نئے فوجداری قوانین:
ہند نما کشمیر یا کشمیر نما ہندوستان
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
ایوان پارلیمان میں 03جولائی( 2024) کو صدر کے خطاب پر شکریہ کی تحریک کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے منی پور کے بجائے کشمیر کا راگ چھیڑ دیا۔ ایک طرف حزب اختلاف بلا توقف منی پور میں جاری تشدد پر بحث کا مطالبہ کررہا تھا اور دوسری جانب وزیر اعظم فرما رہے تھے کہ کشمیر کے اندر گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران بند، ہڑتالیں، دہشت گردی کی دھمکیاں اور بم دھماکوں کی کوششیں جمہوریت پر ایک سیاہ سایہ کی طرح تھیں مگر اب وقت بدل گیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پر زور دعویٰ کیا کہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری مرحلے میں ہے۔ دہشت گردی کے باقی ماندہ نیٹ ورک کو تباہ کرنے کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔راجیہ سبھا کے اندر اپنے خطاب میں خود کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے وہ بولے کہ گزشتہ 10 سالوں میں دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے ہیں ۔ دہشت گردی اور علیحدگی پسندی ختم ہو رہی ہے اور جموں و کشمیر کے شہری اس لڑائی کی قیادت کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم کی تقریر والے دن آرمی چیف جنرل اوپیندر دویدی نے جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر سیکورٹی کی صورتحال اور فوجیوں کی آپریشنل تیاریوں کا جائزہ لیا۔ جنرل دویدی نے اعلیٰ فوجی حکام سمیت کے پونچھ میں فیلڈ کمانڈروں کے ساتھ میٹنگ کر نے کے ساتھ آگے کے علاقوں کا فضائی جائزہ لے کر 93؍ انفنٹری بریگیڈ کے سابق فوجیوں کے ساتھ بات چیت کی۔موصوف کے دورے کا مقصد دہشت گردانہ سرگرمیوں کو ناکام بنانا اور امرناتھ یاتراکے دوران جموں خطے میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کو تیز کرنا بتایا گیا ۔ان بلند بانگ دعووں اورجائزوں کے محض دودن بعد ۸؍جون کو جموں و کشمیر کے کٹھوعہ ضلع میں جنگجو اور فوج کے جوان ایک دوسرے سے بھڑ گئے۔ اس حملے میں فوج کے 4 جوان فوت اور 6 زخمی ہوگئے۔ جموں و کشمیر کا کٹھوعہ ضلع پنجاب کے پٹھانکوٹ سے متصل ہے۔ فوجی حکام کے مطابق یہ واقعہ کٹھوعہ شہر سے 150 کلومیٹر دور لوہائی ملہار کے بدنوٹا گاؤں میں اس وقت پیش آیا جب فوج کی کچھ گاڑیاں علاقے میں معمول کی گشت پر تھیں۔
اس واقعہ پر فوج کے ذرائع نے کہا کہ فوجیوں کی جانب سے جوابی کارروائی دہشت گردانہ حملے کے جواب میں کی گئی۔ جب دہشت گردوں نے انہیں نشانہ بنایا۔اس حملے میں دہشت گردوں نے سیکورٹی فورسز پر گرینیڈ پھینکا اور پھر فائرنگ شروع کردی۔ سیکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کی تو وہ قریبی جنگل میں فرار ہوگئے۔اس حملے کے بعد فوج نے پورے علاقے میں سرچ آپریشن کی مدد سے مشتبہ ٹھکانوں پر سرچ آپریشن شروع کردیا۔ ایوان زیریں میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے کٹھوعہ ضلع میں عسکریت پسندوں کے ساتھ تصادم میں پانچ فوجیوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا۔ ایکس پر ایک پوسٹ میں راہل گاندھی نےلکھا کہ ان حملوں کا حل کھوکھلی تقریروں اور جھوٹے وعدوں سے نہیں بلکہ مضبوط کارروائی سے نکلے گا۔