Skip to content
موہن بھاگوت : کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
آر ایس ایس نے اپنی عمر کے سو سال مکمل کرلیے اور اپنا صد سالہ جشن منارہی ہے۔ اس طویل عرصے جو کچھ ہوا اس سے قطع نظر یہ تنظیم زبردست فکری انتشار وتضاد کا شکار ہوگئی ۔ یہاں تک کے وزیر اعظم نے امسال یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے اس کی تعریف میں پہلا جملہ یہی کہا کہ یہ دنیا کی سب سے بڑاغیر سرکاری ادارہ (این جی او)ہے۔ انقلابی تحریکات کے لیے یہ لقب توہین سے کم نہیں ہے لیکن وزیراعظم نےتوصیف کی شال میں لپیٹ کر یہ کہہ دیا کہ غیر سرکاری اداروں کو حکومت کے معاملات میں دخل اندازی کا حق نہیں ہے۔ ویسے صد سالہ تقریبات کے اہتمام کے حوالے سے خود سرسنگھ چالک کنفیوژن کا شکار تھا ۔ پچھلے سال جب بی جے پی کی شکست ظاہر ہونے لگی تھی موصوف نے ناگپور کے اندر اپریل 18؍ کو کہا تھا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ 2025 میں اپنی صد سالہ سالگرہ نہیں منائے گا کیونکہ وہ اپنی کامیابیوں پر پیٹھ تھپتھپانے کا ارادہ نہیں رکھتا ۔ ایک کتاب کے اجراء کی تقریب میں بھاگوت نے یہ بھی کہا تھا کہ 1925 میں جب ناگپور کے اندر آر ایس ایس کی تشکیل ہوئی تھی تو کارکنوں کو سخت مخالفت، وسائل کی کمی اور لوگوں کو جوڑنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
موہن بھاگوت کو اس وقت امید نہیں تھی کہ بی جے پی والے ووٹ چرا کر مرتے پڑتے حکومت سازی میں کامیاب ہوجائیں گے اس لیے کہہ دیا تھا کہ "راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے صد سالہ سال کو منانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ سنگھ جیسی تنظیم انا کو بڑھانے کے لئے کام نہیں کرتی ۔ سنگھ یہاں کسی تنظیم کے 100 سال مکمل ہونے کا جشن منانے اور سینہ پھلانے کچھ کامیابیوں کا کریڈٹ لینے کے لئے نہیں ہے۔” انہوں اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ بہت کم کاہوا ہے مگر بہت زیادہ باقی ہے۔ موصوف نے اراکین تنظیم کو حالات سے قطع نظر اپنا کام کرتے رہنے کی تلقین کی تھی ۔ انتخابی کامیابی کے بعد موہن بھاگوت خود اپنی ہی بات سے پھر گئے ۔سر سنگھ چالک کا عالمِ تذبذب 75 ؍ سال کی سبکدوشی کے معاملے میں بھی ظاہر ہوا۔ انہوں نے جب سنگھ کے ایک معروف دانشور کی سوانح حیات کا اجراء کرتے وقت75 ؍ سال پورے ہوجانے پر شال اوڑھ کر راستہ ناپنے کی بات کی تو یار دوستوں نے اسے وزیر اعظم نریندر مودی سے جوڑ کر خوب لطف لیا مگر جب ان پر انکشاف ہوا کہ وہ خود بھی 75سال کے ہورہے ہیں تو اپنی بات سے مکر گئے’یعنی چھوڑیں گے اور نہ چھوڑنے دیں گے‘ کے اصول پر عمل در آمد کیا ۔
