Skip to content
محرم الحرام اور مروجہ بدعات و خرافات
از قلم✍️: صادقہ نفیس بنتِ جمال الدین
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ
"مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتابُ اللہ میں بارہ کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں یہی درست دین ہے{ التوبہ : ٣٦ }
مذکورہ والا آیت سے ہمیں یہ واضح ہوتا ہے کہ لوحِ محفوظ میں مہینوں کی تعداد بارہ محفوظ ہے جن میں سے چار حرمت والے ہیں۔۔
اس ایت کی وضاحت کے لیے نبیﷺ کی یہ حدیث بہت کارامد ہے جس میں نبی کریمﷺ فرماتے ہیں:
"زمین و آسمان کی تخلیق کے دن سے زمانہ گردش میں ہے۔ سال بارہ مہینوں کا ہے جن میں چار حرمت والے ہیں۔ تین مسلسل ہیں ذوالقعدة، ذوالحجة اور محرم ایک اور مہینہ رجب ہے{ صحیح البخاری: ٣١٩٧، صحیح المسلم: ٤٣٨٣}
ان مہینوں کو حرمت والا اس لیے کہتے ہیں کہ ان میں ہر قسم کی برائی و خرابی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ایسے تو ہر لمحے میں ہر قسم کی برائی حرام ہی ہے لیکن ان مہینوں میں بالخصوص اس سے منع کیا گیا ہے۔ ان حرمت والے مہینوں میں فتنہ و فساد اور امن و عامہ کو برباد کرنا، قتال وغیرہ کر کے ان کی حرمت پامال کرنا اللہ رب العزت کی نافرمانی کا باعث ہے۔
دن اور رات اللہ تعالی کی تخلیقات میں سے ایک تخلیق ہے دونوں کا وجود شمس و قمر کی آمد کے ساتھ منسلک ہے۔ ہمارے اس کرہِ ارض کے موسم سورج کے مطابق ہیں جبکہ ہمارے عبادات و معاملات اور اکثر احکامِ ایمانی چاند کے آنے جانے پر منحصر ہیں۔
اللہ رب العزت نے اپنی حکمت سے بعض مہینوں کو بعض پر فضیلت کا حامل قرار دیا ہے۔ چنانچہ محرم بھی وہ ماہ ہے جس کو اللہ نے ایسی خصوصیات سے نوازا ہے جو دوسرے مہینوں کے بر مقابل ممتاز ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ شیطان اسلام اور مسلمان کا کھلا دشمن ہے وہ اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی موقع کو رائیگا نہیں چھوڑتا وہ اپنی ذرِّیت کے ساتھ اپنی سرکشی سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی ہر ممکن سے ممکن کوشش کرتا ہے۔
جیسا کہ واقعہِ کربلا جو نبی کریمﷺ کی وفات کے اور دین محمدی کی تکمیل کے تقریباً ٥٠ برس بعد پیش آیا یہ ایک تاریخی وہ قدرتی حادثہ تھا جو ماہ محرم کی دس تاریخ کو حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے رفقاء کی شہادت جو تقریبا ٧٠ تھے ان کا جاں گُسل واقعہ پیش آیا۔
حقائق کیا تھے؟ قصوروار کوئی تھا یا نہیں؟ یہاں یہ بحث مقصود نہیں۔ لیکن شیطانی سرکشی نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اسے بدعات و خرافات کے رنگ میں ایسے رنگ دیا کہ لوگ اسے محبتِ آلِ محمدﷺ اور ربِ کائنات کے تقرب کا باعث سمجھ بیٹھے۔
بالخصوص ہمارے نام و نہاد مسلمان!
