Skip to content
	
		
					
											
							 
						 
					
					
					
						
							
	
		
		
				
			 
		 
		
	
		سیرتِ مصطفیٰﷺ کے درخشاں لمحات
(انقلاب آفرین دس ایّام)
✍۔مسعود محبوب خان (ممبئی)
09422724040
نبی اکرمﷺ کی ذاتِ گرامی ایک کامل، جامع اور ہمہ گیر اسوۂ حسنہ ہے۔ آپؐ کی حیاتِ طیبہ انسانیت کے لیے نور کا مینار، رہنمائی کا چراغ اور فلاحِ دارین کا ضامن ہے۔ وہ زندگی جو مکّہ مکرّمہ کی وادیوں سے اُبھری، مدینۂ منورہ کی گلیوں میں پروان چڑھی، اور عرفات کے میدان میں انسانیت کے لیے عالمی منشور بن کر گونجی ہر لمحہ بصیرت، حکمت اور ہدایت کا مظہر تھا۔ آپؐ کے شب و روز صرف ایک فرد کی نجی زندگی نہیں، بلکہ ایک الٰہی منصوبے کا عملی مظہر تھے، جو قیامت تک کے انسانوں کو روشنی، توازن اور نجات کا پیغام دیتا ہے۔
تاہم، اس ہمہ گیر زندگی میں کچھ ایّام ایسے بھی ہیں جو تاریخِ نبوت کے درخشاں ستارے ہیں، جنہوں نے نہ صرف آپؐ کی سیرت میں ایک نیا موڑ پیدا کیا، بلکہ انسانی تاریخ کے دھارے کو بھی بدل کر رکھ دیا۔ وہ دن جن میں وحی کا پہلا نزول ہوا، حق و باطل کا پہلا معرکہ لڑا گیا، امن کی پہلی عالمی دستاویز پیش کی گئی، یا عفو و درگزر کی لازوال مثال قائم ہوئی یہ سب دن صرف تاریخی واقعات نہیں، بلکہ پیغامِ ابدی کی تصویریں ہیں۔ یہ وہ ایّام ہیں جنہوں نے انسان کو ظلمت سے نکال کر نور کی طرف رہنمائی دی، غلامی کے طوق کو توڑ کر آزادی کا مفہوم سکھایا، اور انتقام کے تصور کو مٹا کر عدل و احسان کی بنیاد پر معاشرت کا سبق دیا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپؐ کی زندگی کا ہر دن ایک پیغام ہے، ہر رات ایک درس ہے، اور ہر لمحہ ایک آیتِ ہدایت ہے، جو ہر دور کے انسان کو دعوت دیتا ہے کہ آؤ، اپنی راہوں کو سیرتِ طیبہ کی روشنی سے روشن کرو، اپنے افکار کو نبوی بصیرت سے جِلا دو، اور اپنی تہذیب کو اُس مرکزِ نور سے وابستہ کرو جسے خالقِ کائنات نے تمام جہانوں کے لیے رحمت بنایا۔ ذیل میں رسول اللّٰہﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے دس ایسے اہم ایّام کا تذکرہ کیا جا رہا ہے، جو فکری، روحانی، اخلاقی، اور تمدنی اعتبار سے ہمارے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
1۔ یومِ ولادت – 12؍ ربیع الاوّل
تاریخ کے افق پر 12؍ ربیع الاوّل کا دن ایک ایسا نورانی لمحہ ہے جس نے صدیوں کی تاریکی کو چیر کر انسانیت کے لیے روشنی، رحمت، اور رشد و ہدایت کا در وا کیا۔ یہ وہ دن تھا جب مکّہ کی بے رنگ فضا میں حرا کی خاموش پہاڑیاں، زمزم کی لرزتی لہریں، بیت اللّٰہ کی خاموش دیواریں اور کائنات کی روحانی فضا سب ایک انوکھے سکوت میں ڈوبی ہوئی تھیں، گویا ہر شے ایک غیر معمولی ولادت کے انتظار میں سانس روکے کھڑی تھی۔ اور پھر… وہ لمحہ آیا، جب آمِنہ کے آنگن میں وہ نور اُترا، جس کی پیشین گوئیاں آسمانی صحیفوں میں ہو چکی تھیں، جس کی آمد پر قیصر و کسریٰ کے محلات لرز گئے، اور جس کے لیے حضرت ابراہیمؑ و حضرت اسماعیلؑ نے دعا کی تھی۔
یہ صرف ایک یتیم بچّے کی پیدائش نہ تھی، بلکہ یہ وہ لمحۂ مقدّس تھا جب ربِّ ذوالجلال نے اپنے محبوب کو اس دنیا میں بھیج کر رحمت کا ایسا دروازہ کھولا، جو تاقیامت بند نہ ہوگا۔ قرآن نے اس عظیم موقع کو یوں بیان کیا: "وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين”۔ "اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا” (الأنبیاء: 107)۔
آپؐ کی آمد عرب کی سنگلاخ سرزمین میں اخلاق، عدل، اخوت، صبر اور حلم کا وہ چشمہ لے کر آئی جس نے سسکتی انسانیت کو نیا حوصلہ، مظلوموں کو نئی پناہ، اور اندھیروں کو نیا چراغ عطا کیا۔ مکّہ کی گلیوں میں جہاں قریش کے قافلے تجارت کے سود و زیاں میں الجھے تھے، وہیں ایک خاموش، مگر انقلابی انقلاب نے جنم لیا جو آنے والے وقتوں میں سلطنتوں کے نقشے بدل دے گا، تہذیبوں کی بنیاد رکھے گا، اور دلوں کو ایمان کی حرارت سے منور کرے گا۔
