کے سامنے چار راستے تھے:
۱۔ وقت کے تقاضے اور قوم کے سیاسی مفادات سے اغماض برتیں اور خاموش رہیں۔
۲۔ تن آساں علما کی طرح ہندستان کو بدستور دارالاسلام قرار دیتے رہیں۔
۳۔ ملک کو دارالحرب قرار دے کر ہجرت کرجائیں۔
۴۔ دارالحرب کی حیثیت کو بدلنے کے لیے دوبارہ دارالاسلام بنانے کی جدوجہد کریں۔
ابن الوقت رہ نماؤں نے ہمیشہ کی طرح پہلی شکل اختیارکی۔مفادپرستوں نے دوسرے طریقے کو اختیار کیا، جس میں قادیانی، بریلوی اور سید احمد خاں کے نام نمایاں ہیں۔ تیسری راہ کو اختیار کرنا انفرادی طور پر کچھ لوگوں کے لیے، یا ایک مختصر جماعت کے لیے ممکن ہو سکتا تھا؛ لیکن ہندستان میں پھیلے ہوئے کروڑوں مسلمانوں کے لیے عملاً ممکن نہ تھا کہ ہندستان سے ہجرت کرجائیں۔ اگر ان میں سے ایک جماعت چلی بھی جاتی، تو مسئلہ پھر بھی اپنی جگہ برقرار رہ جاتا اور پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں کی حالت اور بھی ابتر ہو جاتی اور انھیں گویا کفر و طاغوت کے حوالے کر دینا ہوتا۔چوتھا راستہ عزیمت کاتھا، جو ہمیشہ اصحاب عزم کے لیے مخصوص رہا ہے اور یہ راستہ سب سے دشوار گزار راستہ ہے۔
ان راہوں میں حضرت مولانا شاہ عبد العزیز نور اللہ مرقدہ نے جو راہ اختیار فرمائی، وہ یہی چوتھا راستہ تھا۔ چنانچہ حضرت مرحوم نے 1808ء،یا 1809ء میں سب سے پہلے جہاد کا فتویٰ دیا۔ پھر14/ستمبر1857ء کی جنگ شاملی وتھانہ بھون کے لیے بھی جہاد آزادی کا فتوی دیا گیا۔
ملکہ وکٹوریہ کا معافی نامہ
اس جنگ کے بعد مسلمانوں کی عسکری طاقت تقریبا ختم ہوچکی تھی۔ اور چوں کہ جنگ کی قیادت علمائے کرام نے کی تھی، اس لیے اس کے بعد جو وحشیانہ مظالم اور جس درندگی کا مظاہرہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے وحشی انگریزوں نے ہندستانیوں،بالخصوص مسلمانوں اور بالاخص علما کے ساتھ کیا،جس کی وجہ سے علما گوشہ نشینی پر مجبور ہوگئے،اس سے برطانوی حکومت یہ سوچنے پرمجبور ہوگئی کہ اگر ہندستان کی حکومت ان خود غرض تجارت پیشہ لوگوں سے نہ لی گئی، توبرطانی قوم اور برطانوی تاج دنیا بھر میں بدنام ہوجائیں گے اور تہذیب وتمدن کا دعوی نیست و نابود ہو جائے گا،چنانچہ ہندستان میں ملکہ وکٹوریہ کی بادشاہت کا اعلاتے کرتے ہوئے یکم نومبر1858ء کو کوئین کاوہ مشہور اعلان نافذ کیا گیا، جس میں مجرمین کے معاف کر دینے کا عام اعلان ہوا۔
دارالعلوم دیوبند کا سنگ بنیاد
اس عام معافی کے اعلان کا فائدہ حجۃ الاسلام حضرت مولانامحمد قاسم نانوتویؒ کو بھی ہوا اور گرفتاری کا خوف جاتا رہا۔جنگ شاملی میں شکست سے حجۃ الاسلام نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہندستان سے انگلستان تک منظم لیڈرشپ میں، تربیت یافتہ فوجوں کے ساتھ جدید اسلحہ سے لڑنے والی قوم کا ہم قیادت سے محروم غیر منظم عوام کے سہارے گھریلو ہتھیار لاٹھی ڈنڈوں سے مقابلہ نہیں کرسکتے، چنانچہ انھوں نے معرکہئ رزم کے بجائے معرکہئ بزم برپا کیا اور 30/ مئی 1866ء کو دارالعلوم دیوبندکی بنیاد ڈالی، جس نے جہادی آزادی کے متوالے اور رجال کار پیدا کرنے میں اہم اور نمایاں کردار ادا کیا۔
کانگریس کا قیام، سرسید کی مخالفت اور شرکت کانگریس کا فتویٰ
پھر جب دسمبر 1885ء میں آل انڈیا کانگریس بنی، جس نے حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے سوراج اور حقوق کا مطالبہ کرنا شروع کیا، تو جناب سرسید احمد خان صاحب نے8/اگست1888ء کوانڈین پیٹر یٹس ایسوسی ایشن (انجمن محبان وطن) بناکر مسلمانوں کو انگریزوں کی وفاداری کی تلقین کرنی شروع کردی اور کانگریس میں شرکت سے ورغلاتے رہے، جس کے خلاف علمائے لدھیانہ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒاور حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی نے 11/دسمبر 1888ء کو کانگریس میں شرکت اور سرسید کے مشن کی مخالفت کا فتویٰ دیا۔
انگریزوں کی گھناونی سازش:مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کا قیام
پھرجب انگریزوں کی خطرناک خفیہ سازش کے تحت مسلمانوں میں 30/دسمبر 1906ء کو مسلم لیگ اور ہندوؤں میں مہاراجہ دربھنگہ کی صدارت میں بھارت مہا منڈل (جو بعد میں چل کر ہندو مہاسبھاکے نام میں تبدیل کی گئی) کی تشکیل عمل میں آئی اور فرقہ وارانہ خطوط پر فیصلہ ہونے لگے، جس میں سب سے خطرناک فیصلہ 1916ء کا میثاق لکھنو تھا، جس میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی گھٹا دی گئی تھی، توسیاست کے میدان میں علمائے کرام کی غیر موجودگی کا خلا شدت سے محسوس کیا جانے لگا۔
تحریک ریشمی رومال
انھیں دنوں 1915-1916ء میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی قیادت میں ”ریشمی رومال تحریک“ چلائی گئی،جس کا منصوبہ یہ تھا کہ برٹش سامراج کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے افغان اور ترکی سرکاروں کے تعاون سے ہندستان کی شمال مغربی سرحدپر حملہ کیا جائے اور ادھر ہندستان کے لوگ بھی بغاوت کی لہر پیدا کرکے سلطنت برطانیہ کو تباہ و بربادکردیں؛ لیکن قبل از وقت راز فاش ہونے کی وجہ سے یہ تحریک ناکام ہوگئی۔
خلافت کا خاتمہ اور تحریک خلافت کا آغاز