مندجہ بالا واقعات موصوف کی ذہنی کیفیت کے اظہار کی خاطر بیان کیے گئے تاکہ ان کی باتوں کو سمجھنے سے قبل ان بشری کمزوریوں کو پیش نظر رکھا جائے۔ سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے جومضحکہ خیز باتیں بتائیں ان میں پہلی تو یہ تھی تمام ہندستانیوں کا ڈی این اے ایک ہے ،چاہے وہ کسی بھی دھرم کے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ڈی این اے کیا ہوتا ہے؟ اور اس کے ایک ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اگر ایک نہ ہو تو کیا اس بنیاد پر شہریت یا حقوق و ذمہ داریوں کا فیصلہ ہوگا اور اگر نہیں تو اس بحث کا کیا فائدہ؟ نتیش کمار کے ڈی این اے میں غداری کا انکشاف کرنے والے ملک کے وزیر اعظم ان کے ساتھ اقتدار ساجھا کررہے ہیں ۔ ابھی حال میں مودی جی نے نتیش کمار کو اپنا بھائی کہا تو وہ ڈی این اے والا الزام کہاں گیا؟ اب موہن بھاگوت کو بتانا پڑے گا کہ ان میں سے کس ڈی این اے ہندو اور کس کا غیر ہندو ہے؟بعید نہیں کہ اس سوال کے جواب میں موہن جی دونوں کے ڈی این اے کو غیر ہندو قرار دے دیں کہ کیونکہ مودی اور نتیش کا تعلق نام نہاد سورن (اعلیٰ) ذاتوں سے ہے نہیں ہے۔
موہن بھاگوت نے موب لنچنگ میں ملوث لوگوں کو ہندومخالف کہہ کر ان کے لیے سزا کا مطالبہ کیا اور فرمایا کہ قانون اپنا کام کرے گا۔ یہ منافقت کی انتہا ہے کیونکہ بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کےپروردہ ہجومی تشدد میں ملوث ہوتے ہیں ۔ سنگھ پریوار ان کو پال پوس کر نہ صرف بڑا کرتا ہے بلکہ بی جے پی کی صوبائی و مرکزی حکومتیں ان کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود اگر کوئی چکنی چپڑی باتیں کرے تو اس کو پاکھنڈ کے سوا کیا نام دیا جائے؟ بھاگوت کے خیال ہندو مسلم اتحاد کی بات بھرم ہے کیوں کہ ہندو مسلمان تو پہلے سے ہی ایک ہیں ، پوجا پاٹ کے طریقوں کے اختلافات کی بنیاد پر تفریق و امتیاز نہیں کرنا چاہیے۔ ہندو اور مسلم تو دور خود ہندو سماج بھی متحد نہیں ہیں۔ بھاگوت خود ایک گاوں میں ایک کنواں اور ایک شمسان کی تحریک چلاتے رہے ہیں۔ یہ اس بات کاثبوت ہے کہ ہندو سماج کے لوگ زندہ رہنے کے لیے ایک کنوئیں سے پانی لینے کے روادار نہیں ہیں اور مرنے کے بعد بھی ایک شمسان میں مختلف ذاتوں کی لاشوں کو جلانے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ برہمنوں کے محلے دلت کا جنازہ گزر جائے تو فساد ہوجاتا ہے۔
ہندو سماج میں شیوا اور وشنو یعنی سری رام اور پرشورام کے ماننے والے سناتنی بھی متحد نہیں ہیں۔ ذات پات کا زہر اس قدر شدید ہے برہمن تک آپس میں بھید بھاو کرتے ہیں اور ہر طبقہ دوسرے کو حقیر جانتا ہے۔ ابھی حال میں اترپردیش کے اندر ایک یادو کتھا واچک کو رام چرت مانس سنانے کی پاداش میں نہ صرف مارا پیٹا گیا بلکہ اس کے بال منڈوائے گئے۔ اسے میزبان خاتون کے پیشاب سے پاک صاف کیا گیا اور اس سے دکشنا کے پچیس ہزار روپئے چھین لیے گئے۔ یہ سب اس ڈھٹائی سے کیا گیا کہ اس کی ویڈیو بنا کر پھیلائی گئی۔ دلتوں کا مونچھ رکھنا اور گھوڑی چڑھنا تک انہیں گوارہ نہیں اور اس پر قتل ہوجاتا ہے۔قبائلیوں پر کھلے عام پیشاب کرکے اس کی ویڈیو بنائی جاتی ہے اور یہ سب سنگھ کی پروردہ بی جے پی کی ڈبل انجن سرکار میں ہوتا ہے۔ جنسی تفریق کی بنیاد پرسیکڑوں خواتین کو مندروں میں مارکر دفن کردیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک معاملہ ابھی حال میں کرناٹک کے اندر سامنے آیا۔
