Skip to content
ڈونلڈ ٹرمپ:
سب کا تو کباڑہ کر ڈالا اپنا ہی کباڑہ بھول گئے
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو افسوس ہے کہ انہیں امن کا نوبل انعام کیوں نہیں ملا لیکن اگر دنیا میں ’بڑ بولے پن‘ کا کوئی انعام ہوتا تو ان کو بلا مقابلہ مل جاتا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب وہ اپنے کسی نہ کسی بیان کے سبب سرخیوں میں نہیں ہوتے ہوں ۔ ہندوستان ، پاکستان، افغانستان، ایران، فلسطین ، اسرائیل، یوکرین ،روس اور چین غرض کون سا ملک ایسا ہے جس کے پھٹے میں وہ اپنی ٹانگ نہیں ڈالتے۔ ان کی زبان کے ڈرونز آئے دن دنیا بھر پر برستے رہتے ہیں اور وہ بلاتکلف ہر موضوع اپنے خیالات کا برملا اظہار کرنے سے نہیں چوکتے۔ اس کے باوجود وہ اگر نہیں بولتے تو ان کے اپنے ملک میں جاری و ساری حکومتی شٹ ڈاؤن پر جس نے 27دن مکمل کرلیے ہیں ۔اس معاشی بحران نے وفاقی ملازمین سمیت عام امریکیوں کو بھی بری طرح متاثرکر رکھاہے ۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت میں تقریباً 7لاکھ 30ہزار وفاقی ملازمین بغیر تنخواہ کے کام کر رہے ہیں جبکہ دیگر 6لاکھ 70ہزار ملازمین کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔ ان تنخواہ سے محروم ملازمین کو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے خیراتی لنگرخانوں کا رخ کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے ۔ کل تک عیش کرنے والوں میں سے کوئی اپنا سامان بیچ کر گزارہ کررہا ہے تو کوئی دوسری ملازمت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے دنیا بھر سے روزی روٹی کی تلاش میں امریکہ کا رخ کرنے والوں پر نہایت حقارت کے ساتھ روزگار کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی مگر وہ خود اللہ کی مار کا شکار ہوگیا۔ اس عڈاب میں وہ لوگ بھی مبتلا ہوئے جنھوں نے اس مغرور حکمراں کو منتخب کرکے اقتدار پر فائز کیا تھا اور ایسے لوگ بھی لپیٹ میں آگئے جنھوں نے اس کے خلاف رائے دی تھی ۔ اس بلائے عظیم نے بلا امتیازو تفریق سبھی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وطن عزیز میں اسیّ کروڈ لوگوں کا پیٹ بھرنے کے لیے سرکاری اناج پر انحصار کرنا افسوس کا مقام ہے لیکن یہ ایسے لوگ ہیں جن کےپاس اپنا کاروبار یا ملازمت نہیں ہے۔ اس کے برعکس امریکہ میں تو سرکاری ملازمین پر یہ آزمائش آن پڑی ہے۔ دارالحکومت واشنگٹن اوراس کے قرب و جوار کی ریاستوں میں، یونائٹیڈ کمیونٹی اور کیپٹل ایریا فوڈ بینک جیسی غیر منافع بخش تنظیمیں ضرورت مند وفاقی ملازمین کے خاندانوں کو راشن تقسیم کر رہی ہیں۔ملک کے اندر چونکہ اس سیاسی تعطل کےختم ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے اس لیے عوام کی تشویش بڑھ رہی ہے کیونکہ بیروزگاری کے ساتھ مہنگائی کا آسیب بھی منہ کھولے کھڑا ہے۔
