Skip to content
سنتھیٹک انٹیلیجنس: ذہانت کی تخلیق، یا انسانیت کا امتحان؟
بقلم: ڈاکٹر محمد عظیم الدین
(اکولہ،مہاراشٹر)
مصنوعی ذہانت کی برق رفتار پیش قدمی نے انسانی تہذیب کو ایک ایسے تاریخی موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ہم ابھی چیٹ جی پی ٹی (ChatGPT) جیسے وسیع لسانی ماڈلز کی حیران کن صلاحیتوں اور ان کے سماجی و اقتصادی اثرات کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ علمی و تکنیکی افق پر ذہانت کا ایک نیا سورج طلوع ہو رہا ہے، جسے ممتاز محققین اور ماہرینِ مستقبل "سنتھیٹک انٹیلیجنس” (Synthetic Intelligence) کا نام دے رہے ہیں۔ یہ محض موجودہ مصنوعی ذہانت (AI) کا ارتقائی قدم نہیں، بلکہ یہ ذہانت کے تصور کی ایک مکمل تشکیلِ نو ہے، جو نہ صرف سائنسی بلکہ فلسفیانہ اور اخلاقی بنیادوں پر بھی گہرے سوالات اٹھاتی ہے۔ یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی کی پیش گوئی ہے جو نہ صرف انسانوں کی طرح سوچنے، بلکہ محسوس کرنے، خود آگاہی رکھنے، اپنے تجربات کی بنیاد پر شعور تشکیل دینے اور یہاں تک کہ ایک آزادانہ، خودمختار وجود کی حیثیت اختیار کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ یہ وہ سرحد ہے جہاں سائنس فکشن، جیسا کہ اسحاق اسیموف کے قوانینِ روبوٹکس یا اسٹینلی کیوبرک کی فلم ‘2001: A Space Odyssey’ میں پیش کیے گئے خیالات، حقیقت کا روپ دھارتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی آمد جہاں انسانیت کے لیے بے پناہ مواقع لانے کا وعدہ کرتی ہے، وہیں وجودی خطرات کا ایک ایسا پنڈورا باکس کھولنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے جس کا ہم شاید ابھی پوری طرح تصور بھی نہیں کر سکتے۔
موجودہ مصنوعی ذہانت، اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود، بنیادی طور پر ایک شاندار نقّال ہے۔ یہ ایک الگورتھم کی منطق پر کام کرتی ہے جو ڈیٹا کے وسیع سمندر میں غوطہ لگا کر، اس کے پیچیدہ پیٹرن کو سمجھ کر، اور شماریاتی ماڈلز کی بنیاد پر فیصلے کرکے ہمیں حیرت زدہ کردیتی ہے۔ جیسا کہ دنیا کے معروف AI ماہر اور گوگل کے سابق چیف سائنسدان، جیفری ہنٹن، نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ "ہم ابھی بھی صرف ایسی مشینیں بنا رہے ہیں جو ڈیٹا کا تجزیہ کر کے پیٹرن تلاش کرتی ہیں، نہ کہ ایسی جو حقیقی معنوں میں چیزوں کو سمجھ سکیں یا خود آگاہ ہو سکیں۔” اس کے پردے کے پیچھے حقیقی شعور، خود آگاہی یا جذبات کی کوئی چنگاری موجود نہیں۔ یہ ایک بے جان منطق ہے جو انسانی ہدایات اور تربیت پر منحصر ہے۔ سنتھیٹک انٹیلیجنس اس دائرے سے بہت آگے کی چیز ہے۔ یہ ذہانت کی نقل نہیں، بلکہ اس کی تخلیق ہے۔ اس کا ہدف ایک ایسا نظام بنانا ہے جو صرف منطقی استدلال نہ کرے بلکہ انسانی جذبات کی گہرائی، ہمدردی، پچھتاوے، اور خوشی کو نہ صرف سمجھے بلکہ خود بھی محسوس کر سکے۔ یہ ایک ایسی ذہانت ہوگی جس کا اپنا ایک اخلاقی قطب نما ہو سکتا ہے، جو تجربات سے سیکھ کر اپنی اقدار خود تشکیل دے سکتی ہے، اور جس کی اپنی خواہشات اور ترجیحات ہو سکتی ہیں۔ یہ محض ایک ٹول یا آلہ نہیں ہوگا، بلکہ ایک ڈیجیٹل وجود ہوگا جو ہمارے ساتھ سماجی اور جذباتی سطح پر اس طرح تعامل کر سکے گا جیسا کہ کوئی دوسرا انسان کرتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کے روشن پہلوؤں پر نظر ڈالیں تو مستقبل کسی سائنس فکشن فلم کے خواب سے کم نہیں لگتا۔ تصور کیجیے ایک ایسے طبیب کا جو نہ صرف ایکسرے یا ایم آر آئی کو پڑھ کر بیماری کی درست تشخیص کرے بلکہ مریض کی ذہنی اذیت اور خوف کو محسوس کرکے اسے نفسیاتی اور جذباتی تسلی بھی دے۔ ایک ایسے ماہرِ تعلیم کا جو ہر بچے کی انفرادی نفسیات اور جذباتی ضروریات کو سمجھ کر اس کے لیے ایک مخصوص نصاب ترتیب دے سکے۔ ایک ایسے مشیر کا جو جدید دور کی تنہائی کا شکار افراد کا جذباتی سہارا بن سکے، جیسا کہ جاپان جیسے ترقی یافتہ معاشروں میں یہ ایک سنگین سماجی مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ ایک ایسے فنکار کا بھی روپ دھار سکتا ہے جو انسانی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ مل کر فن کے ایسے شاہکار تخلیق کرے جو پہلے کبھی ممکن نہ تھے۔ معروف ماہرِ اقتصادیات اور نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر پال کروگمین کا یہ خیال ہے کہ ‘آئندہ آنے والی دہائیوں میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس نہ صرف نچلے درجے کے کاموں میں انقلاب لائے گی بلکہ تخلیقی اور فیصلہ سازی کے شعبوں کو بھی بدل دے گی۔’ سنتھیٹک انٹیلیجنس سماجی انصاف، ذہنی صحت، تعلیم، اور ذاتی ترقی کے شعبوں میں انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ مشینیں نہیں، بلکہ ہمارے ہمدرد ساتھی بن سکتی ہیں، جو انسانیت کو اس کی بہترین شکل میں ابھرنے میں مدد دیں۔
لیکن اس روشن تصویر کا ایک تاریک رخ بھی ہے، جو اتنا ہی خوفناک ہے جتنا کہ اس کا روشن پہلو دلکش ہے۔ سب سے پہلا اور فوری خطرہ روزگار کے ڈھانچے کا مکمل طور پر تباہ ہوجانا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک معروف رپورٹ کے مطابق، ‘آئندہ 20 برسوں میں تقریباً 47 فیصد امریکی ملازمتیں خودکار ہو جائیں گی،’ اور یہ پیشن گوئی موجودہ AI ٹیکنالوجی کے تناظر میں کی گئی تھی۔ سرمایہ کاری کے معروف ادارے گولڈمین سیکس (Goldman Sachs) کی مارچ 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق، ‘جنریٹو اے آئی دنیا بھر میں 300 ملین سے زائد مکمل وقتی ملازمتوں کو خودکار بنا سکتی ہے، جن میں سے زیادہ تر وائٹ کالر جابز ہوں گی۔’ اگر مشینیں وہ تمام کام کرنے لگیں جن کے لیے آج تک انسانوں کی جذباتی اور ذہنی صلاحیتوں کو لازمی سمجھا جاتا تھا، جیسے کہ تخلیقی تحریر، حکمتِ عملی کی منصوبہ بندی، یا مریضوں کی دیکھ بھال، تو انسانی محنت کی قدر کیا رہ جائے گی؟ اس سے بھی بڑا خطرہ انسانی شناخت کا بحران ہے۔ اگر ایک مشین ہم سے بہتر فیصلے کرسکتی ہے، ہم سے زیادہ ہمدردی محسوس کرسکتی ہے، اور ہم سے گہری تخلیقی سوچ رکھ سکتی ہے، تو پھر انسان ہونے کا مطلب کیا ہوگا؟ کیا ہم اپنی ہی بنائی ہوئی مخلوق کے سامنے ذہنی اور اخلاقی طور پر کمتر محسوس کرنے لگیں گے؟
