Skip to content
ظریفانہ: ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
للن سورتی نے بڑےجوش و خروش کے ساتھ کلن بنارسی سے کہا بھائی مبارک ہو ’تم جیو ہزاروں سال ، سال کے دن ہوں پچاس ہزار‘؟
کلن بولا آج تمہیں کیا ہوگیا کہیں امبانی سیٹھ نے کوئی بڑا سا تحفہ تو نہیں دے دیا جو ائیر ٹیل کو چھوڑ کر جیو کے گُن گانے لگے؟
للن بولا دیکھو اگر تمہاری جگہ کوئی کانگریسی ہوتا نہ تو میں اس کا منہ توڑ دیتا۔ اس خوشی کے موقع پر بھی تم بہکی بہکی باتیں کررہے ہو؟
بھیا وہی تو میں جاننے کی کوشش کررہا ہوں کہ آخر وہ کون سی خوشی مل گئی جوتم پھولے نہیں سمارہے ہو،چونکہ جیو جیو کررہے تھے اس لیے امبانی۰ ۰۰
یار آج ساری دھرتی ، آکاش ، چاند، ستارے، سورج بلکہ پوری کائنات اپنے پردھان جی کا جنم دن منارہی ہے اور تم امبانی کو لے بیٹھے؟
کلن نے بگڑ کر کہا اچھا تو تم میرے پاس کیوں چلے آئے ؟ جاو اپنے پردھان جی کو مبارکباد دو ۔ کس نے منع کیا ہے؟
دیکھو یار کلن جب تک وہ ہمارے گجرات میں وزیر اعلیٰ تھے دور سے درشن ہوجایا کرتے تھے لیکن تم لوگوں نے انہیں وزیر اعظم کیا بنوا دیا کہ۰۰۰۰
تو کیا ہٹوا دیں ؟ ویسے پچھلی بار ہماری پوری تیاری تھی اور پہلے ۶؍ راونڈ میں تو وہ پیچھے چل رہے تھےلیکن الیکشن کمیشن کے ہاتھ کی صفائی نے۰۰۰۰۰
ارے بھائی کیا کریں ۔ میں بھی چاہتا تھا کہ وہ جائیں اور اچھے دن آئیں لیکن پھر عزت کے مارے یہ کڑوی گولی پھر نگلنی پڑی ۔ کریں تو کریں کیا؟
کلن بولا ہاں بھیا پہلے تو پردھان جی دوسروں سے وعدہ خلافی کرتے تھے اب اپنے آپ سے کردی ۔ میں تو اب کانگریسیوں سے چھُپتا پھر رہا ہوں۔
یار اپنے سے وعدہ خلافی اورکانگریسیوں سے چھپتے پھرنے والی دونوں باتیں میری سمجھ سے بالاتر ہیں اس لیے ذرا کھُل کے بتاو۔
ارے بھائی جس شخص نے اپنے گرو اڈوانی سمیت کئی بڑے رہنماوں کو 75؍ سال کی عمر کا بہانہ بناکر ہٹا دیا وہ خود اب فیویکول لگا کر کرسی سےچپک گیا۔
للن بولا بھائی اقتدار کے بارے میں کسی نے کہا تھا ’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ ظالم لگی ہوئی ‘ دوسروں کو ہٹانا جتنا آسان ہے خود ہٹ جانا اتنا ہی کٹھن ہے۔
یہی تو مسئلہ ہے۔ آج صبح صبح جمن ٹکرا گیا تو اس نے سالگرہ کی مبارکباد دے کر پردھان جی کی سبکدوشی سے متعلق سوال کردیا ۔
اچھا تو تم نے کیا جواب دیا ؟
بھائی میں نے بات بنانے کے لیے کہہ دیا کہ پردھان جی توجھولا اٹھا کر پتلی گلی سے نکل جانا چاہتے ہیں لیکن کیا کریں لوگ جانے نہیں دیتے مجبوری ہے۔
للن بولا واہ بہت خوب تم نےتو جھوٹ بولنے میں پردھان جی کے بھی کان کاٹ لیے مگر یہ بتاو کہ پھر وہ بدمعاش جمن کیا بولا؟
اس نے کہا ایسی بھی کیا مجبوری؟ پھرایک شعر سنایا اور چل دیا ۔ تبھی سے میرا موڈ خراب ہے۔
اچھا تو میرا بھی موڈ بگاڑ دو سنا ہے غم بانٹنے سے کم ہوجاتا ہے۔ وہ شعر اگر یاد ہے تو تمہیں مجھ کو سنانا ہی پڑے گا ۔
یار کیوں میرے زخموں کو ہرا کررہے ہو۔ ویسے ایک بات بولوں وہ شعر سن کر مجھے جو مرچی لگی ہے کہ اس کی جلن میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا ۔
