Skip to content
غزہ سے گریٹر اسرائیل تک.
صہیونی جارحیت اور اُمّت کا امتحان
✍۔مسعود محبوب خان (ممبئی)
09422724040
دنیا ایک بار پھر تاریخ کے اُس موڑ پر کھڑی ہے جہاں ظلم اور انسانیت آمنے سامنے ہیں۔ غزہ کی خاکستر بستیوں سے اُٹھتا ہوا دھواں صرف فلسطین کا نوحہ نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے اجتماعی ضمیر کا استغاثہ ہے۔ صہیونیت کا وہ خواب جو برسوں سے "گریٹر اسرائیل” کے نام پر سیاسی منصوبوں اور عسکری جارحیت کی صورت میں جاری ہے، اب محض جغرافیائی توسیع کا معاملہ نہیں رہا یہ مشرقِ وسطیٰ کے تشخص، اُس کی روح اور اُس کے تاریخی و مذہبی توازن پر حملہ ہے۔ یہ جنگ صرف سرحدوں کی نہیں بلکہ اقدار کی جنگ ہے۔ ایک طرف وہ طاقت ہے جس نے ظلم کو اپنی سیاست کا ستون بنا لیا ہے، اور دوسری طرف وہ اُمّت ہے جو اپنی بے حسی اور مصلحتوں کے حصار میں قید ہو کر ضمیر کی بقاء کا امتحان دے رہی ہے۔ غزہ کے ملبے تلے دبی انسانیت یہ سوال کر رہی ہے کہ جب بچے رو رہے تھے، جب قبلۂ اول کے مینار لرز رہے تھے، تو اُمّت کے حکمران کہاں تھے؟
اسرائیل کی جارحیت دراصل اُس نظریاتی زہر کا اظہار ہے جو صہیونیت کے خمیر میں شروع دن سے شامل ہے۔ ظلم، فریب، تسلّط اور توسیع یہ اس کی شناخت کے بنیادی اجزاء ہیں۔ وہ ریاست جو اپنے وجود کی بنیاد غصب اور خون پر رکھے، وہ امن کی زبان نہیں سمجھ سکتی۔ اور جب دنیا کے طاقتور ادارے، خصوصاً امریکہ اور اس کے اتحادی، ایسی ریاست کے پشت پناہ بن جائیں تو اقوامِ متحدہ جیسا ادارہ بھی اپنی ساکھ کھو بیٹھتا ہے۔ نتیجتاً عالمی انصاف طاقت کے ترازو میں تولے جانے لگتا ہے، اور انسانی اقدار، سفارتی بیانات کی سطح پر قید ہو جاتی ہیں۔
یہ مضمون اسی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ اسرائیل کی جارحیت محض ایک وقتی ردِعمل نہیں، بلکہ ایک سوچے سمجھے نظریاتی منصوبے کا تسلسل ہے وہی "گریٹر اسرائیل” کا تصور جو خطے کی جغرافیائی اور روحانی ہیئت کو بدلنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ یہاں سوال اسرائیل کی طاقت کا نہیں، اُمّتِ مسلمہ کی کمزوری کا ہے۔ وہ اُمّت جسے دنیا کے مظلوموں کا سہارا بننا تھا، وہ خود سیاسی غلامی اور فکری جمود کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ یہ تحریر ایک فریاد بھی ہے، ایک تجزیہ بھی اور ایک دعوتِ بیداری بھی۔ یہ اس احساس کو جگانے کی کوشش ہے کہ جب تک مسلمان حکمران ایمان، غیرت اور عدل کو اپنی پالیسیوں کا محور نہیں بناتے، ظلم کے ایوانوں میں روشنی نہیں اُتر سکتی۔
اسرائیل کا غزہ میں مزید جارحیت سے باز رہنا اب ناممکنات میں سے ہے۔ ایک ایسی ریاست جو اپنی اساس ہی ظلم، فریب اور غصب پر استوار کرے، اس سے امن و انصاف کی توقع رکھنا خود فریب کے سوا کچھ نہیں۔ صہیونی ریاست کی فطرت میں ہی توسیع پسندی اور تسلّط کی خواہش کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ آج اگر غزہ کی معصوم بستیاں اس کے آہنی پنجے تلے کراہ رہی ہیں تو کل یہی آگ لبنان، شام، یمن اور دیگر ہمسایہ ممالک کی سرزمینوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گی۔ اس کی نظریں صرف سرحدوں کی وسعت پر نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کی روح اور تشخص کو مٹانے پر جمی ہوئی ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ کے بیشتر حکمرانوں نے ضمیر کی آواز کو اقتدار کی کرسی پر قربان کر دیا ہے۔ وہ امریکی خوشنودی کے اسیر ہیں، اور ان کی خارجہ پالیسی واشنگٹن کے ایوانوں میں طے ہوتی ہے نہ کہ مکّہ و مدینہ کے مقدّس جذبات میں۔ یہ وہ غلامانہ طرزِ فکر ہے جس نے اُمّت کو وحدت کی بجائے انتشار اور بے بسی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ نتیجتاً اسرائیل تنہا نہیں ہے؛ وہ دراصل عالمی استعماری قوتوں کی آغوش میں پروان چڑھ رہا ہے، اور اس کے ہر ظلم کے پیچھے کسی نہ کسی بڑی طاقت کا سایہ موجود ہے۔ اقوامِ متحدہ، جسے کبھی عالمی انصاف کا محافظ سمجھا جاتا تھا، آج ایک بے جان تماشائی بن چکی ہے۔ غزہ میں بچّوں کی لاشوں پر گزرتے ہوئے اس کے نمائندے رسمی مذمت کے سوا کچھ نہیں کر پاتے۔ وہ بدمعاش ریاست جس نے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا دی ہیں، اس کے سامنے اقوام متحدہ کے تمام اصول اور قراردادیں بے معنی ہو چکی ہیں۔ یہ ادارہ طاقتوروں کا آلہ کار بن چکا ہے، جہاں انصاف کمزوروں کے لئے خواب اور ظالموں کے لئے تماشا بن گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ غزہ کی تباہ حال گلیوں میں صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا لہو بہہ رہا ہے۔ یہ معرکہ صرف سرزمینِ فلسطین کا نہیں، بلکہ انسانی وقار اور اخلاقی ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر اُمّتِ مسلمہ نے اب بھی اپنی غفلت اور مصلحت کو نہ چھوڑا، تو تاریخ انہیں ان حکمرانوں کی صف میں لکھے گی جنہوں نے بیت المقدّس کے میناروں پر چھائے دھوئیں کے سامنے خاموشی اختیار کی تھی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان حکمران ذلت و وابستگی کے خول سے نکلیں، اپنے عوام کی امنگوں کا احترام کریں اور عدل و حریت کی اُس مشعل کو تھام لیں جسے نبیِ رحمتﷺ نے انسانیت کے لئے روشن کیا تھا۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب تاریخ ان کے ناموں پر سوالیہ نشان لگا دے گی، اور اُمّت کے بچّے اپنے زخموں سے یہ پوچھیں گے کہ "جب غزہ جل رہا تھا، تم کہاں تھے؟”۔ اور شاید یہی سوال تاریخ کے صفحوں پر ہمارے ضمیر کا فیصلہ لکھ دے گا۔
اسرائیل درحقیقت ایک ایسے توسیع پسندانہ مزاج کا نام ہے جو اپنے وجود کی بقاء ہی دوسروں کی تباہی میں تلاش کرتا ہے۔ اس کے فکری و نظریاتی خمیر میں امن کی خوشبو نہیں، بلکہ جنگ و جارحیت کا زہر گھلا ہوا ہے۔ وہ ریاست جو ظلم کو بقاء کا وسیلہ اور طاقت کو منصفی کا معیار سمجھ لے، وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ کبھی بھی پائیدار امن کے رشتے میں نہیں بندھ سکتی۔ اسرائیل کی تاریخ اسی تلخ حقیقت کا آئینہ ہے، وہ ماضی میں بھی آگ و خون کے کھیل سے باز نہیں آیا، حال میں بھی ظلم و بربریت کو اپنی پالیسی کا حصّہ بنائے ہوئے ہے، اور مستقبل کے لیے بھی اپنے جارحانہ عزائم سے دستبردار ہونے کا کوئی امکان نہیں رکھتا۔
