Skip to content
طالبان: حقیقت افسانوں سے زیادہ افسانوی ہوتی ہے
ازقلم:ندیم عبدالقدیر
پاکستان اور طالبان کے درمیان جنگ نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ کبھی کبھی حقیقت افسانوں سے زیادہ افسانوی اور حیرت انگیز ہوتی ہے ۔کس نے سوچا تھا کہ طالبان اور پاکستان بھی ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نیام سے نکال لیں گے۔ وہ طالبان جن کی پیدائش پاکستا ن میں ہوئی ، جن کی پرورش پاکستان نے کی ، جنہیں پاکستا ن نے پروان چڑھایا، جنہیں افغانستان میں حکومت دلانے میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا اور جنہیں ساری دنیا میں قابل قبول بنانے کیلئے پاکستان نے اپنے ذرائع کا استعمال کیا۔ آج وہی طالبان اپنے اسی سرپرست کے خلاف برسرپیکار ہیں ۔ واقعی حقیقت افسانوں سے زیادہ افسانوی ہوتی ہے ۔
پاکستان کے خواب و خیال میں بھی نہیں رہا ہوگا کہ اس کے ساتھ اتنا بڑااور اتنا شدید دھوکہ ہوسکتا ہے ۔پاکستان او رطالبان کے حامی ایک دوسرے پر الزامات لگارہےہیں ۔ ان میں سے کتنے الزام صحیح ہیں یا کتنے غلط ہیں اس بارے میں کچھ وثوق کےساتھ نہیں کہاجاسکتا ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ طالبان نے اس سے پہلے کبھی بھی ’ڈورینڈ لائن‘ کا معاملہ نہیں اٹھایا تھا۔ افغان شہری ہونے کے ناطے طالبان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاں تک چاہے وہاں تک کی زمین پرافغانستان کی ملکیت کا دعویٰ کرسکتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح ہندوستان میں اکھنڈبھارت کا دعویٰ انڈونیشیا ملیشیا سے لے کر ایران تک کی زمین پر کیا جانا عام بات ہے۔دعویٰ کرنے میں آپ پوری طرح آزاد ہیں، لیکن نکتہ یہ ہے کہ طالبان نے اپنے وجود میں آنے سے لے کر اب تک اس سے پہلے کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کیاتھا۔ بات صرف ’ڈورینڈ لائن‘ کی ہی نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ بھی تقریباً ہر معاملے میں طالبان نے خود کو افغان قومی تحریک کے روپ میں ڈھال لیاہے۔ اگر طالبان نےشروع سے ہی خود کو افغانستان کی قومیت کے سپاہی کے طو رپر متعارف کرایا ہوتا تو آج ان کے موجودہ رویہ پر کوئی حیرت نہیں ہوتی لیکن طالبان نے ’’نظامِ شریعت‘‘ کے نام پر جدوجہد کی تھی جبکہ آج اقتدار میں آنے کے بعد ان کی ترجیحات بدل گئیں ۔طالبان کا یہ انحراف ہی درحقیقت ایک ہمالیائی سوال ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر اقتدار میں آنے کے بعد تحریکیں کیوں بھٹک جاتی ہیں۔
کسی بھی تحریک کا اصل امتحان اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ تحریک اپنے جدوجہد کے مراحل کو طے کرکے اقتدار کی شاداب چراگاہوں میں داخل ہوتی ہے اور یہیں سے وہ اپنی ناکامی او رانحراف کے نئے باب قلمبند کرنا شروع کرتی ہے۔ اقتدار وہ آئینہ ہے جو تحریک کی حقیقت کو بے نقاب کردیتا ہے۔ اقتدار کے ساتھ طاقت، دولت اور اختیار کی لالچ جڑ جاتی ہے، اور اکثر یہی عناصر نظریاتی تحریکوں کو عملی سیاست کے دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔ حالانکہ ایسے امکانات نہیں تھے ،لیکن افسوس کہ طالبان کےساتھ بھی یہی ہوا۔
طالبان کا وجود ’شریعت کے نفاذ‘ کے نظریات کے نام پر عمل میں آیا تھا، لیکن اتنے عظیم مقصد کیلئے وجود میں آئی تنظیم ایک ’افغان قومی تحریک‘ بن کر اپنے مقصد کو فنا کربیٹھی ۔طالبان کا نظامِ مصطفیٰ کا مقصدِ عظیم ،محض افغان قوم کے مفادات میں گم ہوکر رہ گیا۔ وہ شمع جو اُمت کے اتحاد اور دین کے غلبے کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب صرف افغان شناخت کی محدود روشنی میں ٹمٹما رہی ہے۔طالبان کا یہ انحراف صرف ایک سیاسی موڑ نہیں، بلکہ روحانی شکست کی مانند ہے۔
معاملہ صرف پاکستان اور طالبان کے رشتے کا نہیں بلکہ معاملہ اس صدمے کا ہے جو دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کو پہنچا ہے۔ درحقیقت اصل دھوکہ پاکستان کےساتھ نہیں بلکہ دنیا کے اُن ہی کروڑوں مسلمانوں کےساتھ ہوا ہے جوطالبان کی حکومت کو ریاستِ مدینہ کی بازگشت سمجھ بیٹھے تھے۔اُن کے خوابوں کی کرچیاں اب دل کے دامن میں چبھ رہی ہیں۔ وہ جو سمجھتے تھے کہ یہاں سے شریعت کی روشنی چاروں طرف پھیلے گی ۔انہیں اب احساس ہورہا ہے کہ وہ کتنی بڑی بے وقوفی کا شکار تھے۔ طالبان کا شریعت سے ہٹ کر قوم پرستی کے خول میں بند ہونا، دراصل ایک ایسے خواب کا ٹوٹ جانا ہے جس نے اُمت کے دلوں میں ایک نئی صبح کی اُمید جگائی تھی۔
اصل نقصان زمین کا نہیں، بلکہ ایمان اور اُمید کے رشتوں کا ہے۔ جب ایک نظریہ، جو آسمانوں سے جڑا تھا، زمین کی سیاست میں الجھ جاتا ہے تو وہ اپنی تقدیس کھو بیٹھتا ہے۔ یہی طالبان کے ساتھ ہوا۔ یہ نقصان دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کی امیدکا ہےاور اصلی نقصان امیدوں کا چکنا چور ہوجانا ہی ہوتاہے ۔ اب مستقبل میں ایسی کسی بھی تنظیم سے نظام ِ مصطفےٰ کے مجاہد ہونے کی امید نہیں رکھی جاسکتی ہے۔ جب اتنی بڑی تنظیم کا یہ حشر ہوگیا تو دیگر تنظیموںکی کیا ضمانت ہے ؟ اب ہر نئی جماعت یا تنظیم جب ’’اسلامی انقلاب‘‘ کی بات کرے گی تو لوگ پہلے طالبان کا انجام یاد کریں گے۔ اس بے یقینی نے امت کے ایمان اور اعتماد کو گہرا زخم دیا ہے۔ طالبان کے انحراف نے صرف ایک جدوجہد ہی نہیں ختم کی بلکہ اس نے امید اور خواب کو ختم کردیا۔
ہندی زبان کے شاعر ’پاش‘ نے لکھا ہے؎ ’
’سب سے خطرنا ک ہوتا ہے خوابوں کا مر جانا‘۔
طالبان کے انجراف نے عام مسلمانوں کےساتھ یہی کیا ہے۔
(فیچر ایڈیٹر، روزنامہ اردوٹائمز، ممبئی)
Like this:
Like Loading...