Skip to content
خیالی جنگل راج کا ڈر اور حقیقی منگل راج کا قہر
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
وزیر اعظم نریندر مودی کے احساسِ کمتری نے نہ صرف بی جے پی بلکہ متحدہ جمہوری محاذ(این ڈی اے) کی جو درگت بنائی ہے اس کامظاہرہ بہار کی انتخابی مہم میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ وہاں ایک طرف مہا گٹھ بندھن کے لیے راہل اور تیجسوی کی جوڑی زور و شور سے انتخابی مہم چلا رہی ہے وہیں پرینکا گاندھی اور کنہیا کمار بھی پیچھے نہیں ہیں ۔ اس کے برعکس این ڈی اے کو دیکھیں تو نتیش کمار تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں ۔ گری راج سنگھ اور شکونی چودھری کو ان کی بدزبانی نے بے زبان کردیا ہے ۔ چراغ پاسوان اندھیرے میں ہیں اور جیتن رام مانجھی نہ جانے کہاں کھوگئے ہیں ۔ فی الحال انتخابی میدان میں اکیلے نریندر مودی اور ان کے پیچھے لنگڑے گھوڑے کی مانند امیت شاہ کسی طرح این ڈی اے کے ٹوٹے رتھ کو ہانپتے کانپتے کھینچ رہے ہیں۔ ان بیچاروں کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آخر بولیں تو بولیں کیا؟ اور کریں تو کریں کیا؟
مودی اور شاہ کے پاس چونکہ بیس سال کی سرکار میں بتانے جیسا کچھ نہیں ہے اس لیے وہ فی الحال اپنا پرانےگھسے پٹے جنگل راج کے نعرے سےعوام کو ڈرانے میں جٹے پڑےہیں۔ اس راگ کا سر جب مدھم پڑنے لگتا ہے تو اس میں فرقہ پرستی کا تڑکہ لگا کر ازسرِ نو کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرحوم محمدشہاب الدین کا جن پھر بوتل سے نکل آیا ہے۔ بہار کے ضلع سیوان میں ایک انتخابی ریلی کے دوران مرکزی وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے راشٹریہ جنتا دل پر حملہ بولتے ہوئے مرحوم کے بیٹے اسامہ شہاب کو راگھوناتھ پور اسمبلی حلقے سے امیدوار بنانے پر خوب شور مچایا۔ وہ بولے سیوان کے بہادر عوام نے کبھی بھی شہاب الدین جیسے خوفناک غنڈے کے آگے سر نہیں جھکایا اور پھر یاد دلایا کہ ان کے خلاف تقریباً 75 مقدمات درج تھے۔ وہ ’’اے کیٹیگری‘‘ کے ہسٹری شیٹر تھے، جن پر دو بار قید، تین قتل، ایک ایس پی پر حملہ، اور کاروباری کے بیٹوں پر تیزاب پھینکنے جیسے سنگین الزامات تھے۔
امیت شاہ بھول گئے کہ اس طرح کے الزامات تو خود ان پر بھی لگے تھے اور انہیں تڑی پار بھی کیا گیا تھا لیکن دونوں پر الزامات ثابت نہیں ہوئے اس لیے کسی کوسزا نہیں سنائی گئی۔ اس کے باوجود اگر شاہ وزیر داخلہ بن سکتے ہیں تو شہاب الدین وزیر دفاع کیوں نہیں؟ امیت شاہ نے عوام سے کہاکہ آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو نے خود اپنے ہاتھوں سے شہاب الدین کے بیٹے کو ٹکٹ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنے امیدواروں کو پیر سے ٹکٹ دیتے ہیں یا کتے کی مانند ان کے آگے پھینک دیتے ہیں۔ یہ سنگھ کی شاکھا میں ان کی تربیت کا اثر ہے لیکن دوسرے لوگ اگر نہایت ادب واحترام کے ساتھ اپنے ساتھیوں ٹکٹ سے نوازتے ہیں تو اس میں کیا غلط ہے؟