غزہ میں اس کی جاری سفاکیت دراصل اسی تسلسل کا حصّہ ہے۔ یہ کہنا کہ اسرائیل اپنی جارحیت سے باز آ جائے گا، محض خوش فہمی ہے۔ اسرائیل کو اپنی عسکری قوت کے مظاہرے کا جنون اس قدر ہے کہ وہ ہر اُس موقعے کو غنیمت سمجھتا ہے جہاں اسے اپنی طاقت آزمانے، اپنے اسلحے کی نمائش کرنے، اور اپنے مخالفین کو خوف و دہشت کے سائے میں رکھنے کا موقع مل سکے۔ اسے نہ انسانی جانوں کی حرمت کا خیال ہے، نہ معصوم بچّوں کی چیخوں کی پرواہ۔ اس کی خارجہ پالیسی کا محور صرف ایک ہے، توسیع، تسلّط اور تفوق۔
دنیا چاہے یہ تاثر دینے کی کوشش کرے کہ اسرائیل عالمی دباؤ کا شکار ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ نہ تنہائی میں ہے، نہ کمزور۔ اس کی پشت پر وہ طاقتیں کھڑی ہیں جنہوں نے اپنے مفادات کے تحفّظ کے لیے عالمی ضمیر کو گروی رکھ دیا ہے۔ امریکہ کی بے لچک حمایت، یورپی قوتوں کی منافقانہ خاموشی، اور اقوام متحدہ کی بے بسی، یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی نظام انصاف نہیں، طاقت کے ترازو پر کھڑا ہے۔ اسرائیل بخوبی جانتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں محض کاغذی نوٹ ہیں، جنہیں وہ جب چاہے پھاڑ کر پھینک سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر جرم کے بعد مزید جرأت مند ہو جاتا ہے، کیونکہ سزا کا خوف اس کے قاموس میں سرے سے موجود ہی نہیں۔
اس المناک منظرنامے میں سب سے بڑا سوالیہ نشان اُمّتِ مسلمہ کے حکمرانوں کے کردار پر ہے۔ وہ جنہیں اُمّت کے ضمیر کی ترجمانی کرنی تھی، وہی سیاسی مصلحتوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کے لب خاموش ہیں، ان کے فیصلے واشنگٹن اور لندن کے ایوانوں میں طے ہوتے ہیں، اور ان کی ترجیحات میں نہ غزہ کے زخمی بچّے ہیں، نہ بیت المقدّس کی پکار۔ یہ بے حسی دراصل اُمّت کے اجتماعی زوال کا عکس ہے۔ یہ حقیقت اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسرائیل کو جارحیت سے روکنا محض الفاظ یا قراردادوں سے ممکن نہیں۔ جب تک اُمّتِ مسلمہ سیاسی بیداری، اخلاقی جرات، اور باہمی اتحاد کے ساتھ اٹھ کھڑی نہیں ہوتی، اسرائیلی توسیع پسندی اپنی تباہ کن راہ پر چلتی رہے گی۔ غزہ کے ملبے تلے دبی ہوئی انسانیت آج پکار رہی ہے، کیا کوئی ہے جو ظالم کے ہاتھ کو روکے؟ کیا کوئی ہے جو کمزور کے آنسو پونچھے؟ اور تاریخ یہ سوال اُمّتِ مسلمہ سے کرتی رہے گی کہ جب بیت المقدّس کے در و دیوار لرز رہے تھے، تم کہاں تھے؟
اسرائیل کو غزہ میں جارحیت سے باز رکھنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ اسے سخت اور معقول سزا دی جائے۔ ایسی سزا جو نہ صرف اس کے ظالمانہ عمل کا از خود تلافی کار ہو بلکہ مستقبل میں اس کے ارادوں کو ماند کر دینے والی ہو۔ جب طاقت کا حساب صرف زبانی ملامت تک محدود رہ جائے تو وہ قوتیں جو قانون اور انصاف کی زبان نہیں سمجھتیں، وہی زبان بول پاتی ہیں جو عمل اور نتیجے کی زبان ہوتی ہے۔ آج غزہ کی گلیاں خون میں نہائی ہوئی ہیں اور معصوم جانیں بجھ رہی ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ خاموش ملامت یا محض علامتی قراردادیں ناکافی اور غیر مؤثر رہتی ہیں۔ سزا کی صریح، ٹھوس اور بین الاقوامی نوعیت ہی اس نابود کن رویے کو منصوبہ بندی کے ساتھ کم کر سکتی ہے۔ اس حقیقت کی گواہی بین الاقوامی انسانی ادارے اور امدادی تنظیمیں بھی دے رہی ہیں جو غزہ کی بگڑتی ہوئی انسانی صورتِ حال کی طرف بارہا اشارہ کر چکی ہیں۔
