Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
Maulana Tauqir Razas arrest,

مولانا توقیر رضا کی گرفتاری: بھارت میں مسلم اتحاد کا کڑا امتحان

Posted on 01-10-2025 by Maqsood

مولانا توقیر رضا کی گرفتاری: بھارت میں مسلم اتحاد کا کڑا امتحان
(ایک رہنما زنجیروں میں…… اورامت گہری نیند میں)

_____
بقلم: ڈاکٹر محمد عظیم الدین (اکولہ،مہارشٹر)
_____

تاریخ کی کتاب جب بھی کھولی جاتی ہے تو قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں صرف تلواروں کی جھنکار یا فتح و شکست کے ہنگاموں سے رقم نہیں ہوتیں۔ اصل تاریخ تو ان کے اجتماعی ضمیر کے امتحانوں سے لکھی جاتی ہے؛ ان لمحوں سے جب حق اور باطل کی کشمکش میں ایک پوری قوم کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اسے زندہ رہنا ہے یا اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی روح کا گلا گھونٹ دینا ہے۔ بھارت کی سرزمین آج ایک ایسے ہی دوراہے پر کھڑی ہے، اور ملتِ اسلامیہ ہند کی پیشانی پر بریلی کے واقعے نے ایک ایسا سوالیہ نشان ثبت کر دیا ہے، جس کا جواب اگر بروقت نہ دیا گیا تو شاید مستقبل کی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہ کر سکیں۔ یہ داستان محض ایک عالمِ دین کی گرفتاری کی نہیں، بلکہ یہ اس اجتماعی موت کا مرثیہ ہے جس کی طرف یہ کارواں برسوں سے آنکھیں بند کیے رواں دواں تھا؛ یہ اس غیرت کے جنازے کا ماتم ہے جسے مسلکوں، تنظیموں اور ذاتی اناؤں کے وسیع و عریض قبرستان میں نہایت اہتمام سے دفن کر دیا گیا ہے۔
ہر عہد اپنی شناخت کے لیے کچھ علامتیں تراشتا ہے، مگر کبھی کبھی ایک بے ساختہ لمحہ پورے دور کے چہرے پر ایک ایسا نشان چھوڑ جاتا ہے جو تاریخ کا رخ متعین کر دیتا ہے۔ بریلی میں نمازِ جمعہ کے بعد فضا میں گونجنے والی ایک معصوم پکار، ”آئی لَو محمد ﷺ”، ہمارے عہد کی ویسی ہی فیصلہ کن اور المناک علامت بن گئی ہے۔ یہ کوئی سیاسی نعرہ تھا نہ کسی شورش کا پیش خیمہ۔ یہ تو ایمان کی وہ حرارت تھی جو صدیوں سے اس ملک کی فضاؤں میں تحلیل ہے؛ روح کا وہ نغمہ جو ایک مسلمان کے دل کی گہرائیوں سے خود بخود پھوٹتا ہے؛ اُس تہذیب کا جوہر جس نے محبت کو عبادت کا درجہ بخشا۔
مگر استبداد کی نگاہ میں، جو ہر جذبے کو شک اور طاقت کے پیمانے سے ناپتی ہے، عقیدت کی یہ پاکیزہ صدا بھی فساد کا اعلان قرار پائی۔ پھر وہی ہوا جو ہر دور کے جابروں کی تاریخ رہی ہے: ریاست کا آہنی شکنجہ پوری قوت سے حرکت میں آیا اور انصاف کی آڑ میں بربریت کا وہ بازار گرم ہوا جس کی تپش نے انسانیت کی روح کو پگھلا کر رکھ دیا۔ لاٹھیاں برسیں، گھروں کی چادر اور چار دیواری پامال ہوئی، اور درجنوں بے گناہ نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے ان تاریک گڑھوں میں دھکیل دیا گیا جہاں روشنی بھی دم توڑ دیتی ہے۔
یہ تمام بربریت، یہ ساری وحشت، محض عوام کے دلوں میں خوف بٹھانے کا ایک سطحی حربہ نہ تھی، بلکہ یہ اس قربان گاہ کو سجانے کا اہتمام تھا جہاں ایک بڑے شکار کی بھینٹ چڑھائی جانی تھی۔ اور وہ شکار تھے آل انڈیا اتحادِ ملت کونسل کے سربراہ، مولانا توقیر رضا خاں۔ انہیں اس خود ساختہ سازش کا سرغنہ قرار دے کر ان کے ہاتھوں میں وہ ہتھکڑیاں پہنا دی گئیں جو درحقیقت ان کے جسم پر نہیں، بلکہ پوری ملت کی اجتماعی غیرت پر کسی طوق کی مانند کسی گئی تھیں۔ پھر اس ظلم کی پیشانی پر تاریخ کا سیاہ ترین ٹیکہ اس وقت لگا جب حاکمِ وقت کا وہ فرعونی قہقہہ فضا میں بلند ہوا جو ہر دور کے نمرود اور یزید کی پہچان رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے غرور اور طاقت کے نشے میں چور لہجے میں کہا: ”بریلی کا ایک مولوی بھول گیا تھا کہ یہاں کس کی حکومت ہے، ہم انہیں ایسا سبق سکھائیں گے کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں گی۔”
