Skip to content
پاسبانِ ملت حضرت پیر شبیر احمد صاحبؒ وہ جو اکیلے چلے مگر کارواں بنا گئے
اثر خامہ: شیخ محمود الرحمن صاحب قاسمی گنٹوروی
متعلم تخصص فی الفقہ الاسلامی (تکمیل افتاء)
ازہرہند دارالعلوم وقف دیوبند
الحمدللہ رب العالمین وصلوۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین وعلی الہ و صحابہ اجمعین
آنکھیں بھیگو کے دل کو ہلا کر چلے گئے
ایسے گئے کہ سب کو رلا کر چلے گئے
افتاق کی شان علم و ہنر کے وقار تھے
سادہ مزاج زندہ دلی کی بہار تھے
ہر ایک محفل کو سونی بنا کر چلے گئے
ایسے گئے کہ سب کو رلا کر چلے گئے
محترم پاسبان قوم و ملت حضرت پیر شبیر احمد صاحب صدر جمیعت علماء تلنگانہ و آندھراپردیش بر صغیر ہند کے ان باکمال اور بافیض علماء میں سے تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی دین اسلام ملی وحدت اور جمعیت علماء کے پیغام کے فروغ کے لیے وقف کر دی
آپ کی شخصیت میں اخلاص استقامت سادگی بصیرت ملت کی فکر اور دینی غیرت حسین امتزاج کے ساتھ جلوہ گرتھی
اپ حضرت والا کا تعلق ریاست تملناڈو کے معروف گاؤں کنڈامنلگم سے تھا اور آپ نے وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی کم عمری ہی سے دینی رجحان نمایاں طور پر ظاہر تھا دین سے والہانہ محبت ذکر و عبادت سے شغف اور علماء و صلحاء سے عقیدت نے اپ کی شخصیت کو ابتدائی ہی میں ایک روحانی سمت عطا کیا زندگی کے ابتدائ ایام میں اپ نے فیصلہ کر لیا کہ اپ کی زندگی کا مقصد دین متین کی خدمت اور ملت اسلامیہ کی رہنمائی تو وہیں اپ نے اپنے وجود کو دعوت تنظیم ملت کی اصلاح اور خدمت خلق کے لیے وقف کر دیا
ابتدأً اپ نے مسجد رسالہ خورشید جاہی مشیرآباد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دہی کے ساتھ درس و تدریس ہی سے وابستہ رہے اپ کا ہر لمحہ لوگوں کی اصلاح و رہنمائی اور ملت کے اتحاد کے لیے وقف تھی اپ کی گفتگو میں تاثیر انداز میں وقار اور دل میں درد امت جھلکتا تھا ہزار لوگ اپ کی مجلسوں اور ملاقاتوں سے متاثر ہو کر جمیعت علماء کے قافلے میں شامل ہوئے
حضرت رحمت اللہ علیہ کی جمعیت علماء سے وابستگی محض رسمی نہیں تھی بلکہ یہ عقیدہ ومشن اور ملت کے اتحاد کے لیے تھا جب متحدہ اندھرا پردیش میں جمیعت علماء کا وجود کمزور یا غیر منظم تھا تو اس وقت حضرت حافظ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے گلی در گلی گاؤں درگاؤں محلہ در محلہ بستی در بستی مسجد در مسجد جا کر جمیعت علماء کا تعارف کرایا وہ اکیلے نکل جاتے علماء وائمہ کرام سے ملاقات کرتے تنظیم کی افادیت سمجھاتے اور نئی نئی شاخیں قائم کرتے ہیں اگر اپ قارئین حضرات حضرت رحمۃ اللہ علیہ ملی اور سماجی فکر کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اس شعر کے ذریعے غور کریں
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا جذبہ ایسا تھا کہ لوگ حیران رہ جاتے نہ کوئی سیاسی مفاد نہ شہرت کا لالچ بس جمیعت علماء کے نام پر خلوص وایثار اور مسلسل محنت ان کی قربانیوں اور لگن کے نتیجے میں جمیعت علماء نے اندھرا پردیش میں اپنے مضبوط نقوش قائم کیے
وہ وقت اگیا کی جمیعت علماء دو گروہ ہو گئی حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب اور حضرت مولانا محمود اسعد مدنی صاحب میں تقسیم ہو گئی مگر حضرت رحمت اللہ علیہ نے اپنی وفاداری کو جمیعت کے اصولی مشن کے ساتھ وابستہ رکھا وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے ہماری وابستگی شخصیات سے نہیں بلکہ اصول سے ہے اور جمیعت کا اصول ملت کا تحفظ ہے بس یہی نظریات کی استقامت ان کے وقار کی بنیاد بنی حضرت رحمت اللہ علیہ نے ملت کے مسائل کو صرف مذہبی پلیٹ فارم تک محدود نہیں رکھا بلکہ سیاسی و سماجی میدان میں بھی متحرک کردار رہا ہے اسی کی ایک مثال اپ حضرات کے مطالعے میں لانا چاہتا ہوں جو اج بڑے بڑے ایوانوں میں کہا جاتاہے مسلم اقلیتوں کو چار (پرسنٹ) ریزرویشن ملا تھا وہ انہی حضرت رحمت اللہ علیہ کی خدمت کا ثمرہ ہے جس کو ہم انگریزی میں اس لقب سے نوازے تو