اس وقت اُمّتِ مسلمہ کے بعض حکمران سیاسی دباؤ، بے بسی یا خارجہ پالیسی کی سفارتی تقلید کی وجہ سے اس مسئلے پر کمزور موقف اختیار کر بیٹھے ہیں۔ جب قیادتیں عالمی ابرقدرتوں خصوصاً امریکہ کی خوشنودی کو مقدم رکھیں تو حق و انصاف کے تقاضے پس منظر میں چلے جاتے ہیں، اور مظلوموں کی داد رسی کے لیے وہ مؤثر عالمی موقف پیدا نہیں ہو پاتا جس کے باعث ظالم کو بے خوفی نصیب ہوتی ہے۔ عینی مشاہدات اور سفارتی اشارے یہ بتاتے ہیں کہ بعض عالمی تعلقات اسرائیل کو سیاسی پشت پناہی فراہم کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ظلم کے خلاف بین الاقوامی دباؤ کمزور پڑ جاتا ہے۔
ہم دعا گو ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ اُمّتِ مسلمہ کے حکمرانوں کو غیرتِ اسلامی، حمیتِ ایمانی، اور عدل و شجاعت سے نوازے۔ یہ نہ صرف الفاظ کی دعائیں ہیں بلکہ عملی تقاضا بھی ہیں: اپنی قوموں کی آواز بننا، انسانی بنیادوں پر اتحاد قائم کرنا، اور عالمی میدان میں ایسی پالیسی اپنانا جو مظلوم کی حمایت کرے نا کہ محض مفادات یا دباؤ کی دلیل پر عمل پیرا رہے۔ اگر حکمران اپنے ایمان و غیرت کے تقاضوں کو اپنی خارجہ پالیسی میں مقدم کریں تو ظلم کرنے والوں کے لیے قیمت بہت بڑھ جائے گی، اور یہی قیمت مستقبل کے جرائم کا سب سے بڑا تدارک بن سکتی ہے۔
اصل سبق یہی ہے کہ انصاف کو جب تک عملی طور پر نافذ نہیں کیا جاتا، تاریخ ہم سے سوال کرتی رہے گی۔ ہمارے اعمال اور ہماری دعائیں اس بات کی عکاسی کریں کہ ہم صرف اظہارِ افسوس پر راضی نہیں ہیں ہم چاہتے ہیں کہ انصاف کا تقاضا پورا ہو، اور اس کا ایک طریقہ یہی ہے کہ ظالم کو اس کے عمل کا حساب دینا پڑے۔ اسی راستے پر چل کر ہی مظلوموں کی آواز کو عملی تحفّظ ملے گا، اور امن کا حقیقی قیام ممکن ہوگا۔ بین الاقوامی ادارے، امدادی تنظیمیں اور عوامی شعور اس حقیقت کی مسلسل گواہی دے رہے ہیں کہ فوری مدد، بلا رکاوٹ امداد، اور ظلم کے ذمّہ داروں کے خلاف ٹھوس بین الاقوامی کارروائی ناگزیر ہے۔
ہمیں اس بات کا بھی بخوبی علم ہونا چاہئے کہ صہیونیت کسی محض جغرافیائی خواہش کا نام نہیں؛ یہ ایک ایسی ذہنی اور نظریاتی روایت ہے جو اپنے وجود کی توسیع کو حتمی مقصد سمجھتی ہے۔ متعدد حلقوں میں اس تصور کو "گریٹر اِسرائیل” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ایک ایسی وسیع تر جغرافیائی سعادتِِ خیالی جس کے حصول کے لیے طاقت، سیاسی حکمتِ عملی اور وقتی اتحاد سب قابلِ قبول ہیں۔ بعض سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار خصوصاً بیّن جیونی رہنماؤں کی تقاریر و ترجیحات کے تناظر میں اس وژن کی موجودگی کی نشان دہی کرتے رہے ہیں۔
