Skip to content
آپریشن سیندور ختم اور کرکٹ کا کھیل شروع
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
وزیر اعظم نریندر مودی نے بہت دھوم دھام سے اپنی 75؍ ویں سالگرہ منائی اور بی جے پی والے اس کے بعد سے خدمت کے دو ہفتے منارہے ہیں حالانکہ وہ بھول گئے خدمت منانے کی نہیں کرنے چیز ہوتی ہے اور ہمہ وقتی سیاستدانوں کے لیے دوہفتوں کی رسمی خدمت خالص منافقت ہے۔ ایک ایسے دورِ پر فتن میں جبکہ سیاسی رہنما اپنے عوام کے خادم سے ترقی کر کےمخدوم بن گئے ہوں خدمت کا اعلان ہی بہت ہے ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا :’’ امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی۰۰۰۰وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا‘۔ خیر قدیم بادشاہ اپنی سالگرہ کے موقع پر قیدیوں کو رہا کیا کرتے تھے۔ وزیر اعظم مودی نے بھی اپنی رحمدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سالگرہ سے ایک ہفتہ قبل قیدیوں کو رہا کرنے کا فرمان جاری کروا دیا لیکن ان کی مسلم مخالف شبیہ نے اس کاسیاسی فائدہ اٹھانے سے محروم ر کھا ورنہ یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا ماسٹر اسٹروک تھا ۔ آپریشن سیندور کے بعد اگر حالات کشیدہ نہیں ہوئے ہوتے تو اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا لیکن برا ہو بہار الیکشن کے دباو کا کہ اس نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ زمانے کے ساتھ رجحان میں یہ تبدیلی ضرور آئی ہے کہ عصرِ حاضرکے بادشاہ اور آمر بھی اپنی سالگرہ کے موقع پر ایسا کرنے سے شرماتے ہیں اس لیے ممکن نے مودی جی کو کسی سمجھدار درباری نے عار دلائی ہو؟ جس کے سبب وزیر اعظم اس کا اعلان کرنے سے رک گئے ہوں ؟ واللہ اعلم ۔
خلیجی ریاستوں کے حکمران عام طور عید الفطر کے موقع پر قیدیوں کے لیے معافی کا اعلان کرتے ہیں۔ پچھلے سال بحرین کے بادشاہ نے مختلف الزامات میں سزا کاٹنے والے 1584؍ افراد کو معافی دے دی تھی۔ اس رہائی کوکسی خلیجی ملک میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران دی جانے والی سب سے بڑی عام معافی بتایا گیا تھا۔ برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی ایک تنظیم بحرین انسٹی ٹیوٹ فار رائٹس اینڈ ڈیموکریسی (BIRD) کے ایڈوکیسی ڈائریکٹر سید الوادعی نے اس وقت اعتراف کیا تھا کہ ممکنہ طور پر ان معافی پانے والوں میں ریاست کے اندر سیاسی تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے سیاسی قیدیوں کو بھی شامل کیا گیا ہو ۔ مودی سرکار سے تو یہ توقع ناممکن ہے کہ وہ عمر خالد یا سنجیو بھٹ جیسے بے قصور قیدیوں کو رہا کردےْ۔ یہاں تواڈانی کی آڑ میں رویش کمار اور راٹھی جیسے صحافیوں کو جیل بھیجنے کی دھمکی دی جارہی ہے تا کہ انہیں ڈرا دھمکا کر سالگرہ کے جشن پر تنقید کرنے سے باز رکھا جاسکے ۔
