Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
Supreme Court's shoe and Yogi's hatred

سپریم کورٹ کا جوتا اور یوگی کی نفرت

Posted on 07-10-2025 by Maqsood

سپریم کورٹ کا جوتا اور یوگی کی نفرت

ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان

آر ایس ایس نے چار دن قبل اپنی صد سالہ تقریبات کا اہتمام کیا اور اس موقع پر سنگھ سرچالک (سربراہ ) نے ناگپور کے اندر اپنے خطاب میں فرمایا :’ آج دنیا بھارت کی فکری قیادت کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ صرف مادی ترقی انسانیت کے مسائل کا حل نہیں، بلکہ بھارت کی ’’سناتن، ہمہ جہت فکر‘‘ ہی دنیا کو امن، توازن اور اخلاقیات کا نیا راستہ دکھا سکتی ہے۔ ہمیں اپنے مثالوں سے یہ نظام دنیا کے سامنے رکھنا ہے‘۔ ڈاکٹر موہن بھاگوت کے پروچن سے متاثر ہوکر معمر وکیل راکیش کشور نے سناتن دھرم کی مثال پیش کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب جوتا اچھال کر بتا دیا کہ سناتنی ہندوستانی عدلیہ کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ راکیش نے ساری دنیا کے سامنے یہ بھی واضح کردیا کہ اب اس ملک میں آئین یا بلڈوزر نہیں بلکہ جوتا چلے گا ۔ اکبر الہ بادی نے کیا خوب کہا تھا؎
بوٹ ڈاسن نے بنایا ہم نے اک مضموں لکھا
ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا

بھاگوت کے مطابق جو دنیا جو ہندوستان کی جانب فکری قیادت کے لیے بڑی امید کے ساتھ دیکھ رہی تھی انہیں راکیش وکیل نے سناتنی ہمہ جہت فکر کے درشن کرواد ئیے۔ اس وکیل کو کڑی سزا دینے کے بجائے رہا کرکے انتظامیہ نے اخلاقیات کے اعلیٰ معیار کرتے ہوئےعدالت کو امن قائم رکھنے پر مجبور کرکے اقتدار اور عدلیہ کے بیچ توازن قائم کرکے بتا دیا کہ مادی ترقی نہیں بلکہ جوتا چلاناانسانی مسائل کا حل ہے۔ڈاکٹر موہن بھاگوت نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا آج ملک کے نوجوانوں میں حب الوطنی اور اپنی ثقافت پر اعتماد بڑھ رہا ہے لیکن وہ بتانا بھول گئے بزرگ سنی تک پہنچنے کے بعد راکیش کشور جیسے لوگ حب الوطنی سے سرشار ہوکر جوتے کے زور سے اپنی ثقافت کا لوہا منوانے لگتے ہیں۔

آرایس ایس اور اس کے تحت چلنے والی دیگر سماجی تنظیمیں کس نیک نیتی کے ساتھ عوامی خدمت میں مصروف ہیں اس کی مثال سپریم کورٹ کے اندر پیش کردی گئی اور اسے ساری دنیا بسرو چشم دیکھ لیا ۔راکیش نے بتا دیا کہ سنگھ پریوار اپنی فکری وراثت کے پیش نظر ’’ویکتی نرمان‘‘ (فرد سازی) اور ’’ویوستھا پریورتن‘‘ نظام کی تبدیلی کیسے کرتا ہے۔ پہلے اپنی شاکھا میں افراد کی تربیت ہوتی اورپھر عمل کی دنیا میں نظام تبدیل کیسے کیا جاتا ہے۔ موہن بھاگوت نے پڑوسی ممالک سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال میں حالیہ سیاسی ہلچل کا ذکر کرتے ہوئے اسے ہندوستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بتایا۔ انہوں نے نوجوان نسل خصوصاً Gen-Z کو پیغام دیا کہ حقیقی تبدیلی ہمیشہ جمہوری طریقے سے آتی ہے، تشدد کبھی دیرپا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں نے خود جانے بجائے ایک بزرگ کوعدالتِ عظمی میں اپنا فرض کفایہ ادا کرنے کے لیے بھیج دیا۔

