Skip to content
خطبات محبوب نگر
خطیب : متکلم اسلام حضرت مولانا محمد اسلم قاسمی رحمہ اللہ
ابن حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب علیہ الرحمہ
مرتب
مفتی سید آصف الدین ندوی قاسمی ایم اے
ڈائیریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف عربک حیدرآباد۔
@ 9849611686
(نوٹ:پیش نظرخطبہ نئی کتاب خطبات محبوب نگر کا ایک حصہ ہے،یہ خطبات ۲۰۰۲ میں محبوب نگر تلنگانہ میں ہوئے تھے اور اب ۲۲ برس بعد مرتب کے ذخیرے میںدریافت ہوکر زیور طباعت سے آرستہ ہوئے ہیں،جو کہ باقیات صالحات کی ایک مثال ہےاور سیرت طیبہ کا ایک نادر باب ہے۔)
محسن انسانیت ﷺاور علم و معرفت
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَ نَسْتَغْفِرُہٗ وَ نُؤْمِنُ بِہٖ وَ نَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَ نَعُوْذ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا۔ مَنْ یَھْدِہِ اللّٰہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلاَ ھَادِیَ لَہٗ۔ وَ نَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ۔ وَ نَشْھَدُ اَنَّ سَیِّدِنَا وَ نَبِیِّنَا وَ مَوْلاَنَا مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ اَمَّا بَعْدْ!
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنْ۔
(ترمذی، حدیث ۲۶۸، ابن ماجہ، حدیث ۴۱۶۹)
شریعت کا اختصاص
محترم سامعین! شریعت اسلامیہ بے شمار امتیازات و اختصاصات کی حامل ایک جامع و مکمل شریعت ہے۔ اس میں ایک درجہ انصاف کا ہے اور احسان کا ہے۔ احسان کا درجہ یہ ہے کہ مثلاً ایک آدمی آپ کو تھپڑ مارے، بدلہ میںآپ اس سے انتقام لینے کے بجائے اس کا ہاتھ پکڑ کے دباتے ہیں کہ آپ کو چوٹ لگ گئی ہوگی یا آپ کو تکلیف ہوگئی ہوگی۔ یہ درجہ احسان کا ہے۔ چنانچہ اہل تقویٰ کا یہی مقام ہے ۔ وہ انصاف کے درجہ کو عوام کے لئے چھوڑ دیتے ہیں، اپنے لئے احسان کا درجہ اختیار کرتے ہیں۔ اس واسطے جب آپ ﷺ کو محسن قرار دیا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آںحضرت ﷺ کی ذات بابرکات سے اس پورے عالم آب و گل اور تمام مادر گیتی اور اس پر بسنے والے تمام افراد کو جو نفع پہنچا ہے ایسا لا متناہی ہے کہ ہم اس کو ناپ کر نہیں کہہ سکتے کہ اتنا نفع پہنچا۔ ہم اس کو تول کر نہیں بتلاسکتے کہ اتنا نفع ہوا ہے۔ اس واسطے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا میںبھیجا ہی اس لئے ہے کہ آپ کے ذریعہ سے اس عالم انسانیت کو تہذیب و شائستگی ملے۔
آپﷺ کی حیات جہد مسلسل
لہٰذا حضور اکرمﷺ نے اللہ کے حکم کے مطابق اس عالم میں جتنے سانس لئے اور جتنے نفسہائے پاک گذارے وہ سارے کے سارے دوسروں کے لئے تھے، اپنے لئے نہیں۔ چنانچہ سیرت نگار یہ لکھتے ہیں کہ آپ ﷺ کی حیات پاک کے اندر چین و سکون کے دو لمحے تلاش کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ پوری کی پوری زندگی جہد مسلسل بن کر اس طرح گذری ہے کہ نہ دنوں کو چین نہ راتوں کو آرام اور آپ کی پوری کی پوری حیات مبارکہ کا جو مقصد اصلی ہے وہ ایک طرف عالم انسانیت کی اخروی بھلائی ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کی ترقی ہے۔