امیت شاہ بولے لالو یادو نے شہاب الدین کے بیٹے کو امیدوار بنا کر ثبوت دیا ہے کہ آر جے ڈی آج بھی انہی مجرم عناصر کو سیاست میں لا رہی ہے، جنہوں نے بہار کو بدنام کیا تھا۔یہاں سوال یہ ہے کہ اگر بفرضِ محال شہاب الدین پر لگنے والے الزامات کو درست مان لیا جائے تب بھی ان کے بیٹے کو اس کے لیے قصوروار ٹھہرانا کیوں کر درست ہوسکتا ہے؟ شاہ نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بہار کے اندر قانون و نظم کی حالت اس قدربالکل بدل چکی ہےکہ اگر سو شہاب الدین بھی آ جائیں، تو بھی کوئی عوام کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‘قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ جب امیت شاہ سیوان میں بڑی بڑی ہانک رہے تھے دارالخلافہ پٹنہ سے قریب مکامہ حلقے میں جے ڈی یو امیدوار اور سابق ایم ایل اے اننت سنگھ نے مبینہ طور پر دلار چند یادو کا قتل کردیا اور وزیر داخلہ کی ہوا نکال دی ۔ اس بابت پہلی خبر تو یہ آئی کہ ٹال علاقے میں فائرنگ سے دلار چند یادو کی موت ہوگئی ۔ مقتول کے پوتے نے جو ایف آئی آر درج کرائی اس میں اننت سنگھ کے علاوہ ان کے دو بھتیجوں رنویر سنگھ اور کرمویر سنگھ سمیت پانچ افراد کو نامزد کیا گیا ۔
مودی اور شاہ کے منگل راج میں ان کے امیدوار نے پہلے تو 75 سالہ دلار چند یادو کےپیر پر گولی چلا کر انہیں زخمی کیا اور کمال سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پر گاڑی چڑھا دی ۔یہی این ڈی اے کا وہ منگل راج ہے جس کی دہائی وزیر داخلہ امیت شاہ دیتے رہتے ہیں ۔ اس قتل و غارتگری کے بعد پٹنہ کے ایس ایس پی کارتکئے شرما نے بتایا کہ فائرنگ کے بعد پولیس جب موقع پر پہنچی تو وہاں دو تین ٹوٹی ہوئی گاڑیاں ملیں، جن میں سے ایک کے اندر دلار چند یادو کی لاش تھی یعنی وہ اسے اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اس منگل راج کی میں یکطرفہ تماشا یہ بھی ہے کہ ایس ایس پی نے مقتول کے خلاف قتل اور آرمز ایکٹ کے مقدمات کا ذکر تو کیا مگر قاتلوں پر چپیّ سادھ لی نیزگودی میڈیا جے ڈی یو امیدوار اننت سنگھ کے ذریعہ ان پر لگے الزامات کی تردید پھیلانے میں لگ گیا اور مودی و شاہ کی چونچ بند ہوگئی۔
جے ڈی یو کے امیدوار اننت سنگھ کے اندر اتنی جرأت تو ہے نہیں کہ سینہ ٹھونک کے کہتا کہ اس نے قتل کروایا اس لیے اپنی صفائی میں کہنے لگا ، "میری شبیہ خراب کرنے کے لیے سیاسی سازش کے تحت جھوٹا مقدمہ درج کرایا گیا ہے۔ میں واقعہ کے وقت وہاں موجود نہیں تھا۔” لیکن ان کی یہ بہانے بازی کسی کام نہیں آئی۔ سانحہ کےدو دن بعد جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو پولیس نے بدمعاش سابق ایم ایل اے اور جے ڈی یو امیدوار اننت سنگھ کو گرفتار کرلیا۔ اسے باڑھ سے حراست میں لے کر پٹنہ لایا گیا۔ یہ کارروائی ٹھوس ثبوتوں ، عینی شاہدین کے بیانات اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کی بنیاد پر کرنی پڑی کیونکہ ان میں انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا سنگین الزام تھا۔ چشم دید گواہوں کے مطابق یہ قتل کلیدی ملزم اور امیدوار اننت سنگھ کی موجودگی میں ہوا۔ اس وقت ان کے ساتھی منی کانت ٹھاکر اور رنجیت رام بھی موجود تھے اس لیے ان کو بھی گرفتار کیا گیا۔
