Skip to content
جمہوریت کا امتحان: آئینی انحطاط کے دور میں انتخابی عمل کی بقا کا سوال
ازقلم: اسماء جبین فلک
بھارت کی جمہوری عمارت آج اپنی ہی بنیادوں کے کھوکھلے ہونے کے سبب لرز رہی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ستون، الیکشن کمیشن آف انڈیا، جسے آئین کے آرٹیکل 324 نے ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کا مقدس فریضہ سونپا تھا، آج خود اپنی ساکھ اور غیر جانبداری کے بحران سے دوچار ہے۔ بہار کے 2025 اسمبلی انتخابات کا منظرنامہ اس ادارہ جاتی انحطاط کی ایک ایسی تشویشناک تصویر پیش کرتا ہے جہاں اصولوں کی پامالی معمول بن چکی ہے اور محافظ خود تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال اس بنیادی سوال کو جنم دیتی ہے کہ کیا بھارت کا انتخابی عمل محض ایک رسمی کارروائی بن کر رہ گیا ہے جس کی روح دم توڑ رہی ہے؟
بہار میں انتخابی ضابطۂ اخلاق کے نفاذ کے باوجود، حکمران جماعت نے ‘مکھیہ منتری مہلا روزگار یوجنا’ کے تحت خواتین کے بینک کھاتوں میں رقوم منتقل کیں، جو بظاہر فلاحی اقدام تھا مگر اس کا وقت اور طریقہ کار اسے ووٹروں پر اثر انداز ہونے کی ایک منظم کوشش بنا دیتا ہے۔ یہ عمل، جو ووٹنگ کے مراحل سے عین قبل انجام دیا گیا، ضابطۂ اخلاق کی روح پر ایک براہِ راست حملہ ہے۔ جب راشٹریہ جنتا دل نے اس معاملے پر باضابطہ شکایت درج کرائی تو الیکشن کمیشن کی جانب سے فوری اور ٹھوس کارروائی کا فقدان اس شبہ کو تقویت دیتا ہے کہ ادارہ بااثر افراد کے سامنے بے بس ہو چکا ہے۔ یہ محض ایک انتظامی کمزوری نہیں، بلکہ یہ اس گہرے نظام جاتی مسئلے کی علامت ہے جہاں الیکشن کمشنرز کی تقرری کا عمل خود حکومت کے زیرِ اثر ہو، جو ادارے کی غیر جانبداری کو ابتدا ہی میں مجروح کر دیتا ہے۔ جب تقرری کا اختیار مکمل طور پر ایگزیکٹو کے پاس ہو تو ادارے سے غیر جانبدارانہ فیصلے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
یہ رجحان صرف بہار تک محدود نہیں۔ براہِ راست فائدہ کی منتقلی (DBT) جیسی تکنیک، جو کبھی شفافیت اور بہبود کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی، اب انتخابی عمل کو مسخ کرنے والے ایک ہتھیار میں تبدیل ہو گئی ہے۔ مہاراشٹر جیسے دیگر صوبوں میں بھی عین انتخابات سے قبل ایسی اسکیموں کا اعلان اس حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے جہاں ووٹر کو ایک باشعور شہری کے بجائے ایک ایسا گاہک سمجھا جاتا ہے جس کی وفاداری خریدی جا سکتی ہے۔ اس صورتحال کو مزید پیچیدہ انتخابی بانڈز جیسے مالیاتی نظام نے کیا ہے، جس نے حکمران جماعتوں کو بے پناہ مالی برتری عطا کر کے انتخابی میدان کو غیر مساوی بنا دیا ہے۔
بھارت میں جمہوریت کا یہ بحران کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ یہ دراصل اس عالمی لہر کا حصہ ہے جسے "جمہوری پسپائی” (Democratic Backsliding) کہا جاتا ہے۔ ہنگری سے لے کر ترکی اور برازیل تک، ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح مقبولیت پسند رہنما آئینی اداروں کو منظم طریقے سے کمزور کر کے، عدلیہ اور میڈیا پر دباؤ ڈال کر، اور انتخابی نظام میں ہیرا پھیری کر کے اپنی طاقت کو دوام بخشتے ہیں۔ بہار میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اسی عالمی رجحان کا ایک مقامی عکس ہے، جہاں قانون کی حکمرانی کو طاقت کی حکمرانی سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس کی بدترین مثال سیاست میں بڑھتی ہوئی مجرمانہ سرایت ہے۔ جب قتل اور اغوا جیسے سنگین الزامات میں ملوث امیدوار (جیسا کہ اننت سنگھ کا معاملہ، جن پر پچاس سے زائد مقدمات درج ہیں) قانون کی گرفت سے آزاد انتخابی مہم چلاتے ہیں اور ادارے خاموش رہتے ہیں، تو یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ انتخابی عمل پر ووٹ کی نہیں، بلکہ خوف اور پیسے کی حکمرانی ہے۔
ان حالات میں، جب عوام کا اداروں پر سے اعتماد اٹھنے لگے (جیسا کہ لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس کے سروے بھی ظاہر کرتے ہیں)، تو جمہوریت کی بنیادیں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کا یہ قول آج پہلے سے کہیں زیادہ متعلقہ ہے کہ "غیر جانبداری کا تاثر اتنا ہی اہم ہے جتنی اس کی حقیقت۔”
تاہم، مایوسی مسئلے کا حل نہیں۔ اس انحطاط کو روکنے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے ٹھوس اور جرأت مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلا قدم الیکشن کمیشن کی خود مختاری کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن کمشنرز کی تقرری ایک آزاد کالجیم کے ذریعے عمل میں لائی جائے، جس میں چیف جسٹس آف انڈیا اور قائدِ حزبِ اختلاف شامل ہوں، تاکہ تقرری کا عمل حکومتی اثر سے پاک رہے۔ دوم، ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ (ضابطۂ اخلاق) کو محض ایک رہنما اصول کے بجائے قانونی حیثیت دی جائے اور اس کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں، بشمول امیدوار کی نااہلی، نافذ کی جائیں۔ آخر میں، یہ جنگ صرف اداروں کی نہیں، بلکہ عوام کی ہے۔ ایک باخبر شہری معاشرہ، ایک آزاد میڈیا اور ایک نڈر عدلیہ ہی وہ آخری دفاعی فصیل ہیں جو جمہوریت کو آمریت میں بدلنے سے روک سکتے ہیں۔ اگر آج ان اداروں کی بقا کے لیے آواز نہ اٹھائی گئی تو تاریخ ہمیں اس مجرمانہ خاموشی کے لیے کبھی معاف نہیں کرے گی، اور آنے والی نسلوں کے لیے جمہوریت محض کتابوں میں پڑھا جانے والا ایک لفظ بن کر رہ جائے گی۔
Like this:
Like Loading...