Skip to content
کیا گاندھی جی کے اصول دور حاضر میں بھی کارآمد ہیں؟
ازقلم: شمس آغاز
ایڈیٹر،دی کوریج
9716518126
shamsaghazrs@gmail.com
مہاتما گاندھی برصغیر کی تاریخ میں ایک ایسی غیر معمولی شخصیت کے طور پر ابھرے جنہوں نے نہ صرف ہندوستان کو آزادی کی راہ دکھائی بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک نئی فکری سمت بھی متعین کی۔ وہ محض ایک سیاسی رہنما نہیں تھے بلکہ ایک فلسفی، مصلح اور سماجی مفکر تھے جنہوں نے اخلاقیات اور سیاست کو ایک دوسرے سے جوڑ کر دکھایا۔ عمومی طور پر سیاست کو طاقت، چالاکی اور اقتدار کی دوڑ تصور کیا جاتا ہے، لیکن گاندھی نے اسے خدمتِ خلق اور اخلاقی فریضہ قرار دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر سیاست جھوٹ، فریب اور تشدد کے بغیر کی جائے تو یہ معاشرتی اصلاح اور انسانی ترقی کا مؤثر ذریعہ بن سکتی ہے۔ آج بھی جب ان کے افکار پر بحث جاری ہے، تو یہ سوال نہایت اہم ہو جاتا ہے کہ کیا گاندھی کی فکر موجودہ دور کے مسائل کا حل پیش کر سکتی ہے یا یہ صرف ماضی کا ایک خوبصورت خواب بن کر رہ گئی ہے۔
گاندھی جی کی فکر کی بنیاد دو بڑے اصولوں پر تھی: سچائی اور عدم تشدد۔ ان کے نزدیک سچائی محض زبانی دعویٰ نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں دیانت داری، راست بازی اور خلوص کا دوسرا نام تھی۔ وہ کہتے تھے کہ سچائی ہی خدا ہے اور خدا ہی سچائی۔ ان کا یقین تھا کہ اگر انسان اپنے فیصلوں اور عمل کو سچائی پر قائم رکھے، تو وہ نہ صرف بدعنوانی سے بچ سکتا ہے بلکہ حقیقی فلاح کے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے۔ سیاست میں سچائی کا مطلب یہ تھا کہ عوام سے کیے گئے وعدے نبھائے جائیں، ان کے اعتماد کا احترام کیا جائے، اور کسی بھی مقصد کے لیے جھوٹ کا سہارا نہ لیا جائے۔ گاندھی نے اپنی تحریکوں میں نہ کبھی جھوٹے پروپیگنڈے کا استعمال کیا اور نہ ہی مخالفین کی کردار کشی کی۔ ان کا انداز ہمیشہ صاف، شفاف اور احترام پر مبنی رہا۔ آج جب دنیا جھوٹ، فریب، فیک نیوز اور انتخابی دھوکہ دہی کی لپیٹ میں ہے، تو گاندھی کی یہ تعلیمات پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔
عدم تشدد گاندھی جی کی فکر کا دوسرا بنیادی ستون تھا۔ ان کے نزدیک تشدد صرف جسمانی نقصان کا نام نہیں بلکہ انسانی اقدار کی پامالی بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تشدد سے وقتی طور پر فتح حاصل ہو سکتی ہے، مگر دلوں کو جیتا نہیں جا سکتا۔ گاندھی جی کی قیادت میں لاکھوں افراد نے برطانوی استعمار کے خلاف صبر، برداشت اور اخلاقی جرات کے ساتھ جدوجہد کی۔ بغیر کسی ہتھیار کے ایک عظیم سلطنت کو جھکنے پر مجبور کرنا ایک ایسا کارنامہ تھا جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج کی دنیا جب دہشت گردی، جنگوں اور انتہا پسندی کا شکار ہے، اور جب طاقتور اقوام کمزور ملکوں پر عسکری اور معاشی دباؤ ڈالتی ہیں، تو گاندھی کا یہ پیغام کہ اصل طاقت بندوق یا بم میں نہیں بلکہ اخلاقی وقار، برداشت اور امن پسندی میں ہے، انتہائی قابلِ توجہ بن جاتا ہے۔
