Skip to content
بندوق کی نوک پر صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو کا امن منصوبہ
ازقلم: شیخ سلیم
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا
ستمبر 2025 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران غزہ کے لیے ایک نیا 20 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا۔ معلوم ہوتا ہے اس منصوبے کے بارے میں فلسطینیوں، عربوں، یورپین یونین کسی سے بھی کوئی مشورہ نہیں کیا گیا۔ اس میں اوسلو معاہدے کا کوئی ذکر نہیں ہے، فلسطینی ریاست کا اور فلسطینیوں کے حقوق کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ ایک بورڈ آف پیس بنائیں گے اپنی مرضی سے، اپنے لوگ اس بورڈ آف پیس کے ممبران ہوں گے اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ امریکی صدر اس کے سربراہ خود ہوں گے۔ ابھی تک تو وہ دنیا بھر کے ملکوں کے خلاف روز روز نئے نئے ٹیرف لگایا کرتے تھے، دنیا بھر میں جنگ بندی کرایا کرتے اور اس کا کریڈٹ لیتے تھے، اب فلسطین میں فلسطینیوں کو ختم کر کے، بے دخل کر کے، نہتا کر کے، مسئلہ فلسطین کو تابوت میں بند کر کے آخری کیل ٹھونک کر ہمیشہ کے لیے دفن کر دینا چاہتے ہیں۔ وہاں غزہ میں ایک عیاشی کا اڈہ بنا کر دنیا بھر کے ملکوں سے لوگوں کو بلا کر تماشا بنانا چاہتے ہیں۔ کمال کی بات ہے اس منصوبے کو اسرائیل کی بھرپور حمایت حاصل ہے، نیتن یاہو اس منصوبے سے خوش ہیں، جنگ جیتنے کا اپنے قیدیوں کو رہا کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اسرائیل اور دنیا بھر میں ان کے خلاف جو مقدمے چاہے رشوت کے مقدمے ہوں یا فلسطینیوں کے قتل عام کے مقدمے سب ختم ہو جائیں گے۔
منصوبے کی اہم شرائط کچھ اس طرح ہیں: اسرائیل 250 ایسے فلسطینی قیدی رہا کرے گا جنہیں عمر قید کی سزا ملی ہے، اور ساتھ ہی 1,700 وہ فلسطینی بھی آزاد کیے جائیں گے جو جنگ کے دوران گرفتار ہوئے۔ اس کے بدلے میں حماس کو 48 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنا ہوگا، جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کا یقین ہے۔ حماس کے ارکان کو عام معافی دی جائے گی بشرطیکہ وہ ”پرامن بقائے باہمی کا عہد کریں” اور اپنے ہتھیار ڈال دیں۔ یعنی غاصب صہیونی ریاست کو تسلیم کریں، فلسطینی ریاست اور فلسطین سے ہمیشہ کے لیے دست بردار ہو جائیں، غزہ کو صدر ٹرمپ کے حوالے کر دیں، مغربی اردن یعنی ویسٹ بینک کا ذکر تک نہ کریں۔ اسرائیل وہاں ہر روز قتل و غارت گری کرتا ہے، فلسطینیوں کو ان کے کھیتوں اور زمینوں سے بے دخل کرتا رہے اور ان کی جگہ یہودیوں کو آباد کرتا رہے۔ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ غزہ کی حکمرانی اور تعمیر نو کے لیے ایک بین الاقوامی ”بورڈ آف پیس” قائم کیا جائے گا جس کی سربراہی وہ خود کریں گے۔ اسرائیل غزہ سے واپسی کے لیے ایک تدریجی روڈ میپ پر عمل کرے گا، جو غیر مسلح کاری کے معیارات اور ٹائم فریم سے منسلک ہوگا۔ اسرائیلی فوج کا ایک حصہ ہمیشہ غزہ میں موجود رہے گا جو کیل کانٹے سے مسلح ہوگا، حماس کو اپنے ہتھیار ڈال دینے ہوں گے۔ (1982 میں صابرہ اور شتیلا کیمپ) بیروت میں فلسطینیوں کے قتل عام کو لوگ ابھی بھولے نہیں ہیں جہاں عمل فالنگسٹ ملیشیا اور صہیونی فوجیوں نے بدترین قتل عام کیا تھا، ہزاروں فلسطینیوں کو قتل کر کے بیروت سے بے دخل کیا گیا تھا۔ اسرائیل نے پچھلے دو سالوں میں غزہ پر بمباری کر کے جو لاکھوں فلسطینیوں کو قتل کیا جس میں آدھے سے زیادہ عورتیں اور بچے ہیں، لاکھوں افراد کو بھوک میں مبتلا کیا، سبھی اسکول، ہسپتال بمباری کر کے تباہ و برباد کر دیے، فلسطینیوں کو انہیں بھول جانا ہوگا۔ اس منصوبے میں فلسطینی ریاست کی جانب کوئی اشارہ نہیں ہے، ساتھ شرط یہ ہے کہ حماس ہتھیار ڈالے، اقتدار چھوڑ دے اور یرغمالیوں کو رہا کرے۔
امریکہ کے صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسے ”امن کا تاریخی موقع” قرار دیا۔ نیتن یاہو نے کہا کہ یہ منصوبہ اسرائیل کے تمام سیکیورٹی خدشات کو پورا کرتا ہے اور ساتھ ہی فلسطینی عوام کے لیے ترقی و ریاست کی طرف ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ پتہ نہیں فلسطینی ریاست ختم ہونے، اسرائیل کو تسلیم کروانے سے امن کیسے قائم ہوگا۔ آگے گریٹر اسرائیل کے لیے اسرائیل ممکن ہے دوسرے دن سے قطر اور ایران پر حملے شروع کر دے اور کہے اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، ہمارے آس پاس کوئی ایسی طاقت، کوئی ایسی ریاست ہمیں منظور نہیں جو ہمیں آنکھ اٹھا کر دیکھے، جو ایک راکٹ یا ایک میزائل صہیونی ریاست کی طرف پھینکے، ہم امن میں رہیں، اس کے آس پاس کی ریاستیں خوف و دہشت میں رہیں۔ ابھی تک حماس کی طرف سے اس کی تصدیق یا تردید نہیں ہوئی ہے۔ بہرحال اہل غزہ اور فلسطینیوں کے لیے یہ ایک انتہائی مشکل وقت ہے، فلسطینیوں کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ اہل فلسطین 57 مسلم ممالک ہونے کے باوجود مسجد اقصیٰ کی بقا کی جنگ میں تنہا رہ گئے ہیں، اس کے آس پاس کے طاقت ور مسلم ممالک مکمل طور پر امریکہ کے زیر اثر ہیں سوائے ایک ایران کے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اہل غزہ اور فلسطینیوں کی مدد فرمائے اور غیب سے مدد فرمائے۔
Like this:
Like Loading...
یہ ایک طرفہ امن منصوبہ فلسطین کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ،اسمیں فلسطین کو ریاست کا درجہ تو دور کی بات ہے بلکہ اسے نہہتہ کر اسرائیل اپنے ناپاک منصوبے کو بآسانی تکمیل تک پہچانے میں کامیاب ہوگا ،یہ بالکل بھی ناقابل قبول ہے