علاوہ ازیں جب جنگ عظیم اول(18/جولائی1914ء -11/نومبر1918ء) میں دول متحدہ کو فتح ملنے کے بعد ہندستانی مسلمانوں کے ساتھ کیے گئے خلافت اسلامیہ اور اماکن مقدسہ کے تحفظ کے وعدوں کو پامال کرتے ہوئے30/اکتوبر1918ء کوہوئی عارضی صلحکے ذریعے ترکی حکومت کے حصے بخرے کردیے گئے، تو علمائے کرام گوشہ نشینی سے نکل کر میدان عمل میں کودپڑے۔چنانچہ آل انڈیا خلافت کانفرنس کے موقع پر ملک کے کونے کونے سے تشریف لائے علمائے کرام نے عقائد و مسالک کے اختلافات سے اوپر اٹھ کر23/نومبر1919ء کو جمعیت علمائے ہند کی تشکیل کی۔اور28،31/دسمبر 1919ء و یکم جنوری 1920ء کومنعقد اپنے پہلے اجلاس عام میں ہی یہ فیصلہ کیا کہ12/فروری تا10/ اپریل1920ء کو لندن میں منعقد ہونے والی صلح کانفرنس میں مسلم نمائندوں کی شرکت ضروری ہے، تاکہ خلافت سے متعلق مسلمانوں کے متفقہ مذہبی مطالبات کے مطابق فیصلہ کیا جاسکے۔ لیکن اس کانفرنس کے نتیجے میں 10/اگست 1920ء کو سیورے معاہدہ ہوا، جس کی رو سے خلافت اسلامیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا، تو 6/ستمبر1920ء کو جمعیت علمانے کلکتہ میں ایک خصوصی اجلاس بلایا اور حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کی تحریک پریہ فیصلہ کیا گیا کہ انگریزی حکومت کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔اورپھر 8/ستمبر1920ء کو اسی فیصلے کو شرعی تقاضاقرار دے کرترک موالات کا فتویٰ دیاگیا، جس پر تقریبا پانچ سو علمائے کرام نے دستخط کیے۔بعد ازاں 19-20-21/نومبر1920ء میں جمعیت علما نے اپنے دوسرے اجلاس عام میں برطانیہ سے ترک موالات کے شرعی فیصلہ ہونے پر نقلی و عقلی دلائل پیش کیے۔ اور چوں کہ گاندھی جی نے تحریک خلافت کی بلاشرط حمایت کرکے ہندو مسلم اتحاد کا عملی نمونہ پیش کیا تھا، اس لیے اس اتحاد کی ستائش کی گئی۔
تحریک ہجرت ہند کا خاتمہ
پھر 18-19-20/نومبر1921ء کو جمعیت علما نے اپناتیسرا اجلاس عام کیا،جس کے خطبہئ صدارت میں امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد ؒنے ہندستانی مسلمانوں کو ایک امام کے ماتحت شرعی زندگی گذارنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو ایک لمحہ بھی بغیر کسی امام کے بسر نہیں کرنا چاہیے، یا تو وہاں سے ہجرت کرجائیں اور یا ایک امیر نصب کرکے اپنے فرائض شرعیہ انجام دیں۔چنانچہ ان دنوں تحریک ہجرت چل رہی تھی، لیکن جمعیت علما کے ترک موالات کی تجویز نے اس تحریک کا خاتمہ کردیا۔
جمعیت کی طرف سے سب سے پہلے مکمل آزادی وطن کامطالبہ
علاوہ ازیں اس اجلاس کاایک ممتاز کارنامہ یہ تھا کہ اسی میں ترک موالات کے مقصد میں خلافت اسلامیہ کے تحفظ کے ساتھ ساتھ آزادی وطن کا اضافہ کرتے ہوئے تمام تنظیموں کے بالمقابل سب سے پہلے جمعیت علمانے ہندستان کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا۔ لیکن 5/فروری 1922ء کوگورکھ پور ضلع میں واقع چوراچوری میں ایک پرتشدد واقعہ پیش آنے کی وجہ سے گاندھی جی نے جب تحریک کو ملتوی کردیا، تو9-10/فروری1922ء کو منعقد اپنی مجلس منتظمہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ اگرچہ اجتماعی سول نافرمانی ابھی زیر غورہے؛ لیکن انفرادی سول نافرمانی بدستور جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نومبر 1923ء میں الیکشن کا اعلان ہوا، تو جمعیت نے اپنی مجلس عاملہ منعقدہ: 11/نومبر1923ء میں یہ فیصلہ کیا کہ کونسل کا الیکشن لڑنا جائز نہیں ہے۔
29-30-31/دسمبر1923ء و یکم جنوری 1924ء کو جمعیت علما نے اپنے پانچویں اجلاس عام کے خطبہئ صدارت میں برطانوی حکومت ہند کا مقابلہ،جزیرۃ العرب کی آزادی کے ساتھ مقدس مقامات کا تحفظ اور ہندستان کی آزادی کو مسلمانان ہند کے ضروری فرائض قرار دیے۔
خاتمہئ خلافت کے اعلان پر جمعیت کی بے چینی
3/مارچ1924ء کو مجدد خلافت نے ایشائی مسلمانوں کے جذبات کے برعکس خلافت کا خاتمہ کرتے ہوئے ترکی حکومت کو پارلیمنٹری نظام کے ماتحت کردیا،جس پر جمعیت علما اور مرکزی خلافت کمیٹی نے مشترکہ طور پر 9/مارچ 1924ء کو یہ فیصلہ کیا کہ مصطفی کمال پاشا کو تار بھیج کر خلافت کی بحالی کا مطالبہ کیا جائے؛ لیکن پاشا صاحب نے اسے ایک خیالی تصور قرار دے کر مسترد کردیا۔
سیاست عین دین ہے
الغائے خلافت نے ایشائی مسلمانوں کو بسمل بنادیا تھا اور ہندستانی علما کی سیاست سے بے اعتنائی انھیں نیم جاں کر رہی تھی، ایسے حالات میں 11تا 16/جنوری 1925ء کو جمعیت علما نے اپنے چھٹے اجلاس عام کے خطبہئ صدارت میں زوال خلافت کے اسباب پر سیرحا صل بحث کرتے ہوئے یورپ کی تشریح حریت، جمہوریت فاسدہ اور وطنیت کی زمین پر قومیت کی تعمیر کو زہریلے جراثیم قرار دیتے ہوئے ”سیاست عین دین ہے“ کی حقیقت کو اجاگر کیا اور علمائے کرام کو میدان عمل میں آنے کی دعوت دی۔اور ہندستان کی مکمل آزادی کے حصول تک ترک موالات جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
سائمن کمیشن کا بائیکاٹ
ترکی کی جس خلافت اسلامیہ کے تحفظ کے لیے دنیا لڑ رہی تھی، اہل ترک نے خود اپنے ہی ہاتھوں اس کو دفن کرکے یورپین کی مدتوں کی سازش کو دفعۃ کامیاب کردیا، جس کی وجہ سے ہندستان میں بھی ہمیشہ کے لیے اس مسئلہ کا خاتمہ ہوگیا۔لیکن تحریک خلافت نے بھارتیوں کے دلوں میں اپنی غلامی کے تئیں جذبہئ آزادی کی جو آگ بھڑکادی تھی، اس نے برطانوی ہند کے ارباب اقتدار کو بھارتیوں کے مطالبات سننے پر مجبور کردیا، چنانچہ آئینی اصلاحات دینے کے وعدے کے ساتھ، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919ء کی شق 84(A)/ کے تحت 1927ء میں تاج برطانیہ کی طرف سے ایک شاہی فرمان کے ذریعے8/اکتوبر1927ء کو سائمن کمیشن کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ چوں کہ اس میں ہندستانیوں کا کوئی نمائندہ شامل نہیں کیا گیا تھا، اس لیے صدر جمعیت علما نے 18/نومبر1927ء کو، بعد ازاں 2تا 5/ دسمبر1927ء کو منعقد آٹھویں اجلاس عام میں جمعیت علمانے اس کے مقاطعہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ”سائمن کمیشن ہندستان کے باشندوں کی کھلی ہوئی توہین ہے۔“ اورجب 3/فروری1928ء کو سائمن کمیشن ممبئی کے ساحل پر اترا، تو ”سائمن کمیشن واپس جاؤ“ کے نعرے کے ساتھ مکمل ہڑتال کرکے کمیشن کو اپنے مقصد میں ناکام کردیا۔ لیکن کمیشن نے جاتے جاتے بھارتیوں کو چیلنج دیا کہ دم ہے، تووہ فرقہ وارانہ اتحاد قائم کرکے دکھائیں اور اپنا نیا قانون بناکر پیش کریں۔ چنانچہ بھارتیوں نے چیلنج کو قبول کیا اور فرقہ وارانہ اتحاد کی کوششوں کے ساتھ، نہرورپورٹ کے نام سے ایک نیا آئین بھی بنانے کا اعلان کیا۔