یہ جملہ الفاظ کا مجموعہ نہیں تھا؛ یہ نئے بھارت کا وہ غیر تحریری آئین تھا جس میں مسلمانوں کی تقدیر کے باب میں صرف ذلت، قید اور کبھی نہ ختم ہونے والے ظلم کی سیاہی بھری گئی ہے۔ یہ اس بات کا کھلا اعلان تھا کہ یہاں اب قانون کی نہیں، بلکہ طاقت کی حکمرانی ہوگی؛ تمہاری قیادت ہماری قیدی ہے، تمہاری عزت ہماری کنیز ہے، اور تمہاری تقدیر کے فیصلے اب ہمارے درباروں میں لکھے جائیں گے۔ یہ وہ لمحہ تھا، تاریخ کا وہ سیاہ لمحہ، جہاں جمہوریت کے چہرے سے تکلف کا آخری نقاب بھی نوچ کر پھینک دیا گیا اور استبداد کا وہ کریہہ چہرہ پوری عریانی کے ساتھ سامنے آ گیا جسے اب کسی پردے کی حاجت نہ تھی۔
یہ سوال ذہنوں میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے کہ آخر ہزاروں علما اور لاکھوں مسلمانوں کے ہجوم میں مولانا توقیر رضا ہی اس قہر کا نشانہ کیوں بنے؟ اس کا جواب ان کی شخصیت اور ان کے اس خواب میں پوشیدہ ہے جس کی تعبیر کے لیے انہوں نے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔ مولانا توقیر رضا محض ایک روایتی عالم یا کسی ایک مسلک کی محدود شناخت کے اسیر نہیں۔ وہ اس امت کے ان چند ٹمٹماتے چراغوں میں سے تھے جو مسلکوں اور فرقوں کی پھیلائی ہوئی گہری تاریکی میں اتحاد کی ایک کرن روشن کرنے کی جرأت رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اس قوم کا اصل مرض اس کا داخلی انتشار ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جب تک یہ امت دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ کے خانوں میں بٹی رہے گی، اس کا شکار کرنا دنیا کی سب سے آسان ترین ریاضت رہے گی۔
اور تاریخ جب کسی شخصیت کی عظمت کا پیمانہ متعین کرتی ہے تو اس کے نسبی تفاخر کو نہیں، بلکہ اس کی فکری جرأت اور کردار کی بلندی کو دیکھتی ہے۔ یہ وہی توقیر رضا خاں ہیں، جو نہ صرف بریلوی مکتبِ فکر کے ایک سرکردہ عالم، بلکہ خود خانوادہ? اعلیٰ حضرت کی ایک توانا نشانی ہیں۔ مگر انہوں نے اپنی وراثت کو فخر کا تاج بنا کر سر پر سجانے کے بجائے، اس صدیوں پرانی خلیج کو پاٹنے کے لیے پہلا قدم اٹھایا جس نے ملت کو دو لخت کر رکھا تھا۔ یہ وہ پہلے بلند پایہ بریلوی عالم تھے جنہوں نے تمام مصلحتوں کو پسِ پشت ڈال کر خود چل کر دارالعلوم دیوبند کی دہلیز پر قدم رکھا، وہاں کے اکابرین سے بغل گیر ہوئے، اور یہ پیغام دیا کہ فروعی اختلافات کی دیواریں ملت کے اجتماعی وجود کے حصار سے بلند نہیں ہو سکتیں۔
