Skip to content
رزق کے سجدے
ازقلم:ڈاکٹر سراج انوار، امراؤتی (مہاراشٹر)
اکتوبر کی وہ دوپہر تھی جب سورج بھی تھک کر ڈھلنے لگا تھا۔ شہر کی سڑکوں پر زندگی ہمیشہ کی طرح اپنی تیز رفتاری سے بھاگ رہی تھی۔ میں نئے جوتوں کو خریدنے کی تلاش میں نکلا تھا، پرانے جوتے پھٹ چکے تھے، اور آج کل کے زمانے میں پھٹے جوتوں کے ساتھ کوئی آپ کی عزت نہیں کرتا۔
ایک دکان کے باہر رکا۔ "پرفیکٹ بوٹ ہاؤس” لکھا تھا۔ اندر قدم رکھا تو ایک نوجوان، شاید تیس بتیس سال کا، سامنے آیا۔ روشن چہرہ، داڑھی سنوری ہوئی، لیکن آنکھوں میں ایک عجیب سی اداسی تھی۔
"بتائیے سر، کیسے جوتے چاہیے؟” اس کی آواز میں وہ نرمی تھی جو عموماً عام دکانداروں میں نہیں ملتی۔
اس نے مجھے مختلف جوتے دکھائے۔کبھی براؤن لیدر کے، کبھی سیاہ چمکدار، کبھی ہلکے کینوس والے۔
اسے دیکھ کر نہ جانے کیوں دل میں ایک بےچینی سی پیدا ہوگئی تھی۔
میں نے سبھی جوتے اچٹتی ہوئی نظر سے دیکھے، پھر مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں نے پوچھا۔ "بھائی، آپ کا نام؟”
"عبدالقادر۔” اس نے کہا اور مسکرا دیا، لیکن اس مسکراہٹ کے پیچھے ایک عجیب سا درد دکھائی دے رہا تھا۔
"تعلیم؟”
"جی… مدرسے سے پڑھا ہوں۔ والد صاحب کی شدید خواہش تھی کہ میں عالم بنوں۔ پھر اوپن یونیورسٹی سے بی اے بھی کر لیا۔ ” اس نے جوتوں کا ڈبہ سنبھالتے ہوئے کہا، جیسے کسی اور کی کہانی سنا رہا ہو۔
میرا دل بیٹھنے لگا۔ "یہاں کتنا عرصہ ہوا؟”
"پچھلے تین مہینے سے یہاں کام کر رہا ہوں ۔” اس نے کہا اور نیچے دیکھنے لگا۔
"اور کوئی کام نہیں ملا آپ کو؟”
عبدالقادر رک گیا۔ اس کے ہاتھ جوتے کے ڈبے پر جم گئے۔ کچھ دیر خاموش رہا، پھر بولا۔
"مسجد کا امام تھا میں۔” اس نے آہستہ سے کہا، جیسے کوئی پرانا زخم کریدا ہو۔ "محلے کی مسجد میں اپنی خدمات انجام دیا کرتا تھا۔”
میری سانس رک گئی۔
"صبح فجر کی اذان سے لے کر عشاء تک… مسجد میرا گھر تھا۔ قرآن کی تلاوت، بچوں کو ناظرہ پڑھانا، جمعہ کا خطبہ۔” وہ بولتا گیا، اس کی آنکھوں میں مسجد کے مینار جیسے اب بھی جھلک رہے تھے۔
"پھر کیا ہوا؟” میں نے پوچھا۔
عبدالقادر نے ایک گہری سانس لی۔
"جناب، جانتے ہیں؟ مسجد میں ویسے تو لوگ نماز کے لیے آتے تھے، لیکن مجھ سے بات کرتے وقت… جیسے میں ان کاکوئی غلام یا نوکر ہوں۔ امام صاحب، جلدی نماز پڑھائیں، دکان پر جانا ہے۔ امام صاحب، آپ کی آواز بہت دھیمی تھی آج۔ امام صاحب، آپ بہت لمبی سورت پڑھتے ہیں۔”
اس کی آواز کانپ گئی۔
"ایک دن… ایک عمر رسیدہ صاحب نے کہا، ‘تمہیں دس ہزار مل رہے ہیں، بہت ہیں۔ صرف پانچ وقت کی نماز ہی تو پڑھاتے ہو تم۔ میں نے کہا، محترم، میں صبح کی اذان سے لے کر رات تک مسجد میں رہتا ہوں۔ بچوں کو پڑھاتا ہوں، مسجد کی صفائی بھی کرتا ہوں۔ تو بولے، یہ تو تمہاری ڈیوٹی ہے، اب کیا اس کا الگ سے پیسہ چاہیے تمہیں؟”
میں خاموش کھڑا تھا۔ مانو میرے حلق میں جیسے کوئی گانٹھ پڑ گئی ہو۔
"پھر ایک دن مسجد کمیٹی کی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں نئے انتخابات ہوئے۔” عبدالقادر بولتا رہا۔ ” نئے صدر آئے اور بولے، امام صاحب، اب سے سات ہزار ملیں گے۔میں نے کہا، صدر صاحب، یہ کیسے ہوگا؟ گھر کا کرایہ، بچوں کا اسکول، ادویات… وہ بولے، اللہ پر توکل کرو، رزق اللہ دیتا ہے۔”