مذہبی فرض: جہاد آزادی میں غیر مسلموں سے تعاون لینا جائز ہے؟
جمعیت علمائے ہند نے 11تا14/مارچ 1926ء کو منعقد اپنے ساتویں اجلاس عام میں، 18تا20/نومبر 1921ء کو منعقدتیسرے اجلاس عام کے منظور کردہ”آزادی کامل“ کے فیصلے کا اعادہ کرتے ہوئے حصول آزادی کو مسلمانوں کا مذہبی فرض قرار دیا،اور اس کے حصول کے لیے ترک موالات کے فتوے میں تبدیلی کے مطالبے کے باوجود 21-22 / ستمبر 1926ء کی مجلس عاملہ میں یہ فیصلہ کیا کہ اھون البلیتین کے پیش نظر انگریزوں سے بائیکاٹ اور برادران وطن کا تعاون ضروری ہے، تو اہل علم کے درمیان یہ مسئلہ موضوع بحث بنا کہ ایک مذہبی فرض کی ادائیگی کے لیے کیا غیر مسلموں سے تعاون لیا، یا دیا جاسکتا ہے؟چنانچہ حضرت العلامہ انور شاہ کشمیری نور اللہ مرقدہ نے آٹھویں اجلاس عام (منعقدہ:2تا5/دسمبر1927ء) میں یہ حل پیش کیا کہ ہندستان نہ تو دارالاسلام ہے اور نہ ہی مکمل دارالکفر؛ بلکہ دارالامان ہے اور دارالامان میں مذہب کی آزادی اور بنیادی حقوق کے تحفظات کی ضمانت پر مبنی جمہوریت کی شرائط کے ساتھ غیروں کا تعاون لے بھی سکتے ہیں اوردے بھی سکتے ہیں۔ چنانچہ یہی شرعی حل آگے چل کر3تا6/مئی 1930ء کو منعقد نویں اجلاس عام میں آل انڈیا کانگریس میں مسلمانوں کی شرکت کے فیصلے کا باعث بنا۔
نہرورپورٹ قطعی منظور نہیں
پنڈت نہرو کی صدارت میں توضیع کردہ نہرو رپورٹ جب 16/اگست 1928ء کو شائع کی گئی، تو مسلم حقوق کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہ ہونے اور مکمل آزادی کے بجائے ڈومینین اسٹیٹس کی سفارش کرنے کی وجہ سے27/اگست1928ء کی مجلس عاملہ نے یہ فیصلہ کیا کہ اسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جاسکتا؛ کیوں کہ جمعیت علمائے ہند اپنے نصب العین مکمل آزادی سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔ جمعیت کی شدید مخالفت کے باوجود کانگریس نے 5/نومبر1928ء کواس رپورٹ کو ایک سال کے لیے منظور کرلیا۔ لیکن جب کامل ایک سال گذرنے کے باوجودانگریزوں نے نہرو رپورٹ کو قابل اعتنا نہیں سمجھا، تو بالآخر مجبور ہوکر کانگریس نے بھی 28/دسمبر1929ء کو اس رپورٹ کو دریائے راوی کے حوالے کرتے ہوئے مکمل آزادی کی تجویز منظور کی۔ اور اسے عملی جامہ پہناتے ہوئے 12/مارچ1930ء کو نمک تحریک کا آغاز کیا۔
نمک تحریک اور جمعیت علمائے ہند کا دائرہئ حربیہ
اس تحریک کے لیے افراد مہیا کرنے کے مقصد سے جہاں کانگریس نے جنگی کونسل بنائی، وہیں جمعیت علمائے ہند نے 13/ جولائی 1930ء کو دائرہئ حربیہ کی تشکیل کرکے بے خطر میدان عمل میں کود پڑے،جن کی پاداش میں بھارتیوں نے قیدوبند کی صعوبتیں جھیلیں، 23/ اپریل 1930ء کو قصہ خوانی بازار میں نہتے مظاہرین پر گولیاں برسائی گئیں۔ 7/اکتوبر1930ء کو لاہور سازش مقدمے کے ذریعہ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو تختہئ دار پر لٹکانے کا جابرانہ فیصلہ کیا گیا، جس کے خلاف جمعیت علمانے 9/ اکتوبر 1930ء کو زبردست احتجاج کیا۔ ان قربانیوں نے ہندستان کو آزادی کے قریب کردیا۔
مجلس احرار اسلام ہند کا قیام
نہرو رپورٹ میں جہاں اقلیتوں کے مسائل و تحفظات کو یکسرنظر انداز کردیا گیا تھا، وہیں اسے دریابرد کرتے وقت مسلمانوں سے مشورہ لینا بھی مناسب نہیں سمجھا، جس سے دل برداشتہ ہوکر مسلمانوں کے کچھ رہنماؤں نے اپنی الگ تنظیم کی ضرورت کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے، 29/دسمبر1929ء کو کانگریس ہی کے پنڈال میں ”مجلس احرار اسلام ہند“ قائم کیا، جس نے آزادی ہند کی تحریکوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔
پہلی گول میز کانفرنس لندن کی مخالفت
تشدد اور عدم تشدد کی راہ سے ہندستانیوں نے اپنی آزادی کے لیے جو جنگ چھیڑ رکھی تھی، سائمن کمیشن کی ناکامی نے ہندستانی برطانوی سیاست دانوں کومذاکرات کی میز پرآنے پر مجبور کیا۔ چنانچہ31/اکتوبر1929ء کو وائسرائے ہند لارڈارون نے ایک اعلان کے ذریعہ، 12/ نومبر1930ء تا 19/جنوری 1931ء گول میز کانفرنس لندن منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ چوں کہ جمعیت علما انگریزوں کی فریب کاریوں سے بہ خوبی واقف تھی، اس لیے اس سے پہلے ہی 7/ نومبر 1929ء کو ایک بیان سے، بعد ازاں 10/جون 1930ء کو ایک عظیم الشان اجلاس کے ذریعہ اس میں شرکت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ہندستان کی اقلیت وا کثریت میں باہمی اتحاد اورمشترکہ مطالبات کا فیصلہ نہیں ہوگا، اس وقت تک کوئی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس نتیجہ خیز نہیں ہوسکتی۔
ہندو مسلم اتحاد کو متعدد کوششیں
برطانوی حکومت ہند نے ایک عذر لنگ یہ بھی پیش کیا تھاکہ ہندستانی فرقہ وارانہ خطوط میں تقسیم ہیں، آخر حکومت خود اختیاری دی جائے، تو کس فرقہ اور مذہب کو دی جائے، جس کے لیے ہندستانیوں نے ہندو مسلم مفاہمت کی حتی الامکان کوشش کی۔ چنانچہ اس کے لیے 9/ستمبر 1927ء کو منعقد ایک مشترک اجلاس میں ہندو مسلم دونوں نے اپنے مطالبات کی فہرست پیش کی، لیکن 13/ستمبر1927ء کو گائے اور مسجد کے سامنے باجا بجانے کے مسئلے پر اتحادنہ ہوسکنے کی وجہ سے اتحاد کمیٹی ناکام ہوگئی۔ لیکن 27-28/اکتوبر1927ء کو منعقد اجلاس میں اتحاد پیدا کرنے کی دوبارہ کوشش کی گئی۔ ہندو مسلم اتحاد کی کوششیں جاری تھیں کہ انگریزوں کی ایک خفیہ سازش کے تحت توہین رسالت پر مبنی کتاب”رنگیلا رسول“ کے مقدمہ میں، اس کے ناشر راجپال کو 5/مئی 1927ء کو بری کردیا، اس سے حوصلہ پاکر کچھ اخبارات و رسائل نے بھی خاتم الانبیا ﷺ کی ذات گرامی پر کیچڑ اچھالا، جن سے ہندو مسلم کی اتحاد کی بنیادیں کمزور پڑنے لگیں۔ جمعیت علما نے جہاں ایک طرف توہین رسالت کے مجرمین کے خلاف ملک گیر احتجاج کیے اور سخت قانونی کارروائی کی جدوجہد کی، وہیں حصول آزادی کے لیے ہندومسلم اتحاد کے لیے کوششیں برابر جاری رکھیں۔چنانچہ یکم جنوری 1929ء کو منعقد آل انڈیا مسلم کانفرنس میں مسلمانوں کے مذہبی و قومی حقوق کے تحفظ کے لیے ان کا ایک متفقہ فا رمولا تیار کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔علاوہ ازیں 3-6/مئی 1930ء کے نویں اجلاس عام میں نہ صرف ہند و مسلم کا مشترکہ پلیٹ فارم کانگریس سے عملی طور پر شراکت کی؛ بلکہ باہمی اتحاد کے خلاف کام کرنے والے آریوں اور مہاسبھائیوں کو کانگریس سے باہر نکالنے کا مطالبہ بھی جاری رکھا۔