غزوۂ بدر اور توکل علی اللہ
غزوۂ بدر کے واقعہ پر غور کیجئے، یہ اسلام کا پہلا معرکہ ہے۔ مسلمانوں کے پاس کچھ بھی نہیںتھا، کچھ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نہ خوردنی انتظام اور نہ ہی آلات حرب و ضرب، نہ ہی عسکری سامان، یہ مبالغہ کی بات نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے۔ حضرت مقداد ؓبیان کرتے ہیں کہ تین سو سات آدمیوںمیں صرف چھ تلواریں تھیں۔بہت سارے افراد ایسے تھے کہ جن کے ہاتھ میںصرف ڈنڈے تھے اور مقابل جو کفار قریش آئے تھے ان کا حال یہ تھا کہ رسد اور کمک ان کے پاس فاضل اتنی تھی کہ مہینوں بھی اگر ان کو وہاں رہنا پڑ جائے تو کھانے پینے کی کوئی کمی نہیں اور اس وقت کے اعتبار سے جو بہترین اور اعلیٰ ترین اسلحہ ہوسکتا تھا وہ اس سے لیس تھے۔ (ابن ماجہ، ۲۸۵۷)
دونوں کے درمیان اسلحہ کے اعتبار سے کوئی مقابلہ ہی نہیںتھا۔ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ اس مٹھی بھر بے سرو سامان لشکر کو تسلی دیتے ہوئے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: سِیْرُوْا عَلٰی اِسْمِ اللہ۔ (ابن ماجہ، ۲۸۵۷)
اللہ کے نام کی برکت کے ساتھ چلو، آگے بڑھو۔
اور فرمایا:
اَنْظُرُ إِلٰی مَصَارِع الْقَوْمِ۔ (طبرانی، ج۱، ص:۱۸۱)
خدا کی قسم تم اپنی تعداد کی کمی کے اوپر ہراساں و پریشاں نہ ہو، اس لئے کہ میں گویا اپنی آنکھوں سے اس وقت تک دیکھ رہا ہوں کہ قریش کے بڑے بڑے سورما اور صنادید اس جگہ قتل ہو کر گرنے والے ہیں۔ آپ کا یہ فرمان مدینہ سے نکلنے کے وقت کا ہے۔ ایک قدرتی اور فطری تقاضہ ہے کہ انسانی طبیعت خوف کھاتی ہے، ایسے وقت میں جب کہ وہ دیکھتی ہے کہ مقابل طاقتور ہے، یہ فطری جذبہ ہے اور فطرت اپنا کام ضرور کرتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خود اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ مجھے تجلی دکھلا دیجئے، اللہ تعالیٰ نے درخواست کو قبول فرما لیا، لیکن جیسے ہی تجلی پڑی حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش کر گر پڑے:
فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا۔
(سورہ اعراف، آیت:۱۴۳)
یہ خوف اور یہ بے ہوشی طبیعت کی تھی۔لہٰذا اسی طرح میدانِ بدر میں لوگوں کے اوپر طبعی تقاضہ کے تحت ایک طرح کا خوف اور ڈر تھا۔ ایسی حالت میں حضرت علی ؓبیان کرتے ہیں کہ:
وَ مَا فِیْنَا اِلاَّ نَائِمٌ إِلاَّ رَسُوْلُ اللہ مُصَلِّیًا تَحْتَ شَجَرَۃٍ وَ یَبْکِیْ حَتّٰی اَصْبَحَ۔ (السنن الکبریٰ:۸۲۳)
