Skip to content
نریندر مودی کے دورِ حکومت کا تنقیدی جائزہ: پالیسیاں، اثرات اور ورثہ
(75 ویں یوم پیدائش کے تناظر میں: 75 کلیدی پالیسیوں اور فیصلوں کا تجزیہ)
بقلم: ڈاکٹر محمّد عظیم الدین (اکولہ،مہارشٹر)
——–
تمہید
ایک ایسے وقت میں جب نریندر مودی کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر بھارت میں جشن کا سماں ہے اور قومی میڈیا قصیدہ گوئی اور مدح سرائی میں مصروف ہے، تاریخ کا بے لاگ اصول اور جمہوریت کا بنیادی تقاضا ہمیں ایک مختلف ذمہ داری کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ ذمہ داری یہ ہے کہ حاکمِ وقت کو سرکاری بیانیے کے سنگھاسن سے اتار کر اس کے اعمال کے کٹہرے میں پرکھا جائے۔ جب شخصیت پرستی کی چکاچوند نگاہوں کو خیرہ کر دے اور ’گودی میڈیا‘ کا فلک شگاف شور زمینی حقائق پر پردہ ڈالنے لگے، تب دانش اور دیانت کا فرض بنتا ہے کہ وہ تصویر کا دوسرا، اور اکثر حقیقی، رخ عوام کے سامنے لائے۔
یہ تحریر اسی فرض کی ادائیگی ہے؛ یہ اس شور کے پردے کو ہٹا کر ان سچائیوں کو بے نقاب کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے جنہیں اقتدار کی راہداریوں میں دفن کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ مضمون محض ایک تنقیدی جائزہ نہیں، بلکہ ایک تاریخی دستاویز ہے جو ان 75 فیصلوں اور پالیسیوں کا احتساب کرتا ہے جنہوں نے بھارت کی تقدیر پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، تاکہ جب مستقبل اس دور کا فیصلہ کرے، تو اس کے سامنے صرف دعوے نہ ہوں، بلکہ ٹھوس حقائق اور ان کے نتائج بھی موجود ہوں۔
حصّہ اول : معاشی پالیسیاں اور ان کے نتائج: حکومت نے معیشت کو نئی بلندیوں پر لے جانے کا وعدہ کیا، لیکن کئی بڑے فیصلوں کے نتائج توقعات کے برعکس رہے۔
1. نوٹ بندی: نومبر 2016 کو کالے دھن، جعلی کرنسی اور دہشت گردی کی فنڈنگ کے خاتمے کے اہداف کے ساتھ 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو اچانک منسوخ کر دیا گیا۔ تاہم، ریزرو بینک آف انڈیا (RBI) کی 2018 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، منسوخ شدہ کرنسی کا 99.3 فیصد بینکنگ سسٹم میں واپس آ گیا، جس سے کالے دھن کو ختم کرنے کا بنیادی مقصد حاصل نہ ہو سکا۔ اس فیصلے نے غیر منظم شعبے کو شدید نقصان پہنچایا اور لاکھوں ملازمتیں ختم ہو گئیں۔
2. ناقص جی ایس ٹی (GST) نفاذ: "ایک ملک، ایک ٹیکس” کے نظریے کے تحت نافذ کیے گئے گڈز اینڈ سروسز ٹیکس کا مقصد ٹیکس کے نظام کو آسان بنانا تھا۔ لیکن اس کے پیچیدہ ڈھانچے، متعدد ٹیکس سلیبز اور تکنیکی خامیوں نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجروں کے لیے اہم مشکلات پیدا کیں، جس سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔
3. ریکارڈ بے روزگاری: حکومت نے روزگار پیدا کرنے کو ترجیح قرار دیا، لیکن قومی شماریاتی دفتر (NSO) کی پیریڈک لیبر فورس سروے (PLFS) 2017-18 رپورٹ کے مطابق، بے روزگاری کی شرح 6.1 فیصد تک پہنچ گئی، جو پچھلے 45 سالوں میں بلند ترین سطح تھی۔
4. معاشی ترقی میں تاریخی گراوٹ: کووڈ-19 کی وبا سے قبل ہی معیشت سست روی کا شکار تھی۔ قومی شماریاتی دفتر کے مطابق، مالی سال 2020-21 میں جی ڈی پی میں 6.6 فیصد کی تاریخی گراوٹ ریکارڈ کی گئی۔