یہ چاند نظر اتے ہی یا دس محرم الحرام میں محبت کی بنیاد پر سیاہ کپڑے زیب تن کرتے ہیں سیاہ جھنڈے بلند کرتے ہیں عورتیں بدن سے زیورات اتار دیتی ہیں، ماتمی جلوس، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی نیاز کا شربت بنایا جاتا ہے، پانی کی سبیلیں لگائی جاتی ہے اور ایسی کئی بدعات و خرافات عمل میں لائی جاتی ہے جس کا عقلی تصور بھی محال ہو جاتا ہے دینی اعتبار سے تو کیا ہی کہا جائے؟……
غور کیجئے کہ جب کسی کی وفات ہو تو فوری طور پر غم ہوتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ گھنٹے یا بہت زیادہ ہو تو چند دن گزرنے کے بعد غم خود بخود ہلکا ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ ماتم کرنے والوں کا غم نہ جانے کیسا ہے جو سارا سال گم ہو جاتا ہے۔ خوب کھاتے ہیں، تمام دنیاوی سرگرمیاں مسرت کے ساتھ انجام دیتے ہیں مگر جیسے ہی محرم کا چاند نظر آجائے حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا غم ان کے سینوں میں پھوٹ پھوٹ کر اُبھر آتا ہے۔
ان نو نہاد مسلمانوں کو حسین رضی اللہ عنہ سے زیادہ افضل و محبوب ہستی رسول اللہﷺ کی وفات کا غم تو اس قدر نہیں ہوتا بلکہ وہ رسول اللہﷺ کی وفات کے دن پیدائش کو ترجیح دے کر عید مناتے ہیں۔ کیا یکم محرم کو ہونے والے شہید عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت شہادت نہیں، کیا یہ لوگ حمزہ، خبیب، زید بن دثنہ رضی اللہ عنہم کی شہادتوں پر تڑپتے ہیں۔۔۔۔۔۔
دین اسلام کے ماننے والو!
درحقیقت کوئی بھی غم اس طرح ماتم کرنے پر نہیں اکساتا بلکہ یہ شیطان ہے جو انہیں ماتم کے نام کا لبادہ اوڑھا کر اپنے ایمان کا جنازہ نکالنے پر اکساتا ہے۔
لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ کیا ان شیطانی جالوں میں پھنسے مسلمانوں کو نبی کریمﷺ کا یہ فرمان نظر نہیں آتا کہ: "جس نے نوحہ کیا، اپنے رخسار اور منہ پیٹا، اپنا گریبان پھاڑا وہ ہم میں سے نہیں {صحیح البخاری: ١٢٩٧}
کیا یہ فرمان حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ماتم کرنے والوں کے لیے نہیں؟
نوحہ کرنا تو درکِنار یہ ناداں خود کو مار مار کر زخمی کرتے ہیں تو کوئی آگ کے جلتے ہوئے شعلوں میں کود جاتا ہے۔ بھلا یہ محبت کا کونسا اظہار ہے۔ شریعتِ محمدیہ نے قریبی رشتہ دار کی موت پر تین دن اور شوہر کی وفات پر بیوی کو ٤٠ دن سوگ کی محض اجازت دی ہے حکم نہیں۔ لیکن یہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا ١٤٠٠ سال گزر جانے کے بعد ابھی تک سوگ منانے والوں نے تو شریعت کے طے کردہ دینوں سے بھی بازی لے گئے۔
العیاذ باللہ۔۔۔۔۔
جہاں تک منانے کی بات آتی ہے تو اسلام میں منانے کے دن صرف دو ہیں اور وہ بھی عبادات سے منسلک ہونے کی وجہ سے۔ لیکن یہ ماتمِ حسین رضی اللہ عنہ کرنے والوں نے نامعلوم کس شریعت سے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے انہوں نے تو بدعات کے سارے ریکارڈ ہی توڑ ڈالے۔ آنکھوں سے غم کے وقت انسو بہنا یہ ایک غیر اختیاری و فطری فعل ہے لیکن یہ کیسا غم ہے جسے ظاہر کرانے کے لیے موسیقی لگا کر مسلمان بلکہ غیر مسلمانوں کو بھی نچایا جاتا ہے
افسوس ہے مسلمانوں!