(Father of 4% Muslim Reservation) مغالطہ نہیں ہوگا
یقیناحال فی الحال میں جو تعزیتی پروگرام حیدراباد میں منعقد ہوا ہے جس کی صدارت خود جانشین فدائے ملت حضرت مولانا محمود اسعد مدنی صاحب صدر جمیعت علماء ہند نے کی تھی ان کی شخصیت کے بارے میں یہ جملہ کہا تھا بعض صوبوں میں ہمیں یہ محسوس ہوا کہ کاش ہمیں یہاں حضرت پیر شبیر احمد صاحب رحمت اللہ علیہ جیسا کوئی موجود ہوتا تو اِدھر اُدھر دھکے نہ کھانے پڑتے یہ صدر جمیعت علماء کے الفاظ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت کے بارے میں تھے ایک بات آپ حضرات کے روبرو کراتے چلوں پیر صاحب کے تعلقات جس طرح جانشینِ فدائے ملت کے ساتھ تھےاس سے زیادہ گہرے اور مضبوط تعلقات حضرت فدائے ملت مولانا اسعد مدنی صاحب رحمتہ اللہ کے ساتھ بھی تھے ان کی دینی بصیرت متوازن سوچ اور غیر متنازعہ شخصیت نے انہیں ہر طبقے میں قابل احترام بنایا
اس حیثیت سے اپ نے ملت کی تعلیمی وسماجی مسائل کو ایوان میں بلند کئے مدارس مساجد اوقاف اور اقلیتی فلاح کے امور پر اپ نے بے شمار نمائندگی کی مزید برآں اپ ریاستی حج کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے اس منصب پر اپ نے حجاج کرام کی سہولت تربیت رہائش اور رہنمائی کے سلسلے میں گراں قدر خدمت انجام دیے اپ کی کوششوں سے حج کمیٹی کا نظام بہتر ہوا انتظام میں شفافیت ائی اور خدمت حجاج کو عبادت کا درجہ دیا گیا اپ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے جو اللہ کے مہمانوں کی خدمت کرتا ہے وہ دراصل اللہ کے قرب کا طلبگار ہوتا ہے
یہی جذبہ حضرت رحمت اللہ علیہ کے عمل کا محور تھا حضرت رحمت اللہ علیہ اپنی زندگی کے اخری ایام میں تقریبا دو سال تک علیل رہے اگرچہ بڑھاپے نقاہت وکمزوری کی وجہ سے بول چال محدود ہو گئی تھی لیکن ایمان وصبر اور تسلیم ورضا کی کیفیت اپ کے چہرے سے عیاں تھی حضرت رحمت اللہ علیہ ہر انے والے کو یہی نصیحت کرتے تھے کہ اللہ کے لیے کام کرتے رہو منصب وکمال یا تعریف کے انتظار میں نہ رہو لیکن جب 20 اکتوبر بروز بدھ 2025 کی وقت فجر جب حضرت رحمت اللہ علیہ کی وفات کی خبر موصول ہوئی تو ایسا لگ رہا تھا جیسا کہ اسمان سے کوئی ایسا ستارہ ٹوٹ کر گر گیا ہو جیسے جیسے خبر موصول ہوتی گئی تو پورے علاقے میں بالخصوص پورے متحدہ اندھرا پردیش میں ماتم اور سناٹا چھا گیا پورا علاقہ ایک عظیم شخصیت سے محروم ہو گیا اللہ تعالی حضرت رحمت اللہ علیہ کا نعم البدل عطا فرمائے اللہ تعالی حضرت کی مغفرت فرمائے اور درجات کو بلند فرمائے اور ان کے قائم کردہ کارہائے خیر کو تا قیامت جاری و ساری رکھے اور اللہ تبارک و تعالی ان کے پسماندگان اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے بالخصوص حافظ پیر خلیق احمد صابر صاحب دامت برکاتہم کو اللہ تعالی صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کو حضرت کا حقیقی جانشین بنائیں آمین ثم امین یا رب العالمین بس انہی جذبات اور دعائے کلمات سے میں اپنے مضمون کو اس شعر کے ساتھ قلم بند کرتا ہوں
کبھی فرصت سے سن لینا میری بڑی داستاں
پاسبان قوم ملت آہ ہم سے رخصت ہو گئے
Like this:
Like Loading...