Skip to content
پورن کمارکی خودکشی اور ذات پات کا تفریق و امتیاز
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
ملک میں یہ خیال عام ہے کہ دلتوں پر مظالم کی وجہ ان کی تعلیمی و معاشی پسماندگی نیز سرکاری محکموں میں عدم موجودگی ہے۔ پون کمار کی خودکشی نے ان ساری خوش فہمیوں کو دور کردیا۔ پورن کمار نے آٹھ صفحات پر مشتمل اپنے ’آخری پیغام‘میں مبینہ طور پر 8 سینئر آئی پی ایس افسران پر نسلی تفریق، ذہنی اذیت، عوامی تذلیل اور ظلم کے الزامات لگائے نیز ہریانہ ڈی جی پی شتروجیت سنگھ کپور اور ایس پی نریندر بِجارنیا کو اپنی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا ۔ انھوں نے اپنی وصیت میں ذات کی بنیاد پر نشانہ بنانے اور ہراسا نی کاالزام پہلی بار نہیں لگایا بلکہ گزشتہ سال اپریل میں انہوں نے اپنی سرکاری گاڑی واپس کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ اُنہیں مرتبہ کے مطابق گاڑی فراہم کی جائے۔ اُنہوں نے اُس وقت کے چیف سیکریٹری ٹی وی ایس این پرساد کو خط لکھ کر اس معاملے میں “تفریق وامتیاز” کی جانچ کا مطالبہ کیا تھا۔ پچھلے ہی سال کمار نے ہریانہ میں 1991، 1996، 1997 اور 2005 بیچ کے آئی پی ایس افسران کی ترقیوں پر بھی اعتراض کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ نایاب سنگھ سینی کو تحریر کردہ خط میں اُنہوں نے کہا تھا چونکہ یہ صرف فنانس ڈیپارٹمنٹ کی منظوری کی بنیاد پر دی گئیں اور ان میں وزارت داخلہ کی رہنما ہدایات کو نظرانداز کیا گیا ہے اس لیے کہ یہ ترقیات “غیر قانونی” ہیں ۔
پورن کمار نے 11؍ اکتوبر 2022 کو اُس وقت کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری (ہوم) ٹی وی ایس این پرساد سے مطالبہ کیا تھا کہ 2001 بیچ کے افسران کو وزارت داخلہ کے اصولوں کے مطابق ڈی آئی جی کے عہدے پر ترقی دی جائے۔ ساتھ ہی اُنہوں نے تنخواہوں کی دوبارہ تعین اور واجبات کی ادائیگی کا بھی کی جائے۔کمار نے الزام عائد کیاتھا کہ اُن کی درخواست پر کارروائی نہ ہونے کی بنیادی وجہ اُن کے ساتھی افسران کادرج فہرست ذات (ایس سی) سے تعلق تھا۔ اُنہوں نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ بلا ضرورت فائلوں کو قانونی مشورے کے لیے بھیجتا ہے۔پورن کمار کی جدوجہد جاری رہی یہاں تک گزشتہ سال انہوں نے دو ماہ سے بھی کم عرصے میں ایک سینئر آئی اے ایس افسر کے خلاف “ہراسانی اور تذلیل” کی پانچ شکایات درج کرائیں اور 8 فروری کو جب اُن کے الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی تین سابق آئی اے ایس افسران پر مشتمل کمیٹی پر بھی اعتراض کیا۔مارچ 2023 میں جب انہیں آئی جی پی (ہوم گارڈز) کے عہدے پر تعینات کیا گیا تو اُنہوں نے چیف سیکریٹری سنجیو کوشل کو مطلع کیا کہ یہ عہدہ ریاستی کیڈر میں شامل نہیں ہےنہ باقاعدہ طور پر تخلیق کیا گیا ہے۔ اُنہوں نے الزام لگایا تھا کہ یہ عہدہ اُنہیں عوامی سطح پر “تذلیل اور ہراسانی” کا نشانہ بنانے کے لیے دیا گیا حالانکہ آئی جی پی سطح کی کئی عہدے خالی تھے۔