اس رات ہم میں کوئی بھی ایسا نہ تھا کہ جس کے اوپر اللہ تعالیٰ نے سکون اور چین کو نہ طاری کردیا ہو، لہٰذا نتیجہ یہ ہواکہ سب غافل، لیکن ایک تن تنہا حضور اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس تھی کہ ایک درخت کے نیچے کھڑے ہوئے پوری رات آپﷺ نماز پڑھتے رہے اور روتے رہے یہاںتک کہ صبح کردی اور صبح ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوید مسرت اور مژدۂ جانفزا لے کر آئے اور صحابہ کرام ؓکو سنایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس پوری رات کی دعائوں کا صلہ یہ عطا فرمایا ہے کہ میرے اوپر آیت نازل فرمائی :
سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُر۔ (سورۂ قمر، آیت:۴۵)
یہ جمعیت قریش پریشان ہو کر بکھر جائے گی اور انہیںالٹے پائوں بھاگناپڑے گا۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ پوری رات کا رونا امت ہی کے لئے تھا۔
آپ ﷺکی نماز کی کیفیت
حضور اکرم ﷺکی نماز کی کیفیت کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ :
کَانَ النَّبِیُّ یُصَلِیْ حَتّٰی تَوَرَّمَتْ قَدَمَاہُ۔ (ابن ماجہ، حدیث:۱۱۷۵)
اتنی طویل نماز پڑھا کرتے تھے کہ آپ کے پائوں کے اوپر ورم ہوجایا کرتا تھا۔
یہ ورم قیامِ لیل کی وجہ سے ہوتا تھا، کھڑے ہو کر کلام مقدس کی تلاوت فرماتے تھے، لیکن آپ تو بخشے بخشائے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓنے کہا تھا کہ:
لِمَ تَصْنَعُ ھٰذا یَارَسُوْلَ اللہ وَقَدْ غَفَرَ اللہ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ۔
(صحیح بخاری، حدیث ۴۸۳۷)
یارسول اللہ! آپ یہ مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کردئیے ہیں تو حضورﷺ نے فرمایا:
أَفَلاَ أَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا۔ (ایضاً)
میں اللہ تعالیٰ کا شکر گذار بندہ نہ بنوں کہ جس نے میرے اوپر اتنا کرم کیا؟ لیکن اصل بات یہ تھی کہ نبی کریمﷺ یہ ساری مشقت اپنی امت کے لئے دعائیںکرنے میں صرف کیا کرتے تھے۔ پوری رات کی عبادت اور رات بھر خشیت کا مقصد یہ تھا کہ اے اللہ! اس چھوٹی سی جماعت کو جس کو میں نے تیرہ سالہ محنت میں تیار کیا ہے طاقت قوت عطا فرما، ان کے اندر ثابت قدمی پیدا فرما، ان کو ترقی اور سرفرازی عطا فرما، آپﷺ کی پوری زندگی کا حاصل یہی نکلتا ہے کہ آپﷺ نے جو کچھ بھی کیا امت کے لئے کیا اور بغیر کسی تمنا و آرزو اور بدلہ کے کیا، احسان اسی کو کہا جاتا ہے۔
آپ ﷺکا ایک عظیم احسان علم ہے
حضورﷺ کے جو احسانات ہیں ان احسانات کو اگر آپ مختلف قسموں کے اندر تقسیم کرنا چاہیں تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ آپﷺ نے اس دنیا کے اعتبار سے سب سے بڑا احسان امت محمدیہﷺ کے اوپر فرمایاہے، وہ علمی احسان ہے۔ آپ نے قرآن کریم جیسا علمی معجزہ دنیا کو دیا اور آپ امی محض ہیںلیکن قرآن کریم کے اندر وہ تمام معلومات کے خزانے اللہ تعالیٰ نے آپ کو دے کر بھیجا جن کا کھلی آنکھوں مشاہدہ اس وقت بھی دنیا نے کیا اور آج بھی کر رہی ہے جب کہ یہ سائنس و ٹیکنالوجی کے انتہائی عروج کا زمانہ ہے۔ اب آپ اندازہ کیجئے کہ قرآن کریم کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان تعلق کو مضبوط کرنا ہے، یہی شریعت کی حقیقت ہے لیکن اس حقیقت کو جاننے کے باوجود آپ جس قدر قرآن کریم کے اوپر غور کریں گے تو دیکھیں گے کہ اللہ اور بندے کے درمیان تعلق کو ظاہر کرنے والی آیتیں قرآن کریم کے اندر کل ڈیڑھ سو یا ایک سو پچپن یا ایک سو چھپن ہیں۔ دوسری طرف قرآن کریم کی وہ آیتیں جن میں اللہ نے اس کائنات عالم کے اوپر غور و فکر کرنے، اللہ کے عجائبات کو دیکھ کر اس کی قدرتِ عظیمہ کا ادراک کرنے اور اپنے علم و فہم کو بڑھانے کے متعلق ہیںوہ ۷۵۰؍کے قریب ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام عِلْم کا علَمبردار بن کر دنیا میں آیا ہے۔ اس لئے قرآن مقدس علم کا خزانہ ہے۔ میں یہ بات کسی حسنِ عقیدت کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ اس کی گواہی اس امت کے دوسرے سب سے بڑے انسان حضرت فاروق اعظمؓ دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم قرآن کریم سارے کے سارے علوم کا خزانہ ہے اور اس کے بعد کہتے ہیں کہ بخدا اگر میرے اونٹ کی رسی بھی گم ہوجائے تومیں اس کو بھی قرآن کریم کے ذریعہ تلاش کروںگا۔
آپﷺ نے علم کی حوصلہ افزائی فرمائی
حضور اکرمﷺ نے علم کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ مکہ مکرمہ کی مختصر سی آزمائشی زندگی میں حضورﷺ نے سب سے پہلے جو کام فرمایا وہ یہ کہ دارِ ارقم کے اندر ایک مدرسہ کا قیام ہے، وہاں صحابہ کرامؓ آتے اور حضور اکرمﷺ سے علوم و معرفت کی دولت حاصل کرتے پھر مدینہ طیبہ ہجرت فرمانے کے بعد آپﷺ نے مسجد نبوی کے ایک گوشے میں جس کو صفہ کا چبوترہ کہا جاتا ہے تعلیم گاہ کے طور پر متعین کردیا۔چنانچہ صحابہ کرام اس بے تکلف درس گاہ کے اندر بے تکلف انداز میںپہنچتے اور حضور اکرم ﷺ جو علم و حکمت کے گوہر لٹاتے وہ ان سے اپنا دامن مراد بھرا کرتے تھے۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علم اپنی ذات کے اندر متحرک ہے، حرکت میں رہتا ہے اور جس کے اندر حرکت ہوتی ہے تو وہ ترقی کرتی ہے۔ لہٰذا علم میں ذات کے اعتبار سے ترقی ہے، یہ کسی ایک جگہ ٹکتا نہیںہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضور اکرمﷺ کی وفات کے ساتھ ہی یہ علم کا مرکز مدینہ طیبہ سے اٹھ گیا اور دمشق پہنچ گیا مگر فرق یہ ہوگیا کہ مدینہ طیبہ کی چٹائیاں دمشق پہنچ کر جب تخت شاہی بنیں تو قَالَ مُوْسیٰ اور نَادیٰ زَکَرِیَّا کی مقدس آوازوں کے ساتھ ساتھ نَصَّ جالینوس قَالَ ارسطو کی صدائیں بھی بلندہونے لگیں۔ یہ اس لئے ہوا کہ وہاںپہنچ کر یونان کے بڑے بڑے حکیموں کے فلسفہ پر بھی گفتگو ہونے لگی، اسلام آیا ہی تھا علم کا سب سے بڑا علمبردار بن کر۔ لہٰذا کوئی علم اسلام کے اندر محرم قرار نہیں دیا گیا کہ یہ علم حرام ہے بلکہ اسلام نے تمام علوم کی حوصلہ افزائی کی۔ فلسفہ یونان خدا کے انکار کا علم ہے لیکن اس کے باوجود اسلام کے جاںبازوں اور خادموں نے اس فلسفہ کو اس لئے پڑھا اور سیکھا کہ جن دلیلوں سے خدا کے وجود کا انکار کیا تھا ان دلیلوں کو توڑ سکیں اور اس کے بعد خدا کے وجود کو عقلی دلائل سے ثابت کریں۔
