Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
A terrible tragedy — loss of human lives

کرور سانحہ — انسانی جانوں کا ضیاع

Posted on 05-10-2025 by Maqsood

کرور سانحہ — انسانی جانوں کا ضیاع
انتظامی ناکامی اور بے قابو جوش کی مہلک قیمت

از : عبدالحلیم منصور

تمل ناڑو کے ضلع کرور میں فلمی اداکار سے سیاسی قائد بننے والے وجے کی ریلی کے دوران پیش آنے والا سانحہ دراصل ہندوستانی سیاست اور عوامی کلچر کے ان پہلوؤں کو بے نقاب کرتا ہے جنہیں ہم برسوں سے نظرانداز کرتے آئے ہیں۔ ہزاروں لوگ اپنے محبوب اسٹار کو دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے، فضا نعرہ زن تھی، جوش و خروش عروج پر تھا، لیکن چند لمحوں میں سب کچھ بدل گیا۔ چیخ و پکار، بھگدڑ، مٹی اور دھول میں لپٹی انسانی لاشیں — یہ مناظر محض ایک حادثے کی علامت نہیں بلکہ اس سیاسی روش کی علامت ہیں جہاں عوامی سلامتی کو ہمیشہ پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
تمل ناڑو میں فلم اور سیاست کا رشتہ طویل اور گہرا ہے۔ این ٹی راما راؤ، ایم جی آر، جیہ للیتا جیسے رہنما فلمی دنیا سے نکل کر سیاسی افق پر چھائے اور عوام کے مسائل سے جڑی سیاست کی بنیاد رکھی۔ وجے، جنہیں لاکھوں پرستار "تلپتی” کہتے ہیں، نے بھی اسی روایت کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ 2009 میں اپنے فین کلب کو سیاسی پلیٹ فارم میں بدلنے کی ابتدا کی اور نیٹ امتحان، شہریت قانون، کسانوں کے مسائل اور طلبہ کے حقوق پر اپنی رائے دی۔ ان کی مقبولیت نے نوجوانوں اور اقلیتوں کو اپنی طرف کھینچا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف مقبولیت اور کراؤڈ پولنگ کسی سیاسی قائد کے لیے کافی ہے؟ کرور کا سانحہ اسی سوال کا خونی جواب ہے۔

انتظامیہ نے اس جلسے کے لیے دس ہزار افراد کی اجازت دی تھی، لیکن ہجوم بیس سے پچیس ہزار تک جا پہنچا۔ جلسہ گاہ میں نہ پانی کا انتظام تھا، نہ سایہ، نہ ہی ایمرجنسی راستے یا ابتدائی طبی امداد۔ جب وجے کئی گھنٹے تاخیر سے پہنچے تو عوامی بے صبری اضطراب میں بدلی، اور اضطراب نے دیکھتے ہی دیکھتے خوفناک بھگدڑ کی شکل اختیار کر لی۔ قیادت کی تاخیر اور ہجوم کو قابو میں رکھنے کی تدبیر کی کمی نے حالات کو المیے میں بدل دیا۔

اس سانحے میں تین بڑی ناکامیاں واضح طور پر سامنے آتی ہیں۔ پہلی ناکامی قیادت کی ہے جو عوامی سلامتی کو اپنی مقبولیت کے مظاہرے پر قربان کرتی رہی۔ دوسری ناکامی انتظامیہ کی ہے جس نے اجازت دینے کے باوجود حفاظتی انتظامات کو یقینی نہیں بنایا۔ تیسری ناکامی عوامی رویے کی ہے، جہاں نظم و ضبط اور صبر کا فقدان ایک چھوٹے سے انتشار کو بڑے المیے میں بدل دیتا ہے۔ یہ تینوں سطحیں مل کر یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ہندوستان میں عوامی اجتماعات کا کلچر اب بھی غیر محفوظ ہے اور ہم نے عالمی سطح کے حفاظتی اصولوں کو اپنا شعار نہیں بنایا۔

