Skip to content
بہار میں اب علاقائی وقار کی جنگ
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
بہار کی انتخابی مہم میں تیجسوی یادو کے ایک اہم انکشاف نے سارے بہاریوں کو چونکا دیا۔ انہوں نے کہا کہ امیت شاہ نے انتخاب میں دھاندلی کی خاطر گجرات سے دس اعلیٰ افسران کو بلوایا ہے۔ اس کے بعدوہ وہاں موجودمجمع سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ لوگ ان لوگوں کو بہار کا انتخاب لوٹنے کی اجازت دیں گے؟ عوام نے غصے سے نا کہا تو انہوں نے سوال کیا کہ جو ووٹ چوری کرائے گا اسے سزا ملنی چاہیے یا نہیں؟ اس بار عوام سزا دینے کے لیے تیار ہے، چھوڑا نہیں جائے گا۔ سارے لوگ چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ ضرور ملنی چاہیے۔ اس ماحول سازی کے بعد تیجسوی کی دہاڑ سنائی دیتی ہے ’ جو بھی افسر امیت شاہ کے ساتھ مل کر گڑ بڑ کرنے کی کوشش کرے گا اس کو اتنی کڑی سزا ملے گی کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتااور دھمکاتے ہیں ابھی بھی میری نصیحت ہے امیت شاہ کے چیلوں اور چمچوں بے ایمانی کا ’ب‘ بھی دماغ میں مت لانا ۔ اس طرح تیجسوی نے انتخابی مہم کو علاقائی وقار کا مسئلہ بنا دیا ۔ کسی بھی علاقائی جماعت کے لیےیہ کام سہل ہوتا ہے مگر آر جے ڈی کے سامنے چونکہ نتیش کمار بھی بہاری ہی تھے اس لیے وہ مدعا چل نہیں پاتا تھا مگر بی جے پی نے جب سے نتیش کو ہٹانے کا اشارہ دیا آر جے ڈی کا کام آسان ہوگیا ہے۔
بی جے پی کے ستارے فی الحال گردش میں ہیں۔ اس کا ثبوت ابھی حال میں سامنے آیا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو احساس ہے کہ ملک میں دلتوں کے خلاف ہونے والے پے درپے مظالم سے اس طبقہ میں بی جے پی کے تئیں ناراضی ہے۔ کسی ملک میں اگر دلت چیف جسٹس پر جوتا چلانے والے برہمن کا بال بیکہ نہ ہو اور ڈی جی پی رینک کے دلت آئی پی ایس افسر کو خود کشی پر مجبور کردیاجانا جائے تو کسی بھی قوم کے اندر مایوسی کا پیدا ہونا فطری عمل ہے۔ اس لحاظ سے مودی جی نے کرپوری ٹھاکر اور سیتا رام کیسری کے ساتھ کانگریس کی بدسلوکی کو بھنانے کا ارادہ کیا۔ اس معاملے میں مودی بھول گئے کہ سنگھ پریوار نے کرپوری ٹھاکر کو جو گالیاں دی تھیں اور مخالفت کی تھی وہ لوگوں کو اب بھی یاد ہے۔ سیتا رام کیسری کو یاد کرنے والے مودی جی شاید نہیں جانتے کہ ان کی پارٹی نے بھی ایک دلت بنگارو لکشمن کو اپنا صدر بنایا تھا۔ ان کو سازش کے تحت رشوت میں پھنسا کر ہٹایا گیا۔ وہ جیل بھی گئے اور جس وقت انتقال ہوا تو ضمانت پر تھے۔ یوگی جیسوں کو اپنے مقدمات کو واپس لینے کی اجازت دی گئی مگر دلت پارٹی کا صدر بدعنوانی کا کلنک لگائے دنیا سے گیا۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے بنگارو کے بعد کسی دلت کو پارٹی کا صدر نہیں بنایا گیا جبکہ کانگریس کے قومی صدر ملک ارجن کھرگے سمیت بہار میں بھی پارٹی کی صدارت دلت کے ہاتھوں میں ہے۔