پہلی اور دوسری گول میز کانفرنس لندن کا حشر
تحریک سول نافرمانی اور بدیشی مال کے بائیکاٹ نے تخت لندن کو ہلاکر رکھ دیا۔چنانچہ جون1929ء میں برطانیہ کے عام انتخابات کے نتیجے میں جب ریمزے میکڈونالڈ (Ramazy Mac Donald )وہاں کا وزیر اعظم بنا، تو انھوں نے ہندستان کے بارے میں اپنے مشیروں کے ساتھ صلاح ومشورے کے بعد سر جان سائمن کی سفارش منظور کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ برطانوی ہند میں آئینی تعطل کو دور کرنے کے لیے بھارت کے لیڈروں کو لندن بلاکر آئین کے بارے میں ان کی باہمی رضامندی حاصل کیا جائے۔
بظاہراسی مقصد سے 10/ نومبر 1930ء، تا 19/ جنوری 1931ء تک پہلی گول میز کانفرنس لندن منعقد ہوئی۔لیکن برطانوی حکمت عملی کی وجہ سے یہ کانفرنس ہندو مسلم بحث کا اکھاڑا بن گئی، کیوں کہ مسلمانوں نے مسٹر جناح کے بجائے سرآغا خاں کواپنا نمائندہ منتخب کیا، اور انھوں نے اپنی تمام تر وکالت سر محمد شفیع کے سپرد کردی، اس لیے مسٹر جناح کانفرنس میں شرکت کے باوجود الگ تھلگ رہے۔ جمعیت علمائے ہندنے10/جون 1930ء کو ہی اس میں شرکت کی مخالفت کرتے ہوئے فیصلہ کردیا تھا کہ ہندستان کی اقلیت وا کثریت میں باہمی اتحاد اورمشترکہ مطالبات کا فیصلہ کیے بغیر کوئی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتی۔کانگریس نے بھی شرکت سے انکار کردیا۔ اس کانفرنس کے ایک اجلاس میں مولانا محمد علی جوہر صاحب نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ: ”مائی لارڈ! تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کا دستور آج دنیا میں عام ہے، مگر ہندستان میں ہم تقسیم ہوتے ہیں اور آپ حکومت کرتے ہیں۔“
گاندھی ارون معاہدہ
قصہئ مختصر بھارتیوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے پہلی گول میز کانفرنس ناکام ہوگئی، تو برطانوی وزیر اعظم نے 19/جنوری 1931ء کو اور ہندستانی وائسرائے ارون نے 25/جنوری 1931ء کو ہندستانیوں کے ساتھ صلح کرنے کی پیشکش کی،جس کے نتیجے میں 5/مارچ 1931ء کو گاندھی ارون معاہدہ ہوا، جس کی رو سے جمعیت علما نے 19/مارچ 1931ء کو عارضی طور پر دائرہ ئ حربیہ کی سرگرمیوں کو مشروط طور پر ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا اور ہندو مسلم مسائل کے تصفیہ کے لیے 22/ مارچ 1931ء کو تحفظ حقوق مسلم پر مشتمل ایک مسودہ گاندھی جی کے حوالے کیا، تاکہ دوسری گول میز کانفرنس منعقدہ(از: 7 /ستمبر1931ء تایکم دسمبر1931ء) میں پیش کیا جاسکے۔ چوں کہ گاندھی جی کا اصرار تھا کہ کانگریس کو سارے ہندستانیوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کی جائے، جو تسلیم نہیں کیا گیا، اس لیے یہ کانفرنس بھی ناکام رہی۔
تیسری گول میز کانفرنس لندن کی ناکامی
گول میز کانفرنس کا تیسرا اور آخری دور 17/ نومبر 1932ء سے 24/ نومبر 1932ء تک لندن میں منعقد ہوا؛ لیکن کانگریس کی عدم موجودگی کے باعث کسی ٹھوس فارمولے پر اتفاق رائے نہ ہو سکا۔
قرطاس ابیض
گول میز کانفرنس کے اختتام پر حکومت برطانیہ نے مختلف کمیٹیوں کی رپورٹوں، سفارشوں اور تجاویز پر مبنی ایک وضاحتی قرطاس ابیض White paperمارچ 1933ء میں شائع کر دیا،جسے بھارتیوں نے بالکل بھی قبول نہیں کیا اور بھارت کی مکمل آزادی کے لیے دوبارہ سول نافرمانی کی تحریک چھیڑ دی۔ چنانچہ اس کے لیے جمعیت نے 29/فروری سے2/مارچ 1932ء کو مجلس عاملہ کا ایک اجلاس کیا، جس میں دیگر تجویزوں کے ساتھ تحریک سول نافرمانی کو پوری قوت کے ساتھ شروع کرتے ہوئے مجلس حربی کے تحت باقاعدہ ڈکٹیٹر ی نظام قائم کیا اوریکے بعد دیگرے بارہ ڈکٹیٹران حکومت کے جبروتشدد کے نشانہ بنے۔
فرقہ وارانہ مسائل کے تصفیہ کی کوششیں
برطانی حکومت ہند نے بھارتیوں کو آزادی دینے کے سلسلے میں ایک عذر لنگ یہ بھی پیش کیا تھا کہ سب ہندستانی فرقوں میں تقسیم ہیں، اگر حکومت منتقل بھی کی جائے، تو کس فرقے کو منتقل کی جائے۔ اسی کے ساتھ فرقہ وارانہ مسائل کے تصفیہ کا چیلنج بھی دیا۔ چنانچہ اس کے لیے 31/مارچ و یکم اپریل 1931ء کو منعقد دسویں اجلاس عام میں ہندو مسلم مفاہمت کا مسودہ تیارکرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور پھر 24/اپریل 1931ء کو ہندو مسلم متحدہ مطالبہ کا فارمولا تیار کرنے کے لیے ڈاکٹر مختار احمد انصاری صدر نیشنلسٹ مسلم کانفرنس سے خط و کتابت کی۔پھر 3/ اگست 1931ء کو ایک فارمولا بناکر پیش کیا۔بھارتیوں کی مختلف تنظیموں اور فرقوں کی طرف سے فرقہ وارانہ مسائل کے تصفیہ کی کئی قراردادیں پیش کرنے کے باوجود، ان میں سے کسی بھی قرارداد پر توجہ نہ دیتے ہوئے 16/اگست 1932ء کو برطانوی وزیر اعظم نے خود ہی کمیونل ایوارڈ (فرقہ وارانہ تصفیہ) شائع کیا، جس پر 20/اگست 1932ء کو جمعیت علما نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ فرقہ وارانہ مسائل کا فیصلہ ہندستانی خود کریں گے۔ بعد ازاں 15-16/ اکتوبر1932ء کو آل پارٹیز کانفرنس الٰہ آباد میں فرقہ وارانہ مسائل کے تصفیہ پر بحث و گفتگو کے بعد جمعیت کے فارمولے کو منظوری دی گئی۔پھر 3/نومبر 1932ء سے مسلسل سترہ دنوں تک مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کے درمیان فرقہ وارانہ حقوق پر بحث و گفتگو ہونے کے بعد ایک متحدہ مطالبہ کا مسودہ تیار کیا گیا۔بعد ازاں 10تا 12/ دسمبر1932ء کو لکھنو میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس کی گئی، جس میں الٰہ آباد کانفرنس کے فیصلوں کی منظوری دی گئی۔پھر 13/دسمبر سے 24/ دسمبر تک الٰہ آبا دمیں ایک اور کانفرنس ہوئی، جس میں لکھنو آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں کی جزوی ترمیم کے بعد منظوری دی گئی۔ ان تمام کانفرنسوں میں جمعیت علما نے اہم کردار ادا کیا، لیکن نشستوں کے تعین کو لے کر فیصلہ نہ ہوسکنے کی وجہ سے یہ کانفرنسیں اپنے مقصد میں ناکام ہوگئیں، اس پر جمعیت علما نے 19تا 21/اگست 1933ء کو منعقد مجلس عاملہ کے اجلاس میں سخت افسوس کا اظہار کیا۔