علم عظمت و بلندی کا ذریعہ
بہرحال حضور اکرمﷺ نے اپنی امت پر بہت سے احسانوں میںسے یہ احسان بھی فرمایا کہ اپنے ارشادات کے ذریعہ امت کو علم کی طرف متوجہ کیا اور یہ فرمایا کہ ایک انسان کے لئے اگر دنیا میںعظمت اور فخر و بلندی کا کوئی ذریعہ ہوسکتا ہے تو وہ علم ہے۔لہٰذا علم حاصل کرو اپنے آپ کو باوقار اور بلند تر بنائو، اگر تم نے جوہر علم سے اپنا دامن نہیں بھرا اور تم خالی رہے تو دنیا میں تمہارا کوئی مقام نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی مجلس ہو رہی تھی، حضرات صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے تو اچانک حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ! آپ کے سامنے جو صاحب بیٹھے ہوئے ہیں ان کی موت کا وقت آگیا ہے، موت ان کے سر پر منڈلا رہی ہے۔ حضور ﷺ نے کہا کہ کیا میں ان کو اطلاع دیدوں؟ انہوں نے عرض کیا کہ ضرور اور جبرئیل چلے گئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جبرئیل آئے تھے اور یہ بتلایا کہ موت تمہارے اوپر ناچ رہی ہے۔ صحابی نے کہا کہ حضور آپ سچے، آپ کی بات سچی، لیکن آپ مجھے اس وقت کوئی مشغلہ بتلا دیجئے کہ وہ اتنا مبارک مشغلہ ہو کہ میں اس میں مروں تو اللہ کے یہاں میری مغفرت ہوجائے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ علم کے مشغلہ میں رہنا۔
معلوم ہوا کہ اس سے بہتر اور اس سے مبارک مشغلہ اور کوئی نہیں ہے۔ ورنہ حضور اکرم ﷺ وہ مشغلہ بتاتے۔ اگر کسی کے پاس علم نہیں ہے تو مال و دولت ، وجاہت نہیں دے سکتے۔ شیخ سعدی نے انے ایک جاہل پڑوسی کو دیکھا کہ وہ ترکی گھوڑے کے اوپر سوار ہے۔ دو تین غلام پیچھے پیچھے آرہے ہیں تو شیخ نے اس کو دیکھ کر ایک جملہ کہا :
عِجْلاً جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ۔ (سورہ اعراف، آیت:۱۴۸)
گائے کا بچھڑا ہے جس کے اندر سے گائے کی سی آواز نکل رہی ہے۔ اس سے زیادہ حیثیت نہیں ہے دولت جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو وجاہت والا، عزت والا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہاہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں، ہاں اگر علم کے دو بول اس کے دماغ کے اندر ہوتے تو اس کے واسطے عزت و سربلندی کی بات ہوتی۔ حضور اکرمﷺ نے امت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَ تَعَلَّمُوْا لِلْعِلْمِ السَّکِیْنَۃَ وَالْوَقَاَر وَ تَوَاضَعُوْا لِمَنْ تَعْلَّمُوْنَ مِنْہُ۔
(المعجم الاوسط للطبرانی:۶۱۸۴)
علم کے ذریعہ سکینت و وقار پیدا ہوتا ہے
علم حاصل کرو اور علم کے ذریعہ سے اپنے اندر سکینت اور وقار پیدا کرو اورجن سے علم حاصل کرو ان کے سامنے خاکساری کے ساتھ رہو۔ کسی نے مقولہ کے طور پر کہا ہے :اَلْعِلْمُ عِزٌّ لاَ ذِلَّۃَ فِیْہِ یَحْصُلُ فِیْہِ بِالذِّلِّ۔ علم اپنی ذات کے اعتبار سے عزت مندی کی بات ہے، اس کے اندر کوئی ذلت نہیں جب حاصل ہوگیا تو پھر انسان کو عزت و سربلندی ملتی ہے، اس لئے حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