کرناٹک ہی کا لنگایت سماج کھلے عام ہندو ہونے سے انکار کرتاہے۔ بودھ اور جین مت کے ماننے والوں کا ہندو کہے جانے پر اعتراض ہے ۔ سکھوں کا ہندو مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ پارسی ایک الگ مذہب ہے اور اسلام و عیسائیت کے خلاف ہی تو ساورکر اور گولوالکر نے جو ہندو توا کی دیوار کھڑی کی ہے ۔ عوام کو کنفیوز کرنے کے لیے مذہب سے قطع نظر ہندوستانی ایک آباء و اجداد کی اولاد ہونے کے سبب جسدِ واحد ہیں اور ان میں وحدت کی حقیقت کا ڈھول پیٹنے والے موہن بھاگوت کو آج جبکہ مضمون لکھا جارہا ہے اترپردیش کے کٹرا بازار میں جانا چاہیے جہاں بی جے پی کی برہمن سرپنچ اوراسی جماعت کے راجپوت رکن اسمبلی اپنے حامیوں سمیت ایک دوسرے سے خونخوارکتوں کی مانند لڑپڑے۔ اس پر طرہ یہ کہ یوگی مہاراج نے ذات پات کی بنیاد پر جلوس نکالنے پر پابندی لگا دی ۔ کہاں گئی وہ سوشیل انجینیرنگ جس کی بنیاد پر ہندووں کو تقسیم در تقسیم کرکے یہ لوگ اقتدار میں آئے تھے ۔ یوگی کہتے ہیں کہ ایف آئی آر میں ذات نہیں لکھی جائے گی لیکن کیا ایسا ڈھونگ کرنے سے نسلی تفریق امتیاز ختم ہوجائے گا ؟
سوال یہ ہے کہ کیا یوگی ادیتیہ ناتھ میں ہمت ہے کہ ذات پات کے سرٹیفکیٹ کی اشاعت پر روک لگا دیں ۔ کیا وہ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کرنے سے انکار کرسکتے ہیں؟ وزیر اعظم سے لے کر وزیر داخلہ تک نے قوم سے جو وعدہ کیا ، کیا یوگی اس کو مسترد کر سکتے ہیں ؟ کیا بلڈوزر بابا میں ذات پات کی بنیاد پر دئیے جانے والے ریزرویشن کے خلاف ایک حرف بولنے کی جرأت ہے؟ ایک مرتبہ خود بھاگوت نے بہار میں اس پر نظرِ ثانی کی بات کہی تھی تو بی جے پی ریاستی انتخاب ہار گئی ۔ کیا یوگی اس غلطی کو دوہرائیں گے؟ موہن بھاگوت نے درست فرمایا کہ ملک میں اتحاد کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے لیکن ترقی کی کسے پڑی ہے؟ مودی اور شاہ کے لیے اڈانی و امبانی کی ترقی کافی ہے تاکہ وہ چندہ دے کر انہیں انتخاب جیتنے کے قابل بنا سکیں۔ سنگھ پریوار کے دل آپس میں پھٹے ہوئے ہیں ۔ بھاگوت میں دم ہے تو قومی ترقی کی گہار لگا کر امیت شاہ اوریوگی ادیتیہ ناتھ میں صلح کرکے دکھائیں اور یہ نہیں ہوسکتا تو کم ازکم خود وزیر اعظم نریندر مودی سے صلح صفائی کرلیں ۔ ان دونوں کی سرد جنگ کے سبب دو سال سے بی جے پی کوصدر نہیں مل رہا ہے کیونکہ دونوں کے امیدوار ایک دوسرے کی پسند نہیں آتے ۔ یہ تو خیر داخلی محاذ ہے مگر عالمی سطح پر دیکھیں تومغربی ممالک میں فی الحال آر ایس ایس جیسی سخت گیر تنظیموں پر آئے دن تنقید ہو رہی ہے اس لیے بھاگوت جی یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ بہت اعتدال پسند ہیں،لیکن چونکہ ان کا عمل قول کی تائید نہیں کرتا اس لیے کوئی بھروسا نہیں کرتا۔ بی جے پی کی نااہلی اور سفارتی ناکامی نے آر ایس ایس کی ملک کو عالمی رہنما بنانے معنویت کو ختم کردیا ۔ صد سالہ تقریبات کے موقع پر یہ اس کے مقصدِ وجود پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
(بشکریہ افکار ملی)
Like this:
Like Loading...