Skip to content
دبئی،9اکٹوبر(ایجنسیز) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ شب اعلان کیا کہ غزہ میں جنگ بندی کے ابتدائی مرحلے پر اتفاق ہو گیا ہے، جس کے بعد دنیا بھر سے خیرمقدمی بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے اس پیش رفت کا خیرمقدم کرتے ہوئے ٹرمپ اور تمام ثالثوں کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے معاہدے تک پہنچنے میں کردار ادا کیا۔ انھوں نے ایک بیان میں انتظامی اور سیکیورٹی اداروں کو عرب اور بین الاقوامی تعاون کے ساتھ متحد کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے تیار ہے اور امید ہے کہ یہ پیش رفت ایک مستقل سیاسی حل کی راہ ہموار کرے گی۔ عباس کے مطابق معاہدے میں جنگ کا خاتمہ، اسرائیلی انخلا اور امدادی سامان کا غزہ میں داخلہ شامل ہے۔
فلسطینی نائب صدر حسین الشیخ نے بھی ٹرمپ کے اعلان کا خیرمقدم کیا۔ انھوں نے العربیہ اور الحدث سے گفتگو میں کہا کہ یہ معاہدہ امن و استحکام کے لیے ایک اہم قدم ہے، جو دو ریاستی حل کی طرف پیش رفت کا آغاز بن سکتا ہے۔
فرانس کے صدر ایمانویل ماکروں نے بھی اس معاہدے کو سراہا اور کہا کہ فرانس دو ریاستی حل اور جنگ کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ وہ آج پیرس میں بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مزید بات چیت کریں گے۔
یورپی یونین نے اسے "ایک سفارتی کامیابی” قرار دیا۔ خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے "ایکس” پر لکھا کہ "غزہ کے لیے امن کے راستے کے پہلے مرحلے پر اتفاق ایک بڑی پیش رفت ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یورپی یونین اس کے نفاذ میں ہر ممکن تعاون کرے گی۔
برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹامر نے زور دیا کہ "اس معاہدے پر مکمل اور فوری عمل درآمد ہونا چاہیے”۔ انھوں نے کہا کہ معاہدے کے نفاذ کے ساتھ ساتھ غزہ میں امدادی پابندیاں بھی ختم کی جائیں۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اٹلی، ہالینڈ اور کینیڈا نے بھی معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔
آسٹریلوی وزیرِاعظم انتھونی البانیز نے زور دیا کہ "جنگ بندی کی حکمتِ عملی ایسی ہونی چاہیے جو حماس کو مستقبل کی حکومت میں کسی کردار سے محروم رکھے”۔ انھوں نے کہا کہ غزہ کی بحالی کا سفر طویل ہے اور پائے دار امن کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر منحصر ہے۔
اٹلی کی وزارتِ خارجہ نے اعلان کیا کہ وہ جنگ بندی کو مستحکم کرنے کے لیے تعاون پر تیار ہے۔ اسی طرح اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے تمام فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ معاہدے پر مکمل طور پر عمل کریں۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے بتایا کہ آرمی چیف ایال زامیر نے اپنی فورسز کو دفاعی تیاری اور ہر ممکن منظرنامے کے لیے چوکس رہنے کی ہدایت دی ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ قیدیوں کی واپسی کے آپریشن کو "حساسیت اور پیشہ ورانہ مہارت” کے ساتھ انجام دیا جائے۔
حماس نے بھی معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ابتدائی مرحلے میں دو ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، تاہم شہریوں کو نقل و حرکت میں احتیاط برتنے کی ہدایت کی۔
ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پیر سے شروع ہو گی اور انھوں نے اس معاہدے کو "ایک عظیم کامیابی” قرار دیا۔ فی الحال 54 اسرائیلی قیدی غزہ میں زیرِ حراست ہیں، جن میں سے نصف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اسرائیل نے اپنے ہاں سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کو برسوں سے قید کر رکھا ہے۔
Like this:
Like Loading...