انہوں نے اپنوں کی ملامتوں اور طعنوں کے زہریلے تیروں کی پرواہ کیے بغیر اتحادِ امت کا وہ علم بلند کیا جسے اٹھانے کی ہمت آج خانقاہوں کے بڑے بڑے وارثوں اور سجادہ نشینوں میں نہیں۔ لیکن ان کی نگاہ صرف مسلکوں کی تنگنائیوں تک محدود نہ تھی، بلکہ امت کے وسیع افق پر مرکوز تھی۔ شہریت قانون (CAA) کے خلاف یخ بستہ راتوں کا کرب ہو، یا بابری مسجد کی شہادت کا جاں کاہ غم؛ ملک کے کسی بھی کونے میں کسی بے گناہ کے خون کی ارزانی ہو، یا ملت کی عزت پر حملہ، مولانا توقیر رضا کی صدا ہمیشہ صفِ اول میں گونجتی رہی۔اور ہندوتوا کی فسطائی سیاست کے لیے یہی ان کا سب سے بڑا، ناقابلِ معافی جرم تھا۔ ایک ایسی مسلم قیادت جو مسلکوں میں بٹی ہو، جو ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے صادر کرتی ہو، جو حکومت کے پھینکے ہوئے ٹکڑوں پر پلتی ہو، وہ ان کے لیے خدا کا سب سے بڑا انعام ہے۔ لیکن ایک ایسی قیادت جو امت کو جوڑنے کی بات کرے، جو مسلمانوں کو ایک سیاسی اور سماجی قوت بنانے کا خواب دیکھے، وہ ان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ مولانا توقیر رضا کی گرفتاری دراصل اسی خطرے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ایک منظم اور سوچی سمجھی سازش تھی۔ انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر حکومت نے پوری ملت کو یہ پیغام دیا ہے کہ خبردار! جو کوئی بھی تمہیں جوڑنے کی کوشش کرے گا، اس کا انجام یہی ہوگا۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے گریبان پکڑ کر لڑتے رہیں، ایک دوسرے کی مسجدوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے رہیں، تاکہ وہ پسِ پردہ ہماری نسلوں کے مستقبل کا سودا کرتے رہیں۔
اپنی گرفتاری سے قبل مولانا نے جو آخری پیغام دیا، وہ کسی سیاست دان کا نپا تلا بیان نہیں، بلکہ ایک زخمی شیر کی وہ دہاڑ تھی جو جنگل کی خاموشی کو چیر کر رکھ دیتی ہے۔ انہوں نے کہا، ”مجھے عتیق اور اشرف کی طرح گولی مار دو، میں محمد ﷺ کے نام پر مرنے کو تیار ہوں۔” یہ الفاظ نہیں تھے، یہ امت کے مردہ ضمیر پر برسائے گئے وہ کوڑے تھے جو شاید اسے غفلت کی نیند سے بیدار کر دیتے۔ یہ اس قوم کو جگانے کی آخری، بے چین اور پُر درد پکار تھی جو صدیوں سے سو رہی تھی۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ دیکھو، تمہارے رہنماؤں کو کس بے دردی سے چن چن کر ختم کیا جا رہا ہے، اور تم اپنی رضائیوں میں دبکے بیٹھے ہو! اٹھو، ورنہ کل یہی آگ تمہارے گھروں تک بھی پہنچے گی!
مگر افسوس! صد ہزار افسوس! یہ قوم نہیں جاگی۔ یہ امت نہیں تڑپی۔ اس کے جسم کا ایک اہم حصہ کاٹ کر الگ کر دیا گیا، اور باقی جسم کو درد کا ہلکا سا احساس تک نہ ہوا۔ وہ ردِ عمل کہاں تھا جو ایک زندہ قوم کی پہچان ہوتا ہے؟ وہ طوفان کہاں تھا جو اپنے قائد کی بے حرمتی پر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے؟ ہاں، چند ضمیر کی آوازیں ضرور بلند ہوئیں۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے اس ظلم کی مذمت کی۔ دیوبندی مکتب فکر کی توانا آواز مولانا سجاد نعمانی نے اپنے مخصوص دردمند لہجے میں اس ناانصافی پر احتجاج کیا۔ تاریخ ان کی اس جرأت کو ہمیشہ یاد رکھے گی کہ جب ہر طرف سناٹا تھا، تو یہ دو آوازیں حق کا علم بلند کیے ہوئے تھیں۔
