Skip to content
یوکرین جنگ :
گیا دورِ سرمایہ د اری گیا
ازقلم:اڈاکٹر سلیم خان
صدرڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری بار اقتدار میں آنے سے قبل دعویٰ توکردیا تھا کہ وہ اقتدار سنبھالتے ہی روس-یوکرین جنگ ختم کر دیں گے۔ تاہم جنوری 2025 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک وہ اس ہدف کو حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یوروپ کی سرزمین پر یوکرین کی جنگ سب سے بڑا تنازع ہے۔ امریکی حکام کے مطابق، یوکرین جنگ میں امسال جون تک یوکرینی اور روسی فوجیوں کی مجموعی ہلاکتیں اور زخمیوں کی تعداد تقریباً 5 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ یہ نہایت ہولناک اعداد و شمار ہیں۔اس تنازع میں میں ایک طرف یوکرین کے ساتھ کھلے عام یوروپ سمیت امریکہ ہے اور دوسری جانب روس اپنے کچھ چھپے ہوئے ساتھیوں کے ساتھ نبرد آزما ہے۔ ایک زمانے میں یوروپ اور امریکہ کو ایسا لگتا تھا کہ وہ بہ آسانی روس کو دوبدو جنگ میں شکست فاش سے دوچار کردیں گے لیکن اب انہیں اس کے ناممکن ہونے کا احساس ہوگیا ہے اس لیے بات چیت حکمت عملی اپنائی گئی ۔ اس بابت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خوب قلابازیاں کھائیں مثلاًزیلنسکی سے لڑائی، سعودی عرب کی ثالثی اور پوتن سے ملاقات لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔۴؍ دن قبل امریکی صدر ٹرمپ نے روسی صدر پوتن کے ساتھ طے شدہ ملاقات اچانک یہ کہہ کر منسوخ کر دی کہ اس وقت چونکہ کسی عملی پیش رفت کی امید نہیں، اس لیے ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا البتہ مستقبل میں ملاقات کا امکان رکھا گیا ہے۔
ٹرمپ اس ہفتہ ہنگری کی راجدھانی بڈاپیسٹ میں روسی صدر سے ملاقات کرنے والے تھے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان چند روز قبل ڈھائی گھنٹے طویل فون کال کو ٹرمپ نے ’کافی مثبت‘ قرار دیا تھا۔ تاہم امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اور روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف کے درمیان بات چیت کے بعد ملاقات کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ٹرمپ کے مطابق پوتن کے ساتھ اس وقت ملاقات ’وقت کا ضیاع‘ ہوگی۔ گزشتہ ہفتے ٹرمپ نے یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی سے ملنے کے بعد کہا تھا کہ یہ ملاقات نہایت خوشگوار اور بامعنی تھی، تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا تھاکہ یوکرین جنگ ختم کرانا اب بھی ایک چیلنج ہے۔پچھلے 9 مہینوں کے دوران وہ کئی بار مایوسی کا اظہار کر چکے ہیں اور اب روس کے بجائے یوکرین پر روس سے ہاری ہوئی زمین کو واپس لینے کے دعویٰ سے دستبردار ہونے کے لیے دباو ڈال رہے ہیں۔ان کی تلقین ہے کہ کافی خون بہایا جا چکا ہے۔جو جہاں ہے وہیں رک جائے۔ دونوں فتح کا دعویٰ کریں۔ فیصلہ تاریخ پر چھوڑ دیں! ٹرمپ کے یہ جملے اعترافِ شکست ہیں کہ ماسکو نے کیف سے جو علاقے جیتے ہیں انہیں اپنے پاس رکھےحالانکہ ابھی حال میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ یوکرین کے زیلنسکی روس سے کھوئےہوئے تمام علاقہ واپس جیت سکتے ہیں ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اب واضح انداز میں اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ وہ سمجھتے تھے کہ روس کو یوکرین کا شکست دینا ممکن ہے ، لیکن اب انہیں شک ہے کہ ایسا ہو گا۔