Skip to content
الوداعِ قبلۂ اوّل: مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت
اُمّتِ مسلمہ کی ذمّہ داری اور ایمانی امتحان
✍۔مسعود محبوب خان (ممبئی)
09422724040
مسجدِ اقصیٰ محض ایک تاریخی عمارت یا آثارِ قدیمہ کا مقام نہیں ہے بلکہ یہ ایمان، تاریخ اور اُمّت کے شعور کا وہ مرکز ہے جس سے اسلام کی روحانی و تہذیبی بنیادیں جڑی ہوئی ہیں۔ قرآنِ کریم میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں: پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو ایک رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، جس کے گردونواح کو ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم دکھائیں اپنے بندے کو اپنی قدرت کی نشانیاں، بیشک وہی ہے سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا۔ (سورۃ الإسراء: 1)۔ یہ آیت مسجدِ اقصیٰ کے مقامِ قدسیت کو ہمیشہ کے لیے تاریخ میں ثبت کر دیتی ہے۔ یہی وہ مقدّس سر زمین ہے جہاں سے رسولِ اکرمﷺ معراج کی رات آسمانوں کی سیر کو روانہ ہوئے۔ یہی وہ قبلہ ہے جس کی طرف ابتدائی ایّام میں مسلمان نماز پڑھتے رہے۔ اور یہی وہ جگہ ہے جسے قرآن نے "مبارک” قرار دیا۔
اسلامی تاریخ میں مسجدِ اقصیٰ ہمیشہ وحدتِ اُمّت، روحانی مرکزیت اور جہدِ مسلسل کی علامت رہی ہے۔ خلافتِ راشدہ کے دور سے لے کر صلیبی جنگوں تک اور جدید استعماریت کے مقابلے تک، مسلمانوں نے ہمیشہ اس مقدّس ورثے کی حفاظت کو اپنی ایمانی ذمّہ داری سمجھا۔ صلاح الدین ایوبیؒ کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بیت المقدّس کی آزادی کو بنایا۔ آج جب کہ مسجدِ اقصیٰ کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے اور اس کے وجود پر سیاسی و مذہبی سازشیں مسلّط ہیں، یہ سوال ہر مسلمان کے ایمان کو جھنجھوڑتا ہے کہ: کیا ہم اپنی اس روحانی و ایمانی وراثت کے تحفّظ کے لیے بیدار ہیں؟ یا تاریخ یہ لکھے گی کہ ہم نے اپنے قبلۂ اوّل کو دشمن کی تلوار سے نہیں بلکہ اپنی بے حسی اور غفلت سے کھو دیا؟ یہ مضمون دراصل اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کی ایک کوشش ہے۔ اس میں مسجدِ اقصیٰ کی موجودہ صورتِ حال، اس کے گرد جاری سازشیں، اور اُمّت کی کمزوری و غفلت کو تحقیقی اور فکری انداز میں بیان کیا گیا ہے، تاکہ ہم اپنے ماضی سے سبق سیکھ سکیں اور حال کو بہتر بنانے کے لیے بیدار ہوں۔
الوداعِ قبلۂ اوّل — آثارِ قدیمہ یا مقدّس ورثے پر وار؟
مسجدِ اقصیٰ کا شمار اُن مقدّس مقامات میں ہوتا ہے جو صرف اسلامی ہی نہیں بلکہ یہودی اور عیسائی روایتوں میں بھی مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔ یروشلم کی پرانی فصیل کے اندر یہ مقام صدیوں سے مذہبی کشمکش کا مرکز رہا ہے۔ اسرائیلی ماہرینِ آثارِ قدیمہ اور مذہبی گروہ "ہیکلِ سلیمانی” (Temple of Solomon) کی کھوج کے لیے مسجد اقصیٰ کے اطراف اور نیچے کھدائیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔
1967ء کی جنگ کے بعد اسرائیل نے یروشلم کے مشرقی حصّے پر قبضہ کیا اور اس کے ساتھ ہی کھدائیوں میں تیزی آئی۔ یہ کھدائیاں اکثر "قدیم آثار” کی تلاش کے نام پر کی جاتی ہیں، مگر فلسطینی اور اسلامی حلقے اسے مسجد کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی دانستہ کوشش سمجھتے ہیں۔ 1996ء میں Western Wall Tunnel کے نئے راستے کے کھولنے پر شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں 80 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت تھا کہ آثارِ قدیمہ کی سرگرمیاں محض علمی نہیں بلکہ سیاسی و مذہبی جذبات کو بھڑکانے والی بھی ہیں۔