یہ دن اس حقیقت کا اعلان ہے کہ انسانیت تنہا نہیں، ظلمتوں میں گم نہیں، اور محرومیوں کی شکار نہیں۔ ایک ایسا محسن آچکا ہے، جس کی نظرِ کرم سے غلام آزاد ہوں گے، یتیم سینے سے لگائے جائیں گے، عورت کو عزت ملے گی، اور کفر و شرک کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی۔ یہ وہ دن ہے جس نے تاریخ کو دو حصّوں میں تقسیم کر دیا: قبل از محمدﷺ اور بعد از محمدﷺ۔ اس دن کی عظمت محض ایک واقعہ نہیں، بلکہ ایک پیغام ہے یہ پیغام کہ ہر دور کے انسان کو نبیِ رحمتﷺ کے پیغام، سیرت اور سنّت سے روشنی لینی ہے، اور اسی روشنی میں اپنے شب و روز کو سنوارنا ہے۔
2۔ یومِ نبوت – 27؍ رجب
جب زمین پر ظلمت اپنے پنجے گاڑ چکی تھی، روحیں قیدِ جہالت میں کراہ رہی تھیں، عقلیں خرافات کے دھند میں بھٹک رہی تھیں، اور انسان اپنی فطرتِ سلیمہ کو کھو چکا تھا تب، ایک ایسا دن طلوع ہوا جس نے صدیوں کی خاموشی کو توڑ دیا۔ 27؍ رجب، شب کی تاریکی میں ایک ایسا لمحہ تھا، جس نے انسانی شعور کے بند دریچوں کو کھولا اور وحی کے نور سے فکر و فہم کی دنیا کو منور کر دیا۔ غارِ حرا کی خلوت میں ایک مردِ حق، جو قریش کے بازاروں، قبائلی فسادوں اور دنیاوی ہنگاموں سے الگ، فطرت کے سکوت میں اللّٰہ کی تلاش میں محوِ تفکر تھا، اُس کے قلبِ مطہر پر پہلی بار وحی نازل ہوئی۔ نہ کوئی پیشگی اعلان، نہ آسمانوں میں کوئی گرج بس ایک نورانی وجود، جبرائیل امین، اور ایک آسمانی آواز: "اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ”۔ "پڑھ اپنے ربّ کے نام سے جس نے پیدا کیا” (العلق: 1)۔
یہ صرف ایک لفظ "اقرأ” نہیں تھا، بلکہ علم، فکر، تحقیق، بیداری، اور انسانیت کی طرف ایک الٰہی پکار تھی ایک دعوت کہ وہ خوابیدہ اذہان جاگ اٹھیں، وہ گمشدہ قافلے اپنی منزل پہچانیں، اور وہ دل جو ظلم و جبر سے زنگ آلود ہو چکے تھے، الٰہی نور سے چمک اٹھیں۔ یہ دن وہ ہے جب آسمانِ ہدایت کا پہلا ستارہ طلوع ہوا۔ یہ پہلا پیغام اس بات کا اعلان تھا کہ اب انسان کو اندھی تقلید سے نجات ملے گی، جمود ٹوٹے گا، اور فکری بغاوت کی جگہ شعوری بندگی کا آغاز ہوگا۔ یہ دن عقل و وحی کے حسین امتزاج کی ابتدا ہے۔
غارِ حرا کی اُس گھڑی نے صرف ایک نبی کو نہیں جگایا، بلکہ پوری انسانیت کو جھنجھوڑا کہ اب خاموشی نہیں، اب سوال ہوگا، تلاش ہوگی، شعور ہوگا، اور سب سے بڑھ کر وحی کی روشنی میں زندگی گزارنے کا نیا اسلوب ہوگا۔ یہ وحی، قلم سے آشنائی کا پہلا قدم تھا، جس نے علم کو مقدّس بنایا، تعلیم کو عبادت کا درجہ دیا، اور معاشروں کو تہذیب کا لباس عطاء کیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جس سے نبوت کا باب کھلا اور آخری رسالت کا آغاز ہوا ایسی رسالت جو ابدی ہے، آفاقی ہے، اور سراسر رحمت ہے۔ یقیناً 27؍ رجب وہ دن ہے جب پہلا قطرہ وحی کا زمین پر گرا اور اُس نے صحرائے دل کو گلزارِ ہدایت میں بدل دیا۔
3۔ یومِ دعوتِ علانیہ – صفا کی پہاڑی پر خطاب
تاریخِ نبوت کا ایک یادگار دن جب خاموشی کی چادر چاک ہوئی، دعوتِ توحید نے گلیوں سے نکل کر پہاڑ پر قیام کیا، اور رسولِ رحمتﷺ نے پہلی بار علانیہ اعلانِ حق فرمایا۔ یہ وہ دن تھا جب تین سال کی خاموش، صبر آزما اور درپردہ دعوت کے بعد حکمِ ربانی نازل ہوا: "وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ”۔ اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ۔ (الشعراء: 214)۔ یہ محض ایک وحی نہیں تھی، بلکہ ایک الٰہی اذن تھا صداقت کے مینار سے، ظلمت میں گُم معاشرے کو للکارنے کا، ایک باطل پرست سماج کو آئینہ دکھانے کا، اور خاندانی محبتوں کے حصار کو توڑ کر حق کی دعوت کو بے لاگ انداز میں پیش کرنے کا۔
