Skip to content
امریکی خواتین کا معاشی انخلاء .
ایک خاموش انقلاب یا سماجی پسپائی؟
✍۔مسعود محبوب خان (ممبئی)
09422724040
انسان کی تخلیق کا مقصد محض مادی کامیابی نہیں بلکہ ایک متوازن، بامقصد اور سکون آمیز زندگی کا قیام ہے۔ قرآنِ مجید نے انسان کو "احسنِ تقویم” میں پیدا فرمایا، مگر ساتھ ہی اسے "فی کبد” یعنی مشقت اور آزمائش میں ڈالا تاکہ وہ دنیاوی مصروفیات کے ہجوم میں بھی اپنی روحانی سمت نہ بھولے۔ اسلام نے انسان کے لیے دو بنیادی اصول متعین کیے: عدل اور توازن۔ عدل یعنی ہر شے کو اُس کا حق دینا، اور توازن یعنی دنیا و دین، جسم و روح، مرد و عورت، اور فرد و خاندان کے درمیان ہم آہنگی قائم رکھنا۔
جب کسی معاشرے میں یہ توازن بگڑتا ہے، تو ترقی کے باوجود سکون رخصت ہو جاتا ہے، اور آزادی کے باوجود انسان غلامی کی نئی صورتوں میں جکڑ جاتا ہے۔ یہی کیفیت آج جدید مغرب، خصوصاً امریکہ کے سماج میں دیکھی جا رہی ہے۔ جہاں عورت نے صدیوں کی جدوجہد کے بعد آزادی تو حاصل کر لی، مگر وہ سکونِ نفس، خاندانی استحکام اور روحانی اطمینان سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔
اسلام نے عورت کو نہ صرف عزّت دی بلکہ اس کی فطری ساخت، ذمّہ داریوں اور صلاحیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسا متوازن نظام عطاء کیا جو نہ اسے مجبور بناتا ہے اور نہ مشین۔ قرآنِ کریم میں فرمایا گیا: "وہ تمنا نہ کرو جس میں اللّٰہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے”۔ (النساء: 32)۔ اس آیت میں انسانی مساوات کے ساتھ ساتھ فطری امتیازات کا اعتراف ہے۔ اسلام نے مرد و عورت دونوں کے لیے کارِ حیات کی راہیں کھولیں مگر ایک ایسی اخلاقی و خاندانی بنیاد پر، جو انسان کو مشین نہیں بناتی، بلکہ رحمت اور مودّت کا پیکر بناتی ہے۔
موجودہ امریکی منظرنامہ جہاں لاکھوں خواتین ملازمتوں سے الگ ہو رہی ہیں دراصل اسی توازن کے ٹوٹنے کی علامت ہے۔ وہ عورت جس نے کبھی خود مختاری اور مساوات کے نام پر نظامِ زندگی کو بدلنے کی ٹھانی تھی، اب اپنے ہی بنائے ہوئے نظام کی قیدی بن چکی ہے۔ کارپوریٹ کلچر، معاشی دباؤ، اور خاندانی نظام کے بکھراؤ نے اسے ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں وہ اپنے وجود، اپنی ترجیحات، اور اپنے سکون کے معنی دوبارہ تلاش کر رہی ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ رجحان محض معاشی مسئلہ نہیں بلکہ ایک روحانی بحران (Spiritual Crisis) ہے۔ جہاں انسان نے اپنی فطرت کو بھلا کر ترقی کی مصنوعی سیڑھیاں تو چڑھ لیں، مگر منزلِ سکون سے کوسوں دور نکل گیا۔ 2025ء کا سال دراصل ایک عبرت آموز مکالمہ بن کر ابھرا ہے۔ عورت اور نظام کے درمیان، ترقی اور انسانیت کے درمیان، وجود اور ضرورت کے درمیان۔ اسلامی تعلیمات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ اصل ترقی وہ ہے جو انسان کے اندر کے توازن کو محفوظ رکھے۔ جب عورت اپنی فطرت، اپنی شفقت، اور اپنی روحانی قدر کو نظام کے بوجھ تلے دفن کر دیتی ہے، تو نہ خاندان سلامت رہتا ہے، نہ سماج۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں مغربی معاشرت کا ظاہری جلال اور اسلامی تہذیب کا باطنی جمال ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں۔