جس نبی نے بیت الخلاء کے آداب تک بتا دیٔے وہ نبی اپنے اہل خانہ کی شہادت کا سوگ منانے کے متعلق بتانا کیسے بھول سکتے ہیں۔
نعوذ باللہ من ذلك۔۔۔۔۔
حالانکہ آپ ﷺکی حیات مبارکہ میں ایسے بہت سے آپ ﷺکے عزیز اصحاب رضی اللہ عنہم گزرے ہیں جنہوں نے دین کی خاطر اپنی جانوں کو قربان کر کے شہادت کی نیند سو گئے۔
کیا اللہ کے رسولﷺ نے ان کا ماتم اتنی طویل مدت تک منایا۔۔۔۔۔۔؟
ہرگز نہیں۔۔۔۔۔اگر اللہ کے رسولﷺ اُن تمام شہیدوں کا ماتم مناتے تو سارا سال اسی سوگ منانے میں گزر جاتا۔
ارشادِ باری تعالی ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ
سوَةٌ حَسَنَةٌ
"یقیناً رسول تمہارے لیے نمونہ (آئیڈیل) ہے۔”{ الاحزاب: ٢١}
جیسا کہ اس آیتِ مبارکہ میں بتایا جا رہا ہے کہ رسول ہی ہمارے لیے نمونہ ہے جب رسول اللہﷺ نے ہی ماتم نہیں منایا تو ہم اور آپ کون ہوتے ہیں اس کو دین میں داخل کرنے والے۔۔۔؟
جہاں تک دین میں داخل کرنے کی بات آتی ہے تو اس ناحیہ سے ایک حدیث قابل ذکر ہے جس میں اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں:
وکل محدثة بدعة، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلَّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ
یعنی "ہر نئی چیز بدعت ہے جو دین کے متعلق ہو اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔”
{صحیح ابن خزیمہ، رقم الحدیث: ١٧٨٥}
اللہ اکبر، ھداھم اللہ۔۔۔۔۔۔
لیکن! اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس بدعات کی شروعات کیسے ہوئی اور کس نے اس کو عملی جامہ پہنایا؟۔۔۔۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مصر پر فاطمی شیعہ خلفہ کی حکومت تھی۔ ٣٤١ھ میں ایک بدبخت نوجوان نے دعوی کیا کہ اس کے اندر علی رضی اللہ عنہ اور اس کی بیوی کے اندر فاطمہ رضی اللہ عنہ کی روح حلول پر آئی ہے تو مصر کے فاطمہ خلیفہ معز باللہ نے اس کی خوب پذ یرائی کی۔ پھر ان دونوں میاں بیوی نے بدعات و خرافات کی ابتدا کی۔اور ان کے ساتھ مختار عبید ثقفی جس نے بعد میں نبوت کا دعوی بھی کیا اس زمانے میں علی رضی اللہ عنہ کی فرضی کرسی کہیں سے ڈھونڈ نکالی اس کرسی کو سجایا اور اس پر منت اور چڑھاوے وغیرہ دیگر بدعات و خرافات کی۔ معز باللہ نے ان لوگوں کے کارناموں کو سرکاری سطح پر عام کیا ہوتے ہوتے یہ رسومات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئیں اور ہندوستان میں بھی مغل بادشاہوں نے یہ رسم کا آغاز کیا۔
اللہ المستعان۔
معاملہ محض رسومات تک ہی نہیں ہے بلکہ کچھ ایسے علم سے بے بحرا لوگ گزرے ہیں جو اپنی سرکشیوں اور کارناموں سے خود اپنے ہی دین علم کا جنازہ نکال گئے۔
لیکن افسوس! اپنی کمزور ایمانی کا ثبوت کتابوں میں من گھڑت باتوں کی شکل میں چھوڑ گئے جس کو پڑھ کر ہمارے یہ جذباتی و کم عقل مسلمانوں نے اپنی زندگیوں میں داخل کر لیا۔
تو چلیں اختصاراً دیکھتے ہیں وہ من گھڑت باتیں کیا ہیں اور ساتھ ہی الحمدللہ اللہ کا بے پناہ احسان ہے کہ ہمارے درمیان مضبوط ایمانی اور علم سے بحرا مند کچھ ایسے لوگ بھی گزرے ہیں اور موجود ہیں الحمدللہ جنہوں نے ان من گھڑت باتوں کا پردہ فاش کیا ہے۔
الحمدللہ ثم الحمدللہ
١۔جو یوم عاشورہ کے دن غسل کرے تمام سال بیمار نہیں ہوگا
* یہ شیب الایمان میں ہے ضعیف روایت ہے (٣٧٩٧)
۲۔جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال پر کھانے اور کپڑے کی وسعت کرے تو اس پر اللہ تمام سال فراخی کرتا ہے۔
یہ بھی من گھڑت ہے امام احمد بن حنبل اور امام ابن تیمیہ نے فرمایا: "اس کی کوئی اصل نہیں”
(منھاج السنة)
۳۔جو عاشورہ کے روز آنکھوں میں اثمد سرمہ لگائے تو پورا سال اس کی آنکھوں میں درد نہیں ہوگا (اضعفاء الکبیر٦٥١٤، از ملا علی قاری)
احادیث کے علم سے ناواقف لوگ ان کتابوں میں دی ہوئی روایت بے دھڑک صحیح احادیث میں ملا دیتے ہیں وہ بھی اس انداز سے کہ پڑھنے والا سمجھے کہ یہ روایت بھی صحیح ہے۔
اگر ان لوگوں کو ذرا بھی شعور ہوتا تو کتاب کا نام ہی پڑھ لیتے "الضعفاء الکبیر” یعنی بہت ضعیف کمزور ردّی۔
حیف صدحیف!