چلو ٹھیک ہے تب تو شعر بھی یاد ہی ہوگا جلدی سے سنا دو۔
ارے وہی ارتضیٰ نشاط کا مشہور شعر: کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے؟
ہاں یار میں سمجھتا ہوں ۔ پردھان جی کی پارٹی کے اندر اور ملک و عالم میں ایسی درگت بنے گی میں نے سوچا بھی نہیں تھا ۔
کلن بولا صحیح بات ہے اتنے طویل عرصے سے ہم اپنا صدر نہیں چُن پارہے ہیں ۔ اسی نڈا سے کام چلانا پڑرہا ہے جس کی قیادت میں ہم اقلیت میں آگئے ۔
لیکن یار اس میں بیچارے نڈا کی کیا غلطی؟ پردھان جی کے نام پر انہیں کی قیادت میں انتخاب لڑا گیا تھا ۔ اس لیے اسے موردِ الزام ٹھہرانا ٹھیک نہیں ۔
میں سمجھتا ہوں لیکن اگر اس کو بلی کا بکرا بنا دیا جاتا یا وہ خود چھوڑ دیتا تو کم ازکم اس پر الزام تو نہیں لگتا کہ وہ بھی پردھان جی کی طرح فیویکول لگا کر ۰۰۰۰
للن نے تردید میں کہا اس کی کیا مجال؟ وہ تو ایک اشارے پر جانے کے لیے تیار بیٹھا ہے لیکن مسئلہ پارٹی کا نہیں پریوار کا ہے۔
ارے بھیا ہمیں اپنی پارٹی کا صدر بنانا ہے اس میں پریوار کہاں سے آگیا؟
بھائی پریوار آتا نہیں ہوتا ہے۔ ہم لوگ لاکھ کہہ دیں کہ ہمیں اب سنگھ کی ضرورت نہیں لیکن سنگھ پریوار کو ہماری ضرورت رہتی ہے۔
ارے بھائی دہلی جیسے شہر میں تین تین ٹاور بنوا کر دے دئیے اور کیا چاہیے ۔ سچ میں انسان کا پیٹ توقبر کی مٹی ہی بھرے گی ۔
دیکھو بھیا یہ برتری کی جنگ ہے۔ پارٹی نے جب اپنے بل بوتے پر سرکار بنائی تو ہم نے پریوار کی پروا نہیں کی اب ہم بیساکھیوں پر آگئے تو وہ شیر بن گیا۔
تو کیا اب وہ اپنی مرضی کا صدر ہم پر تھوپنا چاہتا ہے؟
ہم پر نہیں اس لیے کوئی بھی صدر بنے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ وہ پردھان جی کے حریفِ اول سنجے جوشی کو ان پر تھوپنا چاہتا ہے ۔
کلن نے پوچھا کہیں تم یہ تو نہیں کہہ رہے کہ سنگھ پردھان جی کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کرانہیں دبا رہا ہے؟
ہاں ہاں تو اس میں غلط کیا ہے جب پردھان جی طاقتور تھے تو اپنا زور دکھاتے تھے ۔ انہوں نے دس سالوں تک سنگھ کو رسوا کیا مگر وہ برداشت کرتارہا۔
اچھا تو کیااب پردھان کو بھگوان سے انسان بننے کی تلقین کرکے بھاگوت انتقام لے رہے ہیں اور شال اوڑھ کر راستہ پکڑنے کی صلاح دینے لگے ہیں ۔
یہی سبب ہے کہ پردھان جی کو لال قلعہ سے سنگھ کی تعریف کرنے کے بعد بھاگوت کی سالگرہ پر اپنے نام سے مضمون لکھوا کر مکھن لگانا پڑرہا ہے۔
یار یہ تو کمال رسوائی ہے اور اس بھاگوت کو دیکھو مضمون کے جواب میں مضمون تو دور سادہ مبارکبادی کا پیغام تک دینے سے کترا رہا ہے ۔
للن بولا بھیا وقت وقت کی بات ہے خیر سے بھاگوت کی عمر بھی75؍سال ہوگئی ورنہ تو وہ آسمان سر پر اٹھا کر پردھان جی کو جھولا ہی تھمادیتا ۔
فی الحال یہ کام راہل گاندھی کررہا ہے۔ اس کا نعرہ ’ووٹ چور گدی ّ چھوڑ‘ خوب چل پڑا ہے ۔ سچ بتاوں اب تو مجھے بھی ۰۰۰۰
بولو بولو رک کیوں گئے ؟ بول دو نا کہ اب تو مجھے بھی یقین ہورہا ہے۔ تم جیسے منافق لوگ ہی ہمارےسب سے بڑے دشمن ہیں ۔ مجھے تو ڈر ہے۰۰۰
