Skip to content
(سیاسی طنز و مزاح)
کھانسی برائے حب الوطنی
___
ازقلم: ڈاکٹر محمد عظیم الدین
___
ہمارے بزرگ بھی کیا سادہ طبیب تھے! ان کی تشخیص بس خراب ہوا تک محدود تھی، جس کا علاج وہ نیم گرم پانی یا زندہ طلسمات میں ڈھونڈتے تھے۔ ہماری نسل نے ایک نئے، مرکب مرض کی دریافت کی ہے جو پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ عقل پر بھی حملہ آور ہوتا ہے۔ اور جب یہ دونوں عارضے مل جائیں تو ایک ایسی ’حب الوطن دھند‘ پیدا ہوتی ہے جس میں کھلی سچائی بھی راستہ بھٹک جاتی ہے۔ اس دیوالی ہمیں اسی دھند کا بھرپور تجربہ ہوا، جس کا وسیلہ بنا ٹیلی ویژن نامی وہ ایجادِ فرنگ، جسے ہم عرفِ عام میں ’گھر پھوڑ ڈبہ‘ کہتے ہیں۔
ہمارے بزرگ تو سکھا گئے کہ تہوار خوشیاں بانٹنے کے لیے ہوتے ہیں۔ مگر لگتا ہے کہ زمانے نے نصاب بدل دیا اور ہم کچھ اسباق پڑھنا بھول گئے۔ اب اصول یہ ہے کہ دل آزاری کے فن میں جسے جتنی مہارت ہو، اس کا تہوار اتنا ہی کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ یہ نکتہ آفرینی ہمیں ایک ایسی صاحبِ اسلوب اینکرانی سے عطا ہوئی، جن کے نام میں کچھ اہل نظر نے ایسی علمی نکتہ آفرینی کی ہے کہ ‘رو بیکا لیاقت’ کو علمِ عروض کی بحر میں ڈال کر ‘روح بکا- لیا کٹ’ کے وزن پر لاکر پوری شخصیت کی ہی عکاسی کردی ہے۔ ان کی اردو دانی کا عالم یہ ہے کہ وہ بات کرتے ہوئے الفاظ سے زیادہ اپنے جبڑوں کو جنبش دیتی ہیں۔ انہوں نے عین تہوار کے دن، اپنے ائیر کنڈیشنڈ، چھنے ہوئے ماحول سے یہ فرمانِ عالیہ جاری کیا کہ ”ہم دیے جلائیں گے، پٹاخے پھوڑ کر…اور بہتیروں کے دل بھی جلائیں گے۔
پھر اس کے بعدماحول میں آکسیجن نہ رہی!
اس منشورِ دل آزاری کے بعد تہوار کا جو حشر ہوا،
اسے میر کے اس شعر میں دیکھا جا سکتا ہے:
اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
پھر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہمیں ”نشریاتی وفادارانِ شاہ” کی اس جدید نسل سے یہ طبی نکتہ بھی معلوم ہوا کہ جو آلودگی کل تک پھیپھڑوں کے لیے پیغامِ اجل تھی، وہ حکومت بدلتے ہی اب ایک مقوی ٹانک کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ ایک اور فرزانہ، وہی محترمہ جنہوں نے ایک مرتبہ فرطِ محبت میں ایسی خود فراموشی کا مظاہرہ کیا کہ اپنا نام انجنا اوم کشیپ سے انجنا اوم مودی بتا بیٹھی تھیں، چند سال قبل کیجریوال حکومت کے عہد میں اسی آلودگی پر اس شد و مد سے کھانستی تھیں کہ لگتا تھا ٹی بی کے آخری سٹیج پر ہیں۔ اب وہی اسی ”سرکاری دھند” میں گہرے گہرے سانس لے کر بتا رہی تھیں کہ پٹاخوں کے دھوئیں سے بھلا کیا ہوتا ہے! یہ ایک ایسا انقلابی طبی انکشاف تھا کہ حکیم جالینوس اورحکیم لقمان بھی اپنی قبروں میں بے چین ہو گئے ہوں گے کہ یہ نسخہ ہم سے کیسے چھوٹ گیا۔