پارلیمنٹری کمیٹی کی رپورٹ کی مخالفت
پھرجب 1934ء میں سنٹرل اسمبلی کے الیکشن کا بگل بجا، توالیکشن میں مسلمانوں کی متحدہ آواز کے لیے ایک یونٹی بورڈ بنائی گئی۔ جمعیت علمانے حصول آزادی اور شرعی حقوق کے تحفظ کی ضمانت کے ساتھ اس کی تائید کی۔ اسی دوران 23/نومبر1934ء کو جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کی رپورٹ شائع کی گئی، جس پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے یکم دسمبر 1934ء کو جمعیت نے اسے قرطاس ابیض سے بھی بد تر قرار دے کر مسترد کردیا۔ اس کے بعد 24/جنوری 1935ء کو ایک میمورنڈم اور یکم فروری 1935ء کا انڈیا بل 1935ء کو شائع کیا گیا، جس کی 24/جون 1935ء کو پرزور مذمت کرتے ہوئے اسے قبول نہ کرنے کا اعلان کیا۔
انڈیا ایکٹ 1935ء اور الیکشن
کئی ماہ کی مسلسل بحث وگفتگو کے بعد2/ اگست 1935ء کو گیارہ بج کر چالیس منٹ پر ملک معظم نے انڈیا بل پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ اس طرح برطانوی شہنشاہ نے اپنے نزدیک ہندستان کو آزادی دے دی اورانڈیا ایکٹ 1935ء کو آخری شکل میں منظور کر لیا۔
مسلم یونٹی بورڈ کا قیام
اس ایکٹ کی رو سے جوکچھ بھی صوبائی خود مختاری ہندستان کو مل رہی تھی، اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا؛ البتہ 2/اپریل 1936ء کو منعقد مسلم یونٹی بورڈ میں مسلم لیگ کے بجائے اس بورڈ کے بینر تلے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا گیا۔
الیکشن کے نتائج
جنوری 1937ء سے الیکشن کا آغاز ہوا اور ہندستان کے کل گیارہ صوبوں میں انتخابات ہوئے۔ اس انتخاب میں جمعیت علمائے ہند نے بہار میں مسلم انڈی پینڈنٹ پارٹی کی، یوپی میں مسلم لیگ کی اور صوبہ سرحد اوردیگر ریاستوں میں کانگریس کی حمایت کی۔ اورمختلف صوبوں کا دورہ کرکے حمایت کردہ پارٹی کے امیدواروں کے حق میں ووٹ دینے کی تحریک چلائی۔ چوں کہ یہ الیکشن جداگانہ انتخاب کے اصول پر مبنی تھا، اس لیے مسلم لیگ نے مسلم حلقوں میں اور کانگریس نے اپنے ہندو مسلم حلقوں میں زبردست کامیابی حاصل کی، جس کی وجہ سے بعض کانگریسی لیڈروں نے کامیابی کے زعم میں یہ بیان دینا شروع کردیا کہ حکومت سازی میں مسلم لیگ سے تعاون کی ضرورت نہیں، اس پر جمعیت علما نے تنبیہ کرتے ہوئے 13/مارچ 1937ء کو گاندھی جی سے ملاقات کی اور اس فکر کو قومی یک جہتی کے لیے سم قاتل قرار دیا۔
یکم اپریل 1937ء سے انڈیا ایکٹ 1935ء کو نافذ العمل قرار دیا گیا، جمعیت علما نے اس سے پہلے ہی 24/مارچ 1937ء کویوم نفاذکو یوم مخالفت آئین کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔
قبول وزارت کے مسئلے کا حل
چوں کہ انڈیا ایکٹ 1935ء میں کل اختیارات انگریز گورنروں کو دیے گئے تھے، اس لیے انتخاب میں بھاری کامیابی کے باوجود کانگریس نے وزارت قبول نہ کرنے کا فیصلہ لیا، گاندھی جی نے مشورہ دیا کہ گورنروں سے عدم مداخلت کی تحریر لینے کے بعد وزارت قبول کریں؛جب کہ اس کے برعکس جمعیت علما نے 24/مارچ 1937ء کویہ فیصلہ کیا کہ بلا شرط وزارتیں قبول کی جائیں، جسے بعد میں کانگریس نے بھی تسلیم کیا اور حکومت سازی کی۔
اکابرین جمعیت کے مسلم لیگ سے استعفے
5/ اپریل کو ایک میٹنگ میں فیصلہ کرنے کے بعد 26/اپریل کو اکابرین جمعیت نے مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ کی رکنیت قبول کی تھی؛ لیکن مسٹر جناح کی اسلام مخالف پالیسی، فرقہ وارانہ خطوط پر جداگانہ انتخاب کے مطالبہ اور مکمل آزادی کی حمایت نہ کرنے کی وجہ سے 17/ مئی 1937ء کو الٰہ آباد نیشنلسٹ کانفرنس میں بشمول جمعیت علمائے ہند تمام مسلم جماعتوں نے متفقہ طور پر کانگریس میں شرکت کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ کی رکنیت سے استعفی دے دیا۔
کانگریس اور مسلم لیگ میں مفاہمت کی کوششیں
جب پنڈت جواہر لال نے الیکشن میں ملی کامیابی کے زعم میں یہ کہہ دیا کہ ملک میں صرف دوہی جماعتیں ہیں: کانگریس اور گورنمنٹ، تو مسٹر جناح کو اُن سے شکایت پیدا ہوگئی اور انھوں نے جواب میں اعلان کیا کہ ملک میں ایک تیسری جماعت مسلم لیگ بھی ہے۔یہ بدمزگی کی بنیاد تھی۔ اسی طرح مسلم اقلیت کے تعلق سے کانگریس کی پالیسی واضح نہ ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ اور کانگریس میں مزید دوریاں پیدا ہوگئیں۔ جمعیت علمائے ہند نے دونوں میں دوریاں ختم کرنے کی انتھک کوششیں کیں۔ البتہ ملک کی آزادی کی خاطر کانگریس کے ساتھ اشتراک عمل کے فیصلہ پر قائم رہنے کا اعلان کیا۔
متحدہ قومیت
7/جنوری 1938ء کو حضرت شیخ الاسلام کی تقریر کے ایک جملہ ”قومیں اوطان سے بنتی ہیں، نسل، یا مذہب سے نہیں“ سے متحدہ قومیت اور وطنیت کے موضوع پر بحث کا ایک لامتناہی سلسلہ چھڑگیا، جس سے نظریہئ پاکستان کے لیے بحث کا دروازہ کھل گیا۔