اس کی آنکھیں ڈب ڈبا گئیں، اس نے انہیں روکنے کی ناکام کوشش کی۔
"جناب، میں نے توکل کیا۔ دو مہینے گھر کا کرایہ لیٹ ہوا۔ بچوں کی اسکول کی فیس رک گئی۔ بیوی جب اچانک بیمار پڑی تو دوا خریدنے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ جب ایک صاحب سے مدد مانگی تو بولے، امام صاحب، آپ لوگ بس ہاتھ پھیلانا جانتے ہیں۔”
وہ رک گیا۔ شاید بولنے کی ہمت نہیں رہی۔
"اور پھر؟” میں نے آہستہ سے پوچھا۔
"پھر میں نے استعفیٰ دے دیا۔” اس نے کہا۔ "صدر صاحب نے کہا، ‘جاؤ، تمہاری جگہ سو مولوی مل جائیں گے۔”
میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
"اور یہاں کیسے پہنچے؟” میں نے پوچھا۔
"ایک دوست نے بتایا، یہاں نوکری مل سکتی ہے۔ میں آیا۔ مالک نے پوچھا، کیا کام آتا ہے؟’ میں نے کہا، قرآن پڑھایا ہے۔وہ ہنسے، یہاں قرآن نہیں، جوتے بکتے ہیں۔ لیکن تم پڑھے لکھے لگتے ہو،جلدی کام سیکھ جاؤ گے۔”
"تنخواہ کتنی ملتی ہے؟” میں نے پوچھا۔
"سترہ ہزار۔ اور فروخت پر کمیشن الگ۔” اس نے کہا۔
"اور مسجد میں؟”
"دس ہزار۔”
میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔
عبدالقادر جوتوں کا ڈبہ اٹھانے لگا۔ "آئیے، میں آپ کو پہنا دیتا ہوں۔”
میں نے اس کے ہاتھ سے ڈبہ لے لیا۔ "نہیں بھائی، میں خود دیکھ لوں گا۔”
"لیکن یہ میری ڈیوٹی ہے۔” اس نے کہا۔
"نہیں۔” میری آواز کانپ گئی۔ "یہ ہاتھ… یہ ہاتھ کبھی قرآن پکڑتے تھے۔صحیح بخاری اور مشکوٰۃ کے صفحات پلٹتے تھے۔ یہ ہاتھ مسجد میں امامت کے لیے اٹھتے تھے۔ میں… میں ان ہاتھوں کو اپنے پیروں پر لگانے نہیں دے سکتا۔”
عبدالقادر کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
"کیا آپ کا دل نہیں کرتا کہ آپ کو مسجد میں ہونا چاہیے؟” میں نے پوچھا۔
اس نے سر ہلایا۔ "ہر روز۔ جب بھی یہاں اذان سنتا ہوں، تو دل کہتا ہے، مجھے وہاں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن پھر سوچتا ہوں، کیا فرق پڑتا ہے؟ مسجد میں میری قیمت دس ہزار تھی، یہاں سترہ ہزار ہے۔”
میں نےخاموشی سے جوتے لیے اور بل ادا کیا۔ دکان سے نکلتے وقت ہمت کر کے ایک بار مڑ کر دیکھا۔ عبدالقادر شیشے کے شیلف صاف کر رہا تھا۔
دکان سے باہر قدم رکھتے ہی شہر کا ہنگامہ کانوں میں گونج اٹھا۔ سڑک پر گاڑیوں کی بھگدڑ تھی، اور لوگ تیز تیز چل رہے تھے۔
گھر پہنچا تو جوتے باکس میں بند رکھ دیے۔ پہننے کا دل نہیں ہوا۔ ہر بار جب ان جوتوں کو دیکھتا ہوں، عبدالقادر کی آنکھیں یاد آ جاتی ہیں۔
ادھر شہر میں کہیں کسی مزار پر، کوئی مجاور لاکھوں کے نذرانے گن رہا تھا۔ کسی پیر صاحب کی گاڑی چمک رہی تھی۔ کسی خطیب کا بینک بیلنس بڑھ رہا تھا۔اور جوتوں کی دکان میں، عبدالقادر اگلے گاہک کا انتظار کر رہا تھا۔
شاید وہ اب بھی ہر نماز سے پہلے دل ہی دل میں اذان دیتا ہو۔شاید ہر جوتے کے ڈبے میں وہ اپنے رب کے نام کوئی دعا چھپا دیتا ہو۔وقت نے اس کے سجدے بدل دیے تھے، مگر نیت نہیں۔وہ اب بھی سجدہ کر رہا تھا۔
فرق بس اتنا تھا کہ اب وہ رزق کے سجدے تھے۔
***
Like this:
Like Loading...
بہترین۔دل کو چھو لینے والی کہانی۔ایسے عبدالقادر بہت سے ہیں۔لیکن معاشرے کا کڑوا سچ یہی ہے کہ ان کی قدر کرنے والے نہیں ہے۔اللہ آپ کے قلم کو اسی طرح روانی عطا کرے۔امین