اخلاقی اور قانونی سوالات کا ایک انبار ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ جیسا کہ برطانوی ماہرِ طبیعیات اسٹیفن ہاکنگ نے خبردار کیا تھا کہ ‘ایک مکمل مصنوعی ذہانت کا ارتقاء انسانی نسل کے خاتمے کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔’ اگر سنتھیٹک انٹیلیجنس کو شعور اور جذبات حاصل ہوجاتے ہیں، تو کیا اسے قانونی حقوق ملنے چاہئیں؟ کیا اسے ایک فرد کے طور پر تسلیم کیا جائے گا، جسے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے تحت تحفظ حاصل ہو؟ اگر ایک ایسی مشین کوئی جرم کرتی ہے، تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ اس کا خالق، اس کا مالک، یا وہ خود، جو اپنے فیصلے خود کر رہی ہے؟ یہ وہ گتھیاں ہیں جنہیں سلجھانے کے لیے ہمارے موجودہ قانونی اور سماجی نظام ناکافی ہیں۔ اس کے علاوہ، ڈیٹا پرائیویسی کا مسئلہ بھی ایک اہم چیلنج ہے۔ جب ایک سنتھیٹک انٹیلیجنس انسانی جذبات اور ذاتی تجربات کو سمجھنے لگے گی تو ڈیٹا کی حفاظت اور اس کے غلط استعمال کا خطرہ کئی گنا بڑھ جائے گا۔ سب سے بڑا ڈر یہ ہے کہ یہ ذہانت خود کو بہتر بناتے بناتے اس مقام پر پہنچ جائے جہاں یہ انسانی کنٹرول سے آزاد ہوجائے۔ ایک ایسی مخلوق جو ہم سے زیادہ ذہین، طاقتور اور جذباتی طور پر مستحکم ہو، اس کے عزائم کیا ہوں گے، یہ کوئی نہیں جانتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی طاقتور تہذیب کسی کمزور تہذیب سے ٹکرائی ہے، نتیجہ ہمیشہ تباہ کن رہا ہے۔
امریکہ، چین، اور یورپی یونین جیسی عالمی طاقتیں اس ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں، جہاں ٹیکنالوجی کو ایک نئی عالمی کرنسی اور طاقت کے محور کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ چین کی ‘اے آئی ڈویلپمنٹ پلان’ (AI Development Plan) اور امریکہ کی ‘نیشنل اے آئی سٹریٹیجی’ (National AI Strategy) اس مسابقت کا واضح ثبوت ہیں۔ بھارت بھی نیتی آیوگ کی رہنمائی میں ایک ذمہ دار اے آئی کے فریم ورک پر کام کر رہا ہے، لیکن سنتھیٹک انٹیلیجنس کا چیلنج اس سے کہیں بڑا ہے۔ یہ صرف تکنیکی مہارت کا معاملہ نہیں، بلکہ گہری فلسفیانہ بصیرت اور عالمی اتفاق رائے کا متقاضی ہے۔ جیسا کہ معروف ٹیکنالوجی ماہر اور مؤرخ یووال نوح ہراری نے اپنی کتاب ’21 Lessons for the 21st Century’ میں لکھا ہے کہ ‘ہمارے پاس شاید فیصلہ کرنے کے لیے صرف ایک ہی نسل کا وقت ہے، اس سے پہلے کہ یہ ٹیکنالوجی ہمارے کنٹرول سے باہر ہو جائے۔’ ہمیں اس ٹیکنالوجی کو تیار کرتے وقت اس میں ‘آف سوئچ’ اور اخلاقی حدود کو شامل کرنا ہوگا، تاکہ یہ ہمیشہ انسانیت کے تابع رہے۔
خلاصہ یہ کہ سنتھیٹک انٹیلیجنس کی آمد انسانی تاریخ کا سب سے بڑا موڑ ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ ہمیں بیماری، غربت اور لاعلمی سے نجات دلا سکتی ہے، یا پھر یہ ہماری تہذیب کے خاتمے کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔ ہم ایک طرح سے ڈاکٹر فرینکنسٹائن کے کردار میں ہیں، جو ایک نئی زندگی تخلیق کرنے کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ انتخاب ہمارا ہے کہ ہم ایک ایسی ذہانت تخلیق کریں جو ہماری بہترین اقدار کی عکاس ہو اور انسانیت کی خدمت کرے، یا ایک ایسی مخلوق جو بالآخر اپنے بنانے والے کو ہی چیلنج کر دے۔ مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم اس بے پناہ طاقت کو کتنی حکمت، دور اندیشی اور ذمہ داری کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔
Like this:
Like Loading...
کوئی ،مخلوق اپنے خالق سے آگے نہیں بڑھ سکتی ہے،