دنیا کا معاشی نظام باہمی انحصار پر چلتا ہے اس لیےیکم اکتوبر سے جاری شٹ ڈاؤن نے زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔ مثال کے طور پر دو دن قبل اتوار کو، ہوائی اڈوں پر عملے کی شدید کمی کے سبب 8 ہزار سے زائد پروازیں تاخیر کا شکار ہوئیں حالانکہ 13 ہزار ایئر ٹریفک کنٹرولرز اور 50 ہزار ٹی ایس اے افسران اب بھی بغیر تنخواہ کے کام کر رہے ہیں لیکن ان سے نہ چستی اور پھرتی کی توقع کی جاسکتی ہے اور نہ سختی کرنا ممکن ہے۔ یہ تو ابتدا ہے امریکی وزیر ٹرانسپورٹ شان ڈفی نے خبردار کیا ہے کہ جزوی تنخواہ پانے والے کنٹرولرزجب اس ہفتے اپنی پوری کمائی کھو دیں گے تو مسائل میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ ان ملازمین کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے دوسری نوکریاں کررہے ہیں جبکہ ایئرپورٹس سے منسلک ہزاروں ملازمین اپنی نوکری چھوڑنے پر غور کررہے ہیں۔ یہ معاملہ اب شہری ملازمتوں سے فوج کی جانب پیر پسار رہا ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں فوج کا انتظام و انصرام وزارت دفاع کے تحت ہوتا ہے لیکن امریکہ جیسے سُپر پاور پر تو حملہ کرنے کا خیال بھی کوئی اپنے دل میں نہیں لاسکتا اس لیے وہاں کے فوجی عالم انسانیت کو کارزار بناتے رہتے ہیں۔ ان کی دیکھ ریکھ کے لیےمحکمۂ جنگ قائم کیا گیا ہے لیکن اب اس پر بھوک اور بیروزگاری کے بادل منڈلارہے ہیں۔ امریکی خزانہ سیکریٹری اسکاٹ بیسنٹ نے خبردار کیا ہےکہ اگر شٹ ڈاؤن جاری رہا تو محکمہ جنگ (پینٹاگون) کے پاس 15 نومبر تک فوجی اہلکاروں کو تنخواہ دینے کیلئے فنڈ ختم ہو سکتاہے۔ انتظامیہ اب تک فوجی تنخواہ کو پورا کرنے کیلئے 130ملین ڈالر کے نجی عطیہ پر انحصار کرتا آیا ہے۔ بیسنٹ کے مطابق ” جو لوگ اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں انہیں تنخواہ کانہیں ملنا شرم کی بات ہے۔“ مقامِ افسوس تو یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے سینیٹ میں فوجی تنخواہ کو محفوظ بنانے کیلئے جوبل پیش کیا گیا تھا وہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان فنڈنگ کی شرائط پر تصادم کے باعث منظور نہیں ہو پایا۔ دنیا کی عظیم ترین سرمایہ دارانہ جمہوریت کی اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہوسکتی ہے؟
امریکہ کے اندر ایسا سیاسی تعطل ٹرمپ کے پچھلے مدت کار کے دوران بھی برپا ہو چکا ہے اور بعید نہیں کہ اس بار اس کی طوالت کا ریکارڈ ٹوٹ جائے۔ ملک میں یہ غیر یقینی صورتِ حال دوبڑی سیاسی جماعتیں ڈیموکریٹس اور ری پبلکن کے درمیان تصادم ہے۔ یکم اکتوبر سے شروع ہونے والے مالی سال کی فنڈنگ میں توسیع کے لیے مطلوبہ ووٹ نہ ملنے یا آسان الفاظ میں بجٹ پاس نہ ہو نے کی وجہ سے یہ تعطل پیدا ہوا ہے۔ اس نازک مرحلے میں بے حس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے سرکاری اداروں میں مزید ملازمتوں کو ختم کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ کوئی فوجی آمر یا ظالم بادشاہ بھی ٹرمپ جیسا خود سر نہیں ہوسکتا ۔ امریکہ میں شٹ ڈاؤن کے دوران ان تمام سرکاری ملازمین کو چھٹی پر بھیج دیا جاتا ہے کہ جن کی خدمات کے بغیر بھی حکومت کے بنیادی امور چل سکتے ہیں مگر یہ نہیں سوچا جاتا کہ اس دوران ان کا گھر کیسے چلے گا یا چولہا کیسے جلے گا؟
