Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
Bihar Politics A Complex and Unique Political Landscape

بہار کی سیاست: ایک پیچیدہ اور منفرد سیاسی منظرنامہ

Posted on 30-09-2025 by Maqsood

بہار کی سیاست: ایک پیچیدہ اور منفرد سیاسی منظرنامہ

ازقلم:شمس آغاز
ایڈیٹر،دی کوریج
9716518126
shamsaghazrs@gmail.com

بہار کی سیاست ہندوستانی جمہوریت کا ایک منفرد اور دلچسپ نمونہ ہے، جہاں مختلف سماجی، مذہبی اور علاقائی عناصر ایک دوسرے سے جُڑ کر انتخابی نتائج پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ ریاست کی سیاسی فضا کو ذات پات پر مبنی ووٹنگ پیٹرن، قیادت کی شخصیت، ترقیاتی وعدے اور قومی سطح پر بننے والے بیانیے متعین کرتے ہیں۔ذات پات کا عنصر، خاص طور پر یادو، کوئری، دلت اور برہمن برادریوں کی سیاسی وابستگی، آج بھی انتخابی نتائج میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ مذہبی شناخت، بالخصوص مسلم ووٹ بینک، مختلف جماعتوں کی حکمت عملی میں مرکزی اہمیت رکھتی ہے۔حالیہ برسوں میں ”سیکولر بمقابلہ کمیونل” کا بیانیہ بہار کی سیاست میں غالب رہا ہے۔ آر جے ڈی، کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتیں خود کو سیکولر قوتوں کے طور پر پیش کرتی ہیں، جبکہ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو ہندوتوا نظریے سے جوڑا جاتا ہے۔ اس بیانیے نے ووٹر کے ذہن پر گہرا اثر ڈالا ہے، خاص طور پر نوجوان اور شہری طبقے پر۔تاہم، اس کے ساتھ ساتھ نئی سیاسی صف بندیاں، علاقائی جماعتوں کا ابھار، اور عوامی سطح پر روزگار، تعلیم، مہنگائی اور بنیادی سہولیات جیسے مسائل بھی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ بہار کی سیاست اب صرف روایتی بنیادوں پر نہیں، بلکہ ایک پیچیدہ اور بدلتے ہوئے سماجی تانے بانے کے تحت تشکیل پا رہی ہے۔
اب جب کہ ریاست میں اگلے اسمبلی انتخابات کی تیاریاں زور پکڑ رہی ہیں، دو نئی سیاسی طاقتیں انڈیا گٹھ بندھن، بالخصوص آر جے ڈی اور کانگریس کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج بن کر ابھر رہی ہیں۔ یہ پرشانت کشور کی جماعت ”جن سوراج” اور اسدالدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین(اے آئی ایم آئی ایم) ہے۔ اگرچہ دونوں جماعتوں کی بنیاد مختلف ہے، لیکن ان کے اثرات ایک مشترکہ پہلو رکھتے ہیں، یعنی سیکولر ووٹ کا بٹوارا۔ اس تقسیم کا براہِ راست فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور این ڈی اے کو پہنچ سکتا ہے۔
بہار کے گزشتہ دو اسمبلی انتخابات، یعنی 2015 اور 2020، اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ معمولی ووٹ شیئر میں تبدیلی بھی اقتدار کے توازن کو بدل سکتی ہے۔ 2015 میں آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس پر مشتمل مہاگٹھ بندھن نے واضح اکثریت حاصل کی تھی۔ آر جے ڈی کو 80 نشستیں اور 18.4 فیصد ووٹ ملے، جے ڈی یو کو 71 نشستیں اور 16.8 فیصد ووٹ، جبکہ کانگریس نے 27 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور 6.7 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ بی جے پی کو اس وقت 53 نشستیں اور 24.4 فیصد ووٹ ملے تھے، جبکہ اس کی اتحادی جماعتوں ایل جے پی اور آر ایل ایس پی کو بالترتیب 2.8 اور 2.6 فیصد ووٹ ملے۔ مجموعی طور پر مہاگٹھ بندھن نے 41.9 فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ واضح برتری حاصل کی۔