خِیَارُ اُمَّتِیْ عُلَمَائُ ھَا وَ خِیَارُ عُلَمَائِھَا رُحَمَاؤُھَا، ألاَ وَ إنَّ اللہ یَغْفِرُ لِلْجَاھِلِ أَرْبَعِیْنَ ذَنْباً قَبْلَ أَنْ یَّغْفِرَ لِلْعَالِمِ ذَنْباً وَّاحِدا۔ (العلل تلخیص المتناھیہ،ص:۴۴)
امت کے بہترین لوگ وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ایک پڑھے لکھے آدمی کے چالیس گناہ معاف فرماتا ہے، جب جاکر جاہل کا ایک گناہ معاف کیا جاتا ہے۔
اس واسطے علم کی تڑپ میں نکلنے والا طالب علم ہے۔حضور اکرم ﷺ نے بتایا کہ علم حاصل کرنے کی تڑپ میں کوئی آدمی نکلتا ہے تو وہ طالب علم کہلاتا ہے اور طالب علم کا مطلب یہ نہیںہے کہ آپ کسی مدرسہ میں باقاعدہ داخلہ لیں اور کمرہ میں رہیں اور درس گاہ جا کر پڑھیں بلکہ طالب علم کا مطلب یہ ہے کہ علم کی جستجو کرنے والا ہو، مثلاً آپ اپنے گھر سے چل کر آئے ہیں، کیوں آئے ہیں؟ اس لئے کہ علم کی دو باتیں معلوم ہوجائیں۔ آپ میں کا ہر فرد یہاں پر ایک طالب علم کی حیثیت سے آیا ہے۔ طالب علم اور نبیوں کے درمیان جنت میں ایک درجہ کا فاصلہ ہوگا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاںعلم کا کتنا بلند مقام ہے۔ حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
مَنْ أَحَبَّ اَنْ یَّنْظُرَ إِلٰی عُتَقَائِ اللہ مِنَ النَّارِ فَلْیَنْظُرْ إِلَی الْمُتَعَلِّمِیْنَ۔
(کشف الخفاء للعجلونی، ج۲، ص:۴۱۲)
تم میں سے کوئی بھی آدمی ان لوگوںکو دیکھنا چاہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیاہی میں جہنم سے آزادی کاپروانہ عطا فرمادیا ہے تو چاہئے کہ متعلمین کو دیکھے حضور اکرمﷺ قسم کھا کر فرماتے ہیں:
وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ مَا مِنْ مُتَعَلِّمٍ یَّخْتَلِفُ إِلَی الْعُلَمَائ۔
(مجمع الزوائد، ج۶، ص:۱۱۵)
قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے کہ جو طالب علم کسی طالب کے دروازہ پر بار بار جاتا ہے تو کَتَبَ اللہُ لَہٗ بِکُلِّ قَدَمٍ
(ایضاً، المقاصد الحسنہ، ص:۴۸۹)
اللہ تعالیٰ ایک ایک قدم کے بدلہ میں ایک ایک سال کی عبادت لکھتے ہیں۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ :
یَمْشِیْ عَلَی الْاَرْضِ تَسْتَغْفِرُ اللہ (ایضاً)
زمین پر جہاںجہاں اس کے قدم پڑتے ہیں وہ زمین اس کے واسطے بخشش اور مغفرت مانگتی رہتی ہے:
وَیُمْسِیْ وَ یُصْبِحُ عَلَی الْأَرْضِ مَکْتُوْبًا مَّغْفُوْرًا لَّہٗ۔(ایضاً)
زمین پر صبح و شام اس حال میں کرتا ہے اللہ کے یہاں بخشا بخشایا لکھا ہوا ہے اور کل قیامت کے دن وہ طالب علم جب بارگاہِ خداوندی میںپہنچے گا تو اللہ رب العزت کے جلال کی وجہ سے تھرتھر کانپتا ہوا ہوگا مگر اس وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے فرشتے گواہی دیں گے کہ اے اللہ! یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کو تو دنیا ہی میں جہنم سے آزادی کا پروانہ دے چکا ہے۔