خاکسار نے فوراً اپنی پرانی ”غیر جمہوری” کھانسی کو اس نئی ”حب الوطن” کھانسی میں بدلنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے ایک ماہرِ صوتیات سے رابطہ کیا، جس نے بھاری فیس کے عوض ہمیں سکھایا کہ کس سیاسی جماعت کے دور میں کس سر میں کھانسنا چاہیے۔ ان کے مطابق، پچھلی حکومت میں کھانسی کا سر ”ملہار” تھا جو فضا میں نمی اور افسردگی پیدا کرتا تھا، جبکہ موجودہ دور میں راگ یمن کلیان رائج ہے، جس سے ہر طرف خوشحالی اور بھلائی کا تاثر ملتا ہے۔
مگر کم بخت گلا ساتھ نہیں دے رہا تھا؛ ہم جب بھی ”کلیان” کے شاہانہ سر میں کھانسنے کی کوشش کرتے، آواز ”پیلو” کے دکھ بھرے سروں میں ڈھل جاتی۔ جب ہم نے گھر آ کر اس نئی ’کلیانی کھانسی‘ کی مشق کی تو ہماری بیگم گھبرا کر شہد اور ادرک کا قہوہ لے آئیں۔ ہم نے لاکھ سمجھایا کہ یہ بیماری نہیں، وفاداری ہے، مگر وہ نہ سمجھیں۔
اپنی ناکام کھانسی پر غور کرتے ہوئے خیال آیا کہ آخر یہ حب الوطنی کا دھواں اگلنے والی شے، یہ پٹاخہ، کس صاحبِ ایجاد کی دین ہے؟ تاریخ کی غیر مصدقہ کتابوں کی ورق گردانی کے بعد عقدہ کھلا کہ بارود ایک چینی راہب نے غلطی سے اس وقت ایجاد کیا جب وہ اپنی خانقاہ کے لیے دائمی قبض کا کوئی اکسیر نسخہ تیار کر رہا تھا۔ نتیجہ دونوں صورتوں میں دھماکہ خیز ہی نکلا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ آج بھی یہ ’دشمن‘ ملک سے درآمد ہوتا ہے، دھواں ہمارے پھیپھڑوں میں جاتا ہے، اور اس عمل کو حب الوطنی کی معراج قرار دیا جاتا ہے! یہ تو وہی بات ہوئی کہ دشمن کی توپ سے اپنے ہی گھر میں سلامی دی جائے۔
دیوالی کی رات ہم نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو ایک عجیب منظر تھا۔ گلی میں پٹاخوں کا دھواں تھا اور پڑوسی کے گھر سے ٹی وی ٹاک شو کا دھواں اٹھ رہا تھا۔ خدا لگتی کہے، ہم گھنٹہ بھر یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ کس دھوئیں میں زہر کی مقدار زیادہ ہے۔
تو اس دیوالی ہمارا نصابِ شہریات مکمل ہوا۔ ہم نے سیکھا کہ آلودگی صحت کے لیے مفید ہے، پٹاخے حب الوطنی کی علامت ہیں، اور دل جلانا ایک قابلِ فخر قومی خدمت ہے۔ ہم جیسے شریف النفس شہری، جو اب تک مہنگائی کو ‘معاشی استحکام’ اور بے روزگاری کو ‘نوجوانوں کی تربیت’ سمجھتے آئے تھے، اب زہریلی ہوا میں سانس لینے کو بھی ‘پھیپھڑوں کی ریاضت’ سمجھ کر قبول کر رہے ہیں۔ سو اب ہم اپنی کھانسی کو سینے سے لگائے، اگلی دیوالی کے منتظر ہیں۔ جب ہم دوبارہ اسی ‘نشریاتی شفا خانے’ سے رجوع کریں گے، جہاں ہمیں بتایا جائے گا کہ اس سال کا دھواں پچھلے سال سے کہیں زیادہ ‘روحانی’ اور ‘ثقافتی’ ہے۔
تو اس دیوالی کے شور اور دھوئیں کے بعد پیچھے کیا بچا؟ بس ایک کھانسی۔ مگر یہ کوئی عام کھانسی نہیں؛ یہ ہمارے دور کی تاریخ نویس ہے، ہمارے اجتماعی ضمیر کا ایکسرے، یہ تشخیص بھی ہے اور مرثیہ بھی۔ ہمارے بزرگوں کو جب کچھ سمجھ نہ آتا تو وہ آسمان کی طرف دیکھتے تھے۔ ہم جب کچھ سمجھ نہیں پاتے تو ٹی وی اسکرین کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ ایک نظر کو وسعت دیتا ہے، دوسری عقل کو قید کر لیتی ہے۔ اور جب عقل قید ہو جائے، تو زہر بھی تریاق لگنے لگتا ہے۔ شاید اسی ذہنی معذوری کا نام ہم نے بڑے فخر سے ’حب الوطنی‘ رکھ چھوڑا ہے۔
Like this:
Like Loading...