نبی اکرمﷺ صفا کی بلند پہاڑی پر کھڑے ہوتے ہیں۔ مکّہ کے قریش جن میں عزیز و اقارب، دوست و دشمن سب موجود ہیں آپؐ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جمع ہوتے ہیں۔ پھر وہ پہلی انقلابی تقریر، وہ پہلا بے خوف سوال، جو ابد تک دلوں کو ہلا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے: "اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کو تیار ہے، تو کیا تم میری بات مانو گے؟”۔ سب نے بیک زبان کہا: "ہم نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں پایا”۔
یہاں سے نبیﷺ نے وہ کلمۂ صداقت بلند کیا جو سچائی، جُرأت، اور خدائی پیغام کی پہلی علانیہ گونج تھی: "تو جان لو! میں تمہیں ایک سخت عذاب سے آگاہ کر رہا ہوں!”۔ یہ لمحہ محض ایک خطاب نہیں تھا، بلکہ نبوت کے مشن کا تاریخی پڑاؤ تھا جہاں سے نہ صرف پیغامِ توحید کا آغاز ہوا بلکہ نبویؐ اخلاق کی وہ رفعت بھی ظاہر ہوئی کہ آپؐ نے قرابت، دوستی یا خاندانی رشتے کی کوئی پروا نہ کی، صرف حق کی صداقت اور انسانیت کی خیر خواہی کو سامنے رکھا۔
یہ وہ دن تھا جب محمد بن عبد اللّٰہﷺ، محمد رسول اللّٰہﷺ بن کر منظرِ عام پر آئے۔ یہ دن ان تمام انقلابیوں کے لیے ایک درس ہے جو سچ کہنا چاہتے ہیں، مگر رشتوں، روایات اور خوف کے دائرے میں قید ہیں۔ صفا کی پہاڑی سے بلند ہونے والی وہ آواز آج بھی تاریخ کی گونجتی دیواروں سے ٹکرا رہی ہے، آج بھی وہی صدا ہمیں بلاتی ہے کہ اگر ہم سچ پر ہیں تو پھر رشتوں کا لحاظ، دنیا کا خوف، اور تنہائی کا اندیشہ ہمیں رکنے نہ دے کیونکہ راہِ حق پر پہلا قدم ہمیشہ تنہا ہوتا ہے، لیکن اسی میں بقاء ہے، فتح ہے، اور رضائے الٰہی ہے۔
4۔ یومِ طائف – صبر، عفو اور انقلابی عزم کا آسمانی منظر
تاریخِ نبوت کا یہ لمحہ، جو بظاہر شکست، اذیت اور تنہائی کی تصویر ہے درحقیقت، انسانی برداشت، ربانی تعلق اور اخلاقی بلندی کی وہ انتہاء ہے جہاں آسمان بھی جھک کر سلام کہتا ہے۔ یہ دن، جسے ہم "یومِ طائف” کے نام سے یاد کرتے ہیں، محض نبی کریمﷺ کے جسم پر پتھروں کے نشان کا حوالہ نہیں، بلکہ ایک ایسے دل کی جھلک ہے جو درد سہتا ہے، مگر دشمن کو بد دعا نہیں دیتا؛ جو زخمی ہوتا ہے، مگر ہدایت کی تمنا سے خالی نہیں ہوتا۔ جب اہلِ مکّہ کی سنگدلی اور ظلم کی انتہا ہو چکی، جب طائف کی طرف سفر کیا گیا کہ شاید اہلِ طائف حق کی آواز پر لبیک کہیں گے، مگر وہاں بھی پتھروں سے استقبال ہوا، گلیوں میں تمسخر اڑایا گیا، غلاموں اور اوباشوں کو پیچھے لگا دیا گیا۔ نعلین لہو سے تر، قدموں میں لرزش، دل میں تڑپ، اور چہرے پر صبر کا نور۔ اس حالت میں جب ملائکہ نے اجازت مانگی کہ اگر چاہیں تو ان پہاڑوں کو ان لوگوں پر ملا دیں تو جواب کیا تھا؟ "اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ”۔ "اے اللّٰہ! میری قوم کو ہدایت دے، کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے”۔
کیا دنیا نے کبھی ایسا منظر دیکھا کہ جس نے تمہیں پتھروں سے زخمی کیا، تم اسی کے لیے دعا بن کر جھک گئے؟ یہ دن سراپا رحمت نبیؐ کی وہ جھلک ہے جہاں نفسِ انسانی کو ہدایتِ الٰہی کے سانچے میں ڈھالنے کا سب سے بلند معیار نظر آتا ہے۔ یہ دن، رسولِ اکرمﷺ کے اُس انقلابی عزم کا مظہر ہے جو سنگ باری سے نہیں، صداقت سے شکست دیتا ہے؛ جو انتقام سے نہیں، عفو و رحمت سے دلوں کو مسخر کرتا ہے۔ طائف کے یہ لمحے ہمیں بتاتے ہیں کہ نبوت محض وحی اور معجزے کا نام نہیں، بلکہ صبر کی چٹان، اخلاق کی مشعل، اور عفو کی بارش کا عنوان ہے۔
"یومِ طائف” دراصل اس بات کی دلیل ہے کہ دعوتِ حق کی راہ میں جس نے کمالِ اخلاق، وسعتِ ظرف، اور جذبۂ ہدایت کو اختیار کیا، اُسی نے دلوں کو جیتا اور تقدیروں کو بدلا۔ آج اگر کوئی داعی، مفکر، یا انقلابی سچائی کی راہ پر قدم رکھے، اور طائف جیسے حالات کا سامنا کرے، تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ طائف کے پتھروں سے کہیں زیادہ قیمتی وہ دعا تھی جو ان پتھروں کے جواب میں آسمان کی طرف اٹھی اور وہی دعا انسانیت کے لیے ابدی روشنی بن گئی۔