کیا ڈر ہے کہ میں پلٹی مار کر کانگریس میں چلا جاوں گا ؟ ارے بھائی گیا بھی تو کیا وہ ہم جیسوں کو منہ لگائیں گے؟
للن بگڑ کر بولا لیکن تم نے یہ سوچا ہی کیسے؟ یہ تو مہا پاپ ہے ۔ کمال کی نمک حرامی ہے ۔
دیکھو بھیا یہ تو ہم نے پردھان جی سے سیکھی ہے۔ انہوں نے بھی تو اپنے استاد اڈوانی جی کے ساتھ یہی کیا تھا، جیسی کرنی ویسی بھرنی فطرت کا قانون ہے۔
یار لیکن مجھ کو راہل سے زیادہ خطرناک ٹرمپ لگتا ہے۔ اس کو اپنے پردھان جی سے نہ جانے کون سا خدا واسطے کا بیر ہے۔ آئے دن جوتا چلا دیتا ہے۔
پردھان جی نے اس کی شکست کےبعد اپنی طوطا چشمی نظریں پھیر لیں اور کملا ہیرس سے جاملے ۔اس فریب دہی نے ٹرمپ کو ٹھیس پہنچادی۔
ہاں تو ٹھیک ہے لیکن پاکستان نے اس کا کیا بھلا کردیا؟ شہباز شریف نے تو نہ نمستے کہا اور نہ عاصم منیر نے کبھی اب کی بار ٹرمپ سرکار کا نعرہ لگایا۔
دیکھو بھیا ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام چاہیے آصف منیر نے ان کے نام کی تجویز پیش کرکے دل جیت لیا اور پردھان جی اس کی ثالثی تک نہیں مان رہے
للن بولا اچھا تو یہ چکر ہےاب سمجھ میں آیا ۔ یار لیکن پردھان جی اس آپسی معاملہ میں کسی تیسرے کی مداخلت کیسے تسلیم کرسکتے ہیں ؟
اچھا تو جب سندھ ندی کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی جارہی تھی تو آپسی معاملہ کہاں گیا پاکستان نے تو اس کے بہانے شملہ معاہدے کو پھاڑ پھینکا۔
دیکھو بھیا الیکشن بھی تو لڑنا ہے آپریشن سیندور کا فائدہ اٹھانے کے لیے تو یہ ضروری تھا ۔ سمجھتے کیوں نہیں ؟
اچھا اگر یہ اتنا ہی ضروری تھا تو پاکستان کے ساتھ میچ کیوں کھیل لیا ۔ جب خون اور پانی ساتھ نہیں بہہ سکتا تو گیند اور بلہ ساتھ کیسےہوسکتے۔
بھیا سیدھے کیوں نہیں بولتے کہ جئے شاہ کے آگے اس کا باپ اورچیلے کے سامنےگروجی نے ہتھیار ڈال دئیے ۔ کیا گرم سیندور ٹھنڈا پڑ گیا ۔
کلن بولایار سچ بتاوں ۔ خون اور سیندور دونوں سفید ہوگیا ۔ قسم سے سمجھ میں نہیں آتا کہ کریں تو کریں کیا اور جائیں تو جائیں کہاں؟
یار چلو چین چلتے ہیں ۔ ٹرمپ کے مقابلے اب وہی ایک سہارا ہے ؟
سہارا؟ کیا بکتے ہو جن شی پنگ تو خطرناک جن ہے۔ اس نے پاکستان کو ایس سی او کی دہشت گردی کے خلاف کمیٹی کا صدر بنادیا اور کیا چاہیے؟
ارے ہاں سنا ہے ایس سی کے اگلے اجلاس کی میزبانی بھی اسی کو سونپ دی اب پردھان جی وہاں کیسے جائیں گے؟
بھیا اب وہ کہیں نہیں جائیں گے ۔ اقوام متحدہ کے عام اجلاس میں جانے والے تھے نہیں گئے۔ اب ان کا آخری ٹھکانہ ناگپور ہے ناگپور ۰۰کیا سمجھے۔
اچھا تو کیا اپنا وشو گرو اپنی 75ویں سالگرہ پر ناگ گرو بن کر رہ گیا ہے ؟
ناگ گرو نہیں بلکہ ناگ چیلا ۰۰۰کیا سمجھے؟ 75؍ سالگرہ پر وہ دن دیکھنا پڑے گا جو کسی نے نہیں سوچا تھا۔
ہاں یار میں اپنے الفاظ ’تم جیو ہزاروں سال ‘ واپس لیتا ہوں اس لیے کہ ایسا جینا بھی کیا جینا ؟
جی ہاں خواجہ میر درد نے تو لگتا ہے پردھان جی کے لیے ہی کہا ہے؎
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے!
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
Like this:
Like Loading...