گاندھی جی کی فکر کا ایک اہم پہلو ان کا معاشی نظریہ تھا۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے سخت ناقد تھے اور دولت کو ذاتی ملکیت کے بجائے ایک امانت سمجھتے تھے۔ انہوں نے "ٹرسٹی شپ” کا نظریہ پیش کیا، جس کا مطلب تھا کہ دولت مند افراد کو اپنی دولت عوامی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنی چاہیے۔ ان کے نزدیک صنعت و حرفت کا مقصد چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز نہیں بلکہ عام لوگوں کی بھلائی ہونا چاہیے۔ آج جب دنیا میں امیر و غریب کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں، جب چند افراد دنیا کی بڑی دولت پر قابض ہیں اور کروڑوں لوگ غربت، بھوک اور بیماریوں میں مبتلا ہیں، تو گاندھی جی کا یہ نظریہ نہایت بامعنی نظر آتا ہے۔ اگر دنیا ٹرسٹی شپ کے اصول اپنائے تو ایک منصفانہ معاشی نظام قائم ہو سکتا ہے اور معاشرتی امن بھی فروغ پا سکتا ہے۔
گاندھی جی سادگی اور کفایت شعاری کے بھی سخت حامی تھے۔ وہ خود نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے اور اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ انسان کو اپنی ضروریات کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ ان کا مشہور قول ہے کہ دنیا میں سب کی ضرورت پوری کرنے کے لیے وسائل کافی ہیں، لیکن سب کے لالچ کے لیے نہیں۔ آج جب انسان قدرتی وسائل کا حد سے زیادہ استحصال کر رہا ہے، جنگلات ختم ہو رہے ہیں، آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور سمندر کچرے سے بھر چکے ہیں، تو گاندھی کی یہ فکر انتہائی بصیرت افروز ثابت ہوتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی، عالمی درجہ حرارت میں اضافہ، خشک سالی، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات دراصل انسانی لالچ کا نتیجہ ہیں۔ اگر انسان سادگی کو اپنائے اور صرف اپنی ضرورت پر اکتفا کرے تو دنیا کو ماحولیاتی تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔
مہاتماگاندھی جی کی فکر کا ایک اور بنیادی پہلو سماجی ہم آہنگی تھا۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے داعی تھے اور ان کا پختہ یقین تھا کہ ہندوستان کی آزادی اور خوشحالی تبھی ممکن ہے جب تمام مذاہب اور برادریوں کے لوگ بھائی چارے، محبت اور رواداری کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں۔ انہوں نے ہمیشہ فرقہ وارانہ فسادات کی سخت مخالفت کی اور اس مقصد کے لیے اپنی جان تک قربان کر دی۔ گاندھی نے معاشرتی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے امن اور یکجہتی کا پیغام دیا، اور یہ باور کرایا کہ مذہب، نسل یا قومیت کسی کو دوسروں سے برتر یا کمتر ثابت نہیں کرتی۔ آج جب دنیا مذہبی انتہا پسندی، تعصب، نفرت اور فرقہ وارانہ فساد کی لپیٹ میں ہے، گاندھی جی کا یہ پیغام نہایت اہم اور قابلِ غور ہو جاتا ہے۔ اگر ہم ان کی تعلیمات پر عمل کریں تو مذاہب، نسلوں، قومیتوں اور ثقافتوں کے درمیان موجود خلیج کو کم کیا جا سکتا ہے اور ایک پرامن، مستحکم اور خوشحال معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ گاندھی کی یہ فکر ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ امن اور رواداری صرف نظریات نہیں بلکہ عملی زندگی کا لازمی جزو ہیں، جو نہ صرف قوموں کے بیچ محبت اور اتحاد کو فروغ دیتے ہیں بلکہ سماجی انصاف اور ترقی کے بھی ضامن ہیں۔
