ہندستان میں باباؤں کی بہتات کیوں ہے؟
کیونکہ یہاں لامحدود خداؤں پر اَندھ بھکتوں کا یقین ہے
ازقلم: عبدالعزیز
علامہ اقبالؒ نے بہت پہلے کہا تھا کہ ؎
ایک سجدہ جسے گراں سمجھتا ہے … ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہندستان میں مسلمانوں کی بیس بائیس کروڑ سے کہیں زیادہ آبادی نہ تو اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی اور نہ غیر مسلم آبادی کو سمجھانے کی جدوجہد کی۔ مسلمان یقینا ایک خدا پر یقین کرتے ہیں لیکن سارے مسلمان ایک خدا کی ذات، صفات اور اختیارات پر اس طرح یقین نہیں کرتے جس طرح انھیں یقین کرنا چاہئے۔ مسلمانوں میں یہ ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اپنے خودساختہ باباؤں پر یقین رکھتی ہے اور ان یہ سمجھتی ہے کہ باباؤں سے ان کی امیدیں بر آئیں گی۔ ایسے لوگ ایک قبر سے دوسری قبر تک سفر کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو باباؤں کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کے فضل و کرم سے ان کی منہ مانگی مرادیں پوری ہوجاتی ہیں۔ جن کی مرادیں پوری نہیں ہوتیں وہ تو خاموش رہتے ہیں لیکن اللہ جن کی مرادیں پوری کر دیتا ہے اور دعائیں سن لیتا ہے وہ یہ پرچار کرتے رہتے ہیں کہ فلاں بابا یا فلاں صاحب قبر کی وجہ سے ان کی مرادیں پوری ہوگئیں۔ علامہ اقبالؒ نے ایسے لوگوں کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ ؎ ’’بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی… مجھے بتا تو سہی اورکافری کیا ہے‘‘۔
اگر مسلمان اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ جاتے اور پانچ وقت کی نمازوں میں جو اللہ تعالیٰ سے روزانہ وعدہ کرتے ہیں ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ (’اے اللہ!‘ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں) تو وہ غیر اللہ کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے اور نہ وہ اپنا سر نیاز جھکاتے۔ خدا ہی ان کی ساری درماندگیوں اور احتیاجوں میں مددگاری کا سہارا ہوتا۔ وہ اپنی عبادت اور استعانت دونوں کو صرف ایک ہی ذات کے ساتھ وابستہ کردیتے اور اس طرح دنیا کی ساری قوتوں اور ہر طرح کی انسانی فرماں روائیوں سے بے پروا ہوجاتے۔ اللہ کے سوا کسی اور کی چوکھٹ پر اس کا سر نہیں جھکتا اور نہ ہی کسی قوت سے ہراساں ہوتے اور نہ ہی کسی کے آگے ان کا دست طلب دراز ہوتا اور ’’لم یخش الا اللہ‘‘پر ان کا پورا یقین ہوتا۔ ان کے اندر کسی غیر اللہ کا خوف نہیں پایا جاتا۔ یہاں خوف سے مراد وہ خوف ہے جو کسی غیر اللہ کی بذات خود نفع بخش یا ضرر رساں ماننے یا سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ خوف شرک ہے۔ شرک کے ساتھ کوئی نیکی نیکی نہیں رہ جاتی ، کیونکہ شرک کے ساتھ خدا کو ماننا بالکل اس کے نہ ماننے کے ہم معنی ہے۔
ہندستان میں تقریباً 33 کروڑ خداؤں پر ہندو بھائی یقین رکھتے ہیں۔ لامحدود خداؤں پر یقین کے علاوہ جو بات مزید قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ نئے نئے خداؤں کے جنم پر کوئی روک نہیں ہے، یعنی "No Entry” نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں میں جو چاہے اور جب چاہے اپنے آپ کو خدا ہونے کا اعلان کرسکتا ہے۔ زیادہ دن نہیں ہوئے سالِ رواں کے مئی کے مہینے میں ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنے آپ کو بھگوان ہونے کا اعلان کردیا اور کہا کہ ان کی پیدائش غیر فطری ہے۔ جو لوگ اپوزیشن میں ہیں ان لوگوں نے تو اس کا خوب مذاق اڑایا لیکن جو لوگ حکمراں جماعت میں ہیں ان کو برا نہیں لگا۔
