Skip to content
راہل گاندھی: گالی سے گولی تک
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
راہل گاندھی کی مخالفت میں بھارتیہ جنتا پارٹی گالی سے گولی تک پہنچ گئی ہے۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش کی سیاسی تبدیلیوں نے دہلی کے سرکار دربار کو بہت زیادہ فکر مند نہیں کیا مگر جب نیپال کے اندر سوشل میڈیا پر پابندی کے بعد ملک کے نوجوانوں نے سڑکوں پر نکل کر سابق وزیر اعظم کے پی اولی کی قیادت والی حکومت کا تختہ الٹ دیا تو ان لوگوں کے ہوش اڑ گئے۔ یہ ایک پرتشدد انقلاب تھا جس کے دوران 70 سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس پر وزیر اعظم نریندر مودی نے روایتی لیپا پوتی کی مگر راہل گاندھی نے کہا کہ ملک کے نوجوان، طلباء اور جنریشن زیڈ ( نئی نسل) جمہوریت کی حفاظت کریں گے اور ووٹ کی چوری کو روکیں گے۔ وہ بولے ’ میں ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑا ہوں‘۔ اس بیان سے ایک دن قبل راہل گاندھی نے ایک اہم پریس کانفرنس میں چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار پر "ووٹ چوروں” اور ”جمہوریت کو تباہ کرنے والوں” کو تحفظ دینے کا الزام لگایا تھا ۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں جمہوریت کی حفاظت کرنا ان کا نہیں بلکہ قومی اداروں کا کام ہے۔ اب صرف ملک کے لوگ ہی جمہوریت کو بچا سکتے ہیں۔ کوئی اور ایسا نہیں کر سکتا۔ان دونوں بیانات کو جب بی جے پی نے ملا کر دیکھا تو وہ گھبرا گئی اور ایک سیاسی طوفان برپا ہوگیا۔
راہل گاندھی کے بیانات پر سب سے سخت ردعمل نشی کانت دوبے کا تھا وہ بولے راہل گاندھی ملک میں خانہ جنگی کرانا چاہتے ہیں اور وہ سوروس فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ نشی کانت دوبے کو خانہ جنگی کا مولو خولیہ ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اوقاف پر سابق چیف جسٹس کھنہ کے سوالات سے پریشان ہوکر ان پر بھی خانہ جنگی کا الزام لگا دیا تھا۔اس بار انہوں نے کہا کہ بی جے پی Gen-Z کے ساتھ کھڑی ہے کیونکہ یہ نسل اقربا پروری کے خلاف ہے۔ اگر بھارت میں Gen-Z ابھرتی ہے تو کانگریس اور اس کے اتحادی ملک سے غائب ہو جائیں گے۔ نشی کانت دوبے کو پتہ ہونا چاہیے کہ فی الحال بی جے پی نے اقربا پروری شباب پر ہے اس کی سب سے بڑی مثال امیت شاہ کے بیٹے وجئے شاہ کا بی سی سی آئی کی صدارت اور ارون جیٹلی کے بیٹے کا دہلی کرکٹ کنٹرول بورڈ اور سشما سوراج کی بیٹی کا رکن پارلیمان ہونا ہے ۔ یہ ساری تو دہلی کی مثالیں ہیں ملک بھر میں اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے ۔
رکن پارلیمان کنگنا رناوت نے بھی مکھی پر مکھی مارتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’راہل گاندھی بھارت میں Gen-Z کو نیپال جیسی تحریک کے لیے اکسا رہے ہیں۔ انہیں یہ جاننا چاہیے کہ نیپال میں Gen-Z نے ایک خاندانی حکومت کو ختم کیا اور جمہوریت قائم کی۔ اگر وہ اسی طرح کے اقدامات جاری رکھتے ہیں تو انہیں ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑے گا۔‘‘ اس جاہل عورت کو یہ نہیں معلوم کہ نیپال میں شاہی خاندان کے ہندو راشٹر قائم کر رکھا تھا ۔ اس کا2006 میں خاتمہ ہوگیا اور جمہوریت برسوں پہلے قائم ہوگئی ابھی نہیں۔ فی الحال جس وزیر اعظم کا بھگایا گیا اس کے خاندان کا کوئی فرد اقتدار کے گلیارے میں نہیں ہے۔ ان باتوں سے قطع نظر مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے یہ دور کی کوڑی لائے کہ کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اربن نکسل کی زبان بول رہے ہیں ؟ نیپال میں تو نوجوانوں نے ایک اشتراکی حکمراں کو اکھاڑ کر پھینک دیا اس لیے ان کی پذیرائی کرنے والے کو نکسلی کہنا مضحکہ خیز ہے۔ ان بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی والے نہ صرف راہل گاندھی بلکہ نئی نسل دونوں سے خوفزدہ ہیں۔
راہل گاندھی فی الحال کیرالہ سے رکن پارلیمان ہیں وہاں پر بی جے پی کے ترجمان پنٹو مہادیو ایک قدم آگے بڑھ گئے ۔ انہوں نے ایک نجی نیوز چینل پر بحث کے دوران کہہ دیا کہ "بنگلہ دیش میں عوامی احتجاج میں عوام ان (حکومت) کے ساتھ نہیں تھے، یہاں ہندوستان میں عوام نریندر مودی کی حکومت کے ساتھ ہیں، اس لیے اگر راہل گاندھی ایسی خواہش یا خواب کے ساتھ نکلے تو راہل گاندھی کو گولی بھی لگ جائے گی”۔ اس ایک مختصر سے بیان کاتین پہلو ہیں۔ اس میں سے ایک ہے راہُل گاندھی کو گولی مارے جانے کی پیشنگوئی ہے لیکن اس کے ساتھ بنگلہ دیشی عوام و حکومت کا تعلق اور اس ہندوستان کی سیاسی صورتحال سے موازنہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ مہادیو نے تسلیم کیا کہ بنگلہ دیش کے احتجاج میں عوام حکومت کے ساتھ نہیں تھے لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت ہند اور مودی کس کے ساتھ تھے؟ عوام کے ساتھ یا عوام دشمن حکومت کے ساتھ؟ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مودی سرکار عوام کے برخلاف حکومت کے ساتھ تھی ۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں تھا؟ نیز اگر پڑوسی ملک کی حکومت عوام مخالف سرکار کے ساتھ ہوگی تو وہاں کے عوام کی نظر میں اس کیا حیثیت ہوگی؟ بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں کے سہارے انتخابی مہم چلانے والی بی جے پی کی اپنے ملک کے باشندوں کو بنگلہ دیشی کہنا اور شیخ حسینہ کو پناہ دینا بدترین منافقت ہے۔
مہادیو پنٹو نہیں جانتے کہ ہرحکومت اس وقت تک اپنی مقبولیت کے حوالے سے خوش فہمی کا شکار رہتی ہے جب تک کہ اسے کوڑے دان کی نظر نہیں کردیا جاتا۔ سری لنکا ہو یا بنگلہ دیش اور اب نیپال ہر جگہ حکمراں خود کو بہت مقبول سمجھتے تھے لیکن بالآخر عوام کے ہاتھوں عبرتناک انجام کو پہنچے اور یہی خوف ہندوستانی حکمرانوں کو بھی ستا رہاہے اور ان کی زبان پھسل رہی ہے۔ راہل گاندھی کو ‘جان سے مارنے کی دھمکی’ کے الزام میں مہا دیو پنٹو پر مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ یہ کیس منگلم پولیس نے کیرالہ کانگریس کے سکریٹری سری کمار سی سی کی شکایت پر درج کیا ۔ اس غیر ذمہ دارانہ بیان نے کانگریس کو بی جے پی پر راشن پانی لے کر چڑھ جانے کا نادر موقع عنایت کردیا ہے۔اس تنازع پرکانگریسی رہنما کے سی وینوگوپال نے نے لکھا کہ "سیاسی میدان میں اختلاف رائے کو آئینی فریم ورک کے اندر سیاسی طور پر حل کیا جانا چاہیے۔ تاہم بی جے پی لیڈر اپنے سیاسی مخالفین کو لائیو ٹی وی پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یقیناً، راہل گاندھی جی کی آر ایس ایس-بی جے پی کے نظریے کے خلاف شدید لڑائی چھڑ گئی ہے۔