پاکستانی قیدیوں کی رہائی سے عالمی سطح پر بگڑی ہوئی شبیہ کے سدھرنے کا بھی امکان تھا کیونکہ نیویارک ٹائمز نے پچھلے ہی ہفتے روہنگیا باشندوں کے کے مودی سرکار کے ظالمانہ سلوک پر ایک تفتیشی رپورٹ شائع کرکے حکومت ہند کے منہ پر کالک پوت دی ہے۔ بعید نہیں کہ اس بدنامی کی جانب سے توجہ ہٹانے کی غرض سے یہ اقدام کیا گیا ہو لیکن آج کل وزیر اعظم کبھی اپنے ہی ملک کے سوشیل میڈیا سےڈر جاتے ہیں اور کبھی ان کو بھگتوں کی ناراضی کا خوف ستانے لگتا ہے اس لیے موصوف تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔ روہنگیا کا ذکر ہو تو میانمار کے فوجی آمر یاد آجاتے ہیں۔ انہوں نے بھی دوبرس پہلے قمری سالِ نو کے روایتی جشن پر تین ہزار سے زائد قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت رائٹس اینڈ ڈیموکریسی گروپ نے اس کی یہ وجہ بتائی تھی کہ 2021 سےاقتدار پر فائز حکمرانوں نے حکومت مخالف شورش کے بہانے بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ کررکھی ہے۔ اسی لیےفوج کی انتظامی کونسل نے جن 3,113 قیدیوں کو معافی دی تھی ان میں 98 غیر ملکی بھی شامل تھے ۔ سیاسی قیدیوں کے حامی ’’اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پریزنرز‘‘ نے اس وقت انکشاف کیا تھا کہ میانمار میں سابق رہنما آنگ سان سوچی سمیت تقریباً 17460 سیاسی قیدی نظربند ہیں۔سری لنکا بنگلہ دیش اور نیپال کی مانند میانمار کے فوجی قبضے کو بھی بڑے پیمانے پر مزاحمت کا سامنا ہے۔ دیہی علاقوں میں عام شہریوں کے خلاف وحشیانہ فوجی کارروائیوں میں توپ خانے اور فضائی حملوں کے استعمال کا ردعمل یا دفاع ہے ۔ ان فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں جنم لینے والے انسانی بحران نے 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بے گھر کیا ہے ۔
مذکورہ بالا ظلم و جبر کے خلاف ابتداء میں ایک غیر متشدد تحریک شروع ہوئی جو اب ایک وسیع مسلح جدوجہد میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کےشہری چھاپہ مار دستے اور غیر منظم عوامی دفاعی افواج ولسانی اقلیتی چھاپہ مارگروہ باقاعدگی سے فوجیوں اور چوکیوں پر حملہ کرتے ہیں۔ ایسے میں قیدیوں کی رہائی ایک خوش آئند اقدام تھا۔قیدیوں کی رہائی جمہوری ممالک میں بھی ہوتی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی مدتِ صدارت کے اختتام سے قبل ایک تاریخی اقدام کرتے ہوئے 1500 قیدیوں کی سزائیں معاف کر دی تھیں۔ ان قیدیوں میں 4 ہندوستانی نژاد امریکی شہری بھی شامل تھے۔ بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکہ دوسرا موقع فراہم کرنے کی بنیاد پر قائم ہے اور یہ ان کا بطور صدر خصوصی اختیار ہے کہ وہ ایسے افراد کو معاف کریں جنہوں نے اپنے جرائم پر پچھتاوے کا اظہار کیا ہو اور وہ معاشرے میں دوبارہ شامل ہونا چاہتے ہوں۔ صدر بائیڈن نے ایک دن میں امریکہ کی حالیہ تاریخ میں سب سے بڑی معافی کی آڑ میں اپنے بیٹے ہنٹر بائیڈن کو بھی معاف کر دیا تھا۔ ہنٹر بائیڈن پر ٹیکس چوری، غیر قانونی ہتھیار رکھنے، سرکاری فنڈز کے غلط استعمال، اور جھوٹی گواہی جیسے الزامات تھے۔ان معافیوں کو صدر بائیڈن کی اقربا پروری کہنے کے بجائے ان انسانی حقوق اور دوسرا موقع دینے کے امریکی اصولوں کی عکاسی کرنے کا نام دے کر سراہا گیا۔ اسے جمہوری منافقت کہتے ہیں۔