5۔ یومِ ہجرت – مکّہ سے مدینہ کی طرف روانگی
یہ رات صرف مکّہ کی گلیوں میں خاموشی کا سایہ نہ تھی، بلکہ تقدیرِ انسانیت کے ایک عظیم باب کے آغاز کی تمہید تھی۔ یہ رات صرف نیند سے محروم آنکھوں اور ہولناک سازشوں کی نہیں تھی، بلکہ توکل، تدبیر، اور ربانی رفاقت کی روح پرور کہانی تھی۔ "یومِ ہجرت” جسے عام نظر شاید محض مقام کی تبدیلی سمجھے، حقیقت میں وہ لمحہ تھا جب باطل کے مقابلے میں حق کی ایک مستقل ریاست کا خواب تعبیر کی دہلیز پر آیا۔ جب اہلِ مکّہ نے رسولِ اکرمﷺ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا، تو ہر قبیلے کے افراد پر مشتمل ایک خونی منصوبہ تیار ہوا۔ لیکن جسے اللّٰہ بچانا چاہے، اسے کوئی چھو نہیں سکتا۔ نبیِ کریمﷺ نے حضرت علیؓ کو بستر پر سُلا کر دشمن کی آنکھوں میں خاک ڈال دی، اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ وہ مبارک سفر اختیار کیا جسے تاریخ "ہجرت” کے نام سے جانتی ہے۔
غارِ ثور کی تاریکی میں چھپے دو مسافر مگر حقیقت میں وہ روشنی کے امین تھے۔ باہر کفار کے قدموں کی چاپ، اندر ایمان کا سکون۔ اور پھر وہ آیت، جو رہتی دنیا تک ہر مومن کے دل کو سہارا دیتی رہے گی: "إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا”۔ "جب انہوں نے اپنے ساتھی سے کہا: غم نہ کرو، اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے” (التوبہ: 40)۔ یہ صرف تسلی کا جملہ نہیں تھا، بلکہ ایک نظریہ تھا کہ اگر دل اللّٰہ سے جُڑے ہوں، تو پہاڑ کی تاریکی، تلواروں کی گھن گرج، اور دشمنوں کی منصوبہ بندی بھی دل کو خوف زدہ نہیں کر سکتی۔ یہ جملہ قیامت تک اُن سب کے لیے روحانی سہارا ہے جو ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، جو حق کی راہ میں تنہا ہوں، اور جو توکل کی دولت سے مالا مال ہوں۔
ہجرت صرف جسمانی نقل مکانی نہ تھی، بلکہ فکری اور تمدنی انقلاب کی ابتدا تھی۔ مدینہ کی زمین نے صرف ایک مسافر کو پناہ نہیں دی، بلکہ ایک آسمانی نظامِ حیات کو خوش آمدید کہا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب اسلام نے محض تبلیغی مرحلے سے نکل کر اجتماعی و سیاسی زندگی میں قدم رکھا۔ مسجدِ نبوی کی بنیاد، مواخاتِ مدینہ کا قیام، اور پہلا اسلامی ریاستی دستور سب اسی ہجرت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ یومِ ہجرت ہمیں سکھاتا ہے کہ کبھی کبھی دین کی سربلندی کے لیے گھر، زمین، دوست، مال، اور ماضی کی راحتیں ترک کرنا پڑتی ہیں؛ کہ سچائی کی حفاظت صرف الفاظ سے نہیں، قربانی اور عزم سے ہوتی ہے؛ اور یہ کہ نئی منزل کی طرف اٹھنے والا ہر قدم، اللّٰہ کی معیّت کا پروانہ ساتھ لے کر چلتا ہے۔ یقیناً "یومِ ہجرت” ہمارے لیے فقط ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ توکل، تدبیر، قربانی، اور ربانی رفاقت کا دائمی سبق ہے۔
6۔ یومِ برّات – غزوۂ بدر (17؍ رمضان)
رمضان کا مقدس مہینہ، 17؍ تاریخ، دو گروہ ایک حق پر، دوسرا باطل پر۔ ایک طرف 313؍ جانباز، نہتی فوج، پھٹے پرانے ہتھیار، پیروں میں گرد، دلوں میں یقین۔ دوسری طرف مکّے کے نامی گرامی سردار، طاقتور لشکر، ساز و سامان سے آراستہ، عدد میں تین گنا، اور تکبر سے بھرے ہوئے۔ بدر کا میدان تاریخ کا وہ گوشہ بن گیا جہاں اللّٰہ نے واضح کر دیا کہ فتوحات عدد، ہتھیار اور منصوبہ بندی پر نہیں، ایمان، اخلاص اور توکل پر منحصر ہوتی ہیں۔ یہ دن قرآن نے "یومُ الفرقان” کے لقب سے یاد کیا: "وَيَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ”۔ یہ فرق کرنے والا دن تھا، جس دن دو جماعتیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں (الأنفال: 41)۔