راہل نے حملے کوانتہائی افسوسناک قرار دینے کے بعد مادر وطن کے لیے عظیم قربانی دینے والے شہداء کو دلی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سوگوار خاندانوں سے دلی تعزیت کا اظہار کیا نیز زخمی فوجیوں کے لیے جلد صحت یابی کی دعا کی ۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے بھی کٹھوعہ ضلع میں فوجی قافلے پر حملے کی مذمت کی۔ آزاد نے جموں صوبےکے اندر دہشت گردی میں اضافہ پر تشویش کااظہار کیا اور فوج کی گاڑی پر گھات لگا کر کیے گئے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے کے بعد زخمیوں کے لیےدعا کی۔ حالیہ دنوں میں جموں کے کٹھوعہ اور آس پاس کے علاقوں میں عسکریت پسندوں کی طرف سے مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کے کولگام میں دو مقامات پر ایک تصادم میں سیکورٹی فورسز نے۶؍ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تھا۔ اس کے ساتھ دو فوجی بھی فوت ہوئے ۔ سکیورٹی فورسز کا دعویٰ ہے کہ مقامی لوگ مارے جانے والے عسکریت پسندوں کی مدد کر رہے تھے۔ اب اس حوالے سے بھی تفتیش جاری ہے۔9 جون کو جموں و کشمیر کے ضلع ریاسی میں شام کے وقت تیرتھ یاتریوں کو لے جانے والی بس پر فائرنگ ہوئی۔ جس کی وجہ سے بس کھائی میں گر گئی۔ اس کے سبب 9؍ افراد ہلاک اور 41 زخمی ہوگئے۔ حملوں کا یہ سلسلہ جون 10( 2024) کوتیسری بار حلف برداری کے ساتھ ہی شروع ہوا ہے ۔پلوامہ پرمشکوک حملے کی روشنی میں شک کی سوئی جموں کشمیر میں انتخابی تیاری کی جانب گھوم جاتی ہے۔
انتخابی مہم کے دوران مصروف ترین وزیر داخلہ نے وادیٔ کشمیر کا دو رہ کرنے کے لیے دو روز فارغ کرکے پوری دنیا کو چونکا دیا تھا۔ مئی کے وسط میں امیت شاہ سرینگر تو گئے مگر کسی عوامی جلسۂ عام سے خطاب نہیں کیا تھا۔ بی جے پی نے اس دورے کو غیر سیاسی قرار دے کر کہا تھاکہ اس کا مقصد امرناتھ یاترا کو محفوظ بنانے پر غورو خوض تھا۔ اس بات کو اگر سچ مان لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کے ختم ہوتے ہی ان تیاریوں کا کیا ہوا؟ کشمیری تشدد وادی سے نکل کر جموں میں کیونکر پہنچ گیا؟حلف برداری کے بعد سے 72گھنٹوں کے دوران ریاست کے ہندو اکثریتی علاقوں میں 3 بڑے ملی ٹینٹ حملے ہوئے جن میں 9 زائرین ، ایک سی آر پی ایف جوان جان بحق ہوگئے جبکہ 35 مسافر اور 5 سیکورٹی فورسز کے اہلکار زخمی بھی ہوئے ۔ کٹھوعہ میں سیکورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں ایک نامعلوم جنگجو بھی ہلاک ہو گیا۔
ان واقعات میں پہلا حملہ ڈوڈہ کے چھتر گلہ علاقے میں پیش آیا جہاں نصف شب میں عارضی آپریٹنگ بیس پر حملہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں سیکورٹی فورسز کے پانچ اہلکار زخمی ہوئے۔ کٹھوعہ کے ہیرا نگر علاقے میں سیکورٹی فورسز اور ملی ٹینٹوں کے مابین تصادم میں ایک جنگجواور سی آر پی ایف جوان ہلاک ہوگئے جبکہ ایک عام شہری بھی زخمی ہوا ۔ اس کے بعد ریاسی ضلع میں یاتریوں کو لے جا نے والی بس پر فائرنگ ہوئی تو راہل گاندھی نے اس پر وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بنا تے ہوئے لکھا تھاکہ ، ’’مبارکبادی پیغامات کا جواب دینے میں مصروف نریندر مودی کو جموں و کشمیر میں بے دردی سے مارے گئے عقیدت مندوں کے اہل خانہ کی چیخیں تک سنائی نہیں دے رہی ہیں۔ریاسی، کٹھوعہ اور ڈوڈہ میں 3 دنوں کے اندر3 الگ الگ دہشت گردی کے واقعات پیش آئے ہیں، لیکن وزیر اعظم جشن منانے میں مگن ہیں۔ ملک جواب مانگ رہا ہے، آخر بی جے پی حکومت میں دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو پکڑا کیوں نہیں جاتا؟‘‘