مگر وہ منظر نامہ جو حشر کی کسی نشانی سے کم نہ تھا، وہ اس مسلکِ فکر کی خاموشی تھی جس کی نسبت ہی مولانا توقیر رضا کی اولین شناخت ہے۔ وہ مکتبِ فکر جس کے نام لیوا کشمیر کی برف پوش وادیوں سے لے کر کنیا کماری کے ساحلوں تک بستے ہیں؛ جس کی خانقاہوں کا نور اور درگاہوں کی روحانیت ملک کے گوشے گوشے پر محیط ہے؛ اور جس کے وارثینِ مسند و منبر، عشقِ رسول ﷺ کو اپنی کل کائنات اور وجہِ تفاخر گردانتے ہیں، ان سب پر ایک ایسا سَرمَدی سکوت طاری ہوا کہ گویا موت نے خود ان کی زبانوں پر پہرے بٹھا دیے ہوں۔کسی ایک بھی بڑی درگاہ کی پیشانی سے غیرت کا پسینہ نہ ٹپکا، کسی ایک بھی معتبر خانقاہ کے گنبد سے صدائے احتجاج بلند نہ ہوئی۔ چند انفرادی اور لرزتی ہوئی آوازیں سوشل میڈیا کی بے کراں وسعتوں میں ابھریں اور ڈوب گئیں، مگر بحیثیتِ مجموعی، ملت کے وسیع صحرا میں اس جان لیوا خاموشی کے سوا کچھ بھی نہ تھا؛ ایک ایسی خاموشی جو کسی طوفان کا پیش خیمہ نہیں، بلکہ اجتماعی موت کا اعلان تھی۔
آخر کیوں؟ یہ کیسی خاموشی تھی جس نے رات کے اندھیرے کو بھی شرما دیا؟ کیا یہ حکومت کا خوف تھا جس نے زبانوں پر تالے ڈال دیے تھے؟ یا یہ مسلکی اختلاف اور داخلی رقابت کا وہ زہریلا خنجر تھا جس نے عین اس وقت پیٹھ میں وار کیا جب سینے پر وار کرنے کے لیے دشمن سامنے کھڑا تھا؟ کیا کچھ لوگ اس بات پر دل ہی دل میں خوش تھے کہ ان کا ایک حریف، جو ان کی قیادت کو چیلنج کر رہا تھا، خود ہی راستے سے ہٹ گیا؟ وجہ جو بھی رہی ہو، نتیجہ ایک ہی ہے: اس خاموشی نے ظالم کے ہاتھ مزید مضبوط کر دیے ہیں۔ اس نے حکومت کو یہ پیغام دیا ہے کہ تم ان کو مسلکوں میں بانٹ کر ایک ایک کرکے ختم کر سکتے ہو، کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ یہ خاموشی محض بے حسی نہیں، یہ مجرمانہ شراکت داری ہے! یہ اس ظلم پر ایک طرح کی خاموش رضامندی ہے جو کل تمہارے دروازے پر بھی دستک دے گا۔
مدتیں بیت گئیں، اور ہم اتحادِ امت کے دل فریب تصور سے خود کو بہلاتے رہے۔ یہ لفظوں کا ایک ایسا شیش محل تھا جسے ہم نے بڑی محنت سے تعمیر کیا تھا، اور ہماری سماعتیں اس کی دلکشی کی عادی ہو چکی تھیں۔ مگر مولانا توقیر رضا کی گرفتاری نے اس صنمِ خیال پر ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ یہ پاش پاش ہو کر رہ گیا ہے۔ اس نے ثابت کر دیا ہے کہ ہمارا اتحاد ایک کھوکھلا نعرہ نہیں، بلکہ صحرائے تشنہ لبی کا وہ سراب ہے جس کے فریب میں بھٹکتی ہوئی ہماری نسلیں شاید اپنی روح کی پیاس کبھی نہ بجھا سکیں گی۔حقیقی اتحاد، تہواروں کی رسمی مبارکبادوں اور خوشی کے لمحوں میں ایک دوسرے کی محفلوں میں شریک ہو جانے کا نام نہیں۔ یہ تو وہ متاعِ گراں بہا ہے جس کا امتحان مصیبت کی کالی راتوں میں ہوتا ہے۔ جب تمہارے کسی رہنما کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنائی جائیں، تو کیا ان زنجیروں کی سرد مہری تمہاری روح تک کو منجمد نہیں کر دیتی؟ اور جب تمہارے کسی دوسرے مسلک کے بھائی کے گھر میں آگ لگی ہو، تو کیا تم یہ سوچ کر اپنے دروازے بند کر لیتے ہو کہ اس کے شعلے تمہارے آشیانے تک نہیں پہنچیں گے؟
مولانا توقیر رضا کا قصور اس کے سوا کیا تھا کہ انہوں نے اس وہم کو حقیقت اور اس موسمی خیال کو ایک دائمی صداقت میں بدلنے کی جسارت کی؟ اور ملت نے انہیں میدانِ بلا میں تنہا چھوڑ کر اس حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ وہ ابھی اس بارِ گراں کو اٹھانے کے اہل نہیں۔ یہ ملت آج بھی اپنی مسلکی اور تنظیمی دکانوں کی تنگنائیوں میں اسیر ہے؛ ہر گروہ اپنے محدود دائرے کی بادشاہت میں اس قدر مگن ہے کہ اسے ہمسائے کے گھر میں لگی آگ کے شعلے بھی گل و گلزار نظر آتے ہیں۔ یہ داخلی انتشار اور یہ روحانی بے حسی ہی ہمارا اصل عدو ہے، کوئی بیرونی طاقت نہیں۔
