Skip to content
عالمی سطح پر پاکستان کا سنہری دور
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
وزیر اعظم نریندر مودی کے پہلی بار وزیر اعظم بن جانے کے بعد اچانک خام تیل کے دام گر گئے تو انہوں نے فخر سے کہا تھا کہ اگر میں خوش قسمت ہوں اور ملک کے عوام بھلا ہورہا ہے تو اس میں میرا کیا قصور ؟ فی الحال الٹا ہورہا ہے۔ وزیر اعظم کے ستارے گردش میں آگئے اور ملک کا نقصان ہونے لگا تو اس میں ان کی غلطی ہے یا نہیں یہ تحقیق کا موضوع ہے۔ وطن عزیز کی خارجہ پالیسی کا یہ حال ہے کہ امریکہ کو یوکرین کی جنگ رکوانے کے لیے روس پر دباو بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ ہندوستان پر ٹیرف کی شرح بڑھا کر اضافی جرمانہ تھوپ دیتا ہے۔ مودی کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے ٹرمپ دودوبار جنرل عاصم منیر کو امریکہ بلا کر ان کی عزت افزائی کرتے ہیں۔ پوتن مودی کی پروا کیے بغیرپاکستان کو روس کا روایتی دوست قرار دے کر شہباز شریف کو ماسکو آنے کی دعوت دے دیتے ہیں نیز چین کے ساتھ پاکستان کی گہری دوستی مضبوط تر ہوجاتی ہے ۔ سعودی عرب کو جب امریکہ سے ناراضی کااظہارکرنا ہوتا ہے تو وہ بھی پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرلیتا ہے۔
یہ سب اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ مثل مشہور ہے ’نادان دوست سے دانا دشمن بھلا‘۔ اس کی تازہ ترین مثال ٹرمپ اور نیتن یاہو کی رفاقت ہے۔ اس احمق دوست نے قطر میں حملہ کرکے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے سب سے بڑے حلیف سعودی عرب کو پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرنے پر مجبور کردیا اور اس سے بیٹھے بٹھائے ہندوستان کا نقصان ہوگیا ۔ اس لیے کہ نیتن یاہو کی مودی سے خاص دوستی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کی اسرائیلی سربراہ نیتن یاہو کی رفاقت کا یہ عالم ہے کہ حالیہ سالگرہ کے موقع پر آخرالذکر نے کوئی پیغام لکھنے کے بجائے ایک خصوصی ویڈیو جاری کردیا ۔ اس ویڈیو کے اندر وہ نہایت پرجوش انداز میں مودی کو ان کے پہلے نام نریندر سے مخاطب کرکے اپنا اچھا دوست قرار دیتے نظرآتے ہیں ۔ نیتن یاہو کے مطابق ہندوستان اور اسرائیل کی دوستی میں مودی نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ نیتن یاہو نے کہا میں آپ سے جلد ہی ملاقات کی امید کرتا ہوں، تاکہ ہم اپنی شراکت داری اور دوستی کو مزید بلندیوں تک لے جا سکیں۔ مودی جی جس وقت اس پیغام سے لطف اندوز ہورہے تھے سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرکے وزیر اعظم کو ایک خوشگوار سرپرائز دے دیا۔اب مودی جی کا حال غالب کے شعرکی مانند ہے؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟
سعودی عرب وہی ملک ہے کہ جس نے اپریل 2016 میں وزیر اعظم نریندر مودی کو ملک کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازہ تھا ۔ اس وقت سشما سوراج کو مہمان خصوصی کے طور او آئی سی کی میٹنگ میں شرکت کے خلاف پاکستان نے اعتراض جتاتے ہوئے بائیکاٹ کیا تھا تو اس کو نظر انداز کردیا گیا ۔ آگے چل کر متحدہ امارات اور کویت تک وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنے ملک کے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازتے رہے مگر اس کے باوجود مودی جی اسرائیل کے ساتھ پینگیں بڑھاتے رہے یہاں تک غزہ کے بدترین مظالم پر بھی ڈھل مل خارجہ پالیسی اپنائی گئی۔ اقوام متحدہ میں بیشتر مواقع پر غیر حاضری کے بعد جب آخری بار فلسطین کی حمایت ہوئی بھی تو اسرائیل کی ناراضی سے بچنے کی خاطر حماس کو دہشت گرد قرار دیا گیا ۔ اسی کا نتیجہ ہے سعودی عرب نے ایک نازک موقع پر پاکستان کا ہاتھ تھام کر مودی کو اپنی غلطی کا احساس کرانے کی کوشش کردی ۔ اب وہ اس سے عبرت پکڑتے ہیں یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا۔ ویسے ابھی حال میں مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس اپنے اسرائیلی دورے کی خوب تشہیر کرچکے ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی اسٹریٹیجک دفاعی معاہدے میں بلا واسطہ جتنا اہم کردار نیتن یاہو کا ہے تو وزیرِ اعظم نریندر مودی کا بھی حصہ کم نہیں ہے اسی لیے فی الحال سوشل میڈیا پر موصوف کی ناکام خارجہ پالیسی زیر بحث ہے۔