5. بینکنگ بحران: نان پرفارمنگ اثاثوں (NPAs) میں اضافے نے بینکنگ سیکٹر پر شدید دباؤ ڈالا۔ یس بینک اور پی ایم سی بینک جیسے اداروں کے بحران نے لاکھوں کھاتہ داروں کے سرمائے کو خطرے میں ڈال دیا۔
6. "میک ان انڈیا” کی محدود کامیابی: 2014 میں اس اسکیم کا مقصد جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کا حصہ بڑھا کر 25 فیصد کرنا اور روزگار پیدا کرنا تھا۔ تاہم، کئی سال بعد بھی یہ حصہ تقریباً 15-17 فیصد پر ہی مستحکم رہا اور یہ اسکیم روزگار کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
7. "اسکل انڈیا” کی ناکامی: نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کا یہ منصوبہ فنڈز کے غلط استعمال اور ناقص تربیت کے الزامات کی وجہ سے زمینی سطح پر وسیع اثرات مرتب کرنے میں ناکام رہا۔
8. مہنگائی میں اضافہ: پٹرول، ڈیزل، رسوئی گیس اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عام شہریوں کی قوتِ خرید کو بری طرح متاثر کیا۔
9. آمدنی میں عدم مساوات: آکسفیم (Oxfam) کی رپورٹس نے مسلسل اس بات کی نشاندہی کی کہ مودی کے دورِ حکومت میں بھارت میں امیر اور غریب کے درمیان معاشی خلیج مزید گہری ہوئی اور دولت کا بڑا حصہ ایک فیصد امیر ترین طبقے کے پاس مرتکز ہو گیا۔
10. ریلوے کی نجکاری: منافع بخش روٹس اور ٹرینوں کی نجکاری کے اقدامات پر یہ خدشات ظاہر کیے گئے کہ اس سے کرایوں میں اضافہ ہوگا اور ریلوے اپنی سماجی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو جائے گی۔
11. ایئر انڈیا کی فروخت: قومی ایئر لائن کو بھاری قرضوں کے بعد ٹاٹا گروپ کو فروخت کر دیا گیا، جسے ناقدین قومی اثاثوں کو کم قیمت پر فروخت کرنے کی پالیسی کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
12. افراط زر کو کنٹرول کرنے میں ناکامی: ریزرو بینک آف انڈیا اپنی مانیٹری پالیسی کے ذریعے افراط زر کو مقررہ ہدف (inflation target) کے اندر رکھنے میں اکثر ناکام رہا۔
13. برآمدات میں سست روی: عالمی منڈی میں بھارتی برآمدات کی کارکردگی کمزور رہی، جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ (trade deficit) مسلسل بڑھتا رہا۔
14. نجی سرمایہ کاری میں کمی: معاشی غیر یقینی صورتحال اور پالیسیوں میں استحکام کی کمی کی وجہ سے نجی شعبے کی طرف سے نئی سرمایہ کاری میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔
15. پی ایم کیئرز فنڈ کی غیر شفافیت: کووڈ-19 کے لیے قائم کیے گئے پی ایم کیئرز فنڈ کو حق اطلاعات (RTI) ایکٹ کے دائرہ کار سے باہر رکھنے کے فیصلے نے اس کے فنڈز کے استعمال اور شفافیت پر سنگین سوالات کھڑے کیے۔
حصہ دوم: سماجی ہم آہنگی اور اقلیتوں کی حیثیت: مودی حکومت پر اکثر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس کے دور میں سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچا اور مذہبی اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا۔
16. شہریت ترمیمی قانون (CAA): 2019 میں منظور کیے گئے اس قانون کا مقصد پڑوسی ممالک سے آنے والے غیر مسلم مہاجرین کو شہریت دینا تھا۔ ناقدین کے مطابق، مذہب کی بنیاد پر شہریت کی تفریق بھارتی آئین کے سیکولر ڈھانچے کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے خلاف ملک گیر مظاہرے ہوئے جن میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔
17. ہجومی تشدد (Mob Lynching): گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں پر حملوں اور انہیں قتل کرنے کے واقعات میں تشویشناک اضافہ ہوا۔ حکومت پر ان واقعات کی مؤثر روک تھام میں ناکامی اور بعض اوقات ملزمان کی بالواسطہ حمایت کے الزامات لگے۔
18. دہلی فسادات 2020: سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات میں 53 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ دہلی پولیس کے کردار اور حکومت کی ناکامی پر بین الاقوامی سطح پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔
19. نفرت انگیز تقاریر کا فروغ: حکمران جماعت کے رہنماؤں اور ان کے حامیوں کی طرف سے اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے کلچر کو فروغ ملا، جس سے سماجی ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچا۔
20. جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ: 5 اگست 2019 کو حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے ریاست کو دو وفاقی اکائیوں میں تقسیم کر دیا۔ حکومت نے اسے ترقی اور انضمام کے لیے ضروری قرار دیا، لیکن اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے مقامی قیادت کی گرفتاریوں اور دنیا کے طویل ترین انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن جیسے غیر جمہوری اقدامات پر شدید تنقید کی گئی۔
21. این آر سی (NRC) کا خوف: آسام میں قومی شہری رجسٹر کے نفاذ سے 19 لاکھ سے زائد افراد اپنی شہریت سے محروم ہو گئے، جس نے ملک بھر کی اقلیتوں میں یہ خوف پیدا کر دیا کہ انہیں بھی اپنی شہریت ثابت کرنے کے عمل سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔
22. روہنگیا پناہ گزینوں کی بے دخلی: حکومت نے انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیلوں کے باوجود روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس میانمار بھیجنے کی پالیسی اپنائی، جہاں ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔
23. مذہبی تبدیلی کے خلاف قوانین: بی جے پی کی حکومت والی کئی ریاستوں میں "لو جہاد” کے بیانیے کے تحت بین المذاہب شادیوں کو نشانہ بنانے کے لیے سخت قوانین بنائے گئے، جن کا استعمال اقلیتی برادری کو ہراساں کرنے کے لیے کیا گیا۔
24. تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں: تعلیمی نصاب اور تاریخی مقامات کے ناموں میں تبدیلی کے ذریعے تاریخ کو ایک مخصوص نظریاتی نقطہ نظر سے پیش کرنے کی کوششوں پر مورخین نے شدید تنقید کی۔
25. عیسائی برادری پر حملے: ملک کے مختلف حصوں میں گرجا گھروں پر حملوں، مذہبی اجتماعات میں رکاوٹ ڈالنے اور عیسائی مشنریوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
حصہ سوم: جمہوری اداروں کی سالمیت اور گورننس: ناقدین کا ماننا ہے کہ مودی حکومت کے دور میں بھارت کے جمہوری اداروں، جیسے پارلیمنٹ، عدلیہ، میڈیا اور تحقیقاتی ایجنسیوں کی خود مختاری کو منظم طریقے سے کمزور کیا گیا۔
26. انتخابی بانڈز (Electoral Bonds): سیاسی فنڈنگ میں شفافیت لانے کے دعوے کے ساتھ متعارف کرائی گئی اس اسکیم نے گمنام کارپوریٹ عطیات کو فروغ دیا، جس کا سب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کو ہوا۔ فروری 2024 میں سپریم کورٹ نے اسے معلومات کے حق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے غیر آئینی قرار دے دیا۔
