Skip to content
کرناٹک کا سماجی و معاشی سروے عوامی بحث کا موضوع.
مسلمانوں کے لئے امیدوں اور خدشات کا سنگم
از : عبدالحلیم منصور
کرناٹک حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ستمبر کے اواخر اور اکتوبر کے اوائل میں پسماندہ طبقات کمیشن کی نگرانی میں ریاست بھر میں ایک نیا سماجی، معاشی اور تعلیمی سروے کرایا جائے گا۔ اس سروے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ گھر گھر جا کر تفصیلات جمع کی جائیں گی اور اس بار جدید نظام کے تحت ایسے اعداد و شمار تیار کیے جائیں گے جن پر کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس اقدام کا مقصد ہر طبقے کی حقیقی حالت معلوم کرنا اور اسی بنیاد پر فلاحی اسکیموں، تعلیمی مواقع اور ریزرویشن کی پالیسیوں کو ازسرنو ترتیب دینا ہے۔ یہ اعلان بظاہر خوش آئند ہے لیکن ماضی کے تلخ تجربات کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں سمیت کئی پسماندہ طبقات کے ذہنوں میں شکوک و شبہات نے جگہ بنا لی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل 2015 میں کانتراج کمیشن کے تحت ایک بڑا سروے ہوا تھا ,جس پر 165 کروڑ روپیوں سے زیادہ خرچ ہوئے تھے، اس سروے نے ریاست کے سماجی اور معاشی تانے بانے کو آئینے کی طرح واضح کر دیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی آبادی سرکاری اندازوں سے کہیں زیادہ ثابت ہوئی اور ان کی تعلیمی و معاشی حالت نہایت پسماندہ قرار دی گئی۔کمیشن نے سفارش کی تھی کہ مسلمانوں کے لئے چار فیصد ریزرویشن ناکافی ہے، اسے بڑھا کر آٹھ فیصد کیا جانا چاہئے تاکہ ان کی ترقی کی راہیں ہموار ہوں۔ مگر جیسے ہی یہ رپورٹ منظرِ عام پر آئی، ریاست کی بڑی اور بااثر برادریوں نے مخالفت شروع کر دی۔ انہوں نے اپنی آبادی کو کم ظاہر کیے جانے کا الزام عائد کیا اور سروے کو جانبدار اور غیر سائنسی قرار دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت نے سیاسی دباؤ کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور ایک مستند رپورٹ کو الماریوں میں قید کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے لئے یہ واقعہ ایک ناقابل فراموش زخم بن گیا جس نے انہیں یہ احساس دلایا کہ ان کی محرومیاں صرف کتابی الفاظ ہیں، عملی انصاف ان کے حصے میں آنا ابھی باقی ہے۔
اب ایک بار پھر نیا سروے سامنے ہے۔ حکومت نے اس بار وعدہ کیا ہے کہ طریقہ کار زیادہ شفاف ہوگا، موبائل ایپ کے ذریعے گھر گھر معلومات اکٹھا کی جائیں گی، آدھار کارڈ کی بنیاد پر شناخت ہوگی اور ساٹھ سوالات پر مشتمل تفصیلات درج کی جائیں گی جن میں تعلیم، روزگار، جائیداد، صحت، رہائش اور ذات برادری کی معلومات شامل ہوں گی۔ اس سروے پر چار سو بیس کروڑ روپے سے زیادہ کا بجٹ مختص کیا گیا ہے اور ایک لاکھ پچاسی ہزار سرکاری ملازمین و اساتذہ اس کام میں شریک ہوں گے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس بار کسی گھر کو چھوڑا نہیں جائے گا اور ہر فرد کی گنتی ہوگی۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ سروے واقعی مسلمانوں کے لئے نئی امید ثابت ہوگا یا پھر ایک اور سیاسی تماشہ بن کر رہ جائے گا۔ اگر حکومت اپنے اعلان کے مطابق شفاف اور غیر جانبدار طریقے سے سروے کراتی ہے تو اس کے نتائج نہایت انقلابی ہو سکتے ہیں۔ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی، بے روزگاری، غربت اور رہائشی مسائل سب کے سب اعداد و شمار کی صورت میں سامنے آئیں گے اور حکومت پر لازم ہوگا کہ وہ ان کے ازالے کے لئے نئی پالیسیاں وضع کرے۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے لئے وظائف میں اضافہ، اعلیٰ تعلیم کے مواقع، روزگار کی اسکیموں میں حصہ داری، طبی سہولتوں میں بہتری اور رہائشی منصوبوں میں انصاف کی امید بڑھ سکتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان کی سیاسی نمائندگی کو بھی نئے زاویے سے دیکھا جا سکے گا، کیونکہ آبادی کے درست اعداد و شمار ایک بڑی دلیل فراہم کریں گے۔
لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب حکومت سیاسی دباؤ کا شکار نہ ہو۔ ریاست کی طاقتور برادریاں ایک بار پھر اپنے مفاد کے تحفظ کے لئے سرگرم ہو سکتی ہیں اور یہ کہنا مشکل نہیں کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے رپورٹ کے نتائج کو کمزور کرنے کی کوشش کریں گی۔ اگر حکومت نے ماضی کی طرح کمزور موقف اختیار کیا تو یہ سروے بھی محض ایک دکھاوا بن کر رہ جائے گا۔اسی طرح یہ اندیشہ بھی موجود ہے کہ رپورٹ کے مکمل نتائج عوام کے سامنے پیش ہی نہ کئے جائیں، جیسا کہ ماضی میں ہوا۔ اس خطرے سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ عوام، خصوصاً مسلمان پوری سنجیدگی کے ساتھ اس عمل میں شامل ہوں۔ ہر گھر درست معلومات فراہم کرے، کسی بھی غلط اندراج کی نشاندہی کرے اور یہ بات یقینی بنائے کہ ان کے مسائل اور پسماندگیاں کاغذ پر صحیح طرح درج ہوں۔مزید یہ کہ مسلمانوں کے اندر بھی ذیلی برادریاں اور طبقات ہیں، اگر ان کی تفصیلات درست انداز میں درج نہ ہوئیں تو کئی گروہ محروم رہ سکتے ہیں۔
ایسے حالات میں مسلمانوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس عمل کو سنجیدگی سے لیں۔ ہر گھر کو چاہیئے کہ درست اور مکمل معلومات فراہم کرے، زمین کے کاغذات اور تعلیمی اسناد تیار رکھے اور کسی بھی غلط اندراج یا جانبداری کی فوری نشاندہی کرے۔مساجد، مدارس اور سماجی تنظیموں پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام میں بیداری پیدا کریں اور انہیں سمجھائیں کہ یہ سروے ان کے مستقبل کے لئے کتنا اہم ہے۔ غفلت یا بے پروائی اس موقع کو ضائع کر سکتی ہے اور پھر برسوں تک محرومیوں کے اندھیرے چھٹنے کا امکان نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ حقیقت سے چشم پوشی کے بجائے اس کا اعتراف ہی ان کے لئے نئی راہیں کھول سکتا ہے۔ریاستی اقلیتی کمیشن نے مسلمانوں سے درخواست کی ہے کہ وہ ای کے وائی سی یافتہ آدھار کارڈ ، راشن کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ تیار رکھیں ،اور انہیں فراہم ہونے والے سوالنامے میں 60 سوالات کے جوابات درست درج کرائیں ۔مذہب کے کالم میں اسلام ، ذات کے کالم میں مسلمان اور ذیلی ذات کے کالم میں مسلمانوں کے 124 تسلیم شدہ فرقوں میں سے اپنا فرقہ درج کراسکتے ہیں ۔
حکومت کے لئے بھی یہ ایک آزمائش ہے۔ کیا وہ حقیقت کو قبول کرے گی اور اس کی بنیاد پر جرات مندانہ فیصلے لے گی، یا پھر ایک بار پھر طاقتور طبقوں کے دباؤ کے آگے جھک جائے گی؟ اگر وہ سچائی کو تسلیم کر کے انصاف پر مبنی پالیسیاں نافذ کرتی ہے تو یہ سروے مسلمانوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے لئے ایک سنگِ میل ثابت ہوگا۔ لیکن اگر یہ موقع بھی گنوا دیا گیا تو تاریخ ایک بار پھر گواہی دے گی کہ محروموں کی آواز دبانے والے خود اپنی جمہوریت کی بنیادوں کو کمزور کرتے ہیں۔
یہ وقت شکایت کا نہیں، بیداری اور ذمہ داری کا ہے۔ مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی تقدیر کا فیصلہ صرف حکومت نہیں کرے گی بلکہ ان کی اپنی سنجیدگی اور شمولیت بھی اس عمل کو کامیاب یا ناکام بنانے میں بنیادی کردار ادا کرے گی۔ اگر وہ متحد اور باشعور ہو کر اس سروے میں شریک ہوں گے تو کوئی طاقت ان کی حقیقت کو جھٹلا نہیں سکے گی، اور یہی حقیقت ان کے بہتر مستقبل کی ضمانت بن سکتی ہے۔
؎ نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
علامہ اقبال
haleemmansoor@gmail.com
Like this:
Like Loading...