Skip to content
بھاگوت نے دس سالہ ذلت کا انتقام لے لیا
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
آر ایس ایس کے صد سالہ یومِ تاسیس کی تقریبات وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک بھیانک خواب بن گئی۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے مودی جی نے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے ؟ وزیر اعظم بننے کے بعد گیارہویں سال میں انہوں نے پہلی بار سنگھ کے مرکزی دفتر میں جاکر سربراہ سے ملاقات کی۔ اس کے بعد لال قلعہ سے یوم آزادی کی تقریر میں دل کھول کر سنگھ کی تعریف کی اور اسے دنیا کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم قرار دیا۔ اس پر بھی دل نہیں بھرا تو سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کی سالگرہ کے موقع پر کیجریوال کے مطابق ’چوتھی پاس ‘ وزیر اعظم نے انگریزی میں مضمون لکھوا کر بڑے بڑے اخبارات میں اپنے نام سے چھپوایا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جو شخص سینیگال میں ٹیلی پرامپٹر کے بغیر شکریہ کے دو جملے نہیں کہہ سکا اور مجبوراً ہندی میں یہ رسم ادا کرنی پڑی اس کے نام سے انگریزی اخبارات میں مضمون شائع ہورہا ہے۔امیت شاہ نے ایک ایسا ہندوستان بنانے کا دعویٰ کیا تھا جہاں لوگوں کو انگریزی کے استعمال میں شرم آئے لیکن وزیر اعظم نے شاید وہ بیان نہیں دیکھا یا نظر انداز کردیا۔
وزیر اعظم نے اپنے مضمون میں سرسنگھ چالک کے لیے خوب قصیدے پڑھے ۔ انہیں توقع رہی ہوگی کہ موہن بھاگوت روایت سے انحراف کرتے ہوئے انہیں صد سالہ تقریبات میں بلائیں گے۔لیکن مودی کے ذریعہ انقلابی قائد قرار دیے جانے والے موہن بھاگوت نےتوجہ نہیں دی۔ وزیر اعظم تو گویا آر ایس ایس کے حوالے سے نغمہ سرا رہے کہ ’سو سال پہلے مجھے تم سے پیار تھا، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا ‘ لیکن پھر بھی سنگدل صنم کا دل نہیں پگھلا۔ بھاگوت نے نہ تو مودی کو ان کی سالگرہ پر مبارکباد دی اور نہ ہی صد سالہ تقریبات میں بلایا۔ سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم کی ساری کوششیں کیوں رائیگاں گئیں؟ اس کے لیے ان کا اپنا طریقۂ کار ذمہ دار ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں اپنے پالتو میڈیا کی مدد سے چھا جاتے ہیں ۔ میرے کی آنکھ ان پر ایسے ٹکتے ہے کہ پھر نہیں ہٹتی ہے بلکہ پلک تک نہیں جھپکتی ۔ ان کا یہ جنون اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ وہ فیس بک کے دفتر میں اس کے مالک مارک زکربرگ کی اہلیہ سے بات کرتے ہوئے خود انہیں کیمرے کی خاطر بانہہ پکڑ کر ہٹانے سے نہیں ہچکچاتے۔ ان کے نائب امیت شاہ کا یہ حال ہے کہ وہ پارٹی کے صدر جے پی نڈا کو اپنے ہی دفتر میں وزیر اعظم کے پیچھے چلنے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ اپنے پیچھے بھیج دیتے ہیں حالانکہ بی جے پی آفس میں تو سربراہ کو ہی سب سے آگے ہونا چاہیے۔