اور حکومتیں اس رمز سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کے پاس صدیوں کا آزمودہ نسخہ ہے کہ اگر ایک بریلوی عالم کی دستار اچھالی جائے گی تو دیوبندی اپنے حجروں میں محفوظ رہیں گے، اگر ایک دیوبندی کی دہلیز پر آنچ آئے گی تو اہل حدیث کی صفوں میں سکون رہے گا، اور اگر کسی ایک تنظیم کا گلا گھونٹا جائے گا تو باقی سب اس جھوٹی تسلی میں مبتلا رہیں گے کہ بلا ان کے سر سے ٹل گئی۔ مگر فریبِ نظر میں مبتلا یہ گروہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے مدِّ مقابل کو نہ تو تمہارے مسلک سے کوئی عناد ہے اور نہ تمہارے عقیدوں سے کوئی سروکار؛ اس کی کھلی اور ابدی دشمنی تو صرف اس کلمے ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ”کی بنیاد پر ہے۔
آج مولانا توقیر رضا کی زنجیریں صرف ان کے پیروں میں نہیں ہیں، یہ پوری ملت کی غیرت، حمیت اور اجتماعی ضمیر پر ڈالی گئی ہیں۔ یہ گرفتاری ایک فرد کی نہیں، بلکہ اس خواب کی گرفتاری ہے جس کا نام ”متحدہ مسلم قیادت” ہے۔ اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ کیا ہم اسی طرح خاموش تماشائی بنے رہیں گے، اور اپنے رہنماؤں کو ایک ایک کرکے جیلوں کی تاریکی میں گم ہوتے یا گولیوں کا نشانہ بنتے دیکھتے رہیں گے؟ کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسی میراث چھوڑ کر جائیں گے جس میں غلامی، بزدلی اور بے حسی کے سوا کچھ نہ ہو؟
یا پھر ہم اس گہری نیند سے بیدار ہوں گے، اپنی مسلکی اور تنظیمی دیواروں کو گرا کر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنیں گے، اور یہ سمجھیں گے کہ توقیر رضا کی لڑائی صرف ان کی اپنی نہیں، بلکہ ہم سب کے وجود کی بقا کی لڑائی ہے؟ کیا ہم آئین و قانون کی ڈھال اٹھا کر عدالتوں کے ایوانوں میں یہ جنگ لڑیں گے؟ کیا ہم پُر امن احتجاج کی طاقت سے سڑکوں پر اپنے اجتماعی شعور کا ثبوت دیں گے؟ کیا ہم اپنے قلم، اپنی دانش اور اپنے اتحاد سے ملک کے ضمیر کو جھنجھوڑیں گے اور اس ظلم کو ہر سطح پر بے نقاب کریں گے؟
اگر آج بھی یہ قوم نہ جاگی، اور اپنی توانائی کو ایک منظم، قانونی اور پُر امن جدوجہد میں نہ بدلا، تو تاریخ گواہ رہے گی کہ ایک قوم تھی جسے مٹانے کے لیے کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں پڑی؛ وہ اپنے داخلی انتشار اور اپنی بے حسی کے بوجھ تلے دب کر خود ہی مر گئی۔ اتحاد یا تو آج ایک ٹھوس اور عملی حقیقت کا روپ دھارے گا، یا پھر ہمیشہ کے لیے کتابوں میں ایک کھوکھلا اور شرمناک خواب بن کر رہ جائے گا۔ انتخاب ہمارا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Share this:

  • Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
  • Click to share on X (Opens in new window) X
  • More
  • Click to email a link to a friend (Opens in new window) Email
  • Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn
  • Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
  • Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
  • Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp

Like this:

Like Loading...

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

اشتہارات

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb
%d