وینوگوپال خود ملیالی ہیں اور انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی کے ترجمان نے”تشدد کو بھڑکاتے ہوئے، کھلے عام اعلان کیا کہ ‘راہل گاندھی کو سینے میں گولی مار دی جائے گی۔’ وینو گوپال کے مطابق وہ نہ تو زبان کی پھسلن تھی اور نہ ہی ترجمان کا لاپرواہ بیان تھا۔یہ دراصل حزب اختلاف رہنما کے خلاف جان بوجھ کر خوفناک موت کی دھمکی ہے۔ کانگریس جنرل سکریٹری کا الزام ہے کہ حکمران پارٹی کے زہریلے الفاظ نہ صرف راہل گاندھی کی زندگی کو فوری طور پر خطرے میں ڈالتے ہیں، بلکہ آئین، قانون کی حکمرانی اور ہر شہری کی بنیادی حفاظت کی یقین دہانیوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں”۔انہوں نے بی جے پی سے پوچھا، "اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ یہ واضح کریں کہ آپ کی پارٹی اور حکومت کس نظریے کے ساتھ کھڑی ہے۔” کیا آپ مجرمانہ دھمکیوں، جان سے مارنے کی دھمکیوں اور تشدد کی سیاست کی کھل کر حمایت کرتے ہیں جو ہندوستان کی عوامی زندگی کو زہر آلود کر رہی ہے؟”بی جے پی لیڈر کے متنازعہ ریمارکس کے بعد کانگریس نے بی جے پی کی سخت مذمت کی۔ پارٹی نے وزیر داخلہ امت شاہ کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں مہادیو کے خلاف "مثالی” قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔دراصل بی جے پی تو مہادیو جیسے لوگوں کو انعام و اکرام سے نوازتی ہے۔
کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے اس معاملے کو طول دیتے ہوئے کہا کہ انہیں تو سازش کی بو آ رہی ہے اور سوال کیا یہ سازش کون کر رہا ہے؟ اپنے سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ بولے یہ وہی لوگ ہیں جو نظریاتی جنگ ہار رہے ہیں جن کے پاس مخالف نظریات کو شکست دینے کے لیے فکری وسائل نہیں ہیں۔ کھیڑا نے الزام لگایا کہ پہلےبی جے پی نے راہل گاندھی کو گالیوں سے خاموش کرانے کی کوشش کی، اور اب انہیں گولیوں کی دھمکی دے ر ہی ہے۔” پون کھیرا نے اسے ووٹ چوری کے الزامات سے جوڑتے ہوئے کہا، "آپ (بی جے پی) اس حقیقت کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں کہ کشمیر سے کنیا کماری تک لوگ گاندھی کے اٹھائے گئے مسائل کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔” بی جے پی کو گھیرتے ہوئے وہ بولے ’’ آپ کی چوری رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے، اب آپ کو معلوم ہے کہ آپ کا وقت ختم ہو گیا ہے‘‘۔اپنے بنیادی الزام کو دوہراتے ہوئے کھیرا نے کہا، "جب بھی آر ایس ایس ہندوستان کے نظریے کو شکست دینے میں ناکام ہو جاتی ہے، تو ان کے کارکن جسمانی تشدد کا سہارا لیتے ہیں اور ایک گوڈسے گاندھی کا قتل کر دیتا ہے۔”کھیراکے مطابق لاکھوں غریبوں، پسماندہ اور کمزور طبقات کی آواز کو دبانے کی خاطر راہل گاندھی کو خاموش کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔یہ حقیقت ہے مگر چونکہ راہل گاندھی کے آنجہانی والد راجیو گاندھی اور دادی اندرا گاندھی نے وطن کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا اس لیے راہل گاندھی تو موت کی دھمکی سے ڈر نہیں سکتے ۔ بھارت جوڑو یاتر کے دوران لال چوک پر ترنگا لہرا کر وہ اپنی بے خوفی کا ثبوت دے چکے ہیں اور کشمیر کی عوام نے بھی دل کھول کر ان کا استقبال کیا تھا۔ راہل پر یہ بیدم کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
نہ نشاط وصال نہ ہجر کا غم نہ خیال بہار نہ خوف خزاں
نہ سقر کا خطر ہے نہ شوق ارم نہ ستم سے حذر نہ کرم سے غرض
Like this:
Like Loading...