ٹرمپ نے آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانی کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے آغاز پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "وہ اب بھی جیت سکتے ہیں۔ مگر مجھے نہیں لگتا کہ وہ جیتیں گے۔ "جنگ میں بلواسطہ جیت سے مایوس ہوکرامریکی وزارتِ خزانہ نے روس کی دو بڑی تیل کمپنیوں، روزنفٹ اور لک آئل، سمیت ان کی ذیلی کمپنیوں پر بھی پابندیاں لگا دی ہیں۔ وزارت نے خبردار کیا ہے کہ اگر روس نے جارحانہ کارروائیاں نہ روکیں تو مزید سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ امریکہ کی اس اقتصادی جنگ نے ہندوستان کو سب سے زیادہ متاثر کیا کیونکہ اس نے روسی تیل کی ہندوستانی درآمدات کویوکرین میں روس کا ساتھ دینے سے مترادف قرار دے دیا اور مودی سرکار امریکہ کے آگے سرینڈر ہوگئی۔ اس طرح ہندو ستان اور امریکہ کے درمیان روسی تیل کی درآمد کے حوالے جو تنازع تھا وہ اب قریب الختم ہے کیونکہ مودی جی نےگھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔
عالمی ذرائع کے مطابق امریکی دھمکی کے بعد روسی تیل کی درآمد نصف کردی گئی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کا تو دعویٰ ہے کہ سال کے آخر تک یہ بند ہوجائے گی ۔ ٹرمپ کایہ دعویٰ کہ ’ہندوستان نے یقین دلایا ہے کہ وہ روس سے تیل نہیں خریدے گا‘ہندوستان نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس نوعیت کی کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ اس کے بعد امریکی میڈیا نے صدر ٹرمپ سے سوال کیا تو انہوں نے کہا تھا: ’’اگر ہندوستان نے ایسا کہا ہے تو اسے بھاری ٹیرف ادا کرتے رہنا ہوگا۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ انہوں نے ایسا کہا ہے۔ میں نے ہندوستانی وزیراعظم سے بات کی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ روسی تیل خریدنے کا معاملہ نہیں کریں گے۔‘‘حکومتِ ہند کا موقف ہے کہ روس-یوکرین جنگ کے بعد مغربی ممالک نے اگرچہ روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں، لیکن ہندوستان اپنی توانائی کی ضروریات اور عوامی مفاد میں اپنے شہریوں کے لیے سستا خام تیل خرید رہا ہے، اور کسی کو اس پر اعتراض کا حق نہیں ہے۔ حکومتِ ہند کے جواب میں امریکی صدر نے ہندوستان کو متنبہ کیا کہ اگر روس سے تیل کی خریداری جاری رہی تو نئے ٹیرف عائد کرنے پر غور ہوگا۔
حکومتِ ہند کے بیان سے زیادہ دوٹوک موقف تو کانگریس کے رکن پارلیمان ششی تھرور نے پیش کیا ہے۔ انہوں نے امریکہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دنیا کو یہ نہ بتائے کہ ہندوستان کیا کرے گا کیونکہ نئی دہلی واشنگٹن ڈی سی کی جانب سے بات نہیں کرتا ہے۔ یہ بات تو مودی یا جے شنکر کو کہنی چاہیے مگر ان کی تو آواز نہیں نکلتی جبکہ تھرور کہہ دیتے ہیں "ٹرمپ کا ہندوستان کے فیصلوں کا اعلان کرنا درست نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان اپنے فیصلوں کا اعلان خود کرے گا۔ ہم دنیا کو نہیں بتاتے کہ ٹرمپ کیا کریں گے۔ میرے خیال میں ٹرمپ کو دنیا کو نہیں بتانا چاہئے کہ ہندوستان کیا کرے گا”۔ یہ ردعمل 22 اکتوبر کو ٹرمپ کے دئیے ہوئے بیان کے ردعمل میں آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ، "ہندوستان نے مجھے بتایا ہے کہ وہ روسی تیل خریدنا بند کر رہے ہیں۔ یہ ایک عمل ہے، آپ اچانک نہیں روک سکتے، سال کے آخر تک، وہ تقریباً رک چکے ہوں گے، اس میں تقریباً 40 فیصد کمی آئے گی۔ ہندوستان بہت اچھا ہے۔ کل میں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کی تھی۔ وہ ایک شاندار شخص ہیں۔” مودی اس کی تردید کا حوصلہ نہیں پاتے۔