9/جنوری1938ء کو صدرمسلم لیگ مسٹر جناح کو ایک تار بھیج کر یہ مشورہ دیا گیا کہ 3/ جنوری1938ء کو منعقد کانگریس کے اجلاس میں ہندو مسلم سمجھوتہ کے لیے مسٹر جناح کو مصالحت کی دعوت فیصلے کے تناظر میں بہتر ہے کہ پہلے مسلم کنونشن کرلیا جائے؛ لیکن صدر لیگ نے اس مشورہ کو ٹھکرا دیا؛ اس کے باوجود ہندستان کی مکمل آزادی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مسلم حقوق کے تحفظ کے لیے مسلم لیگ اور کانگریس میں مصالحت کرانے کی کئی کوششیں کی گئیں؛ لیکن لیگ کے بے جا مطالبات کی وجہ سے ساری کوششیں رائیگاں ہوگئیں۔
فوجی بھرتی بل کی مخالفت
ہونے والی جنگ عظیم دو م کے لیے فوجی بھرتی کے لیے لائے گئے بل کی مخالفت کرتے ہوئے یکم ستمبر1938ء کو جمعیت علما نے اپیل کی کہ نوجوان اس میں بالکل بھی حصہ نہ لیں۔
جنگ عظیم دوم میں شرکت نہ کرنے کا اعلان عام
3/ ستمبر 1939ء سے دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا، جس میں برطانوی ہند نے ہندستانیوں سے مشورہ کیے بغیر جنگ میں بھارت کی شمولیت اعلان کردیا۔ اس کے خلاف 14/ ستمبر کو کانگریس نے اور 16تا 18/ ستمبر کو جمعیت علمائے ہند نے طویل غورو فکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اپنی محکومیت کی عمر بڑھانے کے لیے ہم ہرگز جنگ میں شرکت نہیں کریں گے۔ اور برطانی ہند کے خلاف عملی طور پر مظاہرہ کرتے ہوئے 31/ اکتوبر تک کانگریسیوں نے وزارت سے استعفے دے دیے۔ جب کہ قادیانیوں اور مسلم لیگ نے جنگ میں برطانوی ہند کی حمایت کی اور وزارت کے استعفیٰ کو اپنے لیے ایک موقع سمجھتے ہوئے 22/ دسمبر کو ”یوم نجات“ منانے کا اعلان کیا۔ چوں کہ اس سے فرقہ وارانہ فسادات بھڑک اٹھنے اور ہندستان کی آزادی سے مسلمانوں کی بیزاری کا اظہار ہوتا تھا، اس لیے مولانا ابوالکلام آزادؒ اور دیگر مسلم لیڈروں نے مسلم لیگ کے اس رویہ کو تباہ کن قرار دیا۔
مولانا ابوالمحاسن محمدسجاد صاحب کا وائسرائے ہند کو دو ٹوک جواب
13/جنوری 1940ء کو حضرت مولانا ابوالمحاسن محمدسجاد صاحب نے وائسرائے ہند کو مکتوب لکھ کر واضح کردیا کہ ہم اپنی غلامی کی زندگی کو دراز کرنے کے لیے برطانیہ کے ساتھ جنگ عظیم دوم میں شرکت نہیں کریں گے۔
قرارداد لاہور، یعنی نظریہ پاکستان کی مخالفت
برطانیہ نے ہندستان سے جنگ عظیم دوم کے درمیان امداد و تعاون کی خواہش کا اظہار کیا، جس پر جمعیت اور کانگریس نے مکمل آزادی اور مسلم لیگ نے مذہبی خطوط پر وطن کو تقسیم کرنے اور مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ تنظیم تسلیم کرنے کی شرط رکھی۔ حکومت نے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دونوں بڑی اکثریتی قومیں اگر متحدہ آواز سے کوئی بات کہیں، تو حکومت ہند اس پر غور کرے گی۔ چنانچہ اس کے لیے 3،4/ مارچ1940ء کو جمعیت نے مجلس عاملہ کے اجلاس میں آل پارٹیز آزاد مسلم کانفرنس کی داعی ہونے کا فیصلہ لیا۔ اسی طرح آرمی بل کے تحت ہندستانیوں کو فوج میں بھرتی کرنے کے خلاف مجلس احرار اسلام کے کارکنان نے پنجاب میں تحریک چھیڑ رکھی تھی، جس پر حکومت ڈیفنس ایکٹ کے تحت اس کے کارکنان کو اندھا دھند گرفتار کر رہی تھی، مجلس عاملہ نے اس پر ایکشن لیتے ہوئے حکومت پنجاب کی سرزنش کی۔
”23/ مارچ1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس لاہور کے منٹو پارک میں محمد علی جناح کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس میں وفاق سے گریز اختیار کرتے ہوئے ایک قرار داد منظور کی، جو بعد میں ”قرار داد پاکستان“ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس میں مسلمانوں کی آبادی کی اکثریتی متصل علاقوں پر مشتمل ہندستان کے شمال مغرب اور مشرق میں آزاد خود مختار ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اس پر سب سے زیادہ خوشی برطانوی حکومت کو ہوئی؛ کیوں کہ اسے کانگریس کے مقابلے پر ایک مؤثر ہتھیار مسلم لیگ کی صورت میں ہاتھ لگ گیا تھا۔“
اسی قرارداد پاکستان کے خلاف ہندستانی مسلمانوں کی طرف سے متفقہ آواز اٹھانے کے لیے،بشمول جمعیت علمائے ہند،نو مسلم سیاسی جماعتوں نے 27/تا 30/اپریل 1940ء کو دہلی میں آل پارٹیز آزاد مسلم کانفرنس کرکے نظریہئ پاکستان کو مسترد کرتے ہوئے ہندستان کی مکمل آزادی کا مطالبہ دہرایا۔
رہ نمایان قوم کی اندھا دھند گرفتاریاں
13و 14/ جولائی 1940ء کو دہلی میں مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا،جس میں جنگ میں تعاون نہ کرنے اور مکمل آزادی کے مطالبہ کے جرم میں ڈیفینس آف انڈیا ایکٹ کے تحت مجاہدین آزادی کی اندھا دھند گرفتاری کو حکومت کی متشددانہ کارروائی قرار دیا۔ 12/ جولائی 1940ء کو کانگریس کے صدر مولانا ابوالکلام آزادؒ نے مسٹر جناح کو ایک تار بھیج کر یہ مطالبہ کیا تھاکہ ملک اور قوم کے بہترین مفاد پر مشتمل آزاد ہندستان کا دستور مرتب کرنے میں تعاون کریں؛ لیکن مسٹر جناح نے اس میں نہ صرف تعاون نہ کرنے کا جواب دیا؛ بلکہ تار کے جواب میں جو زبان اور لہجہ استعمال کیا، اس پر آزاد قومی صحافت، سنجیدہ لیگی حلقوں اور جمعیت علمائے ہند نے اپنی سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
جنگ عظیم دوم میں ہندستانیوں کا تعاون حاصل کرنے کے لیے حکومت نے لچک رویہ اختیار کرتے ہوئے 8/ اگست 1940ء کوہندستان کے کچھ نمائندہ لیڈروں کو اپنی ایگزیکیٹو کونسل میں شامل کرنے اور جنگ کے بعدمشاورتی کونسل قائم کرنے کی پیش کش کی۔ چوں کہ دوران جنگ قومی گورنمنٹ، یا بااختیار کیبنٹ کا فیصلہ نہیں کیا گیا تھا، اس لیے کانگریس نے بھی اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا اور 12/ اگست 1940ء کو ناظم عمومی جمعیت علمائے ہند ابوالمحاسن حضرت مولانا محمد سجاد صاحبؒ نے ایک اخباری بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت علما اس طرح کی کسی بھی پیش کش کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، جس میں ہمارے فطری حق، یعنی مکمل آزادی کو تسلیم نہ کیا گیا ہو۔