یہ دن انسانیت کے لیے ایک ناقابلِ فراموش سبق ہے کہ سچائی اگر کمزور ہاتھوں میں ہو تب بھی غالب آتی ہے، بشرطیکہ اس کے پیچھے آسمانی تائید اور ایمانی حرارت ہو۔ بدر کے دن آسمان جھک آئے، فرشتے زمین پر اترے، اور ربِّ کائنات نے اپنے محبوب کے ان فاقہ کش، جاں نثار اصحاب کی نصرت کے لیے غیبی مدد روانہ کی۔ رسولِ اکرمﷺ اُس رات سجدے میں گِر گِر کر دعائیں کرتے رہے، یہاں تک کہ چادر مبارک زمین پر گر گئی اور زبان سے نکلا: "اللّٰهُمَّ إن تَهلِكْ هذِه العِصابة، لا تُعبَد في الأرض”۔ "اے اللّٰہ! اگر یہ جماعت فنا ہوگئی، تو روئے زمین پر تیرا نام لینے والا نہ رہے گا”۔ اور پھر… صبح کے وقت اللّٰہ نے فرشتوں کے ذریعے اپنے وعدے کو سچ کر دکھایا۔ دشمن کے بڑے بڑے سردار زمین بوس ہوئے، اور وہ قافلہ جو مکّہ سے مسلمانوں کو مٹانے چلا تھا، خود تاریخ کے گمنام صفحے پر گر پڑا۔
بدر کا دن مظلوموں کی فتح، صبر کا انعام، دعا کا اثر، اور حق کے غلبے کا اعلان تھا۔ یہاں تلواروں سے زیادہ سجدوں نے اثر دکھایا، نیزوں سے بڑھ کر آنکھوں کے آنسو نے زمین کو زرخیز کیا، اور ایمان کی حرارت نے فولادی زرہوں کو شکست دے دی۔ "یومِ برّات” ہمیں سکھاتا ہے کہ جب دل اللّٰہ سے جُڑے ہوں، زبان ذکر سے تر ہو، اور مقصد خالص ہو، تو فتح آتی ہے خواہ دشمن تعداد میں کتنا ہی بڑھا ہوا کیوں نہ ہو۔ یہ دن رہتی دنیا تک ان سب اہلِ حق کے لیے مشعلِ راہ ہے جو باطل کی کثرت سے گھبرا جاتے ہیں، اور یہ اعلان ہے کہ غلبہ ایمان کا ہوتا ہے، وعدہ اللّٰہ کا سچا ہوتا ہے، اور قربانی رائیگاں نہیں جاتی۔
7۔ یومِ صلحِ حدیبیہ – امن و حکمت کا درخشاں نمونہ
سن 6؍ ہجری کی وہ گھڑی، جب رسولِ اکرمﷺ 1400؍ جان نثار صحابہؓ کو ساتھ لے کر عمرے کی نیت سے مکّہ کی طرف روانہ ہوئے نہ نیت میں جنگ، نہ ارادے میں تصادم۔ صرف اللّٰہ کے گھر کی زیارت، عبادت اور ایک پُرامن جذبے کے تحت قافلہ حدیبیہ کے مقام پر رُکا۔ مگر کفّارِ مکّہ نے حضورؐ کو شہر میں داخل ہونے سے روک دیا۔ معاملات تلخی کی طرف بڑھنے لگے، مگر نبوت کا قرآنی مزاج خون سے زیادہ حکمت، تلوار سے زیادہ تدبیر، اور جذبات سے زیادہ صبر کو عزیز رکھتا ہے۔ جب معاہدۂ حدیبیہ کی سخت، بلکہ بعض صحابہؓ کے نزدیک "نامنصفانہ” شرائط سامنے آئیں تو بعض دل زخمی ہوئے، جذبات برہم ہوئے، مگر رسولِ رحمتﷺ نے ہر شق کو تحمل سے قبول کیا۔ صحابہؓ میں بےچینی تھی؛ حضرت عمرؓ جیسے جری صحابی کے دل میں سوال اٹھے: "کیا ہم حق پر نہیں؟ پھر کیوں دب کر صلح کریں؟” مگر رسول اللّٰہﷺ کی زبان پر تھا صبر، اور سینے میں تھا یقین۔ اور پھر، وہ لمحہ، جب آسمان سے صلحِ حدیبیہ کے جواب میں وحی نازل ہوئی: "إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا”۔ "بے شک ہم نے آپ کو ایک واضح فتح عطا کی” (الفتح: 1)۔
یہ کوئی عام صلح نہ تھی، بلکہ ایک ایسی فتح تھی جو بغیر خون بہائے، دلوں پر چھا گئی۔ اس معاہدے کے بعد کفار کو پہلی بار اسلام کو ایک سیاسی و مذہبی طاقت کے طور پر تسلیم کرنا پڑا۔ قریش کے دروازے کھلنے لگے، تبلیغ کے راستے وسیع ہوئے، اور دو برس بعد جب رسولِ اکرمﷺ مکّہ میں داخل ہوئے تو وہ تلوار نہیں، بلکہ امن، معافی اور عفو کا پیکر بن کر داخل ہوئے۔ حدیبیہ ہمیں سکھاتا ہے کہ سچائی کبھی گھٹتی نہیں، اگر وقتی طور پر جھک بھی جائے تو وہ جھکنا دراصل بلند ہونے کی تمہید ہوتا ہے۔ یہ معاہدہ درحقیقت ایک اعلیٰ سیاسی بصیرت، غیر معمولی اخلاقی طاقت اور غیر متزلزل الٰہی یقین کا شاہکار ہے۔ "یومِ صلحِ حدیبیہ” ان تمام حالات میں رہنمائی فراہم کرتا ہے جب حالات بظاہر شکست دکھائی دیں، مگر اگر قیادت کے ہاتھ میں حکمت، دل میں صداقت، اور نگاہ میں رب کی نصرت ہو تو شکست کے پردے میں بھی فتح چھپی ہوتی ہے۔ یہ دن اعلان ہے کہ کبھی کبھی پیچھے ہٹنا، آگے بڑھنے کی سب سے بڑی چال ہوتا ہے، اور خاموشی وہ نعرہ ہوتی ہے جو صداؤں کو مات دے دیتی ہے۔
