Skip to content
ریاض – العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق غزہ میں جنگ بندی کے ابتدائی مرحلے پر بین الاقوامی اور عرب دنیا کی جانب سے خیر مقدم کے بعد اسرائیلی وزیرِ خزانہ بزلئیل سموٹریچ نے اعلان کیا ہے کہ وہ کابینہ کے اجلاس میں اس معاہدے کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے۔
انتہا پسند وزیر نے زور دے کر کہا کہ "قیدیوں کی واپسی کے بعد حماس کو ختم کرنا ناگزیر ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ معاہدے کی حمایت نہیں کریں گے تاہم وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاھو کی زیرِ قیادت مخلوط حکومت گرانے کی دھمکی نہیں دی۔ سموٹریچ نے جمعرات کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ "جیلوں کو خالی کرنے اور دہشت گردی کے ایک نئی نسل کے رہنماؤں کو آزاد کرنے کے نتائج سے شدید خدشات ہیں”۔ ان کا اشارہ ان سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی طرف تھا جن میں بعض کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ "صورتِ حال کو 7 اکتوبر سے پہلے کی حالت میں واپس لانا ممکن نہیں”۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد اپنی فورسز کی نئی تعیناتی کی تیاری کر رہی ہے۔
غزہ اور تل ابیب میں خوشی کی لہر
ادھر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور تمام اسرائیلی قیدیوں خواہ زندہ ہوں یا جاں بحق کی بازیابی کے معاہدے کے بعد غزہ اور تل ابیب دونوں شہروں میں خوشی کی فضا پھیل گئی۔
غزہ میں جہاں دو ملین سے زائد آبادی کا بڑا حصہ اسرائیلی بمباری کے باعث بے گھر ہو چکا ہے، نوجوان تباہ حال گلیوں میں جشن منا رہے ہیں، اگرچہ بعض علاقوں میں بمباری کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
تل ابیب میں جہاں قیدیوں کے اہلِ خانہ دو برس سے ایک مرکزی چوک میں جمع ہوتے رہے ہیں، خوشی اور اطمینان کے مناظر دیکھنے میں آئے۔
ٹرمپ پلان کا پہلا مرحلہ
گذشتہ روز اسرائیل اور حماس کے درمیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ سے متعلق 20 نکاتی منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق ہوا، جس میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا عمل شامل ہے۔
یہ پیش رفت 7 اکتوبر 2023 کے حملے کی دوسری برسی کے ایک روز بعد سامنے آئی، جب مصر میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے نتیجے میں اس تاریخی معاہدے پر اتفاق ہوا۔
Like this:
Like Loading...