Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
Aafia Ansari first Muslim neurosurgeon

مالیگاؤں کی ہونہار طالبہ عافیہ انصاری ملک کی پہلی مسلم نیورو سرج

Posted on 04-10-202504-10-2025 by Maqsood

مالیگاؤں کی ہونہار طالبہ عافیہ انصاری ملک کی پہلی مسلم نیورو سرجن
لیکن۔۔۔ بحیثیت قوم ہم کہاں کھڑے ہیں؟

ازقلم:سمیہ بیگم۔ ممبئی

سوشل میڈیا پر گذشتہ کچھ دنوں سے ایک باحجاب لڑکی کی تصویر گردش کر رہی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ مالیگاؤں کی ہونہار طالبہ عافیہ انصاری ہے جو اردو میڈیم اور نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے ملک کی پہلی مسلم نیوروسرجن بنی ہے۔ عافیہ اور اس کے والدین کو ڈھیر ساری مبارکباد، اللہ اسے مزید کامیابیوں سے ہمکنار کروائے۔ عافیہ نے بلا شبہ آج کے اس تنگ نظریہ ماحول میں حصول علم کی خاطر انتھک محنت کرتے ہوئے قوم و ملک کا نام روشن کیا ہے اور امید ہے کہ وہ جن سنگلاخ رکاوٹوں کو پار کرتے ہوئے پروفیشنل کرئیر میں قدم بڑھانے جا رہی ہیں اس میں بھی وہ ایک مثالی پروفیشنل کا کردار ادا کریں گی۔

ہمارے شعائر کی حفاظت کرتے ہوئے، حجاب میں رہ کر میڈیکل فیلڈ میں اتنی اہم کامیابی حاصل کرنا اپنے آپ میں ایک باعث فخر اور سنگ میل ہے ۔ اسکا اثر ہماری دوسری بہنوں، بیٹیوں پر بھی ہوگا۔اللہ انہیں استقامت نصیب فرمائے۔ عافیہ کی اسٹوری دیکھ کرانصار شیخ کی یو پی ایس سی میں کامیابی یاد آئی، پھر ہمارا قومی تعلیمی پس منظر دعوت بیداری کا درس دینے لگا۔ اوسطاً بیس کروڑ کی آبادی والی ہماری قوم میں شرح خواندگی لگ بھگ ۸۰ فیصد ہے لیکن ڈراپ آؤٹ کی شرح اوسطاً ۱۹ فیصد ہے جو کہ دیگر قومو ں کے مقابلہ کہیں زیادہ ہے۔

۲۰۲۰۔۲۱ کی ایک رپورٹ کے مطابق اعلیٰ تعلیم میں مسلم نوجوانوں کی تعداد صرف۱۹لاکھ تھی بعد کے سالوں کا ریکارڈ دستیاب نہیں۔ مسلمانوں کے زیر انتظام کالجس ، یونیورسٹیوں کی تعداد بھی آٹے میں نمک برابر جتنی ہیں۔ مسلمانوں کے سیاسی حالات پر تبصرہ کیا ہی ہو؟ باشعور افراد جیلوں میں بند ہیں، بلڈوزر کارروائی آپ کےلئے مخصوص ہیں ۔ دین سے سیاست کی دوری نے ہمیں ثریا سے زمین پر لا پٹخ دیا ہے، اس کے اثرات ہر شعبہ ہائے زندگانی میں نمایاں ہیں۔ حالات بلا شبہ پر اطمینان نہ ہوں، لیکن وقتاً فوقتاً نوجوانوں کے ذریعہ امید کی کرن جاگتی ضرور ہے۔ اب ان کرنوں کو مرتکز کرتے ہوئے انہیں آفتاب کی مانند پھر سے زریں بنانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟

یہ احساس تعلیم یافتہ طبقہ کو طئے کرنا ہے۔ہمارے نوجوان سیاست میں، عدالت میں، طب کے میدان میں اپنی زورآزمائی کر رہے ہیں لیکن اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے جس کا نوٹس لیا جانا بھی اشد ضروری ہے۔ ہماری تعلیمی پسماندگی کی وجہ معاشی اور سماجی رکاوٹوں کو گردانا جاتا ہے اور یہی عوامل ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لیکن جب وسائل پر نظر ڈالی جائے تو سوال واجب ہوتا ہے کہ کیا ہمارے پاس وسائل اور مواقعوں کی کمی ہے؟ وسائل اور مواقع بھرپور دستیاب ہیں۔۔۔