27. پریس کی آزادی پر حملہ: ‘رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز’ کی طرف سے جاری کردہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت کی درجہ بندی 2014 میں 140 سے گر کر 2023 میں 161 ہو گئی۔ تنقیدی صحافیوں کو قانونی مقدمات اور ایجنسیوں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔
28. تحقیقاتی ایجنسیوں کا غلط استعمال: انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ED)، سی بی آئی (CBI) اور انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے استعمال پر یہ الزامات لگے کہ انہیں سیاسی مخالفین اور ناقدین کو دبانے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
29. عدلیہ کی آزادی میں مداخلت: ججوں کی تقرری اور تبادلوں کے نظام (کالجیم سسٹم) پر حکومتی دباؤ اور عدالتی فیصلوں پر وزراء کے عوامی تبصروں نے عدلیہ کی آزادی پر سوالات اٹھائے۔
30. آر ٹی آئی قانون کو کمزور کرنا: حق اطلاعات قانون میں 2019 کی ترامیم نے انفارمیشن کمشنروں کی مدتِ ملازمت اور تنخواہوں کو مرکز کے کنٹرول میں دے دیا، جس سے ان کی خود مختاری کمزور ہوئی۔
31. یو اے پی اے (UAPA) کا غلط استعمال: غیر قانونی سرگرمیوں (روک تھام) ایکٹ کا استعمال سماجی کارکنوں، طلباء اور صحافیوں کو بغیر مقدمہ چلائے طویل عرصے تک قید رکھنے کے لیے کیا گیا، جیسا کہ بھیما کوریگاؤں کیس میں دیکھا گیا۔
32. پیگاسس جاسوسی اسکینڈل: بین الاقوامی میڈیا کنسورشیم کی رپورٹس کے مطابق، بھارتی حکومت نے اسرائیلی اسپائی ویئر پیگاسس کا استعمال صحافیوں، اپوزیشن رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جاسوسی کے لیے کیا۔ حکومت نے ان الزامات پر واضح جواب دینے سے گریز کیا۔
33. کسان تحریک سے غلط برتاؤ: تین متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف ایک سال سے زیادہ جاری رہنے والی کسان تحریک کے دوران حکومت نے سخت رویہ اپنایا۔ 700 سے زائد کسانوں کی اموات کے بعد بالآخر حکومت نے یہ قوانین واپس لے لیے۔
34. لکھن پور کھیری واقعہ: مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ کے بیٹے پر احتجاجی کسانوں کو گاڑی سے کچل کر ہلاک کرنے کا الزام لگا، جس پر حکومت کے ردِ عمل نے شدید تنقید کو جنم دیا۔
35. سی اے اے مخالف مظاہرین پر کریک ڈاؤن: جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسی جامعات میں طلباء پر پولیس کی پرتشدد کارروائیوں کی وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی۔
36. پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنا: اہم قوانین، بشمول زرعی قوانین اور آرٹیکل 370 کی منسوخی، کو بغیر مناسب بحث اور پارلیمانی کمیٹیوں کو بھیجے بغیر جلد بازی میں منظور کرایا گیا۔
37. فیڈرل ازم کو کمزور کرنا: مرکزی حکومت پر ریاستوں کے مالی حقوق، خاص طور پر جی ایس ٹی معاوضے کی ادائیگی میں تاخیر اور مرکزی اسکیموں کو مسلط کرنے کے ذریعے وفاقی ڈھانچے کو کمزور کرنے کے الزامات لگے۔
38. پہلوانوں کے احتجاج کو نظر انداز کرنا: بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ پر جنسی ہراسانی کا الزام لگانے والی ملک کی نامور خاتون پہلوانوں کے مہینوں تک جاری رہنے والے احتجاج کو حکومت نے طویل عرصے تک نظر انداز کیا۔
39. منی پور تشدد پر خاموشی: منی پور میں دو برادریوں کے درمیان مہینوں تک جاری رہنے والی نسلی تشدت پر وزیر اعظم کی طویل خاموشی پر شدید تنقید کی گئی، جس نے حکومت کی گورننس پر سنگین سوالات کھڑے کیے۔