تاہم 2020 کا انتخابی منظرنامہ یکسر مختلف تھا۔ جے ڈی یو اس بار بی جے پی کے ساتھ این ڈی اے کا حصہ بن چکی تھی، جس کے باعث انتخابی توازن بدل گیا۔ بی جے پی کو 74 نشستیں اور 19.5 فیصد ووٹ ملے، جے ڈی یو کو 43 نشستیں اور 15.4 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ ایل جے پی اگرچہ صرف ایک نشست جیت پائی، لیکن اس نے 5.6 فیصد ووٹ حاصل کر کے کئی حلقوں میں مہاگٹھ بندھن کو نقصان پہنچایا۔ دوسری طرف آر جے ڈی نے سب سے بڑی پارٹی کے طور پر 75 نشستیں جیتیں اور 23.1 فیصد ووٹ حاصل کیے، جبکہ کانگریس کو 19 نشستیں اور 9.5 فیصد ووٹ ملے۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے 16 نشستیں جیت کر مہاگٹھ بندھن کو مزید مضبوط کیا، لیکن مجموعی طور پر مہاگٹھ بندھن کا ووٹ شیئر 37 فیصد رہا، جبکہ این ڈی اے کو 37.3 فیصد ووٹ ملے۔ یعنی صرف 0.3 فیصد کا معمولی فرق این ڈی اے کو حکومت سازی کی دہلیز تک لے گیا۔
ان اعداد و شمار سے یہ بات بخوبی سمجھی جا سکتی ہے کہ بہار کی سیاست میں صرف ایک یا دو فیصد ووٹ کا ادل بدل حکومت سازی کی پوری تصویر کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرشانت کشور اور اویسی کی جماعتوں کی سرگرمیاں مہاگٹھ بندھن کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج ہیں۔ پرشانت کشور نے اپنی سیاسی مہم کو ”جن سوراج” کے نعرے کے ساتھ شروع کیا ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ امیدواروں کا انتخاب گاؤں گاؤں جا کر عوامی مشورے سے کیا جائے گا۔ وہ خود کو ذات پات اور مذہبی سیاست سے الگ، ایک نئی قسم کی عوامی سیاست کے علمبردار کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ لیکن بہار جیسے معاشرے میں، جہاں ووٹ دینے کا فیصلہ اکثر ذات، برادری اور مذہب کی بنیاد پر ہوتا ہے، وہاں ایسی جماعتوں کو ابتدا میں وہی ووٹ ملتے ہیں جو بی جے پی کے مخالف یعنی سیکولر ووٹرز کے مانے جاتے ہیں۔ اگر جن سوراج کو 5 سے 7 فیصد ووٹ بھی حاصل ہو جاتے ہیں تو یہ زیادہ تر وہ ووٹ ہوں گے جو مہاگٹھ بندھن کو ملنے تھے، اور یوں بی جے پی کو راست فائدہ پہنچے گا۔
دوسری طرف اے آئی ایم آئی ایم کا کردار بھی غیر معمولی ہے۔ 2020 میں اویسی کی پارٹی نے سیمانچل کے خطے میں پانچ نشستیں جیت کر سب کو حیران کر دیا تھا۔ سیمانچل میں مسلم آبادی کا تناسب زیادہ ہے اور یہاں کے مسائل دیگر علاقوں سے مختلف ہیں۔ اویسی نے ان مسائل کو اجاگر کیا اور مسلم ووٹرز میں اپنے لیے ایک جگہ بنائی۔ اگرچہ بعد میں ان کے کچھ کامیاب امیدوار آر جے ڈی میں شامل ہو گئے، لیکن اس کامیابی نے یہ ثابت کر دیا کہ اے آئی ایم آئی ایم بہار کی سیاست میں مسلم ووٹ پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر آئندہ انتخابات میں اے آئی ایم آئی ایم دوبارہ سیمانچل اور دیگر مسلم اکثریتی علاقوں میں سرگرم ہو گئی، تو آر جے ڈی اور کانگریس کو مسلم ووٹوں کے حوالے سے سخت نقصان ہو سکتا ہے، کیونکہ یہی ووٹ مہاگٹھ بندھن کا بنیادی سہارا رہے ہیں۔
