Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
Social Media

سوشل میڈیا: آزادی کا نیا آسمان یا عزتِ نفس کا امتحان؟

Posted on 29-09-2025 by Maqsood

سوشل میڈیا: آزادی کا نیا آسمان یا عزتِ نفس کا امتحان؟
___
ازقلم: اسماء جبین
(اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو،
یشونت راؤ چوہان آرٹس و سائنس مہاودیالیہ منگرول پیر،
ضلع واشم، مہاراشٹر)
___

اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں، اسمارٹ فون کی چھوٹی سی اسکرین محض ایک آلہ نہیں رہی؛ یہ ایک متبادل کائنات کا دروازہ ہے، ایک ایسی ڈیجیٹل دنیا جہاں شناختیں بنتی، بگڑتی اور بعض اوقات نیلام بھی ہوتی ہیں۔ اس لامحدود کائنات کے مرکز میں سوشل میڈیا کھڑا ہے، ایک ایسی دو دھاری تلوار جس نے بالخصوص خواتین کے لیے بیک وقت آزادی کے نئے آسمان بھی کھولے ہیں اور عزتِ نفس کے کڑے امتحانات بھی کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ بحث کہ سوشل میڈیا نے حیا کو ختم کر دیا ہے، مسئلے کو خطرناک حد تک سادہ بنا دیتی ہے۔ اصل سوال اس سے کہیں زیادہ گہرا اور پیچیدہ ہے: کیا ڈیجیٹل دور کی عورت اپنی شناخت کی معمار ہے یا محض ”توجہ کی منڈی” (Attention Economy) میں فروخت ہونے والی ایک شے؟
اس ڈیجیٹل نفسیات کا انجن وہ الگورتھم ہیں جو انسانی تصدیق کی بھوک پر چلتے ہیں۔ ‘لائیکس’، ‘کمنٹس’ اور ‘فالوورز’ کی تعداد کو کامیابی اور قبولیت کا پیمانہ بنا دیا گیا ہے۔ اس ماحول میں فرد، خصوصاً نوجوان خواتین، ایک نہ ختم ہونے والے دباؤ کا شکار ہیں کہ وہ اپنی زندگی کا ہر پہلو عوامی نمائش کے لیے پیش کریں۔ دہلی یونیورسٹی کی ایک طالبہ، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، بتاتی ہیں کہ ایک تصویر پر کم لائیکس آنا انہیں کئی دن تک بے چین رکھتا ہے، گویا ان کی ذات کی کوئی قیمت ہی نہ ہو۔ یہ محض انفرادی احساسِ کمتری نہیں، بلکہ ایک اجتماعی نفسیاتی بحران ہے جہاں ذاتی وقار کی قیمت پر ڈیجیٹل مقبولیت خریدی جا رہی ہے۔ زندگی جب ایک مسلسل پرفارمنس بن جائے اور ہر لمحہ کیمرے کی آنکھ کے لیے وقف ہو جائے تو رازداری اور وقار کی سرحدیں خودبخود دھندلا جاتی ہیں۔
یہ ڈیجیٹل نمائش خواتین کو ایک انتہائی خطرناک مقام پر لا کھڑا کرتی ہے۔ جہاں ایک طرف ان کی تصاویر اور ویڈیوز کو سراہا جاتا ہے، وہیں دوسری طرف یہی مواد ان کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی ایک تحقیق (”Troll Patrol India: Exposing Online Abuse Faced by Women Politicians in India”) سے یہ ہولناک حقیقت سامنے آئی ہے کہ جن بھارتی خواتین نے آن لائن ہراسانی کا سامنا کیا، ان میں سے بڑی تعداد نے اپنی ذہنی صحت اور جسمانی تحفظ پر شدید منفی اثرات کی اطلاع دی۔ یہ اعداد و شمار اس تلخ حقیقت کی غمازی کرتے ہیں کہ ہمارے سماج میں موجود عورت مخالف ذہنیت، ڈیجیٹل دنیا میں مزید بے نقاب اور بے لگام ہو جاتی ہے۔ ممبئی کی ایک نوجوان انٹرپرینیور نے سوشل میڈیا پر اپنے اسٹارٹ اپ کو فروغ دینا شروع کیا تو چند ہی مہینوں میں اسے اپنی تصاویر میں ردوبدل کرکے بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کا تجربہ لاکھوں خواتین کی نمائندگی کرتا ہے جو آگے بڑھنے کی کوشش میں سائبر بلینگ، کردار کشی اور بلیک میلنگ کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے میں پھنس جاتی ہیں۔
یہ مسئلہ بھارت جیسے معاشرے میں مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے جہاں حقیقی اور ڈیجیٹل زندگی میں ایک گہری خلیج حائل ہے۔ ایک بند سماجی ڈھانچے میں جہاں عورت کے عوامی کردار پر ”لوگ کیا کہیں گے” کی تلوار لٹکتی رہتی ہے، وہیں سوشل میڈیا اسے اظہار کی بظاہر لامحدود آزادی دیتا ہے۔ یہ تضاد ایک خطرناک صورتحال پیدا کرتا ہے۔ جو اظہارِ خیال اسے آن لائن دنیا میں بااختیار بناتا ہے، وہی اس کی حقیقی زندگی میں اس کے ”کردار” پر سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ ”خاندان کی عزت” کا روایتی تصور ڈیجیٹل اسپیس میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جہاں عورت کی ایک تصویر یا ایک اسٹیٹس اپ ڈیٹ کو اس کے پورے خاندان کی ساکھ سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ یوں وہ گھر کی دہلیز اور ڈیجیٹل کائنات، دونوں محاذوں پر ایک ساتھ لڑنے پر مجبور ہے۔
