Skip to content
	
		
					
											
							 
						 
					
					
					
						
							
	
		
		
				
			 
		 
		
	
		آزادئ نسواں کا فریب
از قلم- مفتی محمد عثمان غنی اشرفی
استاذ ادارہ کہف الایمان ٹرسٹ
بورابنڈہ حیدرآباد
خالق کائنات نے انسانی زندگی کو دو مختلف شعبوں میں تقسیم کیا ہے ایک گھر کے اندر کا شعبہ جسے internal affairs کہتے ہیں اور ایک گھر کے باہر کا شعبہ جسے external affairsکہتے ہیںان دونوں شعبوں کے بغیر ایک متوازن اور معتدل زندگی نہیں گزاری جا سکتی جب یہ دونوں کام اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک ٹھیک چلیں گے تو انسانی معاشرہ استوارہو گا اور اگر ان میں سے ایک بھی ناقص رہ گیا تو اس سے انسانی معاشرہ تباہ وہ برباد ہو جائے گا،ان دونوں شعبوں کو چلانے کے لیے مرد و عورت میں سے ہر ایک کو اللہ تعالی نے ایک ایک شعبہ کا ذمہ دار بنایا ہے اور اس ذمہ داری کو نبھانے کی صلاحیت بھی رب کائنات نے ہر ایک کو عطا کی ہے؛چنانچہ گھر کے باہر کے کام زیادہ کٹھن اور محنت طلب ہوتے ہیں ؛اس لیے اس کی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے ،اور گھر کے اندر کے کام پکوان صاف صفائی بچوں کی پرورش وغیرہ نزاکت اور جذباتیت والے کام کی ذمہ داری عورت پر ڈالی گئی ہے ،عقل و فہم کا ادراک اور مرد و عورت کی جسمانی خلقت بھی اسی تقسیم کی طرف اشارہ کرتی ہے،لیکن جس ماحول میں معاشرے کی پاکیزگی کوئی قیمت نہ رکھتی ہو اور جہاں عفت و عصمت کے بجائے اخلاق باختگی اور حیا سوزی کو منتہائے مقصود سمجھا جاتا ہو، وہاں لوگ اس تقسیم کار اور پردہ و حیا کو نہ صرف شرم محسوس کرتے ہیں، بلکہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
چنانچہ جب مغرب میں تمام اخلاقی اقدار سے آزادی کی ہوا چلی تو وہاں کے مرد نے عورت کے گھر میں رہنے کو اپنے لیے دہری مصیبت سمجھا ،ایک طرف تو اس کی ہوسناک طبیعت عورت کی کوئی ذمہ داری قبول کیے بغیر قدم قدم پر اس سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی اور دوسری طرف وہ اپنی قانونی بیوی کی معاشی کفالت کو بھی ایک بوجھ تصور کرتا تھا،لہٰذا اس نے دونوں مشکلات کا جو عیاّرانہ حل نکالا اس کا خوبصورت اور معصوم نام تحریکِ آزادئ نسواںہے،عورت کو یہ پڑھایا گیا کہ تم اب تک گھر کی چار دیواری میں قید رہی ہو ؛باہر ا ٓکر مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے ہر کام میں حصہ لینا چاہیے، اب تک تمہیں حکومت وسیاست کے ایوانوں سے بھی محروم رکھا گیا؛ اب تم باہر ا ٓکر زندگی کی جدوجہد میں برابر کا حصہ لو ،دنیا بھر کے آزاد اور اونچے اونچے منصب تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔
عورت بے چاری ان دلفریب نعروں سے متاثر ہو کر گھر سے باہر آگئی اور پروپیگنڈے کے تمام وسائل کے ذریعے شور مچا مچا کر اسے یہ باور کرا دیا گیا کہ اسے صدیوں کی غلامی کے بعد آج آزادی ملی ہے اور اب اس کے رنج ومحن کا خاتمہ ہو گیا؛لہٰذا ان دلفریب و دلکش نعروں کی آڑ میں عورت کو گھسیٹ کر سڑکوں پر لایا گیا، اسے دفتر میں کلر کی عطا کی گئی ،اسے اجنبی مردوں کی پرائیویٹ سیکرٹری کا منصب بخشا گیا ،اسے تجارت چمکانے کے لیے سیلز گرل( (sales girlاور ماڈل گرل( model girl )بننے کا شرف بخشا گیا؛عورت کی جسمانی ساخت اور اس کے ایک ایک عضو کو سر ِبازار رسوا کر کے گاہکوں کو دعوت دی گئی کہ آؤ اور ہم سے مال خریدو ،یہاں تک کہ وہ عورت جس کے سر پر دین فطرت نے عزت و آبرو کا تاج رکھا تھا اور جس کے گلے میں عفت و عصمت کے ہار ڈالے تھے تجارتی اداروں کے لیے شو پیس( show piece )اور ہوس پرستوں کی خواہش پوری کرنے کے لیے ایک تفریح کا سامان بن کر رہ گئی؛ قرآن نے 1400 سال پہلے ہی عورتوں کے حوالے سے فرمایا تھا :
وقرن في بيوتكن
کیونکہ گھر ہی عورت کا عملی میدان اور اسی سے اس کی دنیا و آخرت وابستہ ہے عورت جو خدمت اپنے گھر بیٹھے انجام دیتی ہے معاشرے میں اس کا کوئی بدل نہیں ہے،فرانس کے مشہور ڈاکٹر ائل مسٹر ائل اپنی کتاب یورپ اور ازادی میں لکھتا ہے :عورت کا مرتبہ تو یہ تھا کہ اس کو گھر کے تمام کام اور ضروریات سپرد کر دی جائیں اور وہ بال بچوں کی بہترین طریقے پرداشت وہ برداشت کرتی؛ لیکن آج اہل یورپ اس سے ملکی اور فوجی کام لے کر اپنے روشن ضمیر اور بلند حوصلہ لگی کا ثبوت دے رہے ہیں؛ حالانکہ یہ بلند حوص لگی اور روشن ضمیری نہیں؛ بلکہ تاریک دلی اور کوتاہ بھی نہیں ہے، کیونکہ ہر آنے والا دن اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ عورت کو اس قدر آزاد چھوڑنے سے سوائے تباہی اور بربادی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا ہے
سویت یونین کے آخری صدر میخائل گور بار چوف اپنی کتاب پروسٹرائيگا میں لکھتے ہیں : ہماری مغربی سوسائٹی میں عورت کو گھر سے باہر نکالا گیا اور اس میں ہم نے ضرور کچھ فوائد حاصل کیے ہیں پیداوار میں کچھ اضافہ ہو؛ا لیکن فیملی سسٹم تباہ ہو گیا اور اس تباہی سے ہمیں جو نقصانات اٹھانا پڑا ہے وہ نقصانات ان فوائد سے کہیں زیادہ ہیں جو پروڈکشن کے اضافے کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہیں۔
یہ حقائق تحریک آزادی نسواں کی تصویر کا وہ رخ ہیں جو اہل یورپ خود بھگت رہے ہیں، لیکن ہم سے اس کو مخفی رکھا گیا ہے؛ تاکہ اس دلدل میں ہم بھی پھنس جائیں؛ دشمن کے ہتھکنڈے مسلمانوں کے خلاف زور و شور سے چلائے جا رہے ہیں؛ مگر افسوس آج مسلمان ان حقائق سے بالکل بے خبر ہیں؛ مسلمان عورتوں کا اس پروپگنڈے سے متاثر ہونا اخلاقی زوال اور سماجی انتشار سے ؛بالکل اسی طرح دو چار ہو جانا ہے جیسا کہ آج اہل یورپ اس کا نقصان اٹھا رہے ہیں،جبکہ اسلام تو وہ دین فطرت ہے جس نے عورت کو اس کا وہ جائز مقام دیا ہے جس کی وہ مستحق تھی
اے میری ایمان والی بہن آج دشمن تجھے آزادئ نسواں کے پرُ فریب نعرے کی آڑ میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے؛ مگر حقیقت یہی ہے کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓکی قربانی حضرت عائشہ ؓ کا تدبر اور حضرت فاطمۃ الزہرا ؓکا ذوق عبادت و پردہ داری ہی ایک مسلمان عورت کی زندگی کا اصل اثاثہ ہے
    Like this:
Like Loading...