Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
I Love Muhammad PBUH and Ladakh Protests Two Protests One Result

ائی لو محمدﷺ اور لداخ مظاہرے : دو احتجاج ایک نتیجہ

Posted on 05-10-202505-10-2025 by Maqsood

ائی لو محمدﷺ اور لداخ مظاہرے :
دو احتجاج ایک نتیجہ

ازقلم:ندیم عبدالقدیر

پہلے بات لداخ کی۔ سونم وانگ چک کسی وقت مودی کے مداح ہوا کرتے تھے۔۲۰۱۹ء میں آرٹیکل ۳۷۰؍کو ختم کرنے کے وزیر اعظم مودی کے قدم کی انہوں نے جم کر تعریف بھی کی تھی ۔ سونم وانگ چک کو امید تھی کہ اب لداخ کو ایک علیحدہ ریاست کا درجہ ملے گا ۔ وزیراعظم مودی نے یہی وعدہ بھی کیاتھا، لیکن وہ نریندر مودی ہی کیا جو وعدہ پورا کردے۔ اس وعدے کا بھی وہی حشر ہوا جو نریندر مودی کے دیگر ڈھیر سارے وعدوں کا ہوا۔ ۶؍سال گزرگئے لیکن وعدہ وفا نہیں ہوا۔ ان گزرتے ۶؍برس میں سونم وانگ چک کی مودی عشق کی آگ بھی دھیرے دھیرے سرد پڑگئی ۔ لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ نہیں ملا۔ آخر کار مجبوراًسونم وانگ چک اورلداخ کی دو بڑی تنظیمیں لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دینے اور یہاں انتخابات کرانے کے مطالبے کو لے کرمشترکہ طور پر۱۰؍ستمبر کو دھرنے پربیٹھ گئے۔ یہ دھرنا بھی بالکل پُرامن تھا ۔ مظاہرین نے گاندھیائی فلسفے پر عمل کرتے ہوئے بھوک ہڑتال کردی۔ اس کے باوجود بھی نہ ہی حکومت کے کانوں پر جوں رینگی اور نہ ہی نیشنل میڈیا ، نہ ہی سوشل میڈیا پر ان کا کوئی ذکر ہوا۔ پورے ملک میں کہیں بھی لداخ میں اٹھنے والی بے چینی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔دلّی میں کتّوں کے حقوق کیلئے بھی آواز اٹھانےوالے ہندوستان کے نیشنل میڈیا نے لداخ کی آواز کو پوری طرح نظر انداز کررکھا۔
یہ دھرنا ۱۵؍دنوں تک پُرامن طو رپر چلا لیکن حکومت کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا ۔ اگر حکومت پہلے ہی ان پر توجہ دیتی اور اپنے ہی وعدے کو پورا کردیتی تو نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی لیکن حکومت کا منشا شاید کچھ اور ہی تھا ۔ حکومت کی عدم توجہی نے مظاہرین کو چراغ پا کردیا ۔ مظاہرین کے اندر بے چینی کی چنگاری آگ میں بدل گئی اور ۱۵؍دنوں بعد آخر کار ۲۵؍ستمبر کو یہ آگ بھڑک اٹھی۔
بس پھر کیاتھا ۔ ملک کا سارا میڈیا لداخ پہنچ گیا۔ مظاہرین کے خلاف بڑی بڑی رپورٹیں آنے لگیں۔ انہیں ’اینٹی نیشنل ، غدار، پاکستانی ایجنٹ ‘ سب کہا جانے لگا۔ پورا میڈیا مظاہرین کے پیچھے پڑگیا۔ جب تک یہ مظاہرین پُرامن تھے تب تک میڈیا ان پر بات تک کرنے کو تیار نہیں تھا لیکن تھوڑے سے تشدد پر اُسی میڈیانے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ وہ سونم وانگ چک جسے میڈیا دیش کی شان بتاتا تھا اب اسے دیش کا غدار قرار دینے لگا۔ حکومت اسی انتظار میں تھی ۔اس نے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے سونم وانگ چک کو گرفتارکرلیا اور صرف گرفتار نہیں کیا بلکہ ان پر ’نیشنل سیکورٹی ایکٹ‘ (دہشت گردوں کے خلاف استعمال کیا جانے والا قانون) عائدکرکے انہیں لداخ سے اٹھا کر راجستھان کی جیل میں قید کردیا ۔ان کے علاوہ مزید ۴۰؍لوگو ں کو بھی گرفتار کیاگیا،جو اس احتجاج میں پیش پیش تھے۔ لداخ کے یہ مظاہرین مسلمان نہیں تھے شاید اسی لئے ان کے مکانوں کو بلڈوزر سے منہدم نہیں کیاگیا ورنہ وہ بھی ہوجاتا۔ حکومت نے احتجاج کو پوری طاقت کےساتھ کچل دیا۔ یہی وہ لمحہ ہے جب سچ ایک جملے میں سمٹ جاتا ہےکہ ’’مظاہرے پُرتشدد ہوتےنہیں ہیں،بلکہ سرکا انہیں پُر تشد بنادیتی ہے‘‘۔’آئی لو محمدﷺ‘ کے نعرے کےساتھ بھی درحقیقت حکومت نے یہی کیا۔