8۔ یومِ فتحِ مکّہ – عفو و کرم کی معراج
تاریخ کی سطور میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو صرف واقعات کا تسلسل نہیں ہوتے، بلکہ وہ انسانی اقدار کے عروج، روحانی بلندیوں، اور اخلاقی عظمتوں کا نشان ہوتے ہیں۔ 20؍ رمضان 8؍ ہجری کا دن یعنی یومِ فتحِ مکّہ ایسا ہی ایک دن تھا، جب رحمتِ عالمﷺ اپنے جلاوطن ہونے والے شہر میں ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے، مگر اس داخلے میں نہ غرور کی گرد، نہ تلوار کی چمک، نہ انتقام کی گھن گرج بلکہ صرف پیشانی پر سجدہ، زبان پر شکر، اور دل میں عفو و کرم کی وسعت تھی۔
یہ وہی شہر تھا جہاں آپؐ پر ظلم کیا گیا، پتھر مارے گئے، طائف کی راہ اختیار کرنے پر تمسخر اڑایا گیا، اور طویل محاصرہ کے دوران شعبِ ابی طالب میں بھوک و تنگی کا سامنا کیا گیا۔ آج وہی نبیﷺ دس ہزار صحابہؓ کے لشکر کے ساتھ مکّہ میں داخل ہوتے ہیں مگر سر جھکا ہوا، سواری پر انکساری کا عالم، آنکھیں آسمان کی طرف نہیں، بلکہ زمین کی طرف مائل، گویا دل ربّ کے حضور سراپا شکر بن چکا ہو۔ جب قریش کی نگاہیں ندامت، خوف اور شرمندگی سے جھک چکیں، اور انہیں اپنے انجام کا یقین ہو چلا، تو زبانِ نبوت سے نکلا وہ جملہ، جو انسانی تاریخ کا ایسا باب ہے جس پر نور کی روشنائی سے الفاظ لکھے جانے چاہئیں: "اذْهَبُوا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ”۔ "جاؤ، تم سب آزاد ہو!”۔
یہ وہ لمحہ تھا جب محمدﷺ صرف فاتح نہیں رہے، بلکہ انسانیت کے معلمِ اعظم، اخلاقِ نبوت کے معراج اور رحمۃٌ للعالمین کے حقیقی مظہر بن گئے۔ کسی اور فاتح کی زبان پر یہ الفاظ نہیں آتے نہ سکندر، نہ چنگیز، نہ نپولین۔ وہ سب شہر فتح کرتے ہیں، مگر دل شکستہ چھوڑتے ہیں۔ مگر محمدﷺ نے نہ صرف شہر فتح کیا، بلکہ دل جیتے، ذہن روشن کیے، اور دشمنوں کو دوست بنا دیا۔ فتحِ مکّہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اصل غلبہ تلوار سے نہیں، بلکہ اخلاق، عفو، اور انسانیت کے وقار سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ دن اسلامی تاریخ کا وہ روشن مینار ہے جو ہر داعی، ہر رہنما، اور ہر فاتح کو بتاتا ہے کہ اقتدار کے در پر جھکنے والا دل، انسانیت کی سب سے بڑی خدمت کرتا ہے۔ یہ دن اعلان ہے کہ جس کے پاس معافی دینے کا اختیار ہو، اور وہ پھر بھی معاف کر دے وہی انسان کامل کہلانے کا حقدار ہے۔
9۔ یومِ عرفہ – حجۃ الوداع کا دن
ذی الحجہ کی نویں تاریخ، عرفات کا وسیع میدان، سورج کی نرم پرچھائیاں، فضاؤں میں تلبیہ کی گونج، لاکھوں لبیک کہتے چہرے، اور درمیان میں وہ ہستی کھڑی ہے جو نہ صرف خاتم النبیین ہے بلکہ انسانیت کی رہنمائی کا آخری چراغ بھی۔ یہ لمحہ وقت کی سانسوں میں ٹھہر گیا، اور یومِ عرفہ کا دن، دنیا کے لیے ایک ایسا دن بن گیا جو نسلی امتیاز، معاشرتی نابرابری، اور انسانی تفرقے کے بتوں کو پاش پاش کرنے والا دن بن گیا۔
یہ خطبۂ حجۃ الوداع کا دن تھا وہ آخری خطاب جو صرف چند الفاظ کا مجموعہ نہ تھا، بلکہ انسانی حقوق کا آفاقی منشور تھا، جو کسی جغرافیہ، رنگ، نسل یا زبان کا پابند نہیں بلکہ ہر دل، ہر دور، اور ہر دیس کے لیے پیغامِ عدل، امن اور وحدت ہے۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: "اَیُّهَا النَّاسُ، اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ…”۔ "لوگو! تمہارا ربّ ایک ہے، اور تمہارا باپ (آدم) بھی ایک ہے…”، "لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلَی عَجَمِیٍّ، وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَی أَسْوَدَ إِلَّا بِالتَّقْوَى”۔ "نہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت ہے، نہ گورے کو کالے پر فضیلت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے”۔