پاکستان اور ہندوستان نے یکم جولائی 2025 کو ایک دوسرے کے ساتھ اپنے اپنے ملکوں میں قیدلوگوں کی فہرست کا تبادلہ کیا تھا ۔ اس کے مطابق پاکستان میں ہندوستانی قیدیوں کی تعداد 246 تھی جن میں 53 سول قیدی اور 193 ماہی گیر شامل تھے جبکہ ہندوستان نے پاکستان کو 463 قیدیوں کی فہرست بھجوائی تھی، جن میں 382 سول قیدی اور 81 ماہی گیر بتائے گئے تھے۔ ایسے میں مودی سرکار نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہل کی 67 پاکستانی قیدیوں کو رہا کر کے اٹاری واہگہ سرحد پر پاکستان کے حوالے کر دیا ۔ ان رہائی پانے والے قیدیوں میں 14 سول قیدی اور 53 ماہی گیر گزشتہ کئی سالوں سےہندوستان کی مختلف جیلوں میں سزا کاٹ رہے تھے۔ ان میں سے 21 قیدی گجرات، ایک راجستھان، 39 پوربندر، حیدرآباد اور لدھیانہ میں ایک ایک اور امرتسر کی جیلوں میں 4 قیدی تھے۔ ان میں سے ایک کہانی تو فلموں سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ ضلع بہاولپور کے رہائشی محمد احمد کی ملاقات سنیپ چیٹ پر ممبئی کی عالیہ سے ہوئی اور بات چیت محبت میں بدل گئی ۔ عدالت میں معشوق نے اعتراف کیا کہ اس نے مذاق میں اپنے عاشق کوہندوستان آنے کے لیے کہا تھا لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ سرحد پار کر کے آ جائے گا۔چار سال بعد رہائی پانے والے نوجوان محمد احمد کو چونکہ ہندوستان کا ویزہ نہیں ملا اس لیے محبت کی دیوانگی میں مبتلا عاشق بغیر ویزے کے ہندوستانی سرحد میں داخل ہوکر دھر لیا گیا۔ اکیسویں صدی میں بھی 25 سالہ محمد احمد جیسے مجنوں کی موجودگی حیرت انگیز انکشاف ہے۔
پہلگام سانحہ کے باوجود حکومتِ ہند کے اس قدم کو دونوں ممالک کے درمیان اعتماد اور انسانیت کی مثال قرار دےکرپاکستان میں تو خوب سراہا گیا مگر ہندوستان کے اندر گوں ناگوں وجوہات کی وجہ سے یہ اچھی خبردبا دی گئی کیونکہ یہاں تو لوگ میچ جیتنے سے زیادہ پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ نہیں کرنے کی خوشی مناتے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑے جوش و خروش سے آپریشن سیندور جاری رہنے اورخون کے ساتھ پانی کےنہیں بہنے کی دھمکی دینے والے وزیر اعظم نریندر مودی کا دل اپنے بایاں ہاتھ امیت شاہ کے بیٹے جئے شاہ کے اصرار پر پسیج جاتاہے اور پاکستان کے ساتھ کرکٹ شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح گویا جنگ بھی ایک کھیل میں بدل جاتی ہے کیونکہ گولی کا جواب گولے سے دینے کی ڈینگ مارنے والےاپنے کھلاڑیوں کو گیند کا جواب بلےّ سے دینے کا موقع عنایت فرمادیتے ہیں ۔ پاکستانی نوجوانوں کو ’روٹی کھاو ورنہ میرے پاس گولی تو ہے‘ کہنے والے وزیر اعظم کوجئے شاہ کے ساتھ شاہد آفریدی کا شانہ بشانہ اسٹیڈیم میں لطف اندوز ہونا نہیں کھلتا ۔ ہندو پاک کی خونی جھڑپ میں دونوں ملکوں کے فوجی اور سرحدوں کے قریب رہنے والے بے شمار لوگوں کی ہلاکت کے بعد بھی جب کھیل کی بات آتی ہے تو پاکستان میں اس کا خیرمقدم اور ہندوستان میں مخالفت کیوں ہوتی ہے؟ اس کی وجہ وہی سندھ ندی کا پانی روک دیں گے اور خون میں گرم سیندور دوڑ رہا ہے جیسے غیر ذمہ دارانہ بیانات ہیں ۔ اپنے سیاسی فائدے کی خاطرعوامی جذبات بھڑکا دئیے جائیں تو پھر کھیل کے وقت تنقید بلکہ ناراضی کا اظہار فطری ہے۔ ایسے میں لوگ سرکار کو سیندور کی ڈبیا روانہ کرکے اسے اپنے خون میں ملا کر آنکھیں لال دکھانے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ دبئی کے اندر ہندو پاک کھیل نے ثابت کردیا کہ آپریشن سیندور ختم نیز کرکٹ کا کھیل شروع ہوگیا ہے ۔کاش کے یہ ہم سایہ آپس میں لڑنے جھگڑنے کے بجائے ہنسی خوشی کھیلتے کودتے رہیں۔
Like this:
Like Loading...