مودی جی جس جلسۂ عامکے اندر سیتا رام کیسری کی ہمدردی میں مگر مچھ کے آنسو بہا رہے تھے وہاں ایک عجیب و غریب واقعہ نے ان کو بے نقاب کردیا۔ یہ بات ساری دنیا جاتی ہے کہ این ڈی اے خیمہ میں نتیش کمار اور چراغ پاسوان گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ اس روز اسٹیج پر مودی سمیت دونوں لوگ موجود تھے تو ناظم اجلاس نے خطاب کے لیے اچانک چراغ پاسوان کے نام کا اعلان کردیا۔ اس پر نتیش کمار نے چہرے سے اپنی ناراضی کا اظہار کیا تو نریندر مودی نے مداخلت کرتے ہوئے اناونسر کو اشارے سے منع کردیا۔ اس طرح بھری محفل میں چراغ پاسوان کی توہین کردی گئی اور سیتا رام کیسری کے لیے بہائے جانے والے سارے مگر مچھ کے آنسو یکلخت خشک ہوگئے۔ لوگوں نے دیکھ لیا کہ بی جے پی اپنے ساتھ والے دلت رہنماوں کے ساتھ کیسا ناروا سلوک کرتی ہے ؟ اس پر احتجاج کرنے کے بجائے خود چراغ پاسوان نے صفائی دی کہ ان کا گلا خراب تھا مگر سوال یہ ہے کہ اس کی پیشگی اطلاع اناونسر کو کیوں نہیں دی گئی۔ وزیر اعظم کو چراغ کے بیٹھے ہوئے گلے کا پتہ کیسے چل گیا؟ وہ خود بھی تو مائیک پر آکر معذرت کرسکتے تھے ۔ انہیں روکا کیوں گیا؟
اس خطابِ عام میں آر جے ڈی کے نشان لال ٹین کو تمسخر اڑانے کے لیے مودی نےیہ تماشا کیا کہ لوگوں سے اپنے موبائل کی ٹارچ جلانے کے لیے کہا اور جب میدان اس سے جگمگانے لگا تو سوال کیا کہ اس دور میں لالٹین کی کیا ضرورت؟ قدرت کا کرنا یہ ہوا کچھ دور میں اسٹیج کی بتی چلی گئی۔ پھر کیا تھاحرامخور اور احسان فراموش جیسے مکالمات کے لیے مشہور گری راج سنگھ اسٹیج پر لائٹ کے لیے چلاّتے سنائی دئیے ۔ وہاں کچھ دیر میں لائٹ نہ آتی تو لالٹین کی ضرورت پڑجاتی ۔ بہاری نوجوانوں کو ریل بنانے کی ترغیب دےکر’ وکٹری‘(کامیابی) کا اشارہ کرنے والے وزیر اعظم سے تیجسوی نے کہا کہ ’گجرات میں فیکٹری اور بہار میں وکٹری‘ نہیں چلے گا۔ اس کے بعد امیت شاہ کے منہ سے نکل گیا کہ بہار میں صنعتوں کے لیے زمین نہیں ہے جبکہ نتیش سرکار سیکڑوں ایکڑ زمین ایک روپیہ میں اڈانی کے سپر د کرچکی ہے۔ قدرت کا کرنا یہ ہے دوران تقریر جیسے ہی امیت شاہ نے کشمیر کا نام لیا مائک بند ہوگیا۔ اس کے بعد وہ دوسرے پر گئے پھر پہلے پر لوٹ آئےاس طرح امیت شاہ سے مشیت نے وادی کشمیر میں دستورِ زباں بندی نافذ کرنے کا انتقام لے لیا ۔
امیت شاہ کے سارے حربے ناکام ہوگئے تو وہ پھر سے ہندو مسلمان پر لوٹ آئے اورمرحوم شہاب الدین کے بیٹے اسامہ کو مجرم ٹھہرا کر آر جے ڈی پر جرائم کو فروغ دینے اور جنگل راج کو مضبوط کرنے کا الزام لگانے میں جٹ گئے۔ اس معاملے میں امیت شاہ کی لمبی چوڑی فہرست کے اندر ایک بھی الزام اسامہ کے خلاف نہیں تھا تو کیا شہاب الدین کا بیٹا ہونا اس کا قصور ہے؟ کیا کسی کو اس کے باپ کی غلطی کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ وہ خود تو اپنے بیٹے کو جئے شاہ کو بی سی سی آئی کا صدر بناکر مزہ لوٹنے کا موقع دیتے ہیں اورشہاب الدین کے بیٹے کو والد کے جرم میں سزا دینا چاہتے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ا میت شاہ کے جنگل راج والے الزام کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے تیجسوی یادو نے خود وزارتِ داخلہ سے شائع ہونے والی این سی آر بی کی رپورٹ کے اعدادوشمار کا حوالہ دے کر بخیے ادھیڑ دئیے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ جرائم اترپردیش میں ہوتے ہیں اور بہار کا دوسرا نمبر ہے ۔ اس کے علاوہ اوپر سے دس ریاستوں کی فہرست بنائی جائے تو ان میں مغربی بنگال کے علاوہ ساری ڈبل انجن سرکاریں ہیں۔ جرائم میں فی لاکھ کا اوسط نکالا جائے تو دہلی سب سے اوپر ہے اور وہاں بھی اتفاق سے بی جے پی اقتدار میں آچکی ہے اس لیے بہار میں جنگل راج کے مقابلے بلڈوزر راج کو روکنے کا نعرہ بلند کیا گیا۔
بہار کے اندر نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد بیروزگار ہے۔ این ڈی اے انہیں ایک ایسے جنگل راج سے ڈرارہاہے جسے انہوں نے نہیں دیکھا ۔ اس کے برعکس تیجسوی اور راہل کی نوجوان جوڑی کیسے ان کا دل جیت رہی ہے اس کا نمونہ سارن کے جلسۂ عام میں سامنے آیا۔ وہاں پر تیجسوی یادو نے کہا کہ، "میری عمر کچی ہے، لیکن زبان پکی ہے۔ میں جو کہتا ہوں وہ پورا کرتا ہوں، لوگ میرے وعدوں پر بھروسہ کر سکتے ہیں اس بات کی گواہ بہار کی عوام ہے۔” اپنے مختصر سے عرصۂ اقتدار کا حوالہ دے کر تیجسوی یادو بولے میں نے 17 ماہ میں نوجوانوں کو نوکری دینے کا کام کیا ہے۔ مہاگٹھ بندھن کی حکومت بننے کے بعد بھی نوکری دی جائے گی۔ حکومت سازی کے لیے 20 دن میں قانون بنا کر بغیر سرکاری نوکری والے خاندانوں کو 20 ماہ کے اندر میں ملازمت دی جائے گی ۔ اس خطاب عام میں تیجسوی یادو کی قابلِ رشک خود اعتمادی سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انہوں نے کامیابی خوشبو سونگھ لی ہے ۔
بہار کے اندرکانگریس ہائی کمان کے اشوک گہلوت نے کہا بی جے پی نے دیش کو لوٹا ہے۔ اس کے پاس الیکٹورل بانڈ کاپیسہ ہے۔ سچ تو یہ ہے بی جے پی کے پاس الیکشن کمیشن اور ای ڈی جیسے ادارے بھی ہیں مگراس تناظر میں پچاس سال پرانی فلم دیوار کا مکالمہ یاد آتا ہے۔ اس میں امیتابھ بچن پوچھتا ہے:آج میرے پاس بلڈنگ ہے، پراپرٹی ہے، بنک بیلنس ہے، بنگلہ ہے، گاڑی ہے، کیا ہے تمہارے پاس ہے؟اس کے جواب میں ششی کپور کہتا ہے ’میرے پاس ماں ہے‘۔ اسی طرح مودی کے پاس سب ہے مگر تیجسوی کے ساتھ عوام ہے اور رائے دہندگان کا یہ حال ہے کہ ’’دل کے بازار میں دولت نہیں دیکھی جاتی‘‘۔ فی الحال عمران پرتاپ گڑی انڈیا محاذ کی تشہیر کے لیے بہار میں ہیں ۔ انہوں نے کہا یہ انتخاب تبدیلی کے لیے ہے اس لیے بچھوارا کے رائے دہندگان 66 سالہ وزیر کھیل سریندر مہتا کے بجائے 31 سال کےشیوپرکاش غریب داس کو منتخب کریں کیونکہ وہی بہتر وزیر کھیل ہوسکتے ہیں ۔ عمران پرتاپ گڑی نے کہا ’جہاں جوانی چلتی ہے وہاں زمانہ چلتا ہے‘ اور یہی حقیقت ہے کہ زمانہ مودی اور شاہ کو چھوڑ کر راہل اور تیجسوی کے ساتھ چل رہا ہے۔
Like this:
Like Loading...