یہ اعلان اُس سر زمین پر ہوا جہاں کبھی قبیلہ، نسب، رنگ اور زبان کی بنیاد پر خون بہایا جاتا تھا۔ جہاں انسانی قیمت قبیلوی تعصب سے ناپی جاتی تھی۔ مگر آج، اسی سر زمین پر اعلانِ مساوات کی ایسی گونج ہوئی کہ قیصر و کسریٰ کے ایوان بھی لرز اٹھے، اور دنیا جان گئی کہ اسلام ایک نئی تہذیب کا نقیب بن کر آیا ہے۔ یہ دن انسان کو اس کے اصل مقام سے روشناس کراتا ہے کہ وہ نہ مٹی کے رنگ سے معزز ہوتا ہے، نہ زبان کی لَے سے بلند، نہ نسب کی اونچائی سے برتر، نہ دولت کی کثرت سے افضل۔ اصل فضیلت، اخلاق، تقویٰ، انصاف، اور خیر خواہی میں ہے۔
عرفہ کے میدان میں کھڑا وہ نبیﷺ، جو فاتحِ مکّہ بھی ہے، مدبّرِ اُمّت بھی، اور محبوبِ خدا بھی اپنے آخری خطاب میں اقتدار، قومیت، یا تاریخ پر بات نہیں کرتا، بلکہ انسان، اُس کے خون، مال اور عزّت کی حرمت پر بات کرتا ہے۔ وہ اعلان کرتا ہے کہ: "اِنَّ دِمَاءَکُمْ، وَاَمْوَالَکُمْ، وَاَعْرَاضَکُمْ، عَلَیْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَةِ یَوْمِکُمْ ہٰذَا، فِی بَلَدِکُمْ ہٰذَا، فِی شَہْرِکُمْ ہٰذَا…”۔ "تمہارا خون، تمہارا مال، اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ویسی ہی محترم ہیں جیسے یہ دن، یہ مہینہ اور یہ سر زمین”۔
یہ یومِ عرفہ تھا، جب انسانی معاشروں کے زخموں پر نبوت کی مرہم رکھی گئی۔ جہاں عورتوں کے حقوق کا اعلان ہوا، غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی، سود کے خاتمے کا حکم دیا گیا، اور وہی بنیادی اصول دیے گئے جن پر ایک عادل اور فلاحی معاشرہ تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ دن انسانیت کو بتاتا ہے کہ دین محض عبادات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک زندہ اخلاقی نظام ہے۔ یومِ عرفہ، ہر عہد کے انسان کو مخاطب کرکے کہتا ہے: "اگر تم محمدﷺ کے پیروکار ہو، تو عدل کرو، رحم کرو، اور انسانیت کو گلے لگاؤ بغیر کسی تعصب، کسی رنگ، کسی دیوار کے”۔
10۔ یومِ وفات – 12؍ ربیع الاوّل
12؍ ربیع الاوّل… وہ دن جس پر نہ کوئی سورج ابھرا، نہ دلوں میں کوئی روشنی باقی رہی۔ وہ لمحہ جب مدینہ کی فضائیں خاموش ہو گئیں، مسجدِ نبوی کے ستون گواہ بنے، اور انسانیت کی سب سے روشن پیشانی مٹی سے لپٹ گئی۔ یہ یومِ وفات ہے محبوبِ خداﷺ کے وصال کا دن، جس نے صرف ایک جسم کو نہیں، اُمّت کی پشت پر ہاتھ رکھنے والے سایۂ رحمت کو رخصت کر دیا۔ نبیِ اکرمﷺ کے آخری لمحات، حضرت عائشہؓ کے حجرے میں، سرِ مبارک اُن کے سینے پر، لبوں پر اُمّتی اُمّتی کی صدائیں، اور آنکھوں میں اپنے ربّ سے ملاقات کی چمک… یہ وہ نازک ساعت تھی کہ فرشتے بھی لرز گئے، جب سیدالاوّلین والآخرین اپنے ربّ کی بارگاہ میں لوٹنے والے تھے۔ جیسے ہی خبر پھیلی، مدینہ پر غم کی چادر تن گئی۔ صحابہؓ کی آنکھوں میں آنسو، دلوں میں اضطراب، اور زبانوں پر سکت طاری ہوگئی۔ حضرت عمرؓ جیسے جری، بہادر صحابی تلوار سونت کر کہنے لگے: "جو کہے کہ رسول اللّٰہﷺ وفات پا گئے، میں اُس کی گردن اُڑا دوں گا!”۔
اس وقت، صبر و ایمان کا پہاڑ، حضرت ابو بکر صدیقؓ، حجرۂ مبارکہ میں داخل ہوئے، چہرے سے چادر ہٹائی، آنکھوں سے آنسو بہائے، ماتھے کو چوما اور فرمایا: "طِبْتَ حَيًّا وَمَيِّتًا يَا رَسُولَ اللّٰه”۔ "اے اللّٰہ کے رسول! آپ زندگی میں بھی پاکیزہ تھے اور وفات کے بعد بھی”۔ پھر مسجد میں تشریف لائے، اور وہ تاریخی کلمات کہے جنہوں نے اُمّت کو ڈگمگانے سے بچا لیا، اور نبوت کے مشن کو وقت کے دھارے میں بقاء بخش دی: "مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا، فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللّٰهَ، فَإِنَّ اللّٰهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ”۔ "جس نے محمدﷺ کی عبادت کی ہو، وہ جان لے کہ محمدﷺ وفات پا چکے ہیں، اور جس نے اللّٰہ کی عبادت کی ہو، وہ جان لے کہ اللّٰہ زندہ ہے، کبھی نہیں مرے گا”۔