یہی وہ نظریاتی بنیاد ہے جو اسرائیلی پالیسی کو جارحیت کی سمت مائل کرتی ہے۔ اس کے اندر ایک فکری بندوبست ہوتا ہے جو چھوٹے سے تنازعہ کو بھی بقاء اور مشہوری کا موقع سمجھ لیتا ہے اور جب یہ فضاء قوم کے قیادتی حلقوں میں مضبوط ہو جائے تو روایتی سفارتی لچک کمزور پڑنے لگتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر لمحہ "موقع” تلاش کرنے والی سوچ میں عسکری قدم اٹھانے کی آمادگی ہوتی ہے، خواہ وہ محدود کمانڈو کارروائی ہو یا وسیع پیمانے پر حملہ۔ اسی منطق کے تحت "پری-ایمٹیو” یعنی قبل از وقت حملے کا تصور بھی حکمتِ عملی میں جگہ پاتا ہے اور اسرائیل نے تاریخی طور پر بعض اوقات اس طرزِ عمل کو اپنی سیکیورٹی پالیسی کا جزو قرار دیا ہے۔ بین الاقوامی مباحث میں اس کے دفاعی بُنیادوں اور بین الاقوامی قانون کے دائرے پر بھی مفصل گفتگو ملتی ہے۔
پھر عالمی منظرنامہ ہے جہاں کچھ عملی معاہدے اور سفارتی حصولِ باہمی مفاد نے اسرائیل کو علاقائی سطح پر کم از کم وقتی تحفظ فراہم کیا۔ 2020ء کے ابراہیم اکارڈز (Abraham Accords) نے اسرائيل کو کئی عرب ریاستوں کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی راستے کھول کر ایک نئی حقیقت تشکیل دی، جس نے اس کے لیے بین الاقوامی و علاقائی دوستانہ حلقوں کی تخلیق میں حصّہ ڈالا۔ اس معاہداتی ڈھانچے نے بعض صورتوں میں اسرائیل کی عالمی تنہائی کو کم کیا اور کچھ شعبوں خصوصاً سکیورٹی و دفاعی تعاون میں نئی راہیں کھول دیں۔ تاہم اس کی جانچ و نفاذ کا عملی پہلو تنازعہ زدہ حالات میں پیچیدہ رہا ہے اور اس کے اثرات کی طوالت اور دائرۂ عمل ماہرین کے مابین زیرِ بحث ہے۔
یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ جو بین الاقوامی بندوبست اسرائیل کو ایک وقتی تحفّظ دیتے ہیں، وہ ہمیشہ مستقل تالا نہیں ہوتے۔ جب بھی مواقع مہیا ہوں یا خطرات محسوس ہوں گے، اُس ذہنی تقسیم پسندانہ روایے کے تحت حملہ آورانہ فیصلے لینا ممکن سمجھا جائے گا، خواہ وہ غزہ ہو یا کسی اور پڑوسی خطے کی زمین۔ اور یہی باعثِ تشویش ہے کہ جو "ابراہیمی” سفارتی پردے نے ایک جانب علاقائی روابط بڑھائے ہیں، وہی پردہ بعض اوقات عسکری و دفاعی تعاون کو بھی معمول پر لاکر خطرات کے مواخذے میں رکاوٹ بن سکتا ہے یعنی اخلاقی و سیاسی پابندیوں کا دائرہ تنگ پڑ سکتا ہے۔
اقوامِ عالم کی سیاسی طاقتوں کی خواہشات اور مفادات بھی اس تصویر کا ایک اہم عنصر ہیں۔ کچھ عالمی اراکین کی پالیسی اسرائیل کو کھلے طور پر یا بالواسطہ طور پر ایسی سیاسی و عسکری پشت پناہی دیتی رہی ہے جس نے بارہا اس کو بُتِ خوداعتمادی عطاء ظکی ہے۔ یہی عالمی بندوبست بعض اوقات بین الاقوامی اداروں کی فعّالیطت کو کمزور بنا دیتا ہے، اور اقوامِ متحدہ جیسی تنظیمیں محدود دائرۂ عمل یا سفارتی پیچیدگیوں کی وجہ سے متاثر نظر آتی ہیں۔ اس پس منظر میں سوال یہ بنتا ہے کہ جب نظریاتی تسلسل اور سکیورٹی مفادات ایک ہی مینڈیٹ میں آ جائیں تو کیا عالمی دباؤ خود بخود مؤثر ثابت ہو سکتا ہے؟ تاریخ و تازہ واقعات اس بارے میں متضاد پیغام دیتے ہیں۔