سال 2022 میں، کمار نے سرسا پولیس لائنز میں ایک مندر کی مبینہ غیر مجاز تعمیر کے خلاف کارروائی کی تو اس سے بھی ہندوتوانواز ناراض ہوئے مگر انہوں نے اس کی پروا نہیں کی ۔ایک ایسی ریاست جہاں بی جے پی کی ڈبل انجن سرکار ہو کسی افسر کا اس قدر جری ہونا اس بات اشارہ ہے کہ وہ بدعنوان نہیں ہے۔ عام طور پر بدعنوان افسران بزدل ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں اور پکڑے جانے کا خوف بھی ہوتا ہے۔ پورن کمار مسلسل تین سالوں تک اپنے عزت و وقار کی خاطر ایک طاقتور ذات کے نظام سے لڑتے رہے ایسے میں بعد از مرگ ان پر بدعنوانی اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا الزام لگانے والوں کو سوچنا چاہیے کہ اگر وہ رشوت خور ہوتے تو اس طرح ظالمانہ نظام کے سامنے سینہ سپر نہیں رہ سکتے تھے نیز اگر اس کی جرأت کرتے تو یہ گدھ ان کا صفایا کردیتے یا انڈمان نکوبار جیسے علاقے میں تبادلہ کروا دیتے۔ پورن کمار کے حق میں سب سے اہم دلیل یہ ہے کی چوتھائی صدی پر محیط ملازمت کے دوران کوئی اس طرح کا الزام نہیں لگا جیسا کہ پس از مرگ ہورہا ہے۔ ایک طویل عرصے تک مسلسل جبرواستحصال کے خلاف لڑ نے والے اور اس کے باوجود صدارتی انعام و اکرام سے نوازے جانے والے ایماندار افسر کے خلاف لوگوں کو عصبیت کی آگ میں اس قدر اندھا نہیں ہونا چاہیے۔
پون کمار کے خودکشی نوٹ میں چونکہ سب سے سنگین الزامات ڈی جی پی شتروجیت کپور اور روہتک کے ایس پی نریندر بجارنیا کے خلاف تھے۔اس لیے ان کی اہلیہ امنیت پی کمار نے ان افسران کو گرفتار کرکے تفتیش ہونے تک پوسٹ مارٹم کی اجازت نہیں دینے کا مطالبہ کیا تو پورا نظام ہل گیا ۔ انصاف کی آواز کو دبانے کی خاطر ایک طرف تو عدالت سے ان کے خلاف نوٹس جاری کروایا گیا اور دوسرے پورن کمار کے عملے میں شامل ایک افسر کی تفتیش کرنے والے اے ایس آئی سندیپ لاٹھر کی خودکشی کی خبر اچھا ل دی گئی ۔ ان کے خود کش نوٹ اور ایک ویڈیو کی مدد سے پورن کمار پربدعنوانی کاالزام عائد کیا گیا ۔اسے اس طرح پیش کیا گیاگویا وہ پون کمار کی تفتیش کررہے تھے۔ سچائی یہ ہے کہ سندیپ لاٹھر نے پورن کمار کے پی ایس او سشیل کمار کو گرفتار کیا تھا جو اب بھی حراست میں ہے ۔ سشیل کمار کو شراب ڈیلر سے ہفتہ لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور پورن کمار پر الزام لگایا گیا کہ انہوں اندرجیت سنگھ نامی مجرم کا نام ہٹانے کی خاطر پچاس کروڈ رشوت طلب کی یا وصول کر لی۔ یہ ایک احمقانہ الزام ہے کیونکہ جس افسر کا تبادلہ ہوگیا ہو اور جس نے احتجاجاً چھٹی لے رکھی ہو اسے کو ن اور کیوں رشوت دے گا؟
سندیپ لاٹھرکی خودکشی کئی حوالوں سے شک کے گھیرے میں ہے۔ اطلاعات کے مطابق، خودکشی سے چند گھنٹے پہلے وہ روہتک بائی پاس پر حسبِ معمول ایک چائے کی دوکان پر اپنے دوستوں سے ملا تھا۔ کیا خودکشی کرنے والا ایسا کرتا ہے؟ وہاں اچانک اُس کے پاس ایک فون کال آئی، اور اُس نے ضروری کام ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے وہاں سے رخصت لے لی۔ سوال ہے کہ یہ فون پورن کمار نے کیا تھا یا امنیت کمار نے جو اپنے خاوند کے سوگ میں مبتلا تھی؟