Skip to content
حرکت ہے تو زندگی ہے :
ہمارے قدموں میں چھپی صحت کی کہکشاں
از قلم: ڈاکٹر صدیقی نسرین فرحت.
اسسٹنٹ پروفیسرصدر شعبہ اردو
یوگیشوری مہاودیالیہ آمباجوگائی
(مومن آباد) مہاراشٹر ۔
اکیسویں صدی کا انسان ایک عجیب تضاد میں جی رہا ہے۔ ہماری انگلیاں روشنی کی رفتار سے دنیا ناپ رہی ہیں، مگر ہمارے قدم اپنے ہی گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے ہمیں ایک عالمی گاؤں کا ڈیجیٹل شہری تو بنا دیا، لیکن ہمارے جسموں کو ساکت و جامد کر کے ہمیں اپنی ہی زندگی کا تماشائی بنا دیا ہے۔ یہ محض ایک خیال نہیں، بلکہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جسے عالمی ادارہ صحت (WHO) کی 2020 کی رپورٹ "خاموش عالمی وبا” کا نام دیتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، دنیا کے ایک چوتھائی سے زیادہ بالغ افراد جسمانی طور پر غیر فعال ہیں، اور برصغیر میں یہ بحران زیادہ سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ بھارت کے 2017-18 کے قومی صحت سروے کے مطابق، شہروں میں تقریباً نصف آبادی اس بے حرکتی کا شکار ہے۔ ذیابیطس، امراضِ قلب اور ذہنی دباؤ کا جو طوفان ہمارے معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، اس کی جڑیں اسی جمود میں پیوست ہیں۔ مگر کیا آپ یقین کریں گے کہ اس پیچیدہ بحران کا سب سے طاقتور، سب سے سستا اور سب سے حسین حل ہمارے قدموں میں ہی پوشیدہ ہے؟ اور وہ حل ہے: چہل قدمی۔
یہ دعویٰ جتنا سادہ ہے، اس کے پیچھے کی سائنس اتنی ہی گہری اور حیران کن ہے۔ جب ہم چہل قدمی کو محض ایک معمولی عمل سمجھتے ہیں، تو ہم اس حیاتیاتی انقلاب کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو ہر قدم کے ساتھ ہمارے اندر برپا ہوتا ہے۔ امریکی ہارٹ ایسوسی ایشن کی 2022 کی تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ ہفتے میں صرف 150 منٹ کی تیز چہل قدمی دل کے دورے اور فالج کے خطرے کو ایک تہائی تک کم کر سکتی ہے۔ یہ کیسے ہوتا ہے؟ جب ہم چلتے ہیں تو ہمارا دل، جو جسم کا انتھک انجن ہے، اپنی رفتار بڑھاتا ہے۔ خون ایک نئے جوش کے ساتھ رگوں میں دوڑتا ہے، شریانوں کو لچکدار بناتا ہے اور ان میں جمی ہوئی چکنائی کے ذخائر کو پگھلاتا ہے۔ یہ ہائی بلڈ پریشر کے خلاف قدرت کا سب سے مؤثر دفاعی نظام ہے۔
اس سے بھی زیادہ دلچسپ دریافت وہ ہے جو چہل قدمی اور عمر کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ معروف طبی جریدے ‘جاما’ (JAMA) میں 2020 میں شائع ہونے والی ایک دہائی پر محیط تحقیق نے اس راز سے پردہ اٹھایا۔ اس مطالعے میں جب ہزاروں افراد کی روزانہ کی سرگرمی کو جدید ٹیکنالوجی سے ناپا گیا تو یہ ناقابلِ تردید حقیقت سامنے آئی کہ روزانہ 8,000 قدم چلنے والوں میں موت کی شرح، 4,000 قدم چلنے والوں کے مقابلے میں 51 فیصد کم تھی۔ یہ اعداد و شمار ایک واضح پیغام دیتے ہیں: آپ کا ہر قدم زندگی کی طرف ایک قدم ہے۔
چہل قدمی کے معجزات صرف دل اور عمر تک محدود نہیں۔ یہ ہمارے جسم کی پیچیدہ میٹابولک مشینری، یعنی انسولین کے نظام کو بھی از سرِ نو ترتیب دیتی ہے۔ ذیابیطس سے بچاؤ کے پروگرام پر 2002 کی بین الاقوامی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ روزانہ کی چہل قدمی جسم کے خلیوں کو انسولین کے لیے حساس بناتی ہے، جس سے خون میں موجود شکر توانائی میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ 58 فیصد تک کم ہو جاتا ہے؛ ایک ایسی حقیقت جو بھارت جیسے ملک کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں، جہاں عالمی ادارہ صحت کے 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق ذیابیطس ایک قومی بحران بن چکا ہے۔