موہن بھاگوت نے حکومتوں کو عوام کے جذبات کو سمجھ کر پالیسیاں بنانی چاہئیں اور سماج کو قانون ہاتھ میں لینے سے گریز کرنے کی نصیحت کی لیکن اس مہذب سماج میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ شامل نہیں ہیں ورنہ وہ ’’آئی لو محمدؐI Love Muhammed)) کے نعرے پرایسی سفاکی اور بوکھلاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ ان کی حرکات کودیکھ کر ایک پرانی کہاوت یاد آگئی ۔ ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ شملہ میں برفباری ہوتی ہے دہلی میں زکام ہوجاتا ہے اب یہ حال ہے اتراکھنڈ میں نئی نسل ’’پیپر چور گدی چھوڑ‘ کا نعرہ لگا کر میدان میں اترتی ہے تو اس سے گھبرا کر یوگی ادیتیہ ناتھ کو لکھنو میں بخار آجاتاہے اور بلڈوزر بابا کا نزلہ ہمیشہ مسلمانوں پر ہی اترتا ہے ۔

یوگی جی کی پریشانی بھی جائز ہے۔ نیپال کی سب سے طویل سرحد اتر پردیش کے ساتھ ہے اور یہاں کا نوجوان وہاں سے زیادہ پریشان ہے۔ اس لیے قوی امکان ہے کہ جلد یا بدیر یوپی کے لوگ بھی نیپالی بھائیوں سے ترغیب لے کر میدان میں اتر آئیں ۔ یہ دنیا فی الحال ایک عالمی گاوں بن چکی ہے۔ منٹوں میں خبریں سرحدوں کو پار کرکے دنیا بھر میں پھیل جاتی ہیں ۔ اس لیے اگر سری لنکا کے انقلاب سے بنگلہ دیش کا نوجوان متاثر ہو جائے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش سے نیپال کے نوجوانوں کا ترغیب لینا بھی فطری ہے اور اس یوپی کی نئی نسل حوصلہ پائے تو اس تعجب کی کیا بات ہے۔ اُدھر سیتا کا میکہ اور اِ دھر سسرال ہے۔ بی جے پی والے یہ بات جانتے ہیں اس لیے جب راہل گاندھی نے کہا کہ ’جین زی‘ جمہوریت کی حفاظت کرے گی تو ان لوگوں کو مرچی لگ گئی اور وہ انہیں اربن نکسل کا لقب دے کر اول فول بکنے لگے۔

نیپال میں اقتدار کی تبدیلی کے باوجود جب اپنے ملک میں کوئی خاص ہلچل نہیں ہوئی تو مودی اور یوگی نے چین کی سانس لی لیکن اس سے پہلے کہ وہ اطمینان کی نیند سوتے لداخ کے نوجوانوں نے بی جے پی دفتر پھونک دیا اور ان کے ہوش اڑ گئے۔ اس آگ کے شعلے دیکھتے دیکھتے اتراکھنڈ پہنچ گئے ۔ اتفاق سے یوگی کی جنم بھومی اتراکھنڈ میں واقع ہے۔ ایسے میں اترپردیش کے حکمرانوں کی بے چینی فطری امر ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ اب اس آگ کی اگلی منزل یوپی ہے۔ ایسی صورتحال میں یوگی ادیتیہ ناتھ نے مولانا توقیر رضا خان صاحب کو گرفتار کر کے اپنی ہیکڑی دکھانے اور عوام کی توجہ ہٹانے کی نہایت بھونڈی کوشش کرڈالی۔ مولانا نے ڈی ایم کے توسط سے اپنا میمورنڈم صدر مملکت کو بھیجنے کا اعلان کیا ۔ یہ ان کا حق ہے اور اس میں رکاوٹ ڈالنا ظلم و جبر ہے لیکن جو شخص اس عیب کو خوبی سمجھتا ہو وہ بھلا اس موقع کو کیونکر گنوا سکتا ہے۔ یوگی نے اپنی اس سفاکی پر ندامت کا اظہار کرنے کے بجائے جاہلانہ انداز بیان دیا کہ بریلی میں ایک مولانا بھول گئے کہ ریاست میں کون اقتدار میں ہے؟