حصہ چہارم: خارجہ پالیسی، قومی سلامتی اور عوامی بہبود: قومی سلامتی اور عالمی سطح پر بھارت کی مضبوط شبیہ مودی حکومت کے مرکزی بیانیے کا حصہ رہی، لیکن اس میدان میں بھی کئی چیلنجز اور متنازعہ فیصلے سامنے آئے۔
40. چین کے ساتھ سرحدی بحران: 2020 میں وادی گلوان میں چینی فوج کے ساتھ پرتشدد جھڑپ میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے۔ ناقدین کا الزام ہے کہ حکومت چین کی طرف سے بھارتی علاقے پر قبضے کی حقیقت کو تسلیم کرنے اور اس پر پارلیمنٹ میں بحث کرنے سے گریز کر رہی ہے۔
41. پڑوسی ممالک سے تعلقات میں بگاڑ: سی اے اے اور دیگر پالیسیوں کی وجہ سے نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے روایتی دوست ممالک کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا۔
42. آر سی ای پی (RCEP) سے دستبرداری: بھارت نے علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری (RCEP) کے معاہدے سے آخری لمحات میں دستبرداری اختیار کر لی، جسے ناقدین جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ تجارتی انضمام کا ایک بڑا موقع ضائع کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔
43. پلوامہ حملہ اور سیکیورٹی میں کوتاہی: فروری 2019 میں پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں 40 جوانوں کی ہلاکت نے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی میں سنگین کوتاہیوں کو بے نقاب کیا۔
44. اگنی پتھ اسکیم: مسلح افواج میں بھرتی کی اس قلیل مدتی اسکیم نے مستقل ملازمت اور پنشن کے تحفظات کو ختم کر دیا، جس کے خلاف ملک بھر میں نوجوانوں نے پرتشدد احتجاج کیا۔
45. رافیل معاہدے میں تنازعہ: فرانس سے 36 رافیل جنگی طیاروں کی خریداری کے معاہدے پر بدعنوانی، قیمتوں میں اضافے اور آفسیٹ پارٹنر کے انتخاب کے حوالے سے سنگین الزامات عائد کیے گئے، جن کی حکومت نے تردید کی۔
46. کووڈ-19 کی دوسری لہر کا بحران: 2021 میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران آکسیجن، اسپتال کے بستروں اور ادویات کی شدید قلت نے صحت کے نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا۔ اس بحران سے نمٹنے میں حکومتی بدانتظامی پر عالمی سطح پر تنقید ہوئی۔
47. گنگا میں تیرتی لاشیں: کووڈ کی دوسری لہر کے دوران، اتر پردیش اور بہار میں گنگا ندی میں سینکڑوں لاشیں تیرتی ہوئی پائی گئیں، جس نے حکومت کی ناکامی اور انسانی بحران کی شدت کو دنیا کے سامنے عیاں کر دیا۔
48. لاک ڈاؤن کے دوران مہاجر مزدوروں کا بحران: مارچ 2020 میں بغیر منصوبہ بندی کے اچانک لاک ڈاؤن نافذ کرنے سے کروڑوں مہاجر مزدور بے سہارا ہو گئے اور انہیں سینکڑوں کلومیٹر پیدل سفر کرنے پر مجبور ہونا پڑا، جس دوران کئی اموات ہوئیں۔
49. ویکسین کی ناقص منصوبہ بندی: بھارت "دنیا کی فارمیسی” کہلانے کے باوجود اپنے شہریوں کو بروقت ویکسین فراہم کرنے میں ابتدائی طور پر ناکام رہا۔ ویکسین کی قیمتوں اور تقسیم کی پالیسی پر بھی حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
50. نمامی گنگے پروجیکٹ کی ناکامی: گنگا ندی کو صاف کرنے کا یہ فلیگ شپ پروجیکٹ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود آلودگی کی سطح میں کوئی خاص کمی لانے میں ناکام رہا۔