تیجسوی یادو نے ماضی میں بھی واضح طور پر اے آئی ایم آئی ایم کو مہاگٹھ بندھن میں شامل کرنے سے انکار کیا تھا۔ ان کے مطابق اویسی کی جماعت سیکولر ووٹ کو تقسیم کرتی ہے، اور بالآخر اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوتا ہے۔ یہ بات 2020 کے انتخابی نتائج سے بھی ثابت ہوئی، جہاں سیمانچل کی بعض نشستوں پر اے آئی ایم آئی ایم کے امیدواروں نے اتنے ووٹ حاصل کیے کہ اگر وہ ووٹ آر جے ڈی یا کانگریس کو ملتے، تو گٹھ بندھن وہاں جیت سکتا تھا۔ تیجسوی یادو کی حکمتِ عملی کا واضح مقصد مسلم ووٹ کو متحد رکھنا ہے اور کسی بھی دوسری سیکولر یا مذہبی جماعت کو اس حلقے میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ بہار کے آئندہ انتخابات میں یہ تمام عوامل کس طرح اثر انداز ہوں گے۔ اگر پرشانت کشور کی جن سوراج 5 سے 10 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، اور اے آئی ایم آئی ایم سیمانچل میں اپنی سابقہ کارکردگی دہرانے میں کامیاب رہتی ہے، تو مہاگٹھ بندھن کے لیے راہیں مشکل ہو جائیں گی۔ فی الحال مہاگٹھ بندھن کی سب سے بڑی امید یہ ہے کہ اس کے ووٹرز میں بی جے پی مخالف جذبات بدستور مضبوط ہیں، اور اگر یہ جذبات برقرار رہے تو ووٹ تقسیم ہونے کے بجائے ایک ہی خیمے میں جانے کا امکان ہے۔ لیکن اگر مہاگٹھ بندھن اندرونی اختلافات، قیادت کی کمزوری یا ٹکٹوں کی غلط تقسیم جیسی خامیوں کا شکار ہوتا ہے، تو نئی جماعتوں کے لیے راستہ کھل سکتا ہے۔ایسے میں سب سے زیادہ فائدے کی پوزیشن میں بی جے پی نظر آتی ہے، جس کا ووٹ بینک پچھلے کئی انتخابات سے خاصا مستحکم ہے۔ 2015 میں شکست کے باوجود بی جے پی کو سب سے زیادہ 24.4 فیصد ووٹ ملے تھے، اور 2020 میں 19.5 فیصد ووٹ لے کر اس نے سب سے بڑی کامیابی حاصل کی۔ اس لیے اگر سیکولر ووٹ بینک تقسیم ہوتا ہے، تو یہ بی جے پی کے لیے ایک سازگار موقع بن سکتا ہے، نہ کہ نقصان دہ۔
ان تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ بہار کا آئندہ انتخاب ممکنہ طور پر ایک مثلثی مقابلے کی شکل اختیار کر سکتا ہے، جہاں ایک طرف بی جے پی اور اس کے اتحادیوں پر مشتمل این ڈی اے، دوسری طرف مہاگٹھ بندھن، اور تیسری جانب نئی جماعتیں جیسے جن سوراج اور اے آئی ایم آئی ایم ہوں گی۔ تاہم، ان دونوں نئی جماعتوں کا اثر بنیادی طور پر سیکولر ووٹروں پر پڑے گا، جس سے براہِ راست نقصان مہاگٹھ بندھن کو پہنچ سکتا ہے۔ اگر تیجسوی یادو اے آئی ایم آئی ایم کو ساتھ شامل نہ کرنے کی پالیسی پر قائم رہتے ہیں اور پرشانت کشور اپنی عوامی مہم کے ذریعے قابلِ ذکر ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو یہ انتخاب بہار کی سیاست میں ایک نئے سیاسی توازن کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔

Share this:

  • Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
  • Click to share on X (Opens in new window) X
  • More
  • Click to email a link to a friend (Opens in new window) Email
  • Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn
  • Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
  • Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
  • Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp

Like this:

Like Loading...

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

اشتہارات

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb
%d