مسجدِ اقصیٰ اور پورا پرانا شہر (Old City of Jerusalem) UNESCO World Heritage Site کے طور پر درج ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق قابض قوت (یعنی اسرائیل) کو وہاں ایسی تبدیلیوں یا کھدائیوں کا حق نہیں جو مقام کی حیثیت کو متاثر کرے۔ یونیسکو اور دیگر ادارے بارہا اسرائیل کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں، خصوصاً ان کھدائیوں پر جو الاقصیٰ کے اردگرد یا نیچے جاری ہیں۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور دیگر عالمی پلیٹ فارمز نے بھی ان سرگرمیوں کو "مقدّس مقامات کے تحفّظ کے خلاف اقدام” قرار دیا ہے۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ اسرائیل اپنی سرگرمیوں کو "علمی و تحقیقی کھدائیاں” قرار دیتا ہے، مگر عملی سطح پر ان کے اثرات مسجدِ اقصیٰ کی بنیادوں اور فلسطینی آبادی کی موجودگی پر پڑتے ہیں۔ ہم نے یہاں غزّہ کو مسجدِ اقصیٰ کے دفاع کا "آخری محاذ” قرار دیا ہے۔ یہ محض ایک ادبی تشبیہ نہیں بلکہ ایک سیاسی حقیقت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ غزّہ میں مزاحمتی تحریکیں ہمیشہ یہ نعرہ بلند کرتی رہی ہیں کہ ان کی جدوجہد کا اصل ہدف یروشلم اور مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت ہے۔ اسرائیل کی بارہا کوشش رہی ہے کہ غزّہ کی عسکری قوت کو ختم کر کے یروشلم پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرے۔
زیرِ زمین سرنگوں کا ذکر دونوں طرف ہے:
غزّہ میں یہ سرنگیں مزاحمت اور دفاع کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ یروشلم میں سرنگوں کو کھدائی اور مذہبی بیانیے کو تقویت دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
یوں غزّہ کی جدوجہد اور اقصیٰ کی بقاء دراصل ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں اگر غزّہ خاموش ہو جائے تو قبلۂ اوّل کے گرد حفاظتی حصار کمزور ہو سکتا ہے۔ مسجدِ اقصیٰ کا وجود صدیوں کی عبادت، قربانی اور روحانی روایت کا امین ہے۔ اس کے ستونوں پر وقت کے نشانات ہیں، اس کی محرابوں میں انبیاء کی صدائیں ہیں اور اس کی فضاؤں میں اُمّت کی دعائیں گونجتی ہیں۔ آج یہ مسجد اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے؛ زمین کے نیچے سرنگیں کھودی جا رہی ہیں اور زمین کے اوپر فصیلِ یروشلم لہو رنگ کہانیاں سناتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا اُمّت صرف تماشائی رہے گی یا وہ اپنی روحانی میراث کی حفاظت کے لیے کوئی مؤثر قدم اٹھائے گی؟
الوداعِ قبلۂ اوّل — حقیقت، شہادت اور اندیشۂ زوال
مسجدِ اقصیٰ آج اپنی تاریخ کے سب سے نازک دور سے گزر رہی ہے۔ متعدد انجینئرنگ رپورٹس اور ماہرینِ تعمیرات کے مشاہدات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وقتاً فوقتاً اس کی دیواروں اور ستونوں کے پتھر گر رہے ہیں۔ زیرِ زمین سرنگوں نے مسجد کی بنیادوں میں خلا پیدا کر دیا ہے۔ مقامی فلسطینی ادارے (جیسے القدّس فاؤنڈیشن اور اوقافِ اسلامیہ) بارہا یہ انتباہ جاری کر چکے ہیں کہ یہ سرنگیں عمارت کو اندر سے کھوکھلا کر چکی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری اقدام نہ کیا گیا تو کسی بھی وقت یہ ڈھانچہ زمین بوس ہو سکتا ہے۔ یہ محض تشویش نہیں بلکہ ایسی دستاویزی حقیقت ہے جس پر سالہا سال سے چیخ چیخ کر دنیا کی توجہ دلائی جا رہی ہے۔