سندیپ لاٹھر کے وہاں سے نکلنے تقریباً ایک گھنٹے بعد اُس کی خودکشی کی خبر سامنے آئی اور اے ایس آئی نے 6 منٹ 28 سیکنڈ کی ایک ویڈیو ریکارڈ بھی تھی۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس عرصہ میں ویڈیو کیسے بن گئی اور ایسا آخری نوٹ بھی تیار کرلیا گیا جس میں ہریانہ کے انجہانی آئی جی وائی پورن کمار کے خلاف سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں ۔ سندیپ لاٹھر نے خود کو بھگت سنگھ کا حوالہ دے کر کہا کہ وہ بھی ’سچائی‘ کے لیے اپنی جان قربان کر رہے ہیں لیکن بھگت سنگھ نے خودکشی تو نہیں کی تھی بلکہ انہیں تو پھانسی دی گئی تھی اس لیے یہ ایک بے معنیٰ دعویٰ ہے۔
سندیپ کمار نے یہ الزام تو لگادیا کہ وائی پورن کمار ایک ’بدعنوان پولیس افسر‘ تھے اور انھوں نے اس وقت خودکشی کر لی جب انھیں احساس ہو گیا کہ اُن کی مبینہ بدعنوانی بے نقاب ہونے والی ہے لیکن ان کے خلاف نہ تو کوئی شکایت تھی اور تفتیش چل رہی تھی اس لیے بدعنوانی کے بے نقاب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ سندیپ کو جاری تحقیقات کے سلسلے میں گرفتاری کا خدشہ کیوں تھا ؟ اس نے ‘غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرنے’ کے لیے اپنی جان قربان کر دی لیکن مرنے کے بعد اس کااسے کیا فائدہ؟ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے ۔ اے ایس آئی سندیپ کا روہتک کے سابق ایس پی نریندر بجارنیا کی حمایت میں یہ کہنا کہ موصوف ایماندار افسر تھے بے معنیٰ وکالت ہے ۔ آئی پی ایس پورن کمار کی سنسنی خیز موت کے بعد بجارنیا کا تبادلہ کر دیا گیا تھا ایسے میں اس کی حمایت کرنے والے اے ایس آئی کا خودکشی کرلینا چہ معنیٰ دارد؟سندیپ لاٹھر اگر پورن کمار کی حیات میں خودکشی کرلیتا تو یہ قابلِ فہم بات تھی۔اس پر اگر کوئی دباو تھا تو وہ پورن کمار کی موت سے ختم ہوگیا تھا۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ موت سے قبل لاٹھر کو کس نے فون کیا تھا اور وہ کون سا دباو تھا جس نے اسے خودکشی پر مجبور کیا ؟ یہ تحقیق و تفتیش کا موضوع ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ( ڈی جی پی) شتروجیت کپور کی طویل رخصت و دیگر افسران کے تبادلے کا انتقام لینے اور ان آواز دبانے کے لیے امنیت کمار کے خلاف ایف آئی آر داخل کی گئی ہے۔ مہذب دنیا میں تو کسی شوہر کے جرم کی سزا اس کی اہلیہ کو نہیں ملتی لیکن منوسمرتی میں ممکن ہے دلتوں کے لیے یہ گنجائش ہو۔ معروف سماجی کارکن یوگیندر یادو نے لکھا کہ وہ پورن کمار کو ذاتی طور پر جانتے ہیں اور ان کی موت نے یہ احساس دلایا ہے کہ ‘ذات پات ہمارا ماضی نہیں ہے۔ یہ ہماری موجودہ زندگی کی زندہ حقیقت ہے۔ اور اس کے ہمارے مستقبل کا حصہ رہنے کا بھی خطرہ ہے‘۔موصوف نے رائے بریلی میں ہری اوم والمیکی کا قتل، چندی گڑھ میں آئی پی ایس افسر وائی پورن کمار کی خودکشی اور کمرۂ عدالت کے اندر چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی پر جوتا پھینکنے کی کوشش کا حوالہ دے کر لکھا ذات پات کی تفریق دیہی یا روایتی حصوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ معاشرے کے جدید طبقوں میں ذات پات نئے نقاب اوڑھے ہوئے ہے‘۔ یہ ہندوستانی سماج کی سب سے تلخ حقیقت ہے۔
Like this:
Like Loading...