ملک کے معروف صحافی ڈاکٹر برہما چیلانی نے تو صاف کہا کہ مودی نے سعودی عرب سے جامع اسٹریٹیجک شراکت داری اور تعلقات بڑھانے کے لیے برسوں کوشش کی اور اس کے لیے کے کئی دورے کیے لیکن سعودی ولی عہد نے مودی کے جنم دن پر پاکستان کے ساتھ باہمی دفاع کا معاہدہ کر کے ان کو غیر متوقع سرپرائز دے دیا ۔ چیلانی نے جن دوروں کا حوالہ دیا ان میں پہلگام حملے کے وقت یعنی 22 – 23 اپریل 2025 کا چکر بھی شامل ہےجس کے درمیان سے وہ لوٹ آئے تھے۔ 22؍ اپریل 2025 کو سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان نے جدہ کے شاہی محل میں وزیر اعظم مودی کا رسمی خیر مقدم کیا تھا ۔اس موقع پر دونوں رہنماوں نے ہندوستان-سعودی عرب اسٹریٹجک پارٹنرشپ کونسل (ایس پی سی) کے دوسرے اجلاس کی مشترکہ صدارت کی تھی ۔ ولی عہد شہزادے نے پہلگام کے دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کی تھی اور بے گناہ جانیں گنوانے والوں سے گہری تعزیت کا اظہار کیا تھا ۔
محض پانچ ماہ قبل دونوں رہنماوں نے مل جل کر دہشت گردی سے بھرپور طریقے پر نمٹنے کا جو عزم کیا تھا اب وہ داستانِ پارینہ بن چکا ہے۔ اس وقت کی دو طرفہ تعلقات میں گرمجوشی اور دونوں فریقوں میں اعتماد اور باہمی افہام و تفہیم ہوا ہوچکی ہے ۔دونوں رہنماؤں نے توانائی ، دفاع ، تجارت ، سرمایہ کاری ، ٹیکنالوجی ، ثقافت اور عوام سے عوام کے تعلقات کے شعبوں میں تعاون پر جو تبادلہ خیال کیا تھا اس پر پانی پھر گیا ہے۔ سرمایہ کاری سے متعلق اعلی سطحی ٹاسک فورس کے تحت متعدد شعبوں میں ہندوستان کے اندر 100 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے تیل کی دو ریفائنریوں کے قیام کاجو عزم کیا گیا تھا اس پر برف پڑ گئی ہے۔ یہاں تک کہ اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے دونوں ممالک ادائیگی کے گیٹ وے کو جوڑنے اور مقامی کرنسیوں میں تجارتی تصفیے کے لیے کام کرنے کی باتیں کررہے تھے ۔ دونوں رہنما چین اور پاکستان کی ریشمی سڑک کے مقابلے ہندوستان اور مشرق وسطیٰ بشمول یورپ اکنامک کوریڈور(آئی ایم ای ای سی) کی پیش رفت پر بغلیں بجا رہے تھے مگر وہ سارے دل کے ارماں آنسووں میں بہہ گئے کیونکہ مودی جی بے وفائی کرکے تنہا رہ گئے ۔
وزیر اعظم مودی نے اس وقت اسٹریٹجک پارٹنرشپ کونسل کے تیسرے اجلاس میں شرکت کے لیے شہزادہ محمد بن سلمان کو ہندوستان آنے کی دعوت دی تھی لیکن اب شاید وہ دورہ نہیں ہوسکے گا کیونکہ دشمن کا دوست دشمن ہوتا ہے۔ سعودی عرب فی الحال پاکستان کا نہ صرف حربی بلکہ معاشی ساجھی دار بن چکا ہے۔مودی اور نیتن یاہو کی احمقانہ حکمت عملی کے سبب پاکستان کی لاٹری لگ گئی ہے۔ چین جانے سے قبل جاپان جاکر مودی جی نے چین کو اتنا ناراض کردیا کہ بغضِ مودی میں اس نے پاکستان سے دوستی اور بھی مضبوط کردی۔ امریکہ نے ہندوستان کو چڑھانے اور اپنادباو بنانے کی خاطر پاکستان کی خوب ہذیرائی شروع کردی۔ ویسے ہندوستان کی طرف سے بھی کبھی چین جانا اور کبھی نیویارک کے اندر اقوام متحدہ کے اجلاس کے حاشیےپر برکس کی نشست بلا کر اس کی صدارت کرنا امریکہ سے پنگا لینے سے کم نہیں ہے۔
حکومت ہند کے مشیر مودی جی کو ایسے مشورے کیوں دیتے سمجھ میں نہیں آتا؟ ویسے اجیت دوول اور جئے شنکر کے بیچ کھینچا تانی بھی حالات بگاڑ رہی ہے۔ جئے شنکر کے بیٹے پر امریکہ نوازی کا الزام وطن سے غداری جیسا ہے۔اس میں شک نہیں کہ امریکہ کے ٹیرف کا اثر ہندوستان کی روس سے تیل برآمدات پر ہوا ہے۔ اس لیے روس بھی ہندوستان سے ناراض ہوکر پاکستان کی جانب کھسکا ہے اور پوتن نے شہباز شریف کے تئیں غیر معمولی قربت کا اظہار کیا ہے جو مودی کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔شہباز کو روایتی دوست کہہ کر ماسکو آنے دعوت کے اندر بہت سارے سفارتی پیغامات ہیں۔ اس سونے پر سہاگہ سعودی عرب اور پاکستان کی دوستی ہے۔یہ سب کام اگر عمران خان کے زمانے میں ہوتا تو لوگ ان کی شخصیت اور کیمبرج کی تعلیم کو اس کی وجہ بتاتےلیکن شہباز شریف کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ تو اپنے بھائی کی ملک بدری کے طفیل وزیر اعظم ہیں۔ پھر ان کے دور میں پاکستان کا ساری دنیا میں ہردلعزیز ہوجانا قرآن مجید کی یہ آیت یاد دلاتا ہے:’کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جسے چاہے، چھین لے جسے چاہے، عزت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ شہباز شریف کے زمانےپاکستان کا سنہری دور ایک معجزے سے کم نہیں ہے۔یہ بتاتا ہے ؎
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری
Like this:
Like Loading...