کمزور ایمانی مسلمانوں کی حد یہاں آکر بھی ختم نہ ہوئی یہ تو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت اور آپ کی شہادت کے غم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیتے ہیں ان پر خونِ حسین رضی اللہ عنہ کے تمام ناکردہ افعال کو چسپاں کرتے ہیں یہاں تک کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم واقعہ کربلا سے پہلے فوت ہو چکے تھے انہیں بھی قتلِ حسین رضی اللہ عنہ کی آڑ میں برا بھلا کہتے ہیں۔
ہم ان لوگوں سے پوچھنا چاہتے ہیں! کیا یہی ایمان و دین کا تقاضہ ہے یا ایمان و دین سے بیزاری کا اعلان عام؟۔۔۔
یہ محبتِ آلِ علی رضی اللہ عنہ ہے یا اسلام کے اولین بہترین جماعت کی کردار کشی کی مہم؟۔۔۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کردار کو گالیاں دینے والوں کو کیا اللہ تعالی کی گواہی نظر نہیں آتی کہ ” رضي الله عنهم ورضوا عنه”
کیا نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان ان سے نہیں ٹکراتا کہ:
لا تسبوا أصحابي ..! "میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو”
{بخاری٣٦٧٣}
کیا ان لوگوں کے یہ نہیں پتہ کہ صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کا ذکر اللہ نے اہل ایمان کی حیثیت سے بار بار قرآن میں اس وقت آسمانوں سے وحی کی صورت میں نازل کیا جب ان لوگوں کی پشتوں کا بھی کوئی تصور نہ تھا جو آج صحابہ اکرام کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیتے ہیں۔
نعوذ باللہ
لہذا خلاصہ کلام یہی ہے!۔۔۔۔،
کہ آلِ محمدﷺ اور آلِ علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور ان کی شہادت کا غم ہر مسلمان کو ہونا چاہیے لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالی کی نافذ کردہ شرعی حدود کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے۔۔۔
لہذا!
کسی بھی دینی کتاب یا عبارت کو پڑھنے سے پہلے یہ ضرور دیکھیں کہ اس کے لکھنے والوں کو منہج کیا ہے کیا وہ صحیح منہج پر تھے یا نہیں اگر آپ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے تو الحمدللہ، اللہ رب العزت کے احسان سے علماء کرام کی ایک بڑی جماعت ہر دور میں اور ہر جگہ حاضر رہتی ہے تو ان کی زیرِ نگرانی میں آپ کسی بھی کتاب یا عبارت کا خلاصہ و منہج جان سکتے ہیں اور دین کا صحیح علم حاصل کر سکتے ہیں۔۔
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ خدایا! ہم تمام کو صحیح دین کا علم حاصل کرنے کی اور تیرے نافذ کردہ شرعی حدود کا پاس اور لحاظ رکھتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرما۔ اور جو بھی دین کے راہ سے بھٹکے ہیں ہوئے ہیں اور جو انہیں بھٹکا رہے ہیں سب کو ہدایت دے کر اس راستے پر گامزن کر دے جس راستے پر تیرے محبوب ترین بندے چلتے ہیں۔۔
آمین تقبل یا رب العالمین🤲
٠١ محرم الحرام ١٤٤٦ھ
۰٧جولائی ٢٠٢٤ء
وما توفیقی الّا باللہِ
Like this:
Like Loading...