اتر پردیش ضلع ہاتھرس میں بھولے بابا جن کا نام سورج پال یادو ہے وہ پہلے یوپی پولس میں ایک سپاہی تھے لیکن 1999ء میں اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے اپنا نام نرائن ساکر ہری رکھا اور اپنے آپ کو بھگوان ہونے کا اعلان کیا اور آہستہ آہستہ بھولے بابا کے نام سے مشہور ہوگیا۔ وہ اصل کاس گنج کی پٹیالی تحصیل کے بہادر نگر گاؤں کا رہنے والا ہے۔ اس کے والد کسان تھے۔ بابا نے اپنے گاؤں میں ہی اپنی تعلیم مکمل کی تھی۔ اس کے تین بھائی ہیں۔ بڑے بھائی کا انتقال ہوچکا ہے۔ دوسرے بھائی کا نام سورج پال (بھولے بابا) ہے اور تیسرا بھائی بی ایس پی کا لیڈر ہے۔ بابا بننے سے پہلے وہ ایل آئی یو میں کانسٹیبل تھا۔
ہاتھرس میں جو دردناک سانحہ پیش آیا اس میں سرکاری رپورٹ کے مطابق بھگدڑ کی وجہ سے 123 لوگوں کی موت واقع ہوگئی جس میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے۔ ہاتھرس کے بھولے بابا کی سبھا کے لئے ہاتھرس کے ایس ڈی ایم سے بابا کے کارسیوکوں نے اجازت کے لئے درخواست دی تھی جس میں 80 ہزار لوگوں کی شرکت کی بات لکھی گئی تھی۔ ایس ڈی ایم نے مذہبی سبھا کی اجازت دے دی۔ کہا جاتا ہے کہ اسی ہزار لوگوں کی شرکت کی بات منتظمین نے اپنی درخواست میں درج کی تھی مگر لگ بھگ ڈھائی لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ 2جولائی کو تین ساڑھے تین بجے جب سبھا کا اختتام ہوا تو بابا کو سبھا سے نکلنے کے لئے کارسیوکوں نے راستہ بنانے کی کوشش کی۔ بابا اپنی گاڑی میں پندرہ بیس گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ جب روانہ ہونے لگے تو بھیڑ کا بہت بڑا حصہ بابا کی گاڑی کو چھونے اور ان کے پیروں کی دھول لینے کے لئے امڈ پڑا۔ اس کوشش میں ایک دوسرے کو لوگ کچلتے گئے جس کی وجہ سے بھگدڑ میں 123 لوگ مارے گئے ۔ یہ ایک سو تیئس کی تعداد سرکار کی طرف سے بتائی گئی ہے لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 123 ان لوگوں کی تعداد ہے جن کا پوسٹ مارٹم ہوالیکن بہت سے ورثاء اپنے متعلقین کی لاشیں لے کر چلے گئے جن کی تعداد بھی انگنت ہے۔ سیکڑوں لوگ زخمی ہیں جو اسپتال میں کراہ رہے ہیں۔ اس سانحہ کی گونج پارلیمنٹ کے سیشن کے دوران بھی سنائی دی اور آہستہ آہستہ پورے ہندستان کے لوگوں نے اس واقعہ کو جستہ جستہ سنا اور سن کر افسوس کا اظہار کیا۔
سوٹیڈ بوٹیڈ ٹائی والے بابا کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ جب ان کے عقیدت مند ایک دوسرے کو کچل رہے تھے اور مر رہے تھے تو انھوں نے مڑکر دیکھا بھی نہیں اور نہ ہی وہ رکے اور نہ اپنے بھکتوں کی خبرگیری کی اور نہ ہی اپنے کارسیوکوں کو کسی قسم کی ہدایت کی۔ کارسیوک بھی اجتماع گاہ سے رفوچکر ہوگئے۔ جو لوگ نصف مردہ تھے یا سسک رہے تھے ان کو ٹیمپو، سائیکل وین اور دیگر سواریوں کے ذریعے کسی طرح قریب کے اسپتال میں پہنچایا گیا۔ اسپتال میں صرف ایک ڈاکٹر تھا ، وہاں دوائیں بھی موجود نہ تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ اجتماع گاہ کے پاس صرف ایک ایمبولینس تھی۔ بعض لوگ بتاتے ہیں کہ ایک بھی ایمبولینس نہیں تھی۔ چھان بین سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لگ بھگ 24جگہوں پر بابا کا عالیشان آشرم ہے۔ ایک ایک آشرم کم سے کم دس بیس ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا ہے۔ بھولے بابا کی کل جائیداد کے بارے میں 100 ہزار کروڑ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بابا بہت ہی عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی خدمت کے لئے ان کے کمرے میں کنواری لڑکیاں موجود ہوتی ہیں۔ بابا کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے آگرہ کے ایک تنگ کمرے سے اپنے چمتکار اور کرامات کا آغاز کیا۔ نہایت تنگ گلی میں اور ایک تنگ کمرے میں بابا رہتا تھا اور اس کمرے میں پانی کا ایک نل تھا۔ اس نل کے پانی کا جو استعمال کرتے تھے یا جو پانی لے جاتے تھے اس کے بارے میں یہ پرچار کیا گیا تھا کہ اس پانی سے لوگوں کی بیماریاں دور ہوتی ہیں اور ان کی مرادیں اور تمنائیں پوری ہوتی ہیں۔ جب بابا کے کمرے کے قریب بھیڑ زیادہ ہونے لگی تو بابا اپنے گاؤں بہادر نگر چلے گئے اور اپنی زمین پر آشرم بنایا۔ یہاں بھی آہستہ آہستہ لوگ جمع ہونے لگے لیکن گاؤں کے لوگ ان کی حقیقت سے آشنا تھے۔ ان کے آشرم میں بھیڑ دیکھنے تو جاتے تھے مگر ان سے کسی قسم کی امید نہیں رکھتے تھے اور نہ نل کا پانی استعمال کرتے تھے۔ بابا کے ہر آشرم میں ایک نل نہیں بلکہ چالیس پچاس نل لگے ہوتے ہیں۔ نل کے قریب سیکڑوں کی لائن ہوتی ہے، ایک ایک کرکے بابا کے عقیدت مند پانی نل سے حاصل کرتے ہیں۔
یوگی حکومت اور اس کی پولس پر بہت سے لوگ سانحہ کی ذمہ داری ڈالتے ہیں۔ ایسے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ڈھائی لاکھ شرکاء اجلاس کے لئے صرف چالیس پولس والے تھے اور اجتماع گاہ کے اندر پولس بالکل نہیں تھی۔ دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ حکومت کا خفیہ محکمہ بھی پولس کی انتظامیہ کے بڑے افسران کو یا تو صحیح رپورٹ نہیں دی یا صحیح رپورٹ دینے کے باوجود انتظامیہ کے بڑے افسران چوکنا اور چوکس نہیں ہوئے۔ پولس اور حکومت پر ذمہ داری ڈالنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پولس اور حکومت اپنے مجرمانہ فعل کو چھپانے کے لئے بابا کے کارسیوکو ں کو ذمہ دار گردانتے ہوئے ایک ایک کرکے گرفتار کر رہی ہے۔ ایف آئی آر جو مقامی تھانہ میں درج کیا گیا ہے اس میں بابا کا نام نہیں ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو بابا اس سانحہ کا بہت حد تک ذمہ دار ہے۔ کارسیوکوں کا سردار کوئی اور نہیں بابا ہی تھے۔ بڑا کارسیوک جو ہر طرح سے بڑا مجرم معلوم ہوتا ہے۔ حکومت اور پولس اسے ایف آئی آر میں مجرم ماننے سے احتراز کر رہی ہے۔ غالباً یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کی پارٹی کو ڈر ہے کہ بابا پر ہاتھ ڈالنے سے ان کے بہت سے ووٹرس ناراض ہوسکتے ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی بہت بڑی تعداد میں جو بابا کے عقیدت مند ہیں اور ووٹرس ہیں ان سے ہاتھ دھو سکتی ہے۔ بھولے بابا پر بہت سے الزامات ہیں۔ ان کے خلاف چھ سات مقدمات بھی عدالت میں زیر سماعت ہیں پھر بھی حکومت بابا کا لحاظ کر رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یوگی کا بلڈوزر صرف بے گناہ مسلمانوں کے لئے ہی چلتا ہے۔ اکثریت کے بڑے سے بڑے ظالموں اور مجرموں کے لئے بلڈوزر بابا کا بلڈوزر حرکت میں نہیں آتا۔
یو ٹیوبر اور پورٹل میں بہت سے ایسے اینکر اور صحافی ہیں جو باباؤں پر یقین رکھنے اور اندھ بھکتی کا مظاہرہ کرنے کو غلط سمجھتے ہیں اور نڈر ہوکر وہ اس پر ضرب بھی لگا رہے ہیں۔ آزاد سماج پارٹی (کانشی رام) کے ایم پی چندر شیکھر آزاد گزشتہ روز ہاتھرس کے دورے پر تھے وہاں جاکر انھوں نے اپنے خطاب میں اندھ بھکتی پر ضرب کاری کی اور لوگوں سے اپیل کی کہ اندھ بھکتی کو چھوڑ دیں۔ تعلیم کی طرف توجہ مرکوز کریں تاکہ پاکھنڈی بابا اپنے جال میں پھنسا نہ سکیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ایک خدا پر پکا اور سچا یقین کا مظاہرہ کریں اور اپنی بات چیت سے کہیں زیادہ اپنے عمل اور کردار سے لوگوں کو بتانے کی کوشش کریں کہ ایک خدا پر پکا یقین اور ایک سجدہ جسے لوگ گراں سمجھ رہے ہیں اس پر یقین ہی اندھ بھکتی اور توہم پرستی سے نجات دلا سکتا ہے۔ غیر مسلم بھائیوں میں جو لوگ اندھ بھکتی اور توہم پرستی کو غلط سمجھتے ہیں ان کو بھی سامنے آنا چاہئے اور کھل کر اس کی مذمت اور مخالفت کرنی چاہئے تاکہ بھولے بھالے انسان باباؤں کے جال میں نہ پھنس سکیں اور نہ ان کا شکار ہو سکیں۔
E-mail:azizabdul03@gmail.com
Mob:9831439068