الیکشن کمیشن نے ڈی جی پی اور پٹنہ کے ڈی ایم سے دو نومبر تک تفصیلی رپورٹ طلب کی تھی اس لیے سماج دشمن عناصر کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سے روکنے کی خاطر مجبوراً یہ کارروائی کرنی پڑی اور80 لوگوں کو حراست میں لیا گیا ۔ الیکشن کمیشن نے چونکہ اس معاملے کو سنگینی کے سبب دباو ڈالا اس لیے کئی افسران کے خلاف کارروائی بھی ہوئی۔ پٹنہ رورل ایس پی وکرم سہاگ کا تبادلہ کر دیا گیا، جب کہ ایس ڈی پی او کو معطل کر دیا گیا۔ آئی اے ایس آشیش کمار نے بارہ ایس ڈی او چندن کمار کی جگہ لی۔ سی آئی ڈی کے ڈی ایس پی آنند کمار سنگھ کو باڑھ I کے ایس ڈی پی او کے طور پر مقرر کیا گیا اور اے ٹی ایس کے ڈی ایس پی آیوش سریواستو کو باڑھ-II کے ایس ڈی پی او کے طور پر مقرر کیا گیا ہے۔ آئی جی جتیندر رانا صورت حال کی نگرانی پر مامور کیا گیا ۔ تحقیقات کی نگرانی سی آئی ڈی کے ڈی آئی جی جینت کانت کو سونپی گئی اور انہوں نے ذاتی طور پر جائے وقوع کا دورہ کرکے پولیس کی کئی ٹیموں کے ساتھ حالات کا جائزہ لیا۔ اس مشق کے دوران سی آئی ڈی نے ایف ایس ایل ٹیم کے ساتھ مل کر پورے علاقے کی تلاشی لی اور کئی اہم سراغ جمع کیے ۔ تفتیش کاروں نے واقعے میں ملوث تباہ شدہ گاڑیوں کا بھی معائنہ کیااور ان میں سے فرانزک نمونے حاصل کیے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ دلار چند یادو کا تعلق آر جے ڈی سے نہیں بلکہ بی جے پی کی بی ٹیم جن سوراج پارٹی سے تھا ۔ مقامی باشندوں نے تصدیق کی کہ دلار چند یادو ٹال علاقے کے ایک اثر و رسوخ والی شخصیت تھے اس لیے ان کی موت سے لوگوں میں خوف اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔یہ جھڑپ اگر جے ڈی یو امیدوار اننت سنگھ اور جن سورج کے امیدوار پیوش پریادرشی عرف للو مکھیا کے حامیوں کے درمیان نہیں بلکہ آر جے ڈی امیدوار کے ساتھ ہوئی ہوتی تو میڈیا آسما ن سر پر اٹھا لیتا لیکن ویسا نہیں ہوا۔ دلار چند یادو کے قاتلوں کو اسی وقت سزا ملے گی جب این ڈی اے انتخاب ہار جائے۔ جے ڈی یو میں بی جے پی کے سب سے بڑے حامی للن سنگھ فی الحال بڑی بے حیائی سےاننت سنگھ جیسے مجرم پیشہ امیدوار کی کامیابی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ وہ جیل کے اندر ہونے کے باوجود اننت سنگھ کا کامیاب کروانا چاہتے ہیں۔یہ کوشش اگر کامیاب ہوگئی تو بی جے پی کے منگل راج میں سارا معاملہ رفع دفع کردیا جائے گا۔ ویسے دلاچند یادو کے قتل نے ۹؍ حلقۂ انتخاب میں این ڈی اے کی جیت پر اثر انداز کیا ہے نیز جنگل راج والے بیانیہ کی ہوا بھی نکال دی ہے۔
Like this:
Like Loading...