یہ علم کا مقام ہے۔ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
یَتَعَلَّمُ الرَّجُلُ بَابًا مِّنَ الْعِلْمِ خَیْرٌ لَّہٗ مِنْ أَنْ یَّکُوْنَ أَبُوْ قُبَیْسٍ ذَھَبًا فَیُنْفِقُہُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ۔
(الاوسط ، رواہ الطبرانی، حدیث:۵۹۱۰)
آدمی علم کا ایک باب پڑھتا ہے، یہ اس کے لئے کہیں زیادہ ثواب اور اللہ کی قربت و نزدیکی کا ذریعہ ہے بہ نسبت اس کے کہ پورے کے پورے ابوقبیس جیسے عظیم الشان پہاڑ کو اللہ تعالیٰ اس کے لئے سونے کا بنادیں اور وہ اس پورے سونے کو اللہ کی راہ میں صدقہ کردے، پھر بھی اس کو اتنا ثواب نہیں ملے گا جتنا کہ ایک باب کے پڑھنے میں اس کو ملتا ہے۔ اسلام نے علم حاصل کرنے کے سلسلے میں کوئی ترغیبی پہلو نہیںچھوڑا۔
قیامت میں عالم کی تکریم
ایک حدیث میںحضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
یَبْعَثُ اللہُ الْعِبَادَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ یُمَیِّزُ الْعُلَمَائَ۔
(الترغیب والترہیب، ج۱، ص:۸۱، مجمع الزوائد، الہثمی، ج۱، ص:۱۳۱)
قیامت کے دن حق تعالیٰ تمام کے تمام انسانوں کو زندہ کردیں گے اور جب سب زندہ ہوجائیں گے تو اس میں جو علم والے اور پڑھے ہوئے لوگ ہیں ان کو الگ کریںگے۔ احادیث کے اندر علماء کا لفظ آتا ہے، اس کا مطلب بالکل یہ نہیں ہے کہ علماء صرف ان کو کہا جاتا ہے جو دین کا علم رکھنے والے لوگ ہیں۔ نہیں، علماء ہر اس طبقہ کو کہا جائے گا جو پڑھے لکھے ہیں، اس لئے کہ عالم کہتے ہیں پڑھے لکھے انسان کو۔ علماء یہ عالم کی جمع ہے۔ لہٰذا کوئی بھی علم کسی نے حاصل کیا یہ علم اللہ کے نزدیک سر بلند اورمعزز علم ہے۔ لہٰذا احادیث کے اندر غیر معمولی طور پر علم کے حاصل کرنے کی ترغیب اور تاکید ہے۔ علم کے متعلق جتنے ارشادات ہیں اگرآپ ان کوجمع کریں تو بڑی بڑی تصنیفات تیار ہوجائیں لیکن عجیب بات ہے کہ اس عظیم ذخیرہ میں صرف چند حدیثیں ایسی ہیں کہ جن میں دین کی قید ہے ورنہ باقی ساری حدیثیں وہ ہیں جن میں بلاقید اورمطلق لفظ علم بولا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کا ہر علم مسلمان کی ذاتی میراث ہے اور مسلمان ہی سب سے پہلے اس کا مالک ہے۔ قیامت کے دن علماء کو ممتاز کرکے اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے:
یَامَعْشَرَ الْعُلَمَائِ إِنِّیْ لَمْ أَضَعْ عِلْمِیْ فِیْکُمْ إِلاَّ لِعِلْمِی بِکُمْ ۔
(المعجم الاوسط للطبرانی:۴۲۶۴، الاحیاء للعراقی، ج۱، ص:۳۲)
میں نے تمہارے اندر جو اپنا علم رکھا وہ اپنے علم کی بناء پر رکھا، اس کے بعد فرمائیں گے :
اِنْطَلِقُوْا فَقَد غَفَرْتُ لَکُمْ۔ (ایضاً)
میں نے اپنا علم جو تمہارے اندر رکھا ہے وہ اس لئے نہیں رکھا کہ تمہیںجہنم میں ڈال کر عذاب دوں۔ اسلئے جائو میںنے تم سب کی مغفرت کردی۔