یہ اعلان دراصل ایک تبدیلیِ مرکز کا اعلان تھا کہ شخصیت سے وابستگی ہو سکتی ہے، مگر پرستش صرف خالق کی ہو سکتی ہے؛ کہ نبیؐ تشریف لے گئے، مگر ان کا پیغام زندہ ہے، ان کا مشن جاری ہے، اور ان کی سنّت ہر دور میں اُمّت کے لیے رہنمائی کا مینار ہے۔ یومِ وفات ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جذبات سے زیادہ رسالت کی اطاعت باقی رکھنی ہے؛ غم سے بڑھ کر مشن کو تھامنا ہے؛ اور نبیؐ کے جانے کے بعد اُن کے علم، اُن کی شفقت، اور اُن کی فکر کو زندہ رکھنا ہے۔ یہ دن صبر، استقامت، اور شعورِ رسالت کا دن ہے۔ یہ پیغام دیتا ہے کہ نبیؐ رخصت ہوئے، مگر اُن کے الفاظ ہمارے قلوب میں گونجتے ہیں؛ نبیؐ پردہ فرما گئے، مگر اُن کی سیرت آج بھی روشنی ہے؛ نبیؐ کی آنکھیں بند ہوئیں، مگر اُن کی اُمت کی ذمّہ داری جاگ گئی۔
سیرتِ نبویؐ کے دس ایّام – تاریخ نہیں، ہدایت کے درخشاں چراغ
رسولِ اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ہر لمحہ، ہر دن، ہر قدم انسانیت کے لیے روشنی، رہنمائی اور بیداری کا پیغام ہے۔ یہ دس ایام یومِ ولادت سے یومِ وصال تک محض تاریخی واقعات نہیں، بلکہ وہ روحانی منازل ہیں جن میں ہر ایک قدم ایک درس ہے، ہر ایک فیصلہ ایک اصول، اور ہر ایک ردعمل ایک اخلاقی معیار۔ یہ ایّام تاریخ کی دھندلی راہوں میں چمکتے ہوئے مینار ہیں جو ہر صدی، ہر ملت، اور ہر انسان کو راستہ دکھاتے ہیں۔ یہ وہ دن ہیں جو نہ صرف ماضی کی ورق گردانی کے لیے محفوظ کیے گئے ہیں بلکہ ہر دور کے انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے زندہ رکھے گئے ہیں۔ ان دنوں میں نبی اکرمﷺ کی وہ صفات نمایاں ہوتی ہیں جن کی روشنی میں ہم اپنے انفرادی کردار کو نکھار سکتے ہیں اور اجتماعی تمدّن کو سنوار سکتے ہیں۔
یومِ ولادت ہمیں بتاتا ہے کہ امید، رحمت اور نور کیسے آتا ہے۔ یومِ نبوت یاد دلاتا ہے کہ حق کی صدا علم، فہم اور وحی سے جڑتی ہے۔ یومِ دعوتِ علانیہ ہمیں جرأتِ اظہار، حکمتِ دعوت، اور اخلاص کی طاقت سمجھاتا ہے۔ یومِ طائف صبر و درگزر کی آخری حدیں طے کرتا ہے۔ یومِ ہجرت قربانی، استقامت اور نئی شروعات کا استعارہ ہے۔ یومِ بدر ایمان کی حرارت سے فتح کا راز فاش کرتا ہے۔ یومِ حدیبیہ حکمت، بصیرت اور امن کا سبق دیتا ہے۔ یومِ فتحِ مکّہ عفو و عدل کے عظیم تصور کو زندہ کرتا ہے۔ یومِ عرفہ مساوات، حقوق، اور انسانیت کے عالمی منشور کو آواز دیتا ہے۔ یومِ وفات ہمیں جُدا ہونے کا غم سکھاتا ہے، لیکن پیغام کو تھامے رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔
یہ سب دن اس بات کا اعلان ہیں کہ سیرتِ نبویؐ کا مطالعہ محض مطالعہ نہیں بلکہ ایک عملی تقاضا ہے۔ ہمیں ان دنوں کو صرف تقاریر، نعتوں، اور تقریبات میں محدود نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ ان کے پیغام کو اپنے دل کی دھڑکن، اپنے عمل کا معیار، اور اپنی معاشرت کا ستون بنانا چاہیے۔ یہی سیرت کا اصل جوہر ہے کہ چراغ صرف طاق میں نہ رہے، بلکہ ہمارے کردار، فیصلوں، رویوں، معاملات، اور عبادات میں روشن ہو جائے۔ رسولِ اکرمﷺ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ راہِ نبوت صرف ماضی کی عظمت نہیں، بلکہ حال کا رہنما اور مستقبل کی ضمانت ہے۔ لہٰذا آئیں، ان ایّام کو تاریخ کے صفحات سے نکال کر زندگی کے صفحات میں اتاریں، اور خود کو اس پیغام کا امین بنائیں جو اسوۂ حسنہ کی شکل میں ہمیں ملا ہے۔
(23.08.2025)
✒️ Masood M. Khan (Mumbai)
📧masood.media4040@gmail.com
    Like this:
Like Loading...