تاہم، اس تاریک تصویر کا ایک روشن رخ بھی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہی سوشل میڈیا لاکھوں خواتین کے لیے معاشی خود مختاری اور سماجی ترقی کا زینہ بھی بنا ہے۔ وہ ہنرمند خاتون جو راجستھان کے کسی گاؤں میں دستکاری کا کام کرتی تھی، آج انسٹاگرام کی بدولت دنیا بھر سے آرڈر وصول کر رہی ہے۔ وہ پڑھی لکھی لڑکی جسے ایک چھوٹے شہر سے باہر نکل کر کام کرنے کی اجازت نہ تھی، آج آن لائن ٹیوشن اور فری لانسنگ کے ذریعے اپنے خاندان کا سہارا ہے۔ سوشل میڈیا نے خواتین کو وہ آواز اور رسائی دی ہے جو روایتی میڈیا اور سماج نے ان سے اکثر چھین رکھی تھی۔ صنفی تشدد کے خلاف آواز اٹھانی ہو یا مقامی سطح پر حقوق کی مہم چلانی ہو، سوشل میڈیا نے اجتماعی شعور کی بیداری میں ایک ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا ہے۔
اس پیچیدہ مسئلے کا حل ٹیکنالوجی پر پابندی لگانے یا عورت کو ڈیجیٹل دنیا سے بے دخل کرنے میں نہیں، بلکہ ایک جامع اور کثیرالجہتی حکمتِ عملی میں مضمر ہے۔
پہلا قدم، خاندان اور تعلیمی اداروں کی سطح پر ”ڈیجیٹل دانش” (Digital Wisdom) کا فروغ ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو محض ایپس استعمال کرنا نہیں، بلکہ ان کے نفسیاتی اثرات کو سمجھنا اور آن لائن دنیا میں اپنی جذباتی اور ذہنی حفاظت کرنا سکھانا ہے۔ انہیں بتانا ہوگا کہ ان کی قدر کا تعین فالوورز کی تعداد نہیں، بلکہ ان کا کردار، علم اور ہنر کرتا ہے۔
دوسری سطح پر، ٹیکنالوجی کمپنیوں کو اپنی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ”Ethical by Design” کے اصول اپنانے ہوں گے۔ انہیں ایسے الگورتھم بنانے ہوں گے جو سنسنی خیزی اور اشتعال انگیزی کے بجائے مثبت اور صحت مند مواد کو فروغ دیں۔ صارفین کی پرائیویسی کا تحفظ اور ہراسانی کی شکایات پر فوری اور شفاف کارروائی ان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
تیسری اور سب سے اہم سطح ریاست کی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ (IT Act) اور انڈین پینل کوڈ کی مختلف دفعات کے تحت قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر سست عمل درآمد اور متاثرین کے لیے انصاف کا پیچیدہ نظام مجرموں کے حوصلے بلند کرتا ہے۔ قوانین پر موثر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ متاثرین کے لیے فوری نفسیاتی اور قانونی مدد فراہم کرنے والے مراکز کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
بالآخر، بحیثیت معاشرہ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ حیا کا تصور محض لباس یا ظاہری حلیے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقی حیا سوچ کی پاکیزگی، لہجے کے وقار، عمل کی شفافیت اور دوسروں کی عزتِ نفس کا خیال رکھنے میں پوشیدہ ہے۔ ہمیں ایک ایسا ماحول بنانا ہوگا جہاں عورت کو اس کے ڈیجیٹل فٹ پرنٹ سے نہیں، بلکہ اس کی قابلیت اور انسانیت سے پرکھا جائے۔
سوشل میڈیا ایک سمندر کی مانند ہے؛ ہم اپنے بچوں کو اس میں اترنے سے روک نہیں سکتے، لیکن انہیں وقار اور حفاظت کے ساتھ تیرنا ضرور سکھا سکتے ہیں۔ یہ محض ٹیکنالوجی کا بحران نہیں، بلکہ ہماری اقدار کا امتحان ہے۔ انتخاب ہمارے ہاتھ میں ہے: کیا ہم اس طاقتور آلے کو اپنی بیٹیوں کے پر کاٹنے کے لیے استعمال ہونے دیں گے، یا اسے ان کے لیے ایک نئے آسمان کی وسعتیں فراہم کرنے کا ذریعہ بنائیں گے؟
_____

Share this:

  • Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
  • Click to share on X (Opens in new window) X
  • More
  • Click to email a link to a friend (Opens in new window) Email
  • Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn
  • Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
  • Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
  • Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp

Like this:

Like Loading...

1 thought on “سوشل میڈیا: آزادی کا نیا آسمان یا عزتِ نفس کا امتحان؟”

  1. مرزا نوید بیگ پوسد نے کہا:
    29-09-2025 وقت 6:53 صبح

    جزاک اللہ خیر

    اچھا مضمون

    جواب دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

اشتہارات

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb
%d