ایک حدیث میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَلْبَابُ مِنَ الْعِلْمِ یَتَعَلَّمُہٗ الرَّجُلُ خَیْرٌ لَّہٗ مِنَ الدُّنْیَا۔
(طبقات الشافعیہ الکبریٰ، ج۶، ص:۲۸۸)
علم کا ایک باب پڑھ لینا یہ بہتر ہے دنیا و مافیہا سے۔
دوسری حدیث میں فرمایا:
أَلْعُلَمَائُ قَادَۃٌ وَالْمُتَّقُوْنَ سَادَۃٌ وَ مَجَالِسَھُمْ زِیَادَۃٌ۔
(جامع صغیر للسیوطی، ۵۶۸۶)
علماء کے ساتھ بیٹھنا، ان کی مجلسوں میں حاضر ہونا ہر طر ح سے خیر و برکت اور زیادتی علم کا ذریعہ ہے۔
اس امت کو علمی مزاج دیا گیا
اللہ تعالیٰ نے پوری امت کو علمی مزاج دیا ہے، اس علم کی اور علمی مزاجی کی قدر کرنا امت کا فریضہ ہوگا۔ لہٰذا حضور اکرمﷺ نے ارشادات کے ذریعہ امت کو متوجہ کیا کہ میرا اسوہ اختیار کرنا چاہتے ہو، مجھ سے محبت رکھتے ہو، میرے کفش بردار ہونے کا دعویدار بنتے ہو تو علم حاصل کرو، اس لئے کہ علم کے ذریعہ ہی تم میرا مقام بھی پہچان سکتے ہو اورمعرفت خداوندی بھی حاصل کرسکتے ہو۔ علم کے ذریعہ ہی پوری دنیا کے اندراپنے حقوق کو پہچان سکتے ہو۔ علم ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انسان اول حضرت آدم علیہ السلام کو سربلندی عطاء فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سوال کو صفت علم کے ذریعہ خاموش کیا:
إِنِّیْ أَعْلَمُ مَالاَ تَعْلَمُوْنَ۔ (سورہ بقرہ، آیت:۳۰)
تو فرشتے مبہوت ہو کر رہ گئے، اس لئے کہ علم ایسی چیز ہے کہ اس کے ذریعہ جب آپ کسی کو خاموش کریں گے تو اس کے پاس یا رائے گفتگو نہیں رہے گا۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ علم مسلمان قوم کی میراث ہے۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ صرف مدرسوں کے اندر اگر پڑھا ہے تو وہ علم ہے لیکن کوئی کالجوں اوریونیورسٹیوں کے اندر سائنس اور ٹیکنالوجی حاصل کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی مسلمانی کمزور ہوگئی۔ یہ سراسر دھوکہ اور غلط ہے۔
حضور اکرمﷺ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:
أَلْحِکْمَۃُ ضَاَّلۃُ الْمُؤْمِنِ أَیْنَ وَجَدَھَا فَھُوَ أَحَقُّ بِھَا۔
(ترمذی، حدیث ۲۶۸، ابن ماجہ، حدیث ۴۱۶۹)
حکمت مومن کی کھوئی ہوئی پونجی ہے۔ جہاں کہیں ملے گی سب سے پہلے مومن کا حق ہے کہ وہ اس کو اٹھائے۔
حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :
أُطْلُبُوا الْعِلْمَ وَلَوْ بِالصِّیْن۔
(مختصر المقاصد الزرقانی، ص:۱۰۹؍میزان الاعتدال، الذہبی، ج۱، ص:۱۰۷)
علم حاصل کرو اگرچہ اس کے واسطہ تمہیںچین جانا پڑے۔ تو کیا چین کے اندر مدرسے قائم ہوئے تھے؟کیا چین کے اندر علماء و مشائخ بیٹھے ہوئے تھے بلکہ اس کا خاص طور پر ذکر اس لئے کیا کہ وہاں کی جو صنعت ہے اس کو سیکھیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں علم حاصل کرنے اور اس کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
Like this:
Like Loading...