اسی طرح تعاون کی پیشکش پر حکومت برطانیہ کی طرف سے لالچ دینے کو وعدہئ محبوب بتاتے ہوئے اعلان کیا کہ اس جنگ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔
29و 30/ ستمبر و یکم و2/ اکتوبر 1940ء کو منعقد مجلس عاملہ کی آخری تجویز میں جمعیت علمائے ہند نے حکومت کے تعاون کو ناجائز قرار دیتے ہوئے مکمل آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
انفرادی ستیہ گرہ
ہندستان کے وائسرائے لارڈ لن لتگھونے بھارتیوں کی رائے لیے بغیرجرمنی کے خلاف دوسری عالمی جنگ میں ہندستان کی شمولیت کا اعلان کردیا، اسی طرح ڈیفینس آف انڈیاایکٹ 1939ء پاس کرتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی پر پابندی لگادی،جس سے پورا بھارت انگریزوں کے خلاف مشتعل ہوگیا۔ اس کے خلاف جب کانگریس نے 11/ اکتوبر 1940ء کوانفرادی ستیہ گرہ تحریک کا آغاز کیا، تو جمعیت علمائے ہندنے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور نظم وضبط قائم رکھنے کے لیے مجلس عاملہ منعقدہ:5،6/ جنوری 1941ء میں دس نکاتی ہدایات جاری کیں۔ یہ تحریک دوسرے مرحلے کے طور پر جنوری 1941ء میں شروع ہوئی اور دسمبر 1941ء میں اختتام پذیر ہوئی۔
کرپس اسکیم
ادھرایک طرف جاپان جرمنی کا ساتھ دیتے ہوئے جنگ میں کود پڑا، تو وہیں دوسری طرف آزادی ہند فوج نے بھی امپھال کا محاصرہ کرکے ”چلو چلو دلی چلو“ کا نعرہ دیا، جس نے ہندستان میں انگریز حکومت کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں۔علاوہ ازیں مکمل آزادی کے نعرے کے ساتھ سول نافرمانی کی تحریک نے حالات کو اوردھماکہ خیز بنادیا۔ ان حالات کے پیش نظر حکومت برطانیہ نے 11/ مارچ 1942ء میں اسٹفرڈ کرپس(Stafford Cripps) کو،تمام اہم سیاسی پارٹیوں کے لیڈران اور والیان ریاست کے نمائندوں سے گفتگو کرنے کے لیے ہندستان بھیجا۔ کرپس نے 29/ مارچ 1942ء کو اپنی تجویز پیش کردی۔چوں کہ اس میں ہندستان کی مکمل آزادی کا تذکرہ نہیں تھا، اس لیے کانگریس نے اس کو کلیتاً مسترد کردیا اور فوری طور پر ملک میں خود مختار حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔ مسلم لیگ نے بھی کرپس مشن کویہ کہہ کرقبول کرنے سے انکارکردیا کہ اس میں مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ مملکت کے قیام کے لیے کوئی ٹھوس ضمانت نہیں دی گئی ہے۔جمعیت چوں کہ انگریزوں کی عیارانہ فطرت سے بہ خوبی واقف تھی، اس لیے کرپس کی تجویز پیش کرنے سے پہلے ہی 20/21/22/ مارچ1942ء کواپنے تیرھویں اجلاس عام میں اس مشن کو مسترد کردیا، جس سے اس کو ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا۔
بھارت چھوڑو تحریک
جب کرپس مشن ناکام ہوگیا، توچرچل نے 12/ اپریل 1942ء کو اسے لندن واپس بلالیا اور وائسرائے ہند لن لتھگوکو حکم دیا کہ وہ بھارتیوں کی تحریک آزادی کو ظلم و تشدد سے کچل ڈالے۔ چنانچہ لن لتھگو نے ہندستانیوں پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑنا شروع کردیا اور داروگیر کی رفتار بڑھادی، جس سے عاجز آکر گاندھی جی نے کرو یا مرو کا نعرہ دیااور 14/ جولائی 1942ء کو کانگریس کی مجلس عاملہ نے”ہندستان چھوڑ دو“ تحریک(Quit India Movement) کی تجویز پاس کی۔بعد ازاں 7/ اگست 1942ء کواپنے عاملہ کے اجلاس میں اس قرارداد کی تصدیق کرتے ہوئے 8/ اگست 1942ء کو عملی طور پر تحریک کا آغاز کردیا،جس سے پورے ہندستان میں بھونچال آگیا۔انگریزوں نے کانگریس اور جمعیت علمائے ہند کے رہ نماؤں کو گرفتار کرنا شروع کردیا؛ حتیٰ کہ کانگریس کے صدر مولانا ابوالکلام آزاد ؒ، گاندھی جی اور دیگر بڑے رہ نماؤں کو9/ اگست 1942ء کو ہی گرفتار کرلیا۔ اسی طرح جمعیت علما نے 17-18/ اگست 1942ء کومجلس عاملہ کا اجلاس کیا، جس میں جنگ آزادی میں مسلمانوں کے کردار کے اعلان پرمبنی تجویز پاس کرکے اس کوہندستان کے گو شے گوشے میں پھیلادیا، جس کے نتیجے میں اس کے قائدین بھی تختہئ مشق ستم بنائے گئے اور شیخ الاسلام، مجاہد ملت اور سید الملت سمیت درجنوں شخصیات کو پابند سلاسل کردیاگیا، جس سے حالات مزید دھماکہ خیز ہوگئے۔ اس کے بالمقابل مسلم لیگ نے ہندستان چھوڑ دو تحریک کو بغاوت قرار دیتے ہوئے مسلمانوں سے اپیل کہ وہ اس تحریک سے لاتعلق رہیں؛ مگر مسلمانوں نے مسلم لیگ کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے، ہندستان آزاد ہونے تک تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
گاندھی جی نے ایام اسیری میں بھی ہندستان کی آزادی کے قابل قبول حل نکالنے کے لیے فروری 1943ء تک خط و کتابت کرتے رہے؛ لیکن وائسرائے ہند لن لتھ گو ٹس سے مس نہ ہوا۔ بالآخر گاندھی جی نے آخری ہتھیار کے طور پر 10/فروری سے 3/ مارچ 1943ء تک اکیس روز کا برت رکھا۔ برت کے اختتام کے موقع پرحضرت مولانا احمد سعید صاحب ؒ نائب صدر جمعیت علمائے ہندنے ایک صلح کانفرنس کی قیادت کی، جس کی وجہ سے آپؒ کو گرفتار کرلیا گیا۔
راجا فارمولا
قرارداد پاکستان کے بعد انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے درمیان مصالحت کرانے کی کئی کوششیں کی گئیں۔ چنانچہ اسی مقصد سے مسٹر راج گوپال آچاریہ سابق وزیر اعظم صوبہ مدراس نے 10/اپریل 1944ء کو ایک فارمولا مرتب کرکے مسٹر جناح کے پاس بھیجا،جو ”راجا فارمولا“ کے نام سے مشہور ہوا، لیکن 30/جولائی 1944ء کو مسٹر جناح نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ”یہ محض سایہ، چھلکا، پوپلا، لنگڑا، اپاہج اور کرم خردہ پاکستان ہے۔“
8-9/ نومبر1944ء کو مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا، جس میں جہاں کئی اور اہم فیصلے کیے گئے، وہیں جمعیت علمائے ہند اور کانگریس کے سیاسی اسیروں کو رہا کرنے کا پرزور مطالبہ کیا گیا۔
سپرو کمیٹی کی سفارشات اور جمعیت علمائے ہند کا فارمولا