یوکرین کی جنگ میں روس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی خاطر امریکہ نے2 سب سے بڑی روسی تیل کمپنیوں روسنیفٹ اور لوکوئیل پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس کے خلاف روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زخارووا نے کہا کہ ’’یہ قدم الٹا اثر ڈالیں گے اور روس سے زیادہ نقصان عالمی معیشت کو پہنچائیں گے۔‘‘ امریکہ کا یہ تعزیراتی قدم روس کو اس کے قومی مفادات پر معاہدہ کرنے کے لیے مجبور نہیں کر پائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ روس بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن یہ گفتگو میڈیا میں بیان بازی کے بجائے سفارتی ذرائع سے ہونی چاہی۔ وہ بولےیہ قدم یوکرین جنگ کے حل کی سمت میں کسی بامعنی مذاکرات کو مزید مشکل بنا دے گا۔ ماریہ زخارووا نے یہ بھی کہا کہ ’’روس نے مغربی پابندیوں کے خلاف مضبوط مزاحمت کی ہے اور ملک اپنی معاشی اور توانائی صلاحیت کو اعتماد کے ساتھ فروغ دیتا رہے گا۔‘‘ اسی طرح چین نے بھی ان نئی پابندیوں پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس یکطرفہ قدم کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ چین نے یورپی یونین کی حالیہ پابندیوں پر بھی تنقید کی اور بات چیت پر زور دیا۔ چین ا س لیے ان اقدامات کی مخالفت کرتاہے کیونکہ وہ نہ یوکرین میں بحران کا ذمہ داراورنہ حامی ہے ۔ یہ پابندیاں چینی کمپنیوں کے قانونی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ بیجنگ اور ماسکو کے درمیان تعلقات پہلے کبھی اچھے نہیں تھے لیکن سابقہ امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں کی وجہ سے صورتحال تبدیل ہوگئی۔ امریکہ نے روس کی دو بڑی تیل کمپنیوں روزنیفٹ اور لوکوئیل پر پابندیاں عائد کر کے ماسکو کی معیشت کو متاثر کرنے کوشش تو کی مگر لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ نے جو الزام پچھلی امریکی حکومتوں پر لگایا وہ خود ان کے انتظامیہ پر بھی صادق آتا ہے۔ ان پابندیوں کے خلاف روس اور چین کا مشترکہ ردعمل ایک مضبوط محاذ تیار کر سکتا ہے۔ امریکہ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ دونوں ممالک پہلے ہی ڈالر پر انحصار کم کرنے اور متبادل تجارتی نظام تیار کرنے کی سمت قدم بڑھا رہے ہیں اور اب یہ فیصلہ اس کام میں سرعت پیدا کردے گا ۔ روس اور چین ایک ساتھ مل کر اگر توانائی اور تجارتی تعاون کو مضبوط کرنے لگیں تو اس سے مغربی ممالک کی معاشی پالیسیاں متاثر ہوں گی اور عالمی طاقت کا توازن بھی بدل جائے گا ۔ عالمی سفارتکاری میں یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہوگی جس سے یوروپ اور امریکہ کی چودھراہٹ کمزور ہوگی اور ان کے جبرواستحصال سے عالمِ انسانیت کو نجات ملے گی۔ بعید نہیں کہ علامہ اقبال کی اس پیشنگوئی کے حقیقت میں بدلنے کا وقت آگیا ہے؎
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
Like this:
Like Loading...