Skip to content
محبت جب جرم ٹھہری: ایک بینر، ایک قوم اور ٹوٹتے ہوئے آئین کا نوحہ
(بھارت میں نفرت کی سیاست کا عروج اور جمہوری اصولوں کی آزمائش)
______
ازقلم: اسماء جبین
(اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اُردو، یشونت رائو چوان آرٹس و سائنس مہا ودیالیہ،
منگرول پیر، ضلع واشم، مہاراشٹر)
______
جب کسی ملک میں محبت کا اظہار جرم بن جائے تو سمجھ لیجیے کہ وہاں آئین نہیں، خوف حکمرانی کر رہا ہے۔ ستمبر 2025 میں بھارت اسی تاریک موڑ پر آ کھڑا ہوا، جب "I love Muhammad”(ﷺ) کے الفاظ پر مشتمل ایک بینر کو امنِ عامہ کے لیے خطرہ قرار دے دیا گیا۔ کانپور کی ایک گلی میں بلند ہونے والی عقیدت کی یہ دھیمی سی آواز ریاست کے ایوانوں میں اتنی زور سے گونجی کہ اس نے ملک کے سیکولرزم کی بنیادیں ہلا دیں۔ یہ محض چند نوجوانوں کے خلاف ایک انتظامی کارروائی نہیں تھی، بلکہ اس تصورِ ہند (Idea of India) پر ایک کاری ضرب تھی جو تکثیریت اور باہمی احترام پر قائم ہے۔ یہ ایک ایسے سانحے کی روداد ہے جہاں ریاست نے اپنے ہی شہریوں کے جذبات کو کچلنے کے لیے قانون کو ہتھیار بنایا، اور جہاں ایک بینر اس سوال کی علامت بن گیا کہ کیا بھارت اپنے جمہوری مستقبل کی حفاظت کر پائے گا یا نفرت کی سیاست کے آگے سر تسلیمِ خم کر دے گا۔
اس نظریاتی جنگ کا پہلا شعلہ 4 ستمبر کو حکمران جماعت کی اتحادی ہندو تنظیموں نے بھڑکایا۔ انہوں نے اس بینر کو ”نئی اور ناقابلِ قبول روایت” کا نام دے کر محض ایک اعتراض نہیں کیا، بلکہ ایک مکمل سیاسی منشور کی نقاب کشائی کی۔ یہ منشور اس خطرناک سوچ پر مبنی تھا کہ مسلم شناخت کا ہر عوامی اظہار، خواہ وہ کتنا ہی پرامن کیوں نہ ہو، اکثریتی ثقافت پر ایک حملہ ہے۔ ان کے نزدیک، سیکولرزم کا مطلب اقلیتوں کی مکمل خود سپردگی تھا: ایک ایسا معاہدہ جہاں اکثریت کو اپنی مذہبی علامات کے جارحانہ اظہار کی کھلی چھوٹ ہو، جبکہ اقلیتوں پر اپنی شناخت چھپانے کی پابندی عائد ہو۔ ریاست نے آئین سے وفاداری کا حلف توڑتے ہوئے اس منشور کے سامنے سر تسلیمِ خم کر دیا، اور انتظامیہ، جو ہر شہری کے حقوق کی محافظ تھی، اکثریتی گروہ کی شمشیرِ بے نیام بن گئی۔ پولیس کی غیر معمولی پھرتی نے یہ ثابت کر دیا کہ جبر کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا تھا؛ بینر نوچ دیے گئے اور درجنوں نوجوانوں کے مستقبل پر بھارتی تعزیرات کی سنگین دفعات کا داغ لگا دیا گیا۔
اس کھلے جبر پر پردہ ڈالنے کے لیے ریاست نے ”فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خطرہ” کا عذر پیش کیا:ایک ایسی منطق جو خود اپنی تردید کر رہی تھی۔ محبت کا پیغام ہم آہنگی کا دشمن کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا بھارت کی ہزاروں سالہ تہذیب اتنی کھوکھلی ہے کہ عقیدت کے چند الفاظ اسے زمیں بوس کر سکتے ہیں؟ حقیقت یہ تھی کہ یہ کارروائی قانون کی بالادستی کے لیے نہیں، بلکہ نفسیاتی بالادستی قائم کرنے کے لیے تھی۔ یہ ایک مخصوص کمیونٹی کو یہ پیغام تھا کہ ان کے جذبات، ان کی عقیدت، اور ان کی شناخت کی عوامی ملکیت میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ قانون کے لباس میں ایک نفسیاتی جنگ تھی۔ اسی جنگ کے ایک نوجوان قیدی نے جب کہا، ”ہمیں کیا معلوم تھا کہ اس ملک میں محبت بھی جرم بن جائے گی!”، تو یہ محض ایک جملہ نہیں تھا، بلکہ ریاست کے ہاتھوں اپنے ہی شہریوں کی روح کی جلاوطنی کا نوحہ تھا۔