اسلام کہتا ہے: "مرد عورت پر نگہبان ہے” (النساء: 34)۔ یہ نگہبانی ظلم نہیں، محبت، ذمّہ داری اور توازن کی علامت ہے۔ امریکی خواتین کا معاشی انخلا دراصل ایک خاموش چیخ ہے، جو کہہ رہی ہے کہ انسان اب تھک چکا ہے۔ یہ منظرنامہ ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے کہ اسلام نے جو توازنِ حیات کا تصور دیا تھا، وہ صرف مذہبی اصول نہیں بلکہ انسانی فطرت کی گہری بصیرت ہے۔ اگر دنیا واقعی سکون چاہتی ہے، تو اسے "مساوات” کے نعرے سے آگے بڑھ کر فطرت کے توازن کو اپنانا ہوگا۔ وہی توازن جو قرآن نے وعدہ کیا، اور جس کی بنیاد رحمت، عدل اور حکمت پر رکھی گئی۔
امریکی خواتین کے لیے رواں سال کا معاشی منظرنامہ ایک ایسے باب کی مانند رہا ہے جو اعداد و شمار سے کہیں زیادہ انسانی کیفیات، سماجی دباؤ اور تہذیبی تبدیلیوں کی گہرائی کو آشکار کرتا ہے۔ امریکی بیورو آف لیبر اسٹیٹسٹکس کی تازہ ترین رپورٹ نے ایک چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے۔ جنوری سے اگست 2025ء کے درمیان چار لاکھ پچپن ہزار سے زائد خواتین نے اپنی نوکریاں ترک کر دیں۔ یہ تعداد کورونا وبا کے بعد ملازمت کی دنیا سے خواتین کے سب سے بڑے انخلا کے طور پر درج کی گئی ہے، اور ماہرینِ معاشیات اس رجحان کو "خاموش بحران” (Silent Exodus) کا نام دینے لگے ہیں۔
اعداد و شمار کی یہ خشک دنیا دراصل ایک گہرے انسانی مسئلے کا چہرہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق، نوکری چھوڑنے والی خواتین کی اکثریت نے اپنی اس غیر متوقع رخصتی کی وجہ ذاتی اور خاندانی ذمّہ داریوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو قرار دیا۔ بچّوں کی پرورش، گھریلو کام، اور پیشہ ورانہ زندگی کے درمیان مسلسل توازن قائم رکھنے کی جدوجہد، یہ سب وہ عوامل ہیں جنہوں نے امریکی خواتین کو دو راہوں پر کھڑا کر دیا ہے۔ کام کی زیادتی، مسلسل ذہنی دباؤ، نیند کی کمی، اور "پرفارمنس کلچر” کا بڑھتا ہوا بوجھ ان کے لیے زندگی اور روزگار کے درمیان حدِ فاصل مٹا چکا ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ محض ایک وقتی رجحان نہیں بلکہ امریکی سماج کے اندر ابھرتی ہوئی ترجیحات کی از سر نو ترتیب کا مظہر ہے۔ جدید امریکی عورت، جو کبھی آزادی اور معاشی خودمختاری کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب ایک نئی کشمکش سے دوچار ہے۔ جہاں وہ اپنے وجود کو "کارپوریٹ پروڈکٹیوٹی” کے پیمانوں پر نہیں بلکہ ذاتی سکون، ذہنی صحت، اور خاندانی توازن کے پیمانوں پر تولنا چاہتی ہے۔ ہارورڈ بزنس ریویو میں شائع ایک تجزیے کے مطابق، 2020ء کے بعد کے دور میں "ریموٹ ورک” اور "ڈیجیٹل ورک کلچر” نے خواتین کے لیے جہاں سہولتیں پیدا کیں، وہیں ان کی نجی زندگی پر دباؤ کو بھی کئی گنا بڑھا دیا۔ گھر اور دفتر کے درمیان حدیں مٹ گئیں، اور عورت جو کبھی صبح دفتر اور شام گھر کی ذمّہ داریاں نبھاتی تھی اب ایک مسلسل اور غیر مرئی "شفت” پر رہنے لگی ہے۔