مسجدِ اقصیٰ اور پرانا یروشلم 1981ء سے UNESCO World Heritage Site کے طور پر درج ہے۔ اس حیثیت کے تحت قابض قوت کو کسی قسم کی تبدیلی یا کھدائی کی اجازت نہیں۔ یونیسکو نے بارہا قراردادیں منظور کی ہیں جن میں اسرائیلی سرگرمیوں کو "خطرناک” اور "بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی” قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور دیگر عالمی پلیٹ فارمز نے بھی انہدام کے خطرے پر تشویش ظاہر کی ہے۔ مگر افسوس کہ یہ تمام بیانات اور قراردادیں عملی اقدامات کے بجائے صرف کاغذی اعلان بن کر رہ گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ عالمی ضمیر ایک گہری نیند میں ہے، اور خاموشی کے پردے میں ایک تاریخی ورثہ فنا کے دہانے پر کھڑا ہے۔
جب دیواروں کے پتھر خود گرنے لگیں اور محراب کے ستونوں سے مٹی کے ذرے بکھرنے لگیں تو یہ کسی انجینئرنگ رپورٹ کی سطر نہیں، بلکہ ایک مقدّس عمارت کا فریاد ہے۔ مسجدِ اقصیٰ صدیوں سے اُمّت کے ایمان کی علامت رہی ہے۔ انبیاء کے سجدے، رسولِ اکرمﷺ کی معراج، اور مسلمانوں کی اجتماعی دعائیں اس کے فضاؤں میں بکھری ہوئی ہیں۔ آج یہی مسجد اپنے وجود کی آخری جنگ لڑ رہی ہے۔ اگر یہ عمارت منہدم ہوئی تو یہ صرف ایک مسجد کا ملبہ نہیں ہوگا، یہ اُمّت کے شعور پر ایک زخم ہوگا، تہذیبِ انسانی کے ماتھے پر ایک سیاہ دھبہ ہوگا، اور تاریخ کی کتاب میں ایک ایسا صفحہ لکھا جائے گا جس پر نسلیں نوحہ کرتی رہیں گی۔ یہ کوئی اندیشہ نہیں، بلکہ ایک عریاں حقیقت ہے جسے پتھروں کی جھڑتی آوازیں، انجینئروں کی رپورٹس اور عالمی قراردادیں سب مل کر دہرا رہی ہیں۔ سوال صرف یہ ہے: کیا دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرے گی، یا خاموش تماشائی بنی رہے گی؟
الوداعِ قبلۂ اوّل: سازش اور غفلت کی ملی جُگل بندی
المیہ یہ ہے کہ آج مسجدِ اقصیٰ کے گرد جس سائے کی تلوار لٹک رہی ہے، وہ محض اسرائیل کی سازشوں کا نتیجہ نہیں بلکہ مسلم دنیا کی بے حسی، کمزوری اور موقع پرستی بھی اس میں برابر کی شریک ہے۔ تاریخ کے صفحات یہ بتاتے ہیں کہ کسی بھی مقدّس مقام کو خطرہ صرف بیرونی دشمن سے نہیں ہوتا، بلکہ داخلی کمزوری اور غفلت اسے کہیں زیادہ تیزی سے تباہی کے دہانے پر لے جاتی ہے۔
2018ء میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ کے لیے جس منصوبے کو "صفقۃ القرن” (Deal of the Century) کہا، وہ دراصل فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت اور یروشلم کی حیثیت کو پامال کرنے کا ایک خاکہ تھا۔ اس منصوبے میں یروشلم کو یک طرفہ طور پر اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا گیا۔ فلسطینیوں کے مقدّس مقامات کے تحفّظ کی ضمانتیں مبہم اور غیر مؤثر رکھی گئیں۔ "ہیکلِ سلیمانی” کے بیانیے کو بالواسطہ تقویت ملی، کیونکہ اس منصوبے کے نتیجے میں اسرائیل کو کھلی چھوٹ ملتی ہے کہ وہ یروشلم میں اپنے مذہبی دعوؤں کو عملی جامہ پہنائے۔
المیہ یہ ہے کہ بعض مسلم ممالک نے اس منصوبے کی مخالفت کرنے کے بجائے اسے "امن” کے لبادے میں قبول کیا اور سفارتی تعلقات کی بحالی کو کامیابی قرار دیا۔ حقیقتاً یہ رویہ مسجدِ اقصیٰ کی جڑوں کو کمزور کرنے میں شریکِ جرم بن گیا۔
وہ مسلم حکمران جو ان نام نہاد امن منصوبوں کی تائید میں بیانات دیتے ہیں، وہ دراصل اپنے ہی قبلۂ اوّل کے جنازے میں خاموش شریک ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں مذمتی بیانات تو تیار ہیں، مگر عملی مزاحمت کے لیے نہ کوئی عزم ہے، نہ کوئی حکمتِ عملی۔ انہیں اس بات کی فکر نہیں کہ مسجد اقصیٰ کی محرابیں اگر گر گئیں تو یہ صرف فلسطین کا نقصان نہیں ہوگا، بلکہ پوری اُمّت کا قلب زخمی ہو جائے گا۔ بعض مبصرین یہ بھی اشارہ دیتے ہیں کہ عالمی طاقتیں پہلے ہی خطے کے حکمرانوں کو اعتماد میں لے چکی ہیں؛ گویا اگر مسجد اقصیٰ کی شہادت کا سانحہ رونما ہوا تو ردِّعمل محض رسمی مذمت سے آگے نہ بڑھ سکے گا۔