اورکیے بھی جا سکتے ہیں ! میں مراٹھواڑہ کے قحط زدہ علاقوں سے لے کر ممبئی، پونے اور حیدرآباد کی چکا چوند زندگیوں پر نظر ڈالتی ہوں تو مسلمانوں کے عالیشان گھر، فارم ہاؤس ، بیش قیمتی گاڑیاں، مہنگے فونز اور ان کی شاہانہ شادیاں اور تقریبات نظر آتے ہیں اور جب انہیں سماجی حالات سے موازنہ کرتی ہوں تو محروم طبقہ کی ایک بڑی تعداد سامنے نکل کر آتی ہے جو چھوٹے موٹے کاروبار اور ملازمت میں جد و جہد کر رہی ہوتی ہے۔متوسط خاندان کے طلباء محنت تو کرتے ہیں لیکن بروقت صحیح رہنمائی نہ ملنے اور وسائل کی موجودگی کی لا علمی سے احساس کمتری میں مبتلا ہو کر ترک تعلیم پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیا ہماری تنظیمیں، اشرافیہ، اور خوشحال طبقہ، ایسے طلباء میں انویسیٹ نہیں کر سکتاہے؟
Investment in Human Capital
کو ترجیح دی جانی چاہیے۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم اب بھی اردو زبان کے فخریہ مشاعروں کی ہی زینت بنے ہوئے ہیں؟ حکومت کی تعصب پرستی نے اسکالر شپش میں کمی کی ہے یہ حقیقت ہے لیکن اگر آپ صرف گوگل کرلیں تو پتہ چلے گا کہ دنیا کے ۹۰ فیصد سے زائد ممالک مفت تعلیم کیلئے اسکالرشپس کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اعلی تعلیم کےلئے ان اسکالرشپس کو حاصل کرنے درکار اسکِلس کی ہائی اسکول سطح پر ہی نشاندہی ہوں تو چند سالوں میں اس کے بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ بطور پروفیسر میرے خاوند ہمیشہ اپنا مشاہدہ پیش کرتے ہیں کہ ۹۹ فیصد طلباء کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں اسے عملی زندگی میں کہاں استعمال کرناہے؟ اس علم کو کہاں اپلائی کرنا ہے؟ وہ جس شعبہ میں کرئیر بنانا چاہتے ہیں اس کےلئے بہترین یونیورسٹیاں کونسی ہیں؟

ان میں داخلے کےلئے کیا قابلیت درکار ہے؟ جن یونیورسٹیز میں داخلہ لینا ہے وہاں اسکالرشپ بھی دستیاب ہیں؟ اگر ہیں تو حاصل کرنے کی شرائط کیا ہیں؟ یہ بنیادی سوالات کے جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔ ہمارے ہر شہر میں اساتذہ کی مختلف تنظیمیں ، این جی اوز ، سوسائٹیاں سرگرم ہیں لیکن ہر کسی کا اپنا ایک دائرہ (خول) ہے جس سے وہ باہر نہیں آنا چاہتے۔ ہر شہر میں چند گروپس ہیں جو ہر پروگرام میں ایکٹیو ہیں، ایکدوسرے کی پیٹھ تھپتھپانے میں مصروف ہیں، ان اداروں، تنظیموں اور ذمہ داروں کو اپنی پالیسی از سر نو ترتیب دینی چاہیے۔ بڑوں کو چاہیے کہ وہ قیادت اگلی نسلوں کو سونپے اور ان کی رہنمائی کریں۔ ڈپلومیٹک دنیا میں ایک قول معروف ہے۔

“If you are not on the table, you are the on the Menu.”
اس قول کے تناظر میں جب امت مسلمہ کو دیکھا جائے تو مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایک انتہائی عصبیت پسند تنظیم جو اپنا صد سالہ جشن منا رہی ہے اس کے کاموں پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو واضح ہے کہ ہمیں بھی اپنے دائرے سے باہر نکل کر چند ایک کام کرنے اشد ضروری ہیں جسمیں سے چند کچھ اس طرح ہو سکتے ہیں!

۱۔ اسکولی سطح پر کرئیر سے متعلق طلباء کی بیداری، رہنمائی اور حوصلہ افزائی۔
۲۔ علاقائی سطح کی تنظیموں ، خاص طور پر تنظیم اساتذہ اور سوسائٹیوں کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کےلئے اسکالرشپس
۳۔ پروفیشنلز اور ریٹائرڈ افراد کی نگرانی میں شارٹ ٹرم اِسکِل ڈیولپمنٹ اور لینگویج کورسیز کا اہتمام
۴۔نیشنل اور انٹر نیشنل اسکالرشپس سے آگاہی کےلئے خصوصی شعبہ۔ ڈیٹا بیس، درکار تعلیمی قابلیت، مواقعوں کی سوشل میڈیا کے ذریعہ نشر و اشاعت
۵۔ تعلیمی اداروں کے ابنائے قدیم( ایلومنائی) نیٹورک کے موثر نیٹورک کا قیام
۶۔ این جی اوز اور تنظیموں کی آپسی نیٹورکنگ، سیکٹر وائز کاموں کی ذمہ داری
۷۔ وسائل کا موثر استعمال۔ لاحاصل پروگرامس سے اجتناب اور ترجیات کی از سر نو ترتیب

Share this:

  • Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
  • Click to share on X (Opens in new window) X
  • More
  • Click to email a link to a friend (Opens in new window) Email
  • Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn
  • Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
  • Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
  • Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp

Like this:

Like Loading...

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

اشتہارات

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb
%d