کانپور میں عید میلادالنبیﷺ پر اظہارِ عشقِ رسول کے طور’سید نگر‘ علاقہ میں بجلی کی لائٹ سے بڑے حرفوں میں ’آئی لو محمدﷺ‘‘آویزاں کیاگیاتھا۔یہ بینر عید میلاد النبیﷺ پر عشقِ رسول کا اظہار تھا۔ اس میں کوئی تشدد یا انتہاپسندی نہیں تھی۔ یہ نعرہ کسی بھی مذہب ، ذات یا برادری کے خلاف بھی نہیں تھا ۔اگر ’آئی لو محمدﷺ‘ جیسے نعرے پر کوئی تنظیم اعتراض کرتی ہےتو درحقیقت وہ تنظیم ہی ہمارے سماج کے امن کیلئے خطرہ ہے، اورایسی تنظیم کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے تھی،لیکن کانپور میں ہوا اس کے اُلٹ۔
مقامی ہندو انتہاپسند تنظیم نے مذکورہ ’آئی لو محمدﷺ‘ پر اعتراض کیا بلکہ بعض خبروں کے مطابق انہوں نے اسے توڑ دیا۔ پولس کو چاہئے تھا کہ ایسی توڑ پھوڑ کرنے والے اور ایک پُرامن نعرے پر اعتراض کرکے ماحول کو خراب کرنے والے گروپ کے خلاف کارروائی کرتی لیکن پولس نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی،اُلٹا مسلمانوں کو کہا کہ وہ مذکورہ بینر ہٹادیں۔ اس پر مسلمانوں میں غم و غصہ تھا لیکن انہو ںنے تحمل سے کام لیا اور تھوڑی بہت ناراضگی اور توتو مَیں مَیں کے بعد خاموش ہوگئے۔ معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ عید میلاد النبیﷺ بھی گزر گئی ۔ سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔اس واقعہ کے دوسرے دن ، تیسرے دن اور چوتھے دن تک کانپور سےکوئی خبر نہیں آئی۔ہر کوئی اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہوگیا۔ حالات معمول پر تھے اور شہر میں امن وامان تھا لیکن شاید یہی امن وا مان پولس کو پسند نہیں آیا۔ اسی لئے پولس نے اس واقعہ کے پانچ دن بعد یعنی ۹؍ستمبر کو ایک ختم ہوچکے معاملے پر ۲۵؍مسلم نوجوانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی ۔ مظاہرے پُرتشدد ہوتےنہیں ہیں،بلکہ سرکا انہیں پُر تشد بنادیتی ہے۔
اس ایف آئی آر نے سب کو دنگ کرکے رکھ دیا۔ مسلمانوں کے بالکل پُرامن بینر پر احتجاج، اُس بینر کی بے حرمتی اور توڑ پھوڑ اور اس کے بعد بھی مسلمانوں کے تحمل اور صبر کے باوجود ان کے خلاف ایف آئی آر۔ پولس کی ایف آئی آر نے مسلمانوں کے ’عشق رسولﷺ‘ کو ہی جرم بناکر پیش کردیاجس کے بعد پورے ملک میں ’آئی لو محمدﷺ‘ کی مہم چل پڑی۔ بریلی میں اس معاملے پر حالات بہت خراب ہوگئے ۔وہ کیسے ہوئے وہ بھی جان لیجئے۔
کانپور میں ’آئی لو محمدﷺ‘ کو جرم بناکر پیش کئے جانے کے خلاف بریلی میں ایک پُرامن احتجاج کا اعلان ہوا۔ احتجاج کا دن ۲۶؍ستمبر بروز جمعہ طے پایا گیا۔ مکمل طو رپر پُرامن اور جمہوری طرز ِاحتجاج کی تیاری کی گئی ۔ احتجاج کیلئے اجازت کی درخواست ۲۱؍ستمبریعنی اتوار کو دی گئی لیکن پولس اجازت کو ٹالتی رہی ۔دوسری طرف شہر بھر میں احتجاج کی تیاری ہوتی رہی ۔ بینر ، پوسٹر، پمفلٹ ، وہاٹس اپ ، فیس بک کے ذریعے احتجاج کے اعلانات ہوتے رہے۔ اگر پولس کو اس احتجاج کی اجازت نہیں دینی تھی تو وہ اسی وقت یعنی اتوار سے لے کر جمعہ کے درمیان اس تیاری کے خلاف سوشل میڈیا پر ویڈیو اپ لوڈ کرکے عوام کوآگاہ کرسکتی تھی کہ مذکورہ احتجاج غیر قانونی ہے ، یہاں جمع نہ ہوں،لیکن اتوار سے لے کر جمعہ تک ایسی کوئی کوشش پولس کی طرف سے نظر نہیں آتی۔ دوسری صورت میں اگر پولس ا حتجاج کی اجازت دے بھی دیتی توبھی شاید معمول کے مطابق احتجاج ہوتا ،عشق رسول ﷺ کے نعرے لگائے جاتے اور معاملہ ختم ہوجاتا، لیکن شاید پولس یہ نہیں چاہتی تھی۔پولس شاید چاہتی تھی کہ یہاں’’ اجازت کے بغیر‘‘ احتجاج ہو ،تاکہ انہیں اس احتجاج پر طاقت کااستعمال کرنے کا موقع ملے اور بالکل یہی ہوا۔ اسی لئے پولس نے عوام کو انتباہ ہی نہیں دیا کہ احتجاج غیر قانونی ہے یہاں جمع نہ ہوں، بلکہ پولس نے مسلمانوں کو جمع ہونے دیا اور آخری لمحے میں احتجاج کی درخواست کو مسترد کردیا۔آخری لمحے میں پولس کے ذریعے احتجاج کی درخواست کو مسترد کردئیے جانے کے بعد فوراً مسلم تنظیموں نے احتجاج کے منسوخ ہوجانے کے اعلانات کئے لیکن تب تک کافی دیر ہوچکی تھی۔ عوام جمعہ کے بعد احتجاج کیلئے جمع ہوگئے۔ پولس اسی موقع کے انتظار میں بیٹھی تھی بالکل اسی طرح جس طرح کوئی شکاری جال بچھا پر اپنے شکار کے انتظار میں بیٹھا ہوتا ہے ۔ پولس نے محض رسمی طور پر مظاہرین کو انتباہ دیا اورفوراً لاٹھیاں برسانا شروع کردی۔ پولس صرف لاٹھی چارج پر ہی مطمئن نہیں ہوئی ، بلکہ اس کے بعد شہر کے مختلف پولس اسٹیشنوں میں ۱۰؍ایف آئی آر درج ہوئی۔ ۸۰؍لوگوں کو گھروں سے اٹھایا گیا۔ مولاتوقیر رضا کو گرفتار کیاگیا۔ کئی ملزمین کے گھروں اور املاک کو سیل کردیاگیا اور کئی ملزمین کے مکانوں کو بلڈوزر سے زمیں بوس کردیاگیا۔ مظاہرے پُرتشدد ہوتےنہیں ہیں،بلکہ سرکار انہیں پُرتشد بنادیتی ہے۔
اگر حکومت نہیں چاہتی توآئی لو محمد ﷺ اور لداخ ، دونوں معاملوں میں درحقیت احتجاج اور مظاہروں کی نوبت ہی نہیں آتی، لیکن شاید حکومت ایسا چاہتی نہیں تھا ۔ حکومت نے خود ایسا ماحول پیدا کردیا کہ عوام کو مجبوراً پُرامن اور جمہوری طرز کے احتجاج کرنے پڑےاور حکومت ان احتجاج کو بھی گوارا نہیں کرسکی۔ مسلمانوں کے معاملے میں تو حکومت کی چالیں اور بھی زہریلی تھیں۔ اس نے نہایت عیّارانہ تدبیر کے ساتھ مسلم عوام کو دیوار سے لگا دیا، اُن کے زخموں پر نمک چھڑکا، اُن کے ایمان کو للکارا او رجب مسلمان پُرامن احتجاج کے لئے اترے تو ان پر بھوکے بھیڑ ئیے چھوڑ دئیے گئے۔

(فیچر ایڈیڈر ،روزنامہ اردوٹائمز ، ممبئی)

Share this:

  • Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
  • Click to share on X (Opens in new window) X
  • More
  • Click to email a link to a friend (Opens in new window) Email
  • Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn
  • Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
  • Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
  • Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp

Like this:

Like Loading...

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

اشتہارات

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb
%d