بعض ناقدین کا خیال ہے کہ گاندھی جی کی فکر محض ایک مثالی تصور ہے اور عملی دنیا میں اس پر عمل کرنا ممکن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات ظلم کے خلاف طاقت کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے اور بعض حالات میں عدم تشدد مؤثر ثابت نہیں ہوتا۔ لیکن یہ دلیل کمزور ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ گاندھی نے خود اپنے اصولوں پر عمل کر کے دنیا کے سامنے نتائج پیش کیے۔ انہوں نے برطانوی استعمار کے خلاف بغیر کسی تشدد کے ایک کامیاب تحریک چلائی اور اسے جھکنے پر مجبور کر دیا۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر، نیلسن منڈیلا اور کئی دیگر عالمی رہنما بھی انہی اصولوں سے متاثر ہو کر اپنے ممالک میں پرامن جدوجہد کے ذریعے کامیاب ہوئے۔ یہ تمام مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ گاندھی جی کے اصول محض نظریاتی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی مؤثر اور نتیجہ خیز ہیں۔
موجودہ دور میں جب دنیا کی سیاست طاقت اور سرمایہ کے گرد گھوم رہی ہے، جب جھوٹ اور پروپیگنڈا روزمرہ کی سیاست کا لازمی حصہ بن چکے ہیں، جب ماحولیاتی مسائل پوری انسانیت کے وجود کو خطرے میں ڈال چکے ہیں، اور جب مذہبی تعصب اور فرقہ واریت معاشرتی ہم آہنگی کے لیے شدید چیلنج بن چکی ہیں، تو گاندھی جی کی فکر ایک روشن چراغ کی مانند ہے۔ اگر سیاستدان سچائی کو اپنائیں، اقوام عدم تشدد کو اپنا کر امن کا راستہ اختیار کریں، دولت مند ٹرسٹی شپ کے اصولوں پر عمل کریں، انسان سادگی کو اپنائے اور تمام مذاہب کے پیروکار بھائی چارے کو فروغ دیں، تو ایک پرامن، منصفانہ اور خوشحال دنیا کا قیام ممکن ہے۔
یہ بات تسلیم کرنا ضروری ہے کہ گاندھی جی کے اصولوں پر عمل کرنا آسان نہیں۔ یہ صبر، قربانی اور حوصلے کا تقاضا کرتے ہیں، لیکن یہی اصل امتحان بھی ہے۔ اگر ہم صرف وقتی مفادات کے بجائے دیرپا فلاح کو مدنظر رکھیں تو ہمیں گاندھی جی کی فکر پر عمل کرنا ہوگا۔ ان کے اصول محض اخلاقی نعرے نہیں بلکہ انسانیت کی بقا کے ضامن ہیں۔ اگر دنیا ان اصولوں کو نظر انداز کرے گی تو تشدد، لالچ، بدعنوانی اور نفرت اسے تباہ کر دیں گے، لیکن اگر ان پر عمل کیا جائے تو محبت، امن، انصاف اور ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔
اس لیے کہنا بالکل درست ہوگا کہ گاندھی جی محض ماضی کی ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک زندہ فکر کا نام ہیں، جو آج بھی نہ صرف قابل عمل ہے بلکہ انسانیت کے پیچیدہ مسائل کا ایک مؤثر اور دیرپا حل بھی پیش کرتی ہے۔ ضروری ہے کہ ہم ان کے نظریات کو صرف تقریروں، کتابوں یا سالگرہ کی تقریبات تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اپنی روزمرہ زندگی، سیاست، معیشت اور معاشرت میں ان پر حقیقی طور پر عمل کریں۔ اگر ہم گاندھی جی کے اصولوں کو اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی کا حصہ بنا لیں تو یہ نہ صرف ہمارے معاشروں میں امن، محبت اور انصاف کو فروغ دے گا بلکہ انسانی رویوں میں بھی مثبت تبدیلی لائے گا۔ اس طرح ہم ایک بہتر، پرامن اور منصفانہ دنیا کا خواب حقیقت میں بدل سکتے ہیں، جہاں ہر فرد کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور ظلم و ناانصافی کا خاتمہ ممکن ہو۔ اس طرح مہاتماگاندھی جی کا پیغام آج کے دور میں نہ صرف زندہ رہے گا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی روشنی کا مینار ثابت ہوگا، جو انسانیت کو نئی راہوں کی طرف لے جائے گا اور امن و بھائی چارے کو فروغ دے گا۔
Like this:
Like Loading...