لیکن شاید چہل قدمی کا سب سے گہرا اور انمول تحفہ اس کا ہماری ذہنی اور روحانی صحت پر اثر ہے۔ آج کی دباؤ اور مسابقت سے بھری دنیا میں، جہاں اضطراب اور افسردگی عام ہیں، چہل قدمی ایک قدرتی تریاق کا کام کرتی ہے۔ برٹش جرنل آف اسپورٹس میڈیسن میں 2018 کا ایک جامع تجزیہ بتاتا ہے کہ باقاعدہ چہل قدمی ڈپریشن کی علامات کو کم کرنے میں اینٹی ڈپریسنٹ ادویات جتنی ہی مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے پیچھے دماغ کی وہ جادوئی کیمیاگری ہے جہاں چلنے سے اینڈورفنز جیسے "خوشی کے ہارمونز” خارج ہوتے ہیں، جو نہ صرف درد کو کم کرتے ہیں بلکہ روح کو ایک بے نام سکون اور طمانیت سے بھر دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ، چہل قدمی صرف جسم اور ذہن کی صحت یابی کا ذریعہ نہیں، بلکہ فکر و تخلیق کا سرچشمہ بھی ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی 2014 کی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ چلتے ہوئے انسان کی تخلیقی صلاحیت میں 60 فیصد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ کوئی نئی دریافت نہیں۔ تاریخ کے عظیم ترین مفکرین، ارسطو سے لے کر کانٹ اور نطشے تک، اپنے گہرے ترین خیالات کو چلتے ہوئے سوچا کرتے تھے۔ قدیم یونان میں تو چلتے پھرتے فلسفے پر مباحثہ کرنے کی باقاعدہ روایت موجود تھی۔ چہل قدمی سوچ کو آزاد کرتی ہے، خیالات کو منظم کرتی ہے اور ذہن کے بند دریچوں کو کھول دیتی ہے۔
تاہم، اس سادہ سی نعمت سے مستفید ہونے کی راہ میں ہم نے خود ہی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ خاص طور پر جنوبی ایشیا کے شہروں میں پیدل چلنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ خواتین کے لیے غیر محفوظ ماحول، ٹوٹی پھوٹی یا قبضے کی شکار گزرگاہیں، فضائی آلودگی اور ٹریفک کا بے ہنگم شور—یہ سب مل کر لوگوں کو گھروں میں قید رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، کوپن ہیگن، ایمسٹرڈیم اور ٹوکیو جیسے شہروں نے پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں کے لیے محفوظ اور خوبصورت راستے بنا کر نہ صرف اپنے شہریوں کی صحت کو بہتر بنایا ہے، بلکہ ماحولیاتی آلودگی پر بھی قابو پایا ہے۔ بھارت کے چند شہروں میں اس سمت پیش رفت ہوئی ہے، لیکن یہ ابھی ایک طویل سفر کا آغاز ہے۔
تو پھر کیا کریں؟ امریکن کالج آف اسپورٹس میڈیسن کی سفارشات ہمیں ایک سادہ سا اصول دیتی ہیں: آہستہ شروع کریں اور بتدریج رفتار اور فاصلہ بڑھائیں۔ آپ کی رفتار اتنی ہو کہ آپ بات کر سکیں، لیکن گانا نہ گا سکیں۔ اور جیسا کہ معروف طبی جریدے ‘دی لانسیٹ’ نے واضح کیا، قدموں کی تعداد اور رفتار دونوں ہی اہم ہیں۔
آخر میں، چہل قدمی صرف ایک ورزش نہیں، یہ ایک طرزِ زندگی ہے، ایک بھولی ہوئی دانش ہے، اور فطرت سے دوبارہ جڑنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ وہ گمشدہ فن ہے جسے آج کے مصنوعی دور میں دوبارہ دریافت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیے نہ جم کی مہنگی رکنیت چاہیے، نہ خاص لباس اور نہ ہی کوئی ساز و سامان۔ بس ایک عزم، تھوڑا سا وقت، اور یہ احساس کہ قدرت نے صحت کا سب سے بڑا خزانہ ہمارے قدموں میں رکھ دیا ہے۔ آئیے، اس خاموش انقلاب کا حصہ بنیں اور اپنی زندگی کو دوبارہ حرکت میں لائیں۔
Like this:
Like Loading...