جنگ عظیم دوم (یکم ستمبر1939ء-2/ ستمبر1945ء) کے دوران برطانوی حکومت ہند نے ہندستان کے آئینی مسائل حل کرنے کے بجائے بالکل خاموشی اختیار کرلی۔اسی آئینی جمود و تعطل کو ختم کرنے،اورہندستان کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کے مطالبے کو مد نظر رکھتے ہوئے غیر جماعتی کانفرنس کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی طرف سے23/جنوری 1945ء کو”سپرو کمیٹی کی سفارشات“ پیش کی گئیں۔ چوں کہ سپرو کمیٹی میں حق خود ارادیت کی کلیتا نفی، دستور ساز اسمبلی میں اچھوتوں کے لیے جداگانہ نیابت کا استحقاق اور آئندہ آزاد حکومت کی تشکیل کی بعض تفصیلات جمعیت علما کے فیصلوں کے خلاف تھیں، اس لیے 31/جنوری تا 2/فروری 1945ء کو منعقد مجلس عاملہ کے اجلاس میں اس کی سفارشات کو نامنظور کرتے ہوئے آزاد بھارت کے آئین میں مسلمانوں کی حقیقی پوزیشن واضح کرتے ہوئے 3/ اگست 1931ء کا ہی کے منظور کردہ فارمولا پیش کیا گیا، جو تاریخ میں ”جمعیت علما کا فارمولا“ کے نام سے مشہور ہے۔اس فارمولے میں آزادیِ کامل، مسلم مذہب و تہذیب کی آزادی اور صوبوں کی مکمل خود مختاری کی دفعات شامل تھیں۔ علاوہ ازیں اقلیتوں پر اکثریت کے مظالم کی روک تھام کے لیے مرکزی ایوان کے ممبروں کی تعداد میں 45/ فی صد ہندو، 45/ فی صد مسلم اور 10/فی صد دیگر اقلیتوں کی سیٹیوں کی تخصیص، سپریم کورٹ میں مسلم و غیر مسلم ججوں کی تعداد کی برابری کے مطالبہ کے علاوہ یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ مرکزی حکومت میں اگر کسی بل، یا تجویز کو مسلم ارکان کی دو تہائی اکثریت اپنے مذہب، یا اپنی سیاسی آزادی، یا اپنی تہذیب و ثقافت پر مخالفانہ اثر انداز قرار دے، تو وہ بل، یا تجویز ایوان میں پیش،یا پاس نہ ہوسکے گی۔
واویل پلان
وائسرائے ہند لن لتھ گو کی تشدد آمیز حرکتوں کے باوجود بھارتیوں کا جذبہئ آزادی سرد نہیں ہوا، تو حکومت برطانیہ نے یکم اکتوبر 1943ء میں واویل کو ہندستان کا وائسرائے بناکر بھیجا۔ واویل نے ہندستان کے مسائل حل کرنے کے لیے واویل پلان(Wavell Plan) پیش کیا۔اس پلان کے مطابق بھارت میں عارضی حکومت قائم کرنے کے لیے مختلف مذاہب کے لیڈروں پر مشتمل چودہ افراد کی ایک ایگزی کیٹو کونسل (Executive Council)تشکیل دینا تھا۔ جمعیت نے اس پلان پر غوروخوض کے لیے 28/ جون 1945ء کو مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا، جس میں دوسری تنظیموں کے لیڈران بھی مدعو تھے۔ اس مشترک اجلاس میں ہندستان کے آئینی مسئلے کے حل ہونے کی امید پر یہ فیصلہ لیا گیا کہ واویل پلان عارضی وقت کے لیے مناسب ہے۔
واویل پلان کے مطابق ایگزی کیٹو کونسل کے 14/ممبران کے لیے چھ نام کانگریس کو، پانچ نام مسلم لیگ کو اور تین نام دیگرفرقوں کی طرف سے پیش کیے جانے تھے۔ حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ کے حسن تدبر سے کانگریس نے اپنے کوٹے کو اس طرح تقسیم کیا تھا کہ اعلا ہندو تین، سکھ ایک، اچھوت ایک، مسلمان ایک۔اس کونسل کے لیے مسلم کو منتخب کرنے کا مسئلہ درپیش ہوا، تو کانگریس کے صدر حضرت مولانا ابوالکلام آزاد صاحبؒ کی دعوت پر3،4/ جولائی 1945ء کوحضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحب ؒصدر جمعیت علمائے ہند اورناظم عمومی حضرت مولانا محمد حفظ الرحمان صاحبؒ شملہ تشریف لے گئے اور ناموں کے انتخاب میں کانگریس کی رہ نمائی کی۔ کانگریس نے نام پیش کردیے؛ مگر مسلم لیگ نے اس بات پر اصرار کرتے ہوئے نام پیش کرنے سے انکار کردیا کہ کانگریس ہندوؤں کی جماعت ہے، اس لیے اسے مسلمان ممبروں کو نام زد کرنے کا حق نہیں ہے۔یہ حق صرف مسلم لیگ کو ہے؛ کیوں کہ وہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ تنظیم ہے۔ اس بے جا اصرار کی وجہ سے 14/ جولائی 1945ء کو کانفرنس کی ناکامی کا اعلان کردیا گیا۔
مرکزی و صوبائی لیجس لیٹیو کونسل کے انتخابات کا اعلان
19/ ستمبر1945ء کو وائسرائے ہند واویل نے اعلان کیا کہ دسمبر 1945ء سے جنوری 1946ء کے درمیان مرکزی اور صوبائی لیجس لیٹیو کونسل کے انتخابات ہوں گے۔ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا کہ انتخابات کے بعد ایک ایگزی کیٹو کونسل تشکیل دی جائے گی اوراس کے بعد آئین سازی کے لیے اجلاس بلایا جائے گا۔
مسلم پارلیمنٹری بورڈ کی تشکیل
اس اعلان کے بعد جمعیت نے آزاد ہندستان میں دین و ملت کی آزادی، شریعت غرہ کے تحفظ، مسلمانوں کے باعزت مقام اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے آئندہ انتخابات میں علمائے کرام کی قیادت و شرکت کے حوالے سے غوروخوض کے لیے، مختلف مسلم تنظیموں اور لیڈروں پرمشتمل16تا 19/ستمبر 1945 ء کو ”مسلم آل پارٹیز کانفرنس“ بلائی، جس میں انتخابا ت میں مشترک طور پر حصہ لینے کے لیے متفقہ طور پر ”مسلم پارلیمنٹری بورڈ“ تشکیل دی گئی۔اور حضرت شیخ الاسلام ؒ کو بورڈ کا صدر منتخب کیا گیا۔بورڈ نے ہندستان کی مکمل آزادی اور جمہوریت کے نام پر ووٹ کی اپیل کی، جب کہ مسلم لیگ نے اسلامی مملکت کا دھوکہ دے کر حصول پاکستان کے نام پر ووٹ مانگا۔ لیگیوں نے الیکشن جیتنے کے لیے جمعیت کے رہ نماؤں؛بالخصوص حضرت شیخ الاسلامؒ، حضرت مجاہد ملتؒ،حضرت امام الہندؒ اوردیگر قومی قائدین کے ساتھ بد تمیزیوں کی انتہا کردی؛ حتیٰ کہ انھیں جان سے مارنے کی بھی کوششیں کیں۔لیکن یہ نڈر مجاہدین وطن و ملت اپنے مشن سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے۔
دوسری قسط کا انتظار
ان تحریکات کے علاوہ کیبنٹ مشن اور ماؤنٹ بیٹن کا تقسیم ہند پلان جیسی تحریکوں کے بعد 15/اگست 1947ء میں ہندستان میں آزادی کا سورج طلوع ہوا، جس پر ان شاء اللہ اس تحریر کی دوسری قسط میں جمعیت علمائے ہند کے کردار کا جائزہ لیا جائے گا۔
Like this:
Like Loading...
اس مضمون کی اشاعت کے لیے ہم آپ کے شکر گذار ہیں۔
محمد یاسین جہازی