اس پورے منظرنامے کا اخلاقی اور عملی نتیجہ اُمّتِ مسلمہ اور عالمی ضمیر کے سامنے ایک سنگین امتحان ہے۔ اگر اسرائیل نے اپنے تشدّد و توسیع پسندانہ عزائم کو کسی لمحے بھی کم نہ کیا، اور جب بھی اسے مناسب وقت ملا، اس نے اپنے نظریاتی و عسکری منصوبوں کو آگے بڑھایا، تو یہ نہ صرف فلسطینی علاقوں کے لئے بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لئے ایک طویل المدت خطرہ ہوگا۔ یہ اسی بدقسمتی کی علامت ہوگی جس کا آپ نے اظہار کیا کہ اُمّت اور عالمی برادری ایسے مناظرات میں مؤثر مزاحمت نہ کر سکیں۔ اس تناظر میں ضروری ہے کہ علمی بحث، سفارتی یکسوئی، اور اخلاقی عزم ایک ساتھ مل کر ایسی پالیسی تشکیل دیں جو نہ صرف تشدّد کو رد کرے بلکہ تسلسل پسندانہ نظریات کے پیچھے چھپی اقدار کو بھی سوال میں لا کر عالمی انصاف کو ممکن بنائے۔
تاریخ کے صفحات پر خون کی سیاہی سے لکھا جانے والا فلسطین کا المیہ محض ایک خطّے کی داستان نہیں، یہ اُس عالمی ضمیر کا آئینہ ہے جو طاقت کے جبر کے سامنے خاموش ہو گیا۔ آج غزہ کی گلیوں میں بکھری لاشیں، جلتے مکانات، اور ملبے تلے دبی چیخیں ہمیں یہ باور کراتی ہیں کہ انسانیت اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کی قبر پر کھڑی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انصاف کی میز پر طاقت بیٹھ چکی ہے، اور حق و باطل کی لکیر دھندلا چکی ہے۔ اسرائیل کی جارحیت محض عسکری اقدام نہیں، بلکہ ایک ذہنی بیماری کا اظہار ہے، وہ بیماری جو صہیونیت کی بنیاد میں پیوست ہے، جو طاقت کے ذریعے امن، ظلم کے ذریعے بقا، اور فریب کے ذریعے عظمت حاصل کرنے کا خواب دیکھتی ہے۔ "گریٹر اسرائیل” کا منصوبہ اسی خواب کی بھیانک تعبیر ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف فلسطین بلکہ پورا مشرقِ وسطیٰ ایک مستقل عدمِ استحکام کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔
لیکن سب سے المناک حقیقت یہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ، جسے مظلوموں کا سہارا بننا تھا، خود سیاسی مفادات اور خوف کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ ان کی خاموشی دراصل اس زوال کا اعلان ہے جو ایمان سے خالی قیادتوں کا مقدر بن چکا ہے۔ آج اگر اُمّت کے رہنما اپنے ایوانوں سے نکل کر غزہ کی خاک کو دیکھیں، تو انہیں احساس ہوگا کہ وہ زمین جس پر کبھی انبیاء کے قدم پڑے تھے، آج ان کی بے حسی کا ماتم کر رہی ہے۔
تاریخ کا پہیہ کبھی ایک رخ پر نہیں رکتا۔ ظلم خواہ کتنا ہی طویل ہو، عدل کی صبح ضرور طلوع ہوتی ہے۔ یہ تحریر اسی یقین کی گواہی ہے کہ ہر فرعون کے مقابل ایک موسیٰ ضرور پیدا ہوتا ہے، اور ہر دور کے صہیونیت کے مقابل ایمان کی چنگاری بجھتی نہیں، صرف وقت کے انتظار میں رہتی ہے۔ اب فیصلہ اُمّت کے ہاتھ میں ہے، وہ یا تو خاموش تماشائی بن کر تاریخ کے حاشیے میں دفن ہو جائے، یا عدل و غیرت کے عَلم کو تھام کر مظلوموں کی امید بن جائے۔ غزہ کے بچّے اب بھی دنیا سے یہی کہہ رہے ہیں: "ہمیں صرف دعائیں نہیں، تمہارا ضمیر چاہیے”۔ اور شاید یہی وہ لمحہ ہے جب انسانیت، ایمان، اور انصاف! تینوں ایک ساتھ پکار رہے ہیں کہ ظلم کا جواب خاموشی نہیں، بیداری ہے۔
🗓 (26.10.2025)
✒️ Masood M. Khan (Mumbai)
📧masood.media4040@gmail.com
○○○○○○○○○
Like this:
Like Loading...