کانپور میں بھڑکائی گئی یہ چنگاری محض ایک مقامی واقعہ بن کر نہیں رہی، بلکہ اس نے پورے ملک میں پھیلے ہوئے اس خوف اور بے چینی کو ہوا دی جو اقلیتی برادری ایک عرصے سے محسوس کر رہی تھی۔ اس ریاستی جبر کے خلاف سب سے توانا آواز بریلی شہر سے اٹھی، جہاں معروف عالمِ دین مولانا توقیر رضا خان کی اپیل پر ہزاروں شہری پرامن احتجاج کے لیے جمع ہوئے۔ یہ اجتماع دراصل بھارت کے آئین پر اعتماد کا ایک مظاہرہ تھا، جہاں لوگ اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے ریاست کو اس کی آئینی ذمہ داریاں یاد دلا رہے تھے۔ مگر ریاست نے اس پرامن احتجاج کا جواب دلیل سے نہیں، بلکہ طاقت سے دیا۔ سڑکوں کو میدانِ جنگ بنا دیا گیا، آنسو گیس کے بادلوں اور لاٹھیوں کی برسات میں انسانی وقار کو پامال کیا گیا، اور شہر کو ایک ڈیجیٹل جیل میں تبدیل کرتے ہوئے انٹرنیٹ معطل کر دیا گیا۔ یہ کارروائی اس تلخ حقیقت کو بے نقاب کر گئی کہ موجودہ نظام میں اختلافِ رائے کو بغاوت سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر اگر یہ اختلاف مسلم سماج کی طرف سے ہو۔ یہ آئین کے آرٹیکل 25 اور 19 پر ایک براہِ راست حملہ تھا، جس منافقت کو اسد الدین اویسی نے بے نقاب کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اگر سیاستدانوں کی قصیدہ خوانی سے ملک کی سالمیت کو خطرہ نہیں، تو پیغمبرِ اسلام سے محبت کے اظہار پر پورا آئینی ڈھانچہ خطرے میں کیسے پڑ جاتا ہے؟
یہ پورا بحران دراصل حکمران جماعت کی اس دوغلی سیاست کا آئینہ دار ہے جسے سیاسی مبصرین ”دو ماڈلز کی سیاست” کا نام دیتے ہیں—ایک ہی سکے کے دو رخ، جو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی کا عالمی چہرہ ہے، جو سفارتی شطرنج کی بساط پر بھارت کو ایک جامع، ترقی پسند اور ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس” پر یقین رکھنے والی جمہوریت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ دوسری طرف، اسی سکے کا دوسرا، تاریک رخ یوگی آدتیہ ناتھ کا سخت گیر ماڈل ہے، جو پارٹی کے بنیاد پرست ووٹ بینک کے لیے نظریاتی ایندھن فراہم کرتا ہے اور جس کی ہر پالیسی آئین کی سیکولر روح پر ایک کاری ضرب ہے۔ ”آئی لو محمدﷺ” جیسا تنازع اس وقت جنم لیتا ہے جب زمینی جبر عالمی امیج پر حاوی ہونے لگتا ہے، اور دنیا یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ کیا بھارت کا سیکولرزم محض ایک دکھاوا ہے؟