اس موقع کا فائدہ اٹھا کرکانگریس نے کہا تھا کہ ، ’’جموں و کشمیر میں امن اور معمول کی صورت حال کا بڑبولے پن والے کھوکھلے دعووں کی پوری طرح سے پول کھل گئی ہے۔ بی جے پی کا وادی کشمیر میں انتخاب لڑنے کی زحمت نہیں کرنا ، ان کی ’نیا کشمیر‘ کی پالیسی کے پوری طرح ناکام ہوجانے کا منہ بولتا ثبوت ہے‘‘۔یوگا دن کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی کے جموں و کشمیر دورے کو اسمبلی انتخابات کی تیاریوں کے تناظر میں دیکھا گیا۔ انہوں نے اس موقع پر وادی کے باشندوں کو یقین دلایا کہ خطہ میں جلد ہی ایک نئی حکومت کا انتخاب ہوگا اور ریاست کا درجہ بحال کردیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے سرینگرمیں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جموں و کشمیر کے لوگ مقامی سطح پر اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں، اور ان کے ذریعے آپ مسائل کے حل کی راہیں تلاش کرتے ہیں، اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے؟‘ سوال یہ ہے کہ اس ریاست کے لوگوں کو پچھلے ۶؍ سالوں کے دوران اس سہولت سے کیوں محروم رکھا گیا؟ اس کے بعد وزیر اعظم نے ایوانِ پارلیمان جموں و کشمیر کے ووٹروں کو اس لیے مبارکباد دی کہ انہوں نے آئین پر اٹل اعتماد کے ساتھ اپنی قسمت کا فیصلہ کیا ۔
وزیر اعظم کا یہ بیان سن کر ایسا لگتاہے گویا پہلی بار وہاں الیکشن ہوا ہے۔ کشمیر میں ہمیشہ الیکشن ہوتے رہے ہیں سچ تو یہ کہ پچھلے ۶؍ سالوں میں مودی سرکار وہاں ریاستی انتخابات نہیں کراسکی اس لیے وزیر اعظم کو جموں کشمیر اور لداخ کے لوگوں سے معافی مانگنی چاہیے۔ وزیر اعظم نےکشمیر میں سیاحتی سرگرمیوں میں اضافے کا ذکر کیا وہ ۶؍ سال قبل بامِ عروج پر تھی اس کے باوجود سیاسی فائدہ اٹھانے کی خاطر شاہ جی نے ایوانِ پارلیمان میں اپنے سیاسی مفاد کی خاطر آئین کی دفع 370 کو ختم کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ دوسری عظیم ناانصافی یہ کی کہ صوبے کو تقسیم کرنے کے بعد اسے ریاستی درجہ سے محروم کردیا گیا ۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایسی ناانصافی صرف جموں کشمیر کے حصے میں آئی اور وہاں کے لوگوں کو قانون کی ذریعہ جن صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا اسے اب نئےفوجداری قانون کےغلاف میں ڈھانپ کرپورے ملک پر نافذ کردیا گیا ہے۔ یعنی کشمیرکو ہندوستان جیسا بنانے کا دعویٰ کرنے والوں نے ہندوستان میں بھی کشمیر جیسے حالات پیدا کرنے یعنی عوام کے حقوق سلب کرنے کی سازش رچی ہے۔ مودی جی نےاپنے پہلے پانچ سالوں کے دوران بی جے پی کو جموں کشمیر کی حکومت میں شامل کردیا ۔ دوسری میعاد میں آئین کی دفع 370منسوخ کرکے اسے پولیس اسٹیٹ بنادیا اور تیسری بار حکومت بناکر پورے ملک کو انتظامیہ کے حوالے کرنے میں کا میابی حاصل کرلی کیونکہ مودی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے۔