کئی ماہرین اس رجحان کو خواتین کی خاموش بغاوت قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ استعفے محض ملازمتوں سے علیحدگی نہیں بلکہ ایک اجتماعی اعلان ہیں کہ "زندگی صرف کام کا نام نہیں”۔ یہ انخلا اس سوال کو بھی ازسرنو اٹھاتا ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی خواتین کے لیے مساوات کی راہیں کتنی ہموار ہیں؟ کیا وہاں کی جدید تہذیب عورت کو واقعی آزادی دے سکی ہے یا صرف ذمّہ داریوں کی ایک نئی صورت پیدا کی ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا، تو امریکی جاب مارکیٹ کو افرادی قوت کے توازن، پیداواری شرح، اور معاشی نمو کے شعبوں میں سنگین چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ ساتھ ہی یہ بھی متوقع ہے کہ آنے والے برسوں میں کمپنیوں کو ورک لائف بیلنس، ذہنی صحت، اور فیملی فرینڈلی پالیسیوں پر نئے سرے سے غور کرنا پڑے گا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ 2025ء امریکی خواتین کے لیے محض ایک معاشی سال نہیں بلکہ خود آگاہی اور ترجیحات کی تبدیلی کا سال ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں اعداد و شمار کے پیچھے ایک اجتماعی احساس چھپا ہے کہ خوشحالی صرف آمدنی سے نہیں، بلکہ اندرونی سکون اور انسانی توازن سے جنم لیتی ہے۔ یہ اعداد و شمار نہیں، بلکہ ایک تہذیبی مکالمہ ہے!!! عورت اور نظام کے درمیان، زندگی اور روزگار کے درمیان، وجود اور ضرورت کے درمیان۔
امریکہ کی معاشی اور سماجی تاریخ میں خواتین ہمیشہ تبدیلی اور توازن کی علامت رہی ہیں، مگر 2025ء کی رپورٹوں نے اس توازن میں ایک غیر معمولی خلل کی نشاندہی کی ہے۔ بیورو آف لیبر اسٹیٹسٹکس کے اعداد و شمار اور مختلف تحقیقی اداروں کی آراء سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی خواتین کی ایک بڑی تعداد — خاص طور پر متوسط اور تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والی — اب عملی زندگی سے خود کو بتدریج الگ کر رہی ہے۔
یہ علیحدگی محض روزگار سے دستبرداری نہیں، بلکہ ایک گہری سماجی و ذہنی تھکن کی علامت ہے، جس نے جدید امریکی عورت کو اپنے ہی خوابوں کے بوجھ تلے دبانے لگا ہے۔
متعدد خواتین نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ وہ مسلسل دوڑتی ہوئی زندگی کے دباؤ میں اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی تھیں۔ نیند کی کمی، کام کے بڑھتے ہوئے اوقات، اور کارپوریٹ کلچر کا "ہمیشہ متحرک رہنے” والا تقاضا ان کے لیے غیر محسوس اذیت میں تبدیل ہو گیا۔ چند برس قبل جس آزادی، خود مختاری اور "کیریئر سکسس” کو خواتین کا خواب سمجھا جاتا تھا، اب وہی خواب ان کے لیے ایک ناقابلِ برداشت ذمّہ داری میں بدلتا جا رہا ہے۔