اس سخت گیر ماڈل کا سب سے بڑا معمار اور بے رحم علمبردار کوئی اور نہیں، بلکہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ خود ہیں۔ ان کا بدنامِ زمانہ ”بلڈوزر انصاف” صرف ایک انتظامی کارروائی نہیں، بلکہ قانون کی حکمرانی کا جنازہ نکالنے کا ایک سفاکانہ استعارہ ہے—ایک ایسا نظام جہاں ریاست خود مدعی، منصف اور جلاد بن جاتی ہے اور جہاں آئینی ضابطوں کو بلڈوزر کے آہنی پہیوں تلے روند دیا جاتا ہے۔ آئین کی سب سے بڑی محافظ، سپریم کورٹ، کی بار بار کی پھٹکار اور دہائیوں کو بھی بلڈوزر کے شور میں دبا دیا جاتا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ اپنی اس جارحانہ روش پر نہ صرف قائم ہیں، بلکہ وہ اس قرونِ وسطیٰ کے انتقامی نظام کو ایک کامیاب طرزِ حکمرانی کے طور پر فخریہ پیش کرتے ہیں۔ ان کی یہ ضد عالمی سطح پر بھارت کی جمہوری ساکھ کے چیتھڑے اڑا دیتی ہے۔ جب عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان واقعات کو رپورٹ کرتی ہیں تو ”دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت” کا خطاب ایک طنز بن کر رہ جاتا ہے، اور بھارت کا نام ان ممالک کی فہرست میں شامل ہوتا نظر آتا ہے جہاں انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی خطرے میں ہے۔ یہ ماڈل محض ایک پالیسی نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہے جو اس ‘تصورِ ہند’ کو اس کی جڑوں سے اکھاڑ پھینکنا چاہتا ہے جس کی بنیاد انصاف اور مساوات پر رکھی گئی تھی۔
تاریخ گواہ ہے کہ اسی سرزمین پر حُبِّ رسول ہمیشہ سے ایک قابلِ احترام روحانی روایت رہی ہے، جسے کبھی خطرہ نہیں سمجھا گیا۔ یہ وہ گنگا-جمنی تہذیب تھی جہاں عقیدت کے پھول ہر رنگ میں کھلتے تھے۔ لیکن آج، شناخت کی سیاست کی زہر آلود فضا میں، محبت کے اس پاکیزہ ترین اظہار کو بھی شک اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ جب جمہوری نظام کے ستون، یعنی انتظامیہ اور مقننہ، بے حسی کی دبیز چادر اوڑھ لیں اور انصاف فراہم کرنے سے انکار کر دیں، تو عدلیہ ہی مظلوم کی آخری پناہ گاہ بنتی ہے۔ سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا عدالتوں کا رخ کرنا محض چند ایف آئی آر کو کالعدم قرار دینے کی قانونی مشق نہیں، بلکہ یہ بھارت کی روح کو بچانے کی ایک آخری، پرامید جنگ ہے، اس امید پر کہ شاید آئین کی کتابوں میں درج الفاظ ابھی مکمل طور پر بے معنی نہیں ہوئے۔
یہی وجہ ہے کہ ”آئی لو محمدﷺ” کے بینر پر اٹھنے والا طوفان محض ایک وقتی تنازع نہیں، بلکہ بھارت کے جمہوری سفر میں ایک فیصلہ کن چوراہا ہے۔ یہ ایک لمح? فکریہ ہے جو ہر شہری کے ضمیر پر دستک دے کر ایک بنیادی سوال پوچھ رہا ہے: کیا بھارت ایک ایسا ملک بنے گا جہاں آئینی ضمانتیں محض کتابوں کی زینت ہوں گی اور شہریوں کے بنیادی حقوق اکثریت کی صوابدید پر منحصر ہوں گے؟ یا وہ اپنے بانیوں کے اس خواب کی تعبیر بنے گا جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور ہر شہری کو، بلا تفریق مذہب و ملت، اپنے عقیدے اور اپنی محبت کا آزادانہ اظہار کرنے کا حق حاصل ہو؟ اس سوال کا جواب نہ صرف بھارت کے کروڑوں مسلمانوں کے مستقبل کا تعین کرے گا، بلکہ یہ بھی طے کرے گا کہ اکیسویں صدی کی تاریخ میں بھارت کا نام ایک متحرک جمہوریت کے طور پر لکھا جائے گا یا ایک ایسی ریاست کے طور پر جس نے اپنے ہی آئین کا گلا گھونٹ کر محبت کو جرم قرار دے دیا۔
Like this:
Like Loading...