1981 سے لے کر اب تک 14 مرتبہ شٹ ڈاؤن ہو چکا ہے اور یہ 15ویں بار ہےلیکن ان میں سے بیشترشٹ ڈاؤن صرف ایک یا دو دن کے لیےتھےتاہم دسمبر 2018 کا شٹ ڈاؤن 34 دن تک جاری رہنے کے سبب جنوری 2019 تک چلا تھااور اس کے سبب امریکی معیشت کو تین ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔امریکی سینیٹ میں اس بار ری پبلکن پارٹی کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ جب تک کانگریس اخراجات کی حتمی منظوری نہیں دے دیتی تب تک یعنی 21 نومبر تک کے لیے فنڈنگ میں توسیع کر دی جائے تاکہ حکومتی ادارے کام جاری رکھ سکیں لیکن سینیٹ نے اس تجویز کو مسترد کردیا کیونکہ وہاں قانون سازی کے لیے 60 ووٹ درکار ہوتے ہیں جبکہ حکمران ری پبلکن پارٹی کے پاس صرف 55 ؍ ارکان ہیں۔اس لیے ٹرمپ سرکار کو سینیٹ میں نئے مالی سال کا بجٹ کو منظور کرانے کے لیے ڈیموکریٹس کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑا۔
ڈیموکریٹس نے اس موقع کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے بل کی حمایت کے عوض اپنی شرائط رکھ دیں اور ری پبلکن پارٹی کو صحت عامہ و دیگر محکموں میں کی جانے والی کٹوتیوں کو واپس لینے پر دباو ڈالنے لگے ۔ اس طرح ڈیموکریٹس اپنی شرائط سے اپنے کم آمدنی والے طبقے کو ہیلتھ انشورنس میں سبسڈی برقرار رکھواکر انہیں خوش رکھنا چاہتے ہیں۔اس کے برعکس ٹرمپ جیسے رعونت پسند انسان کی قیادت میں چلنے والی ری پبلکنز نے اسے اپنی توہین سمجھ کر رعایت دینےسے انکار کردیا۔ اس بار یہ خدشہ بھی ہے کہ شٹ ڈاون کا بہانہ بناکر صدر ٹرمپ ان میں سے کئی محکموں کو مستقل طور پر بند کے ہزاروں ملازمین کو ہمیشہ کے لیے فارغ کردیں۔ ان کو چونکہ دوبارہ امریکہ انتخاب لڑنا نہیں ہے اس لیے بغیر سوچے سمجھے جی بھر کے تباہی مچانا چاہتے ہیں۔ اس طرح دوجماعتوں کے سیاسی کھینچ تان کی قیمت عوام چکا رہے ہیں۔ہندوستان میں اگر نائیڈو اور نتیش اڑ جائیں تو ا یسی صورتحال بن سکتی ہے۔
امریکہ کی خود غرض سیاسی جماعتوں نے اپنی رسہ کشی کے پیش نظر اس بات کی پروا بھی نہیں ہے کہ اس سے نہ صرف لاکھوں وفاقی ملازمین بغیر تنخواہ ملازمت سے معطل ہو جا ئیں گے بلکہ عوام کےمتعدد سرکاری کام کاج بھی رک جائیں گے۔ امریکہ کے اندر بھی ضروری اور غیر ضروری کاموں کی نہایت دلچسپ تفریق ہے مثلاً نیشنل پارکس میں کوڑا اٹھانے کی سرکاری خدمات پر مامورلوگ غیر ضروری لوگ ہیں اس لیے ان کی غیر موجودگی سے غلاظت پھیلے گی جبکہ ٹیکس وصولنے والے ملازمین کو ضروری کے زمرے میں رکھا جاتا ہے تاکہ خزانے کی آمدنی جاری رہے اور سیاستدانوں کو کے مشاہروں پر آنچ نہ آئے ۔ اسی طرح حکمرانوں کا تحفظ کرنے والا فوجی یا طبی و ڈاک کے محکمے کے ملازمین اپنا کام جاری رکھتے ہیں لیکن شٹ ڈاؤن ختم ہونے تک ان بیچاروں کو تنخواہ سے محروم رہنا پڑتا ہے۔ ٹرمپ کی بے حسی پرمجاز کا ایک شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
سب کا تو کباڑہ کر ڈالا اپنا ہی کباڑہ بھول گئے
سب کے تو گریباں پھاڑ دئیے پر اپنا گریباں بھول گئے
Like this:
Like Loading...