51. اسمارٹ سٹیز مشن کی سست رفتاری: 100 شہروں کو "اسمارٹ” بنانے کا منصوبہ فنڈز کے اجرا اور منصوبوں کی تکمیل میں شدید سست روی کا شکار رہا اور اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکا۔
52. وزیر اعظم کی پریس کانفرنس سے گریز: اپنے پورے دورِ حکومت میں نریندر مودی نے ایک بھی کھلی پریس کانفرنس کا سامنا نہیں کیا، جسے ناقدین نے جوابدہی سے فرار کے طور پر دیکھا۔
53. عالمی انڈیکسز میں گراوٹ: جمہوریت، پریس کی آزادی، انسانی ترقی، اور بھوک کے عالمی انڈیکسز (V-Dem Institute, Hunger Index) میں بھارت کی درجہ بندی میں مسلسل گراوٹ آئی۔
54. تعلیمی اداروں پر نظریاتی کنٹرول: جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (JNU) جیسی جامعات کی خود مختاری کو کمزور کرنے اور ان پر ایک مخصوص نظریہ مسلط کرنے کی کوششوں پر علمی حلقوں نے شدید تشویش کا اظہار کیا۔
55. ماحولیاتی قوانین کو کمزور کرنا: ترقیاتی منصوبوں کو تیزی سے منظوری دینے کے لیے ماحولیاتی اثرات کے جائزے (EIA) کے قوانین کو کمزور کیا گیا، جس سے قدرتی وسائل کو شدید خطرات لاحق ہوئے۔
56. آدھار کی لازمی حیثیت اور ڈیٹا سیکیورٹی: آدھار کو ہر سروس کے لیے لازمی بنانے اور اس کے ڈیٹا کی سیکیورٹی کے حوالے سے سپریم کورٹ میں بھی خدشات کا اظہار کیا گیا۔
حصہ پنجم: حکومتی کارکردگی، وعدے اور اختتامیہ: اس حصے میں حکومت کے دیگر منصوبوں، وعدوں اور مجموعی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے۔
57. سیاسی تقاریر میں غلط بیانی: وزیر اعظم پر اپنی تقاریر میں تاریخی حقائق اور اعداد و شمار کو غلط انداز میں پیش کرنے کے الزامات لگے۔
58. گجرات ماڈل کا کھوکھلا پن: انسانی ترقی کے اشاریوں، جیسے صحت، تعلیم اور غذائیت میں گجرات کی کارکردگی دیگر کئی ریاستوں کے مقابلے میں کمزور رہی، جس نے "گجرات ماڈل” کے دعوؤں پر سوالات اٹھائے۔
59. 2002 گجرات فسادات کا داغ: بطور وزیر اعلیٰ، ان کی حکومت 2002 کے گجرات فسادات کو روکنے میں ناکام رہی۔ اگرچہ سپریم کورٹ کی مقرر کردہ SIT نے انہیں کلین چٹ دی، لیکن ناقدین آج بھی ان کے کردار پر سوال اٹھاتے ہیں۔
60. خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ: نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کے اعداد و شمار کے مطابق، ان کے دور میں خواتین کے خلاف جرائم میں کمی نہیں آئی۔ ہاتھرس اور اناؤ جیسے واقعات نے ملک کے قانونی نظام پر سوالات کھڑے کیے۔
61. دلتوں پر مظالم میں اضافہ: دلتوں کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کے واقعات میں اضافہ ہوا، جیسا کہ اونا (گجرات) میں دلت نوجوانوں پر تشدد کے واقعے سے ظاہر ہوا۔
62. "سنسد آدرش گرام یوجنا” کی ناکامی: اس اسکیم کے تحت ہر رکن پارلیمنٹ کو ایک گاؤں گود لے کر اسے مثالی بنانا تھا، لیکن یہ اسکیم زیادہ تر غیر مؤثر رہی۔
63. سیاسی مخالفین کی حکومتیں گرانا: مدھیہ پردیش، کرناٹک اور مہاراشٹر جیسی ریاستوں میں منتخب حکومتوں کو گرانے کے لیے اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کے الزامات لگے۔
64. گورنر کے عہدے کا غلط استعمال: غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں گورنروں کے عہدے کو ریاستی حکومتوں کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے استعمال کرنے کے الزامات لگے۔