یہ منظرنامہ ہمیں اس آیت کی یاد دلاتا ہے:
"اللّٰہ کو بھولنے والوں کی طرح نہ ہو جاؤ، کہ اللّٰہ نے انہیں خود اپنی حقیقت سے غافل کر دیا”۔
آج اُمّت کی خاموشی دراصل اسی غفلت کا مظہر ہے۔ ہم دشمن کی سازشوں پر تو شور کرتے ہیں، مگر اپنی کمزوریوں اور بے عملی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ تاریخ اپنے عدل میں بے رحم ہے؛ وہ یہ فیصلہ ضرور سنائے گی کہ ہم نے اپنی غفلت سے اپنے قبلۂ اوّل کو خود الوداع کہا۔ یقیناً اگر خدانخواستہ یہ سانحہ رونما ہوا تو مسلم دنیا کے دارالحکومتوں سے ایک جیسے مذمتی بیانات جاری ہوں گے۔ کانفرنسیں ہوں گی، قراردادیں پاس کی جائیں گی، مگر عملی میدان میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔
اور یہی ہے اصل المیہ!!! دشمن کی تلوار سے بڑھ کر ہماری اپنی کمزوری ہمیں زخمی کر رہی ہے۔ اقصیٰ کے ستون گرنے سے پہلے ہماری غیرت اور حمیت زمین بوس ہو چکی ہے۔ آج بھی وقت ہے کہ اُمّت اپنی غفلت سے جاگے، ورنہ تاریخ یہ فیصلہ لکھ دے گی کہ قبلۂ اوّل کو ہم نے نہیں، بلکہ ہماری بے حسی نے شہید کیا۔
مسجدِ اقصیٰ کا معاملہ محض فلسطین یا عرب دنیا تک محدود نہیں، یہ پوری اُمتِ مسلمہ کے ایمان، غیرت اور وحدت کی کسوٹی ہے۔ قرآنِ کریم نے بارہا یاد دلایا ہے کہ مقدّسات کا تحفّظ محض ایک جغرافیائی فریضہ نہیں، بلکہ یہ بندے کے ایمان کا حصّہ ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: جو لوگ مساجدِ خدا کو برباد کرنے یا اُن میں ذکرِ الٰہی کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے لیے دنیا میں ذلّت اور آخرت میں عذابِ عظیم ہے۔ (البقرہ: 114)
رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا: "سواری کا کجاوہ باندھ کر (یعنی خاص نیت اور اہتمام کے ساتھ سفر کر کے) صرف تین مساجد کی طرف جایا جا سکتا ہے: مسجدِ حرام، میری یہ مسجد (مسجدِ نبوی)، اور مسجدِ اقصیٰ” (صحیح بخاری و مسلم)۔ یہ حدیث مسجدِ اقصیٰ کی فضیلت اور اس کی ایمانی مرکزیت پر واضح دلیل ہے۔
آج مسجدِ اقصیٰ کو درپیش خطرات صرف اسرائیل کی کھدائیوں یا عالمی طاقتوں کی سازشوں سے نہیں، بلکہ ہماری بے عملی اور بے حسی سے بھی جڑے ہیں۔ اگر ہم نے اس موقع پر اپنی ایمانی غیرت کو زندہ نہ کیا تو نہ صرف ایک مقدّس عمارت بلکہ اُمّت کی روحانی وراثت ہمارے ہاتھوں سے چھن جائے گی۔
یہ وقت ہے کہ مسلمان اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، اُمّت کے نوجوان شعوری طور پر بیدار ہوں، اور عالمی سطح پر علمی، سیاسی، قانونی اور سفارتی ذرائع استعمال کریں تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ مسجدِ اقصیٰ صرف ایک فلسطینی مسئلہ نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے۔ یاد رکھیے! مسجدِ اقصیٰ کے وجود اور بقاء کی جنگ دراصل ہمارے ایمان اور غیرت کی جنگ ہے۔ اگر ہم آج خاموش رہے تو آنے والی نسلیں ہم سے یہ سوال ضرور کریں گی:
"جب قبلۂ اوّل پکار رہا تھا، تم کہاں تھے؟”
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں غفلت سے جگائے، مسجدِ اقصیٰ اور تمام مقدّسات کی حفاظت کی توفیق دے، اور ہمیں ان خوش نصیبوں میں شامل کرے جن کے بارے میں رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا: "میری اُمّت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ جو لوگ ان کی مخالفت کریں گے یا انہیں چھوڑ دیں گے، وہ ان (اہلِ حق) کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ یہاں تک کہ اللّٰہ کا حکم (قیامت یا فیصلہ کن گھڑی) آ جائے اور وہ (اہلِ حق) اسی حال میں ثابت قدم ہوں گے” (بخاری و مسلم)۔
Like this:
Like Loading...