ایوانِ پارلیمان میں یوگی ادیتیہ ناتھ کا دہاڑیں مار مار کر رونا کون بھول سکتا ہے؟ اس بزدل رہنما کا سابقہ اس قوم سے پڑا ہے کہ اس کے رہنما اعظم خان کو جملہ پانچ سال قید میں رہنے کے بعد دوسری بار جب ضمانت ملتی ہے تو وہ رونے کے بجائے مسکراتے ہوئے شعر سنا کر باہر آتے ہیں اس لیے اقتدار کے بل پر یوگی کو اکڑ دکھانے سے قبل اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے ۔یوگی نے کہا کہ ان (مولانا) کا خیال تھا کہ وہ اپنی مرضی سے امن و امان کی صورتحال کو بگاڑ سکتے ہیں۔ ان کو امن و امان کا اتنا ہی خیال تھا تو وہ کاوڑیوں کو دنگا فساد کرنے سے روکتے ۔ وہ لوگ کبھی گاڑی تو کبھی دوکان توڑ دیتے تھے۔ ان لوگوں نے ہندو بیوہ کا ہوٹل توڑنے سے بھی گریز نہیں کیا لیکن یوپی کا انتظامیہ ان پر کبھی ہیلی کاپٹر سے پھول برسا رہا تھاتو کبھی پولیس والے وردی میں ان کے پیر دبا رہے تھے۔ اس وقت نظم و نسق کا بلند باگ دعویٰ کہاں مر گیا تھا؟ یوگی بار باراگلی نسلوں کو سبق سکھانے کی بات کرتے ہیں لیکن خود انہوں نے اپنی پچھلی نسلوں سے جو سبق سیکھا ہے اس کا مظاہرہ ایوان ِ پارلیمان میں ہوچکا ہے۔ ٹھاکروں کی کرنی سینا بلند بانگ دعوے تو کرتی ہے مگر جب پولیس آتی ہے تو وہ کس طر ح بھاگتی پھرتی ہے اس کو یو ٹیوب پر دیکھا جاسکتا ہے۔

یوگی جو کہتے ہیں کہ ریاست میں کرفیو نہیں لگا یا ناکہ بندی نہیں ہوئی تو اس کا کریڈٹ مسلم نوجوانوں کو جاتا ہےجن کی فطرت میں نہتے لوگوں پر ہاتھ اٹھانا نہیں ہے اور ان کا مذہب بھی انہیں بیجا خون خرابے کی اجازت نہیں دیتا ورنہ انہیں کون روک سکتا تھا ۔ ان لوگوں کا اتنا ہی دبدبہ ہوتا لداخ میں اپنے دفتر یا جھنڈے کو بچالیتے ۔ وہاں بھی تو مرکزی حکومت کے لیفٹننٹ گورنر کے کندھوں میں نظم و نسق کی کی ذمہ داری ہے۔ یوگی کی ساری دبنگائی کے باوجود مولانا توقیر رضا صاحب نے ایک ویڈیو جاری کر کے بتایا کہ کس طرح ان کے لیٹر ہیڈ کا غلط استعمال ہوا ۔ اس کی مدد سے نوجوانوں کو جمع کرکے مشتعل کرنے کی سازش رچی گئی تاکہ لا اینڈ آرڈر میں خلل ڈالنے کا الزام لگا کر اپنی سیاسی روٹیاں سینکی جائیں ۔ مولانا توقیر رضا خان نے تو اسی رات 10:20 بجے ایک ویڈیو جاری کرکے بے خوفی سے کہا کہ: "عتیق اور اشرف کی طرح مجھے گولی مار دو، محمدؐ کے نام پر مرنا قبول ہے”۔بریلی میں جس وقت لا قانونیت کا ننگا ناچ ہورہا تھا ایودھیا میں سابق بی جے پی رکن پارلیمان ونئے کٹیار مسلمانوں کو کھلے عام دھمکی دے رہے تھے اور انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اسے اشتعال انگیز بیان کے بعد جیل بھیج دیا جاتا لیکن ایسا کرنا ابن الوقت سنگھ پریوار کی روایت کے خلاف ہے۔ سنگھ پریوار کو راکیش کشور کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ اس نے بڑے اہتمام سے سنگھ کی اصلی تصویر دنیا کے سامنے پیش کردی۔

Share this:

  • Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
  • Click to share on X (Opens in new window) X
  • More
  • Click to email a link to a friend (Opens in new window) Email
  • Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn
  • Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
  • Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
  • Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp

Like this:

Like Loading...

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

اشتہارات

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb
%d