65. ڈیجیٹل انڈیا میں ڈیجیٹل تفریق: انٹرنیٹ کی رسائی میں اضافہ ہوا لیکن دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان ڈیجیٹل سہولیات اور خواندگی کا فرق مزید گہرا ہوا۔
66. منصوبہ بندی کمیشن کا خاتمہ: منصوبہ بندی کمیشن کو ختم کرکے نیتی آیوگ کا قیام عمل میں لایا گیا، جسے ناقدین نے منصوبہ بندی کے عمل میں ریاستوں کے کردار کو کم کرنے کی کوشش قرار دیا۔
67. آر بی آئی کی خود مختاری کو کمزور کرنا: گورنر ارجت پٹیل اور ڈپٹی گورنر ویرل آچاریہ کے استعفوں نے مرکزی بینک کی خود مختاری میں حکومتی مداخلت کو بے نقاب کیا۔
68. اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کے الزامات: حکومت پر جی ڈی پی اور روزگار جیسے اہم معاشی اعداد و شمار کو اپنے سیاسی بیانیے کے مطابق ڈھالنے یا چھپانے کے الزامات لگے۔
69. مجسمہ اتحاد پر بے جا اخراجات: سردار پٹیل کے مجسمے پر تقریباً 3000 کروڑ روپے خرچ کرنے پر شدید تنقید کی گئی، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک معاشی مسائل سے دوچار تھا۔
70. نئے پارلیمنٹ ہاؤس کی تعمیر: کووڈ بحران کے دوران "سینٹرل وسٹا پروجیکٹ” پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ کرنے کے فیصلے کو عوامی ترجیحات سے متصادم قرار دیا گیا۔
71. بلٹ ٹرین منصوبے میں تاخیر: ممبئی-احمد آباد بلٹ ٹرین پروجیکٹ زمین کے حصول اور لاگت میں اضافے جیسے مسائل کی وجہ سے شدید تاخیر کا شکار ہے۔
72. کالے دھن کی واپسی کا وعدہ: 2014 کے انتخابات میں بیرون ملک سے کالا دھن واپس لانے اور ہر شہری کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپے جمع کرانے کا وعدہ پورا نہیں ہو سکا۔
73. دو کروڑ نوکریوں کا وعدہ: ہر سال دو کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کا وعدہ پورا نہیں کیا جا سکا؛ اس کے برعکس، کئی شعبوں میں ملازمتیں کم ہوئیں۔
74. شفافیت اور جوابدہی کا فقدان: حکومت پر رافیل، پی ایم کیئرز فنڈ اور انتخابی بانڈز جیسے اہم معاملات میں شفافیت نہ برتنے کے مسلسل الزامات لگے۔
75. گنگا ایکسپریس وے کی ماحولیاتی قیمت: ماحولیاتی خدشات کو نظر انداز کرتے ہوئے بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں کو آگے بڑھایا گیا۔
اختتامیہ:
یہ 75 نکات محض منتشر واقعات کی فہرست نہیں، بلکہ یہ ایک مربوط طرزِ حکمرانی اور اس کے ناگزیر نتائج کی ایک جامع دستاویز ہیں۔ یہ ایک ایسے طرزِ حکمرانی کی عکاسی کرتے ہیں جس کی بنیاد معاشی فیصلوں کی عجلت، سماجی تانے بانے کی شکست و ریخت، اور جمہوری اداروں کی فرسودگی پر استوار نظر آتی ہے۔ اس دور کا سب سے بڑا تضاد بلند بانگ وعدوں اور تلخ زمینی حقائق کے درمیان پایا جانے والا گہرا خلا ہے، اور اس کی قیمت ملک کے محنت کشوں، اقلیتوں، کسانوں اور ان تمام شہریوں نے ادا کی جو ‘اچھے دن’ کے منتظر رہے۔
بلاشبہ، تاریخ نریندر مودی کو ایک قد آور رہنما کے طور پر یاد رکھے گی جس نے ایک مضبوط شبیہہ کو عالمی سطح پر پیش کیا، لیکن تاریخ کا بے رحم قلم یہ بھی درج کرے گا کہ اس شبیہہ کی تعمیر کے دوران جمہوریت کی بنیادیں کس قدر کھوکھلی ہوئیں اور آئین کی روح کس طرح مجروح ہوئی۔ لہٰذا، اس دور کا حتمی ورثہ فلک بوس مجسموں یا پرشکوہ منصوبوں میں نہیں، بلکہ ان 75 سوالیہ نشانوں میں پوشیدہ ہے جو بھارت کے جمہوری مستقبل پر ثبت ہو چکے ہیں۔
=============
Like this:
Like Loading...