اگر دنیا کے دیگر ممالک کا تقابل کیا جائے تو تصویر بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ یورپ اور خلیجی ممالک میں بڑے اجتماعات کے دوران داخلی و خارجی راستوں کی سائنسی منصوبہ بندی کی جاتی ہے، ہجوم کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور ریسکیو ٹیمز ہمہ وقت متحرک رہتی ہیں۔ حج جیسے اجتماع میں جہاں لاکھوں لوگ ایک وقت میں حرکت کرتے ہیں، ہر قدم پر حفاظتی اقدامات اور ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ہندوستان کی بعض ریاستوں میں بھی ایسے انتظامات دیکھے گئے ہیں جہاں جلسے کے دوران پولیس، ایمبولینس، فائر بریگیڈ اور بھیڑ کنٹرول فورس مسلسل موجود رہتی ہے۔ لیکن کرور میں جو کچھ ہوا، اس نے تمل ناڑو کی انتظامیہ اور قیادت کی بے حسی کو عیاں کر دیا۔

حادثے کے بعد کے اقدامات ہمیشہ کی طرح رسمی اور تاخیری رہے۔ پولیس نے مقدمات درج کیے، عدالت نے ہائی ویز کے قریب اجتماعات پر پابندی لگائی، اور نئے قواعد و ضوابط کی ہدایت دی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد ہی ہونا ضروری تھا؟ کیا احتیاطی تدابیر ہمیشہ خون بہنے کے بعد ہی یاد آتی ہیں؟ یہی ہمارے نظام کی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ ہم پہلے سے منصوبہ بندی نہیں کرتے بلکہ حادثوں کے بعد شور مچاتے ہیں اور پھر سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔

یہ سانحہ عوامی رویے کی کمزوری کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ افواہوں پر یقین، بے صبری، ایک دوسرے کو دھکیلنے کی عادت اور نظم و ضبط کی کمی ایسے واقعات کو جنم دیتی ہے۔ عوام کو یہ شعور دینا ضروری ہے کہ ان کی حفاظت صرف حکمرانوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ ان کے اپنے رویے پر بھی منحصر ہے۔ اگر لوگ صبر، تحمل اور ترتیب کے ساتھ شریک ہوں تو ایسے سانحات کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔

کرور کا المیہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ سیاست کا اصل مقصد عوامی خدمت ہے، نہ کہ وقتی شہرت کے لیے ان کی جانیں خطرے میں ڈالنا۔ قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مقبولیت کا اصل پیمانہ ہجوم کی تعداد نہیں بلکہ عوام کا اعتماد اور ان کی سلامتی ہے۔ انتظامیہ کو یہ ذمہ داری قبول کرنی ہوگی کہ کسی بھی اجتماع کی اجازت دینے سے پہلے پانی، سایہ، ٹوائلٹ، طبی امداد اور ایمرجنسی راستے جیسی بنیادی سہولتیں لازمی قرار دی جائیں۔ پولیس اور ریسکیو اداروں کو جدید تربیت اور ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے، اور جلسوں میں ایک سرٹیفائیڈ "سیفٹی آفیسر” کی موجودگی کو لازمی بنایا جائے۔

اگر یہ واقعہ بھی صرف اخباری سرخیوں، سیاسی بیانات اور وقتی افسوس تک محدود رہا تو مستقبل میں ہر اجتماع ایک ممکنہ سانحہ بن کر سامنے آئے گا۔ جمہوریت کا حسن اسی وقت برقرار رہ سکتا ہے جب عوام کو تحفظ، سہولت اور عزت دی جائے۔ ورنہ سیاست کے یہ جشن بار بار انسانی لاشوں کے بوجھ تلے دب کر ختم ہوتے رہیں گے اور تاریخ ہمیں بار بار یہ احساس دلائے گی کہ ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔

؀خون کے دھبے مٹا کے دیکھے، داغ باقی رہے ہمیشہ
وقت کے زخم بھر بھی جائیں، یاد باقی رہے ہمیشہ

haleemmansoor@gmail.com

Share this:

  • Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
  • Click to share on X (Opens in new window) X
  • More
  • Click to email a link to a friend (Opens in new window) Email
  • Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn
  • Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
  • Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
  • Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp

Like this:

Like Loading...

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

اشتہارات

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb
%d