Skip to content
بوریت کی نعمت: جدید دور کا گُم شدہ خزانہ
بقلم: ڈاکٹر محمد عظیم الدین
رات کا پچھلا پہر ہے، کمرے میں مکمل سکوت طاری ہے، لیکن آپ کی آنکھیں ایک چھوٹی سی اسکرین کی نیلی روشنی میں گم ہیں۔ ایک ویڈیو ختم ہوتی ہے تو انگلی بے اختیار دوسری کی طرف بڑھ جاتی ہے، اور پھر تیسری کی طرف۔ یہ جانے بغیر کہ آپ جس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ دراصل آپ کی روح کی غذا تھا، آپ کے ذہن کا وہ زرخیز لمحہ تھا جسے آپ نے ڈیجیٹل شور کی نذر کر دیا۔ جدید دور کی یہ سب سے بڑی ستم ظریفی ہے کہ ہم نے خود کو ایک ایسی نہ ختم ہونے والی مصروفیت میں جکڑ لیا ہے جہاں ایک لمحے کی فراغت بھی ناقابلِ برداشت سمجھی جاتی ہے۔ ہم نے بوریت کو ایک دشمن سمجھ لیا ہے، ایک ایسا عیب جسے ہر قیمت پر مٹانا لازمی ہے۔ مگر کیا ہو اگر ہم آپ کو بتائیں کہ یہ بوریت، جسے ہم اپنی زندگیوں سے دیس نکالا دے چکے ہیں، درحقیقت ایک بگ نہیں بلکہ ایک فیچر ہے؟ ایک ایسی نعمت جو ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرتی ہے، ہمارے ذہن کو گہرائی عطا کرتی ہے اور ہمیں زندگی کے حقیقی معانی تلاش کرنے میں مدد دیتی ہے۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ بوریت اتنی اہم کیوں ہے، ہمیں اپنے دماغ کے اندر جھانکنا ہوگا۔ ہمارے دماغ میں ایک خودکار نظام یا "آٹو پائلٹ” موجود ہے جسے سائنسدان ‘ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک’ (DMN) کہتے ہیں۔ یہ دماغ کے درجن سے زائد حصوں پر مشتمل ایک پیچیدہ نیٹ ورک ہے جو اس وقت متحرک ہوتا ہے جب ہم کسی بیرونی کام پر توجہ مرکوز نہیں کر رہے ہوتے، یعنی جب ہم بظاہر "کچھ نہیں” کر رہے ہوتے۔ یہی وہ لمحات ہیں جب ہمارا ذہن آزادانہ طور پر بھٹکتا ہے، ماضی کی یادوں کو کھنگالتا ہے، مستقبل کے منصوبے بناتا ہے، اور اپنی ذات کے بارے میں گہرے سوالات پر غور کرتا ہے۔ یہ دماغ کا اندرونی کہانی گو ہے، جو ہماری یادوں، تجربات اور خواہشات کو ملا کر ہماری ذات کی ایک مربوط تصویر بناتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے سماجی سائنسدان آرتھر بروکس کے مطابق، ہم نے اسکرینوں کے ذریعے بوریت کو تقریباً مکمل طور پر ختم کر کے، نادانستہ طور پر اس اہم ترین دماغی نظام کو غیر فعال کر دیا ہے۔
انسان بوریت سے کس قدر خوفزدہ ہے، اس کا اندازہ ہارورڈ کے ایک تجربے سے لگایا جا سکتا ہے جہاں شرکاء نے خالی بیٹھ کر اپنے خیالات کا سامنا کرنے کے بجائے خود کو تکلیف دہ برقی جھٹکے دینا پسند کیا۔ ہم اس داخلی بے چینی سے بھاگتے ہیں کیونکہ ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک ہمیں اکثر وجودی سوالات کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتا ہے: میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ میں کون ہوں؟ ٹیکنالوجی نے ہمیں ان مشکل سوالات سے فرار کا ایک آسان راستہ فراہم کر دیا ہے۔ لیکن یہ فرار ایک شیطانی چکر کو جنم دیتا ہے۔ جتنا ہم بوریت سے بھاگتے ہیں، اتنا ہی ہم معنی کی تلاش سے دور ہوتے جاتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کھوکھلاہٹ، بے چینی اور ڈپریشن ہمیں مزید اسکرین کی طرف دھکیلتی ہے۔ متعدد تحقیقات، جیسا کہ ‘جرنل آف بیہیویورل ایڈکشنز’ میں شائع ہونے والی کئی مطالعات، اسمارٹ فون کے بے تحاشا استعمال اور ذہنی صحت کے مسائل کے مابین براہ راست تعلق کو ثابت کر چکی ہیں۔
تاہم، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر قسم کی بوریت فائدہ مند نہیں۔ ماہرین نفسیات "تعمیری بوریت” (Constructive Boredom) اور "غیر فعال بوریت” (Passive Boredom) میں فرق کرتے ہیں۔ غیر فعال بوریت، جیسا کہ جبری بے روزگاری یا قید کی صورت میں، مایوسی اور بے عملی کو جنم دیتی ہے۔ لیکن تعمیری بوریت، جو اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم جان بوجھ کر خود کو فارغ رکھتے ہیں، تخلیقی صلاحیتوں کے لیے ایک لانچ پیڈ کا کام کرتی ہے۔ برطانیہ کی ماہر نفسیات ڈاکٹر سینڈی مان کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جب ہمارا ذہن بھٹکتا ہے تو وہ غیر متوقع اور نئے رابطے قائم کرتا ہے، جو تخلیقی سوچ کی بنیاد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ عظیم ترین خیالات اکثر خالی لمحوں میں ہی جنم لیتے ہیں۔ جے کے رولنگ کو ہیری پوٹر کا خیال ایک تاخیر کا شکار ٹرین میں کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے آیا تھا۔ اگر اس وقت وہ اپنے فون میں مصروف ہوتیں تو شاید دنیا اس جادوئی کردار سے کبھی نہ مل پاتی۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ بہترین خیالات اکثر نہاتے وقت یا چہل قدمی کے دوران آتے ہیں، کیونکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ہمارا دماغ ‘آٹو پائلٹ’ پر ہوتا ہے اور ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک پوری طرح فعال ہوتا ہے۔
بیسویں صدی کے جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر نے بوریت کو محض ایک نفسیاتی کیفیت نہیں بلکہ ایک گہرا فلسفیانہ تجربہ قرار دیا۔ اس نے بوریت کی تین سطحیں بیان کیں: پہلی، جب ہم کسی خاص چیز (جیسے ایک لیکچر) سے بور ہوتے ہیں۔ دوسری، جب ہم ہر چیز سے بور ہوتے ہیں (ایک عمومی بے کیفی)۔ اور تیسری، "عمیق بوریت”، جب انسان کو کائنات کی ہر شے بے معنی لگنے لگتی ہے۔ ہائیڈیگر کے نزدیک یہی تیسری سطح سب سے اہم ہے کیونکہ یہ انسان کو اس کے وجود کی بے معنویت کا شدید احساس دلا کر اسے حقیقی معنی کی تلاش پر مجبور کرتی ہے۔ لیکن ہمارا جدید سماجی و معاشی ڈھانچہ ہمیں اس "عمیق بوریت” کے قریب بھی نہیں بھٹکنے دیتا۔ سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی "ہر لمحہ پیداواری بنو” (Hustle Culture) کی ثقافت نے فراغت کو "وقت کا ضیاع” اور ایک گناہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ مسلسل مصروف رہنا اور ہر لمحے کچھ نہ کچھ کرتے رہنا کامیابی کی علامت بن گیا ہے۔ اس دباؤ کے تحت ہم نہ صرف کام کے اوقات میں بلکہ اپنے فارغ وقت میں بھی خود کو ڈیجیٹل سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہیں۔ ہم بوریت سے نہیں، بلکہ غیر پیداواری ہونے کے احساس جرم سے بھاگ رہے ہیں۔
اس بحث کا ایک دلچسپ پہلو ماہر نفسیات میہائی چیکشینٹ میہائی کا "فلو اسٹیٹ” (Flow State) کا نظریہ ہے۔ "فلو” وہ کیفیت ہے جب انسان کسی کام میں اس قدر غرق ہو جاتا ہے کہ اسے وقت اور اپنی ذات کا ہوش نہیں رہتا۔ یہ انتہائی مسرت اور اطمینان کا لمحہ ہوتا ہے اور بظاہر بوریت کی عین ضد ہے۔ تو کیا ہمیں بوریت کی بجائے "فلو” کی تلاش کرنی چاہیے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں متضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ بوریت اور ذہن کا بھٹکنا وہ زرخیز زمین فراہم کرتا ہے جہاں نئے خیالات کے بیج پھوٹتے ہیں، جبکہ "فلو” اس لمحے کا نام ہے جب ہم ان خیالات کو عملی جامہ پہنانے میں پوری طرح محو ہو جاتے ہیں۔ بوریت کے بغیر "فلو” کے لیے نئے راستے تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
بوریت کا مسئلہ محض ایک انفرادی نفسیاتی چیلنج نہیں، بلکہ جدید تہذیب کے ایک گہرے بحران کا عکاس ہے۔ اس کا حل بھی انفرادی اور اجتماعی، دونوں سطحوں پر تلاش کرنا ہوگا۔ انفرادی سطح پر، ہمیں بوریت کو ایک ہنر کے طور پر دوبارہ سیکھنا ہوگا۔ اس کا آغاز چھوٹے چھوٹے اقدامات سے کیا جا سکتا ہے۔ کھانے کی میز کو "نو فون زون” قرار دیں۔ ہفتے میں چند گھنٹے ڈیجیٹل دنیا سے کنارہ کشی اختیار کریں۔ اجتماعی سطح پر، ہمیں پیداواریت اور مصروفیت کے جنون پر سوال اٹھانا ہوگا۔ ہمیں ایک ایسی ثقافت کو فروغ دینا ہوگا جہاں فراغت کو، سوچ بچار کو، اور کچھ نہ کرنے کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ ہم نے ستاروں پر کمندیں ڈال لیں، لیکن اپنی ذات کے اندر جھانکنے سے خوفزدہ ہیں۔ شاید اکیسویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج خلا کو تسخیر کرنا نہیں، بلکہ اپنے اندر کے خلا کو تسلیم کرنا اور اسے اپنی سب سے بڑی طاقت بنانا ہے۔ حکمت باہر سے نہیں، اندر سے آتی ہے، اور اس کا راستہ بوریت کی خاموش وادی سے ہو کر گزرتا ہے۔
Like this:
Like Loading...