امریکی نظامِ زندگی میں بچوں کی نگہداشت ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ایک نوزائیدہ بچّے کی پرورش پر سالانہ 9 ہزار سے 24 ہزار ڈالر تک خرچ آتا ہے، جو ہندوستانی کرنسی میں تقریباً تقریباً ₹8.0 لاکھ سے ₹21.3 لاکھ روپے بنتا ہے۔ یہ اخراجات صرف نرسری یا "ڈے کیئر” تک محدود نہیں بلکہ اس میں طبی دیکھ بھال، اسکولنگ، اور دیگر بنیادی ضروریات بھی شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ایک اوسط ملازمت پیشہ خاتون کی آمدنی کا بڑا حصہ صرف بچّوں کی نگہداشت پر صرف ہو جائے، تو نوکری برقرار رکھنا معاشی لحاظ سے بے معنی بن جاتا ہے۔ یہ صورتحال امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں "گھریلو معیشت” کے بحران کی عکاسی کرتی ہے، جہاں مالی آزادی کا تصور بھی اب پیداواری دباؤ اور خاندانی ذمّہ داریوں کے درمیان پِس رہا ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق، اس بڑھتے ہوئے مالی دباؤ نے نہ صرف خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کم کی ہے بلکہ امریکی معیشت میں "لیبر گیپ” (Labor Gap) کو بھی مزید گہرا کر دیا ہے۔ امریکہ کی کئی صنعتیں، خاص طور پر صحت، تعلیم، اور ٹیکنالوجی، اس خلا سے شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ ہارورڈ اکنامک انسٹیٹیوٹ کے مطابق، اگر خواتین کی شرکت میں یہی کمی برقرار رہی تو آئندہ پانچ برسوں میں امریکی GDP میں تقریباً 2.3 فیصد کی کمی متوقع ہے۔ یہ اعداد و شمار اس سوال کو جنم دیتے ہیں کہ کیا دنیا کی سب سے بڑی معیشت خواتین کی حقیقی شرکت کے بغیر اپنی رفتار برقرار رکھ سکتی ہے؟
ماہرینِ سماجیات اس رجحان کو "سماجی پسپائی” (Social Regression) قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق، پچھلی ایک صدی میں امریکی خواتین نے جس عزم، قربانی اور جدوجہد کے ساتھ معاشی خودمختاری، آزادیِ رائے، اور سماجی کردار حاصل کیا تھا، وہ اب جدید زندگی کے بے قابو دباؤ، کارپوریٹ عدم لچک، اور خاندانی نظام کی کمزوریوں کے باعث خطرے میں ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ "ترقی” کی دوڑ نے عورت کو کامیاب تو کیا، مگر پُرسکون نہیں رہنے دیا۔ اب وہ خود سے یہ سوال کر رہی ہے کہ کیا ترقی کی قیمت اُس کے سکون، وقت، اور رشتوں کی قربانی ہے؟
امریکی میڈیا اور معاشی تجزیہ نگاروں میں اس موضوع پر گہری بحث جاری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا، تو آئندہ دہائیوں میں نہ صرف خواتین کی نمائندگی میں کمی آئے گی بلکہ کارپوریٹ اداروں میں تنوع (Diversity) اور تخلیقی صلاحیت (Creativity) بھی شدید متاثر ہوں گی۔ کیونکہ مختلف تحقیقی مطالعات کے مطابق، جن اداروں میں خواتین قیادت اور فیصلہ سازی میں شریک ہوتی ہیں، ان کی کارکردگی، شفافیت، اور انسانی پہلوؤں میں بہتری نمایاں طور پر زیادہ ہوتی ہے۔
یوں 2025ء کا یہ رجحان بظاہر انخلا کا، مگر باطن میں خود احتسابی کا سال ہے۔ یہ اس امر کی علامت ہے کہ امریکی عورت اب اپنی ترجیحات کو نئے سرے سے ترتیب دے رہی ہے، وہ ترقی چاہتی ہے، مگر انسان بن کر، مشین نہیں۔ یہ لمحہ ایک تہذیبی سوال بن کر اُبھرا ہے: کیا جدید دنیا عورت کو وہ سکون دے سکی ہے جس کا وعدہ اس نے آزادی کے نام پر کیا تھا؟