گودی میڈیا کی ایسی تربیت کی گئی ہے کہ وہ ان کے بیان کے سوا کسی اور کی تقریر کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا ۔ وزیر اعظم کی نفسیات کو ان کے ہم عمر اور ہم جماعت موہن بھاگوت سے زیادہ کون جانتا ہے۔ یہ ان کی زندگی کا یادگار لمحہ تھا اس لیے وہ اسے مودی جی کے حوالے کرکے کیسے تباہ کرسکتے تھے اس لیے نہیں بلایا تو نہیں بلایا اور دس سال تک اقتدار کے نشے میں وزیر اعظم جو سنگھ کی جو عملی توہین کرتے رہے نڈا نے ’اب ضرورت نہیں ہے‘ کہہ کر جو زبانی تضحیک کی تھی اس سب کا انتقام لے لیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی جب وجئے دشمی کے دن ناگپور بلائے جانے کے امکانات سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے ایک دن قبل یکم اکتوبر 2025 کو ڈاکٹر امبیڈکر انٹرنیشنل سینٹر، نئی دہلی میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی صد سالہ تقریبات میں بطور مہمان خصوصی شرکت پر اکتفاء کرلیا۔ دہلی میں فی الحال آر ایس ایس کے تین ٹاور کھڑے ہیں ان میں لازماً ڈاکٹر ہیڈگیوار کے نام پر کوئی ہال ہوگا اور ہونا تو یہی چاہیے تھا اسی میں یہ تقریب منعقد ہوتی مگر پھر دلتوں کو عملاً دور رکھنا اور ظاہراً قریب لانے کا پاکھنڈ زعفرانیوں کو ڈاکٹر امبیڈکر سینٹر لے گیا۔
اس موقع پر وزیر اعظم نے ایک خاص طور پر ڈیزائن کردہ یادگاری ڈاک ٹکٹ اور سکہ جاری کیا۔اس میں یہ چالاکی کی گئی گاندھی جی کی یوم پیدائش سے ایک دن قبل سکے سے ان کی تصویر غائب کردی گئی۔ مرکزی حکومت کے باوجود ان لوگوں میں سو سال بعد بھی یہ جرأت نہیں ہے کہ گاندھی کی جگہ ہیڈگیوار ، گولوالکر یا ساورکر کی تصویر لگاتےاس لیے ملک کے نقشےپر بھارت ماتا کی تصویر لگا کر آر ایس ایس کے تین رضاکاروں کو اپنے مخصوص انداز میں سلام کرتے ہوئے دکھایا گیا جو ایک افسوسناک تبدیلی ہے۔ خصوصی ڈاک ٹکٹ میں قدرتی آفات کے دوران آر ایس ایس کے امدادی کاموں کو دکھایا گیا ہے حالانکہ پنجاب کے حالیہ سیلاب زدگان کو وہ لوگ نظر نہیں آئے۔ وزیر اعظم مودی نے یکم اکتوبر کی تقریب میں فرمایا ڈاکٹر کیشو بلی رام ہیڈگیوار نے 1925 میں ناگپور کے اندر ایک رضاکار پر مبنی تنظیم کے طور پر آر ایس ایس کی بنیاد رکھی تھی، جس کا مقصد شہریوں میں ثقافتی بیداری، نظم و ضبط، خدمت اور سماجی ذمہ داری کو فروغ دینا تھا۔
وزیر اعظم کے دفتر نے اس موقع پرایک بیان جاری کرکے کہا کہ آر ایس ایس کو ہندوستان کی قومی تعمیر نو کے لیے ایک منفرد عوامی تحریک سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک طویل عرصے تک غیر ملکی حکمرانی کے بعد ابھرا، اور اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ہندوستان کے قومی فخر کے احساس سے اس کے گہرے تعلق کی وجہ سے ہے۔اس میں آر ایس ایس کا بنیادی مقصد حب الوطنی اور قومی کردار کی تعمیر بتاتے ہوے کہا گیا کہ ’’یہ مادر وطن کے لیے عقیدت، نظم و ضبط، ضبط نفس، ہمت اور بہادری کو جنم دیتا ہے۔‘‘ آر ایس ایس کا حتمی مقصد ’’قوم کی ہمہ جہت ترقی‘‘ ہے، جس کے لیے ہر رضاکار اپنے آپ کو وقف کرتا ہے۔ایک مجبور وزیر اعظم نے آر ایس ایس کی تعریف وتوصیف میں ایک جھوٹ کا پلندہ جاری کردیا مگر کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے آر ایس ایس کے قیام کی صد سالہ تقریب کے موقع پر 100 روپے کا سکہ اور ایک ڈاک ٹکٹ جاری کرنے کے اگلے دن بعد گاندھی جینتی پر آر ایس ایس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
جے رام رمیش کے مطابق مہاتما گاندھی کے قریبی پیارے لال تقریباً تین دہائیوں تک گاندھی جی کے ذاتی عملے کا حصہ تھے۔ 1942 میں مہادیو دیسائی کی موت کے بعد، وہ مہاتما گاندھی کے سیکرٹری بن گئے۔انہوں نے 1956 میں ’مہاتما گاندھی: دی لاسٹ فیز‘ کی پہلی جلد تیار کی ۔ مہاتما گاندھی کے اس رفیقِ کار کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ بابائے قوم نے آر ایس ایس کو ایک مطلق العنان نقطہ نظر رکھنے والی فرقہ پرست تنظیم قرار دیا تھا۔ اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ اولین صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے اس کتاب کا تعارف لکھا تھا اور پہلےنائب صدر ڈاکٹر ایس رادھاکرشنن نے بھی اس کی تعریف کی تھی ۔گاندھی جی اور پیارے لال کے درمیان وہ گفتگو 12 ستمبر 1947 کو ہوئی اور پانچ ماہ بعد، وزیر داخلہ آر ایس ایس نے سردار پٹیل پر پابندی لگا دی تھی۔وزیر اعظم مودی کے ذریعہ آر ایس ایس کی تعریف و توصیف کے جواب میں کانگریس نے الزام لگایا کہ وہی ملک کے بیشتر مسائل کی جڑ ہے اور یہ ہندوستان کی بدقسمتی ہے کہ اس تنظیم کے کارکن حکومت چلا رہے ہیں۔
کانگریس کے مطابق پچھلے 100 سالوں میں آر ایس ایس نے ایک بھی ایسا کام نہیں کیا جس سے ملک کو نقصان کے علاوہ کوئی فائدہ ہوا ہو۔کانگریس نے بڑی چالاکی سے آر ایس ایس پر تنقید کے لیے سردار ولبھ بھائی پٹیل کا ایک تاریخی خط کا حوالہ دیا جنھیں بی جے پی اپنا آئیڈیل بناکر پیش کرتی ہے۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے پٹیل کے 18 جولائی 1948 کو شیاما پرساد مکھرجی کو لکھے گئے خط کے حوالے سے کہا کہ اس وقت کے وزیر داخلہ پٹیل نے صاف لکھا تھا کہ آر ایس ایس کی سرگرمیاں حکومت اور قوم دونوں کے لیے خطرہ ہیں۔جئے رام رمیش نے اس کتاب کا اقتباس پیش کرکے لکھا کہ وزیراعظم مودی نے آر ایس ایس کی تعریف میں کئی باتیں کہیں لیکن کیا وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ مہاتما گاندھی کے قتل کے چند ہی ماہ بعد سردار پٹیل نے خود آر ایس ایس کے بارے میں کتنے سنگین خدشات ظاہر کیے تھے؟
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کو تاریخ کے اس پہلو کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے جہاں ملک کے پہلے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ پٹیل نے آر ایس ایس کو لے کر اپنی تشویش درج کرائی تھی۔ گاندھی قتل کے بعد آر ایس ایس پر پابندی کے وقت اپنے مذکورہ خط میں پٹیل نے اپنے خط میں آر ایس ایس کو قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ قرار دیا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ تنظیم کے بعض عناصر نے نفرت اور فرقہ پرستی کو ہوا دی ہے، جو حکومت اور قوم کے مفاد میں ہرگز نہیں۔ کانگریس نے اسی تناظر میں وزیر اعظم مودی پر براہِ راست نشانہ سادھ کر الزام لگایا کہ مودی جان بوجھ کر آر ایس ایس کی تاریخ کے تاریک پہلوؤں کو چھپاتے ہیں تاکہ تنظیم کو عوامی سطح پر مقبولیت دلائی جا سکے۔ آر ایس ایس کئی بار گاندھی جی کے قتل سےبے تعلقی ظاہر کرچکی ہے مگر اس بابت ناتھورام گوڈسے کے اس تنظیم سے تعلقات اور اس کے گھر والوں کی گواہی کافی ہے۔
(۰۰۰۰۰جاری)
Like this:
Like Loading...