دنیا کی ہر ترقی، اگر وہ انسان کے سکون سے خالی ہو، تو دراصل زوال کی ایک نئی صورت ہے۔ آج کی امریکی عورت کا اضطراب، اس کی معاشی تھکن، اور خاندانی زندگی سے اس کا انقطاع سب ایک ایسی تہذیب کی علامت ہیں جس نے مادّیت کے پہاڑ تو کھڑے کر لیے، مگر انسان کے اندر کے خلا کو پُر نہ کر سکی۔
قرآنِ مجید نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا: "جان لو! دلوں کا اطمینان صرف اللّٰہ کے ذکر سے ہے” (الرعد: 28)۔
اسلام نے عورت کو عزت دی، مگر اس عزت کی بنیاد اس کی فطرت اور رحمت پر رکھی۔ اس نے عورت کو آزادی دی، مگر اس آزادی کا مفہوم ذمہ داری اور توازن میں رکھا، نہ کہ بغاوت اور انقطاع میں۔ آج جب مغرب کی عورت تھکن سے ٹوٹ کر اپنے گھر کی دہلیز پر لوٹ رہی ہے، تو گویا وہ اسی ازلی صداقت کی گواہی دے رہی ہے کہ انسان فطرت سے فرار اختیار کر کے چین نہیں پا سکتا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے، عورت کا اصل مقام "معاشی دوڑ” نہیں بلکہ "معاشرتی توازن” ہے۔ وہ قوموں کی تعمیر کا نقطۂ آغاز ہے، وہ ماں ہے جو دل میں ایمان بوتی ہے، وہ بیوی ہے جو شوہر کے سکون کی جائے پناہ بنتی ہے، وہ بیٹی ہے جو باپ کے دل میں رحمت بن کر اترتی ہے۔ قرآن نے یہی توازن بیان کرتے ہوئے فرمایا: "اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اُس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کیے، تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی” (الروم: 21)۔
یہ "سکون” ہی وہ گمشدہ دولت ہے جسے جدید دنیا دولت، کامیابی، اور شہرت میں تلاش کر رہی ہے۔ مگر وہ اسے اسی جگہ بھول آئی ہے جہاں سے زندگی کا سفر شروع ہوا تھا: خاندان میں، محبت میں، ایمان میں۔ آج امریکی خواتین کا یہ خاموش انخلا ہمیں بتاتا ہے کہ ترقی کا راستہ اگر فطرت سے جدا ہو جائے، تو وہ تباہی کی شاہراہ بن جاتا ہے۔ شاید یہ انخلاء زوال نہیں، بلکہ واپسی کا آغاز ہے، اُس فطری توازن کی طرف، جو انسان کو انسان بناتا ہے۔
اسلام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان کی سب سے بڑی ترقی وہ ہے جو عدل، رحمت اور حکمت کے امتزاج سے پیدا ہو۔ اگر ترقی دلوں کو ویران، رشتوں کو کمزور، اور انسان کو بے چین کر دے، تو وہ ترقی نہیں، آزمائش ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: "تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو”۔ دنیا کی ساری کامیابیاں اُس وقت بے معنی ہو جاتی ہیں جب دل میں سکون، گھر میں محبت، اور روح میں یقین باقی نہ رہے۔ اسلام کا پیغام ہے کہ عورت اور مرد دونوں اپنی فطرت کے مطابق زندگی گزاریں، تاکہ معاشرہ توازن، محبت اور عدل کا نمونہ بنے نہ کہ مسابقت، تھکن، اور اضطراب کا میدان۔ امریکی عورت کی داستان دراصل انسان کی فطرت کی صدا ہے، جو کہہ رہی ہے کہ ترقی کے شور میں سکون کی آواز دب گئی ہے۔ اور قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے: "جو میرے ہدایت کی پیروی کرے، وہ نہ بھٹکے گا، نہ بدبخت ہوگا” (طه: 123)۔
🗓 (04.11.2025)
✒️ Masood M. Khan (Mumbai)
📧